پولیس متحدہ کے کارکنوں سمیت کسی کیخلاف غیر قانونی اقدامات نہ کرےسندھ ہائیکورٹ

متحدہ کے کارکن فہد پر تشدد کی تحقیقات کیلیے سینئر میڈیکل افسران پر مشتمل بورڈ تشکیل دینے کی ہدایت

کارکنوں کوغیرقانونی طور پر حراست میں لیکر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے،درخواست میں موقف،فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ نے پولیس کو متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں سمیت کسی کے خلاف بھی غیر قانونی اور من مانے اقدامات سے گریز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سیکریٹری صحت کو فہد عزیز پردوران حراست تشدد کی تحقیقات کیلیے سنیئر پروفیسر کی سربراہی میں میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کاحکم دیا ہے۔

عدالت نے فہد عزیز اور ریحان کی گرفتاری سے متعلق روزمانچہ بھی طلب کرلیا، عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم فہد عزیز کو کئی سنگین جرائم میں ملوث ہونے کی اطلاعات پر گرفتار کیا گیاجبکہ دوران تفتیش فہد عزیز نے ابراہیم حیدری کے علاقے میں 4فروری کو 4پولیس اہلکاروں کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا، فاضل بینچ کو مزید بتایا گیاکہ 8 فروری کو حراست میں لیے گئے متحدہ کے کارکن فہد اور اس کے ساتھی ریحان کو متحدہ کے ارکان اسمبلی کی ذاتی ضمانت پر رہا کیا جاچکا، عدالت نے وفاقی وصوبائی وزارت داخلہ،ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو جواب داخل کرنے کیلیے مہلت دیدی ہے، چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں2رکنی بنچ نے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار، متحدہ قومی موومنٹ کے یونٹ79کے کارکن فہد عزیز اور فہد عزیز کے والد عبدالعزیز کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی، درخواست میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف آپریشن شروع کررکھا ہے۔


ایم کیوایم کے کارکنوں کوغیرقانونی طور پر حراست میں لیکر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ماورائے عدالت قتل کرکے لاش پھینک دی جاتی ہے،درخواست میں کہاگیا ہے کہ ایم کیوایم کے 8کارکنوں کو اب تک ماورائے عدالت قتل کیا جاچکا ہے اور 45تاحال لاپتہ ہیں، حال ہی میں ایک کارکن سلمان کو حراست میں لیکر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ماورائے عدالت قتل کرکے لاش پھینک دی گئی،درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ کارکن فہد عزیز کو 8فروری کی شب اس وقت شاہ فیصل کالونی فلائی اوور سے گرفتار کیا گیا جب وہ اپنی شادی کے بعد دلہن کے ہمراہ اپنے گھر (کورنگی) کی جانب واپس جارہا تھا، بعد ازاں اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جو کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، فہد عزیز کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 54کے تحت حراست میں لینے کا دعویٰ کیاگیا جو کہ نقص امن سے متعلق ہے، درخواست میںمزید کہا گیا ہے کہ قانون نافذکرنے والے ادارے ایم کیوایم کے کارکنوں کو غیر قانونی حراست میں لیتے اور بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، مدعا علیہان کا یہ عمل آئین کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست گزاروں نے استدعا کی ہے کہ ایم کیوایم کے خلاف جاری آپریشن روکاجائے اور ایڈیشنل آئی جی کراچی، ایس ایس پی ایسٹ اور ایس ایچ او شاہ فیصل کو فوری طور پر معطل کیا جائے اور فہد عزیز کی غیرقانونی حراست اور بدترین تشدد کی تحقیقات کرائی جائے،الزامات ثابت ہونے پر انھیں عہدوں سے برطرف کیا جائے، فہد کے ساتھ گرفتار ہونے والے کارکن ریحان کو بازیاب کرایا جائے، منگل کو سماعت کے موقع پر ایس ایس پی ایسٹ پیر محمد شاہ کی جانب سے عدالت کوبتایا گیا کہ ملزم فہد عزیز کے کئی سنگین جرائم میں ملوث ہونے کی اطلاعات تھیں اور 8فروری2014کی شب خفیہ اطلاع پراسے شاہ فیصل کے علاقے سے گرفتار کیا گیا، دوران تفتیش ملزم نے ابراہیم حیدری کے علاقہ میں 4فروری کواے ایس آئی فراز خان،ہیڈ کانسٹیبل محمد شفیق،کانسٹیبل اختر علی اور دیدار علی کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا، عدالت کو بتایاگیا کہ دوران تفتیش ملزم نے طبعیت کی خرابی کی شکایت کی ۔

جس پر اسے فوری طور پر نجی اسپتال منتقل کردیا گیا، بعد ازاں ملزم کو رکن قومی اسمبلی اقبال محمد علی کی شخصی ضمانت پر رہاکردیا گیاجبکہ ڈرائیورمحمد ریحان کو رکن صوبائی اسمبلی ارتضیٰ فاروقی کی شخصی ضمانت پر رہا کیاگیا، ملزم پر تشدد کی شکایت پر متعلقہ پولیس اہلکاروں (تفتیشی ٹیم) کو معطل کردیا گیا ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ آئی جی سندھ نے ملزمان کی گرتاری اور تشدد سے متعلق تحقیقات کیلیے ڈی آئی جی ایسٹ منیر احمدشیخ کوانکوائری افسر مقرر کیا گیا ہے، اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل اسلم بٹ اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سرورخان نے عدالت کو یقین دلایا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارونے کوئی غیرقانونی اقدام نہیں کیا اور آئندہ بھی خلاف قانون کسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوں گے۔
Load Next Story