ملکی ترقی میں ملازمت پیشہ خواتین کا کردار اہم ۔۔۔ قومی دھارے میں لانا ہوگا
ورکنگ ویمن کے قومی دن کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ
FAISALABAD:
22 دسمبر کو سرکاری سطح پر 'ورکنگ ویمن کا قومی دن' منایا جاتا ہے جس کا مقصد رسمی اور غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے کام کو تسلیم کرنا اور ان کے حقوق وتحفظ کیلئے اقدامات کرنا ہے۔
2011ء میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس دن کو سرکاری طور پر منانے کا اعلان کیا جس کے بعد سے اب تک یہ دن ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے، ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لیا جاتا ہے اور مستقبل کا تعین کیا جاتا ہے۔
اس اہم دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
عظمیٰ کاردار (چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے جینڈر مین سٹریمنگ ، پنجاب اسمبلی )
ملکی آبادی کا 50 فیصد سے زائد خواتین پر مشتمل ہے جنہیں قومی دھارے میں لائے بغیر ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ ملکی ترقی کیلئے ہمیں خواتین کو سازگار ماحول، تحفظ ، آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہونگے اور ان کی معاشی حالت بہتر بنانا ہوگی۔
خواتین کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کا جائزہ لیں تو اس وقت خواتین اور بچوں کے حقوق و تحفظ کے لیے 100 سے زائد بہترین قوانین موجود ہیں تاہم عملدرآمد کا میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے تاحال خواتین کے مسائل حل نہیں ہوسکے اور نہ ہی اِن قوانین سے صحیح معنون میں فائدہ اٹھایا جاسکا۔ خواتین کے حوالے سے کام تو ہورہا ہے لیکن ابھی بہت سارا کام باقی ہے، ہم اس پر توجہ کیے ہوئے ہیں اور ہمیں ادراک ہے کہ تیزی سے اقدامات کرنا ہونگے لیکن اگر ہم من حیث القوم اسی رفتار سے چلتے رہے تو جینڈر گیپ ختم کرنے میں 139 برس لگیں گے۔
پنجاب فیئر رپریزنٹیشن آف ویمن ایکٹ 2014ء سے خواتین کو مناسب مواقع ملے۔ یہ اسی قانون کا ثمر ہے کہ اداروں میں سیکرٹری سطح تک خواتین نے ترقی پائی ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ گراس روٹ لیول کی خواتین کہاں ہیں؟ ان کو کیا حقوق حاصل ہیں اور ان کے مسائل کیا ہیں؟ ان کے پاس ترقی کے مواقع کتنے ہیں؟ انہیں روزگار میسر ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا وہ محفوظ ہے؟
پاکستان میں عوامی مقامات پر خواتین کی کم تعداد نظر آتی ہے اس کی وجہ ہراسمنٹ جیسے مسائل ہیں، اس کے علاوہ خواتین کو کام کی جگہ پر بھی ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھریلو تشدد بھی خواتین کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے جس سے خواتین کی ذہنی و جسمانی صحت متاثر ہورہی ہے۔ خواتین کے مسائل کے حل میں جہاں حکومت کی ذمہ داریاں ہیں وہی معاشرہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ میرے نزدیک خواتین کے مسائل کے حل اور ان سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کیلئے کمیونٹی سپورٹ گروپ بنانا ہوگا۔
خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی نے ویمن سیفٹی ایپ بنائی ہے جو بہترین ہے مگر 98 فیصد لوگوں کو اس کا معلوم نہیں ہے۔ ہم اس بارے میں آگاہی دینے کیلئے ان کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے پنجاب کی 11 یونیورسٹیز میں اس بارے میں آگاہی دی ، اب صوبے بھر کے تعلیمی اداروں میں یہ مہم چلائی جائے گی۔کام کی جگہ پر تحفظ دینے اور ہراسمنٹ کے خاتمے کیلئے خاتون محتسب کا ادارہ موجود ہے، تمام سرکاری و نجی اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم کی جا چکی ہیں جن سے کافی بہتری آئی ہے۔
ملکی کی 70 فیصد معیشت غیر دستاویزی ہے جس میں ایک بڑا حصہ خواتین ورکرز سے حاصل ہوتا ہے، ایک کروڑ بیس لاکھ ہوم بیسڈ ورکرز ہیں، 40 فیصد خواتین کھیتوں میں کام کرتی ہیں جنہیں حقوق حاصل نہیں ہیں، انہیں رجسٹر کرنے، ان کی کم از کم اجرت کا تعین سمیت سوشل سکیورٹی جیسی سہولیات فراہم کرنے پر غور جاری ہے، اس میں جلد پیشرفت ہوگی۔ خواتین کو روزگار کمانے کی تربیت دی جارہی ہے، انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔
انہیں آئی ٹی و دیگر جدید کورسز کروائے جا رہے ہیں، ای کامرس کی تربیت بھی دی جارہی ہے تاکہ وہ بہتر اندز میں اپنا روزگار کماسکیں، اسی طرح علاقائی وسائل دیکھتے ہوئے فشریز، مگس بانی و دیگر کاموں کی تربیت بھی دی جا رہی ہے، موبائل ریپیئرنگ کے کورسز بھی کروائے جا رہے ہیں، حکومت نے چھوٹے کاروبار کرنے کیلئے خواتین کیلئے قرض بھی مختص کیا ہے، جس سے یقینا بہتری آئے گی۔
خاتون محتسب کے ادارے کو خواتین کے جائیداد میں وراثتی حق کے حوالے سے کیسز سننے کا اختیار بھی دے دیا ہے جس کے بعد سے بے شمار خواتین کو فائدہ ہوا ہے اور ابھی بھی درخواستوں کا انبار ہے۔پنجاب میں 16 سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز ہیں جو انتہائی کم ہیں تاہم نجی ہاسٹلز کو چلانے والا مافیا مضبوط ہے، خواتین کی سمگلنگ و دیگر مسائل کی شکایات بھی ہیں، ہم ورکنگ ویمن ہاسٹلز اتھارٹی بنانے جا رہے ہیں جو ان تمام ہاسٹلز کی مانیٹرنگ کرے گی۔
سوا کروڑ خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے جو ووٹ کے حق سے محروم ہیں، اب بلدیاتی انتخابات نزدیک ہیں، میری رائے ہے کہ اس میںسیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستوں کے علاوہ جنرل نشستوں پر بھی خواتین کو ٹکٹ دینے چاہئیں۔ جینڈر مین سٹریمنگ کمیٹی کو حال ہی میں بااختیار بنایا گیا ہے، اب ہم مختلف محکموں سے جواب طلب کر رہے ہیں کہ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے کتنا کام کیا، ان کے مسائل کے حل کیلئے کیا پالیسی ہے؟
بشریٰ خالق (نمائندہ سول سوسائٹی)
خواتین ملکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لہٰذا یہ خواتین کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ خاندان اور معاشرہ ان کے کام کو تسلیم کرے۔ اس حوالے سے 2011ء میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے رسمی و غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے کام کو تسلیم کرنے کیلئے22 دسمبر کو 'ورکنگ ویمن کا قومی دن' قرار دیا جسے ہر سال منایا جاتا ہے۔
یہ ریاست اور حکومت کی طرف سے دنیا کو پیغام ہے کہ ہم نہ صرف خواتین کے کام کو مانتے ہیں بلکہ انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے کیلئے کام بھی کرر ہے ہیں۔ 22 دسمبر خواتین کیلئے اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اس روزایک عالمی ادارے میں کام کرنے والی پاکستانی خاتو ن نے اپنے خلاف ہونے والی ' ورک پلیس ہراسمنٹ' پر آواز اٹھائی جس پر سخت ایکشن لیا گیا۔
ایک عورت کے خاموش نہ رہنے کی وجہ سے اتنا اثر ہوا کہ اس دن کو قومی دن قرار دے دیا گیا لہٰذا اگر ملک کی تمام خواتین اپنے حقوق اور اپنے ساتھ ہونے والے استحصال کے خلاف آواز اٹھائیں تو صورتحال بہتر ہوجائے گی۔ کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے تدارک اور برابر مواقع کے حوالے سے کافی کام ہوچکا ہے۔
اب کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف کمیٹیاں موجود ہیں، ایسے کیسز سننے کیلئے خاتون محتسب کا ادارہ بھی قائم کیا گیا ہے، خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے موثر قانون سازی بھی ہوچکی ہے جوخواتین اور ان کے خاندان کیلئے حوصلہ افزاء ہے کہ حکومت خواتین کو کام کی جگہ پر سازگار اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے کام کر رہی ہے، ہم خواتین کے حوالے سے کام کرنے پر سیاسی جماعتوں اور ریاست کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں اور اپنے خاندان کا خیال رکھتی ہیں۔
فیکٹریوں، کارخانوں، کھیتوں، دفاتر غرض کہ ہر شعبے میں خواتین کام کر رہی ہیں۔ قومی معیشت میں بھی ان کا اہم کردار ہے۔ اسی طرح سیاست اور پارلیمان میں بھی خواتین کا کردار قابل تعریف ہے۔ خواتین اراکین اسمبلی کافی متحرک ہیں، قانون سازی میں ان کا کردار زیادہ ہے، پرائیویٹ بل اور قراردادیں بھی خواتین اراکین اسمبلی کی جانب سے ہی زیادہ پیش کی گئی لہٰذا یہ کہنا کہ اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر خواتین کے آنے سے فائدہ نہیں ہوتا درست نہیں ہے۔
اعداد و شمار کی بات کریں تو ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کی معاشی شمولیت اور مواقع کے لحاظ سے پاکستان 156 ممالک میں سے 152 ویں نمبر پر ہے جو تشویشناک ہے۔ اگرچہ بہت سارے نئے شعبوں میں خواتین آگے آئی ہیں تاہم ابھی بھی ملکی خواتین کا ایک بڑا حصہ پیچھے ہے جس کے پاس آگے بڑھنے کے برابر یا مناسب مواقع نہیں ہیں۔ ہماری ورک فورس میں خواتین کی شمولیت 22.6 فیصد ہے جو جنوبی ایشیاء اور دنیا میں کم ہے لہٰذا ہمیں خواتین کو قومی دھارے میں لانا ہوگا۔
صنفی مساوات کو فروغ دینا اور جینڈر گیپ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے سازگار ماحول سمیت جو بھی اقدامات چاہئیں، کرنا ہونگے۔ خواتین کو تعلیم، ملازمت سمیت دیگر کاموں کیلئے آمد و رفت کے مسائل کا سامنا ہے لہٰذا انہیں سہولت دینے کیلئے محفوظ ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے۔
اس کے علاوہ خواتین کو گھر سے دور ملازمت یا تعلیم کے حصول کیلئے رہائش کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا ان کیلئے ورکنگ ویمن ہاسٹلز بنائے جائیں ۔ ملازمت کرنے والی ماؤں کو سہولت دینے کیلئے ڈے کیئر سینٹرز بنائے جائیں۔ خواتین کی حالت بہتر بنانے کیلئے قوانین پر عملدرآمد کا میکنزم بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔
سلمیٰ عبدالغنی (لیڈی پٹرولنگ آفیسر، سٹی ٹریفک پولیس لاہور )
ٹریفک پولیس میں خواتین کے لیے سازگار اور محفوظ ماحول ہے۔ خواتین کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو آئین پاکستان نے دیے ہیں۔ ہمارے ادارے میں ہراسمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم اگر ہو تو اس پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے اور اعلیٰ حکام کی جانب سے فوری ایکشن لیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے واٹس ایپ گروپ قائم کیا گیا ہے جس میں ڈی آئی جی ٹریفک، سی ٹی او، ایس پی، ڈی ایس پی و دیگر افسران بھی موجود ہیں، یہ کمیٹی فعال ہے اور ہمارے افسران بالا خود معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔
خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے اچھے قوانین بنائے گئے ہیں تاہم عملدرآمد کے مسائل ہیں جن پر کام کرنا ہوگا۔ ون وے کی خلاف ورزی اور بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے پر 2 ہزار کا چلان کیاجاتا ہے، ایک ماہ میں قانون کی اس خلاف ورزی میں 50 فیصد کمی آئی ہے لہٰذا اگر اسی طرح خواتین سے متعلق قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے تو ہراسمنٹ سمیت دیگر مسائل میں کمی آجائے گی۔
ملک میں 51فیصد خواتین ہیں جو معیشت میں 22 فیصد حصہ ڈال رہی ہیں، اس کے علاوہ غیر رسمی شعبے میں بھی خواتین کی بڑی تعداد کام کر رہی ہے، سب کو قومی دھارے میں لانا ہوگا، انہیں سازگار ماحول فراہم کرنا اور قوانین پر عملدرآمد کا میکنزم بنانا ہوگا۔
ثمینہ ناز (چیئرپرسن لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن پنجاب)
لیڈی ہیلتھ ورکرز کو 25 برس ہوچکے ہیں، ہمارے کام کو عالمی و قومی سطح پر سراہا گیا مگر ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پولیو مہم ہو یا کرونا وباء، لیڈی ہیلتھ ورکرز نے ہمیشہ فرنٹ لائن پر موثر کردار ادا کیا، ہم نے بے شمار قربانیاں بھی دی ہیں مگر افسوس ہے کہ ہمیں ہماری خدمات کے مطابق صلہ نہیں ملا۔ ہمارا استحصال ہورہا ہے اور ہمیں اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکز کا اصل کام ماں بچے کی صحت اور فیملی پلاننگ ہے مگر ہمیں اس سے ہٹا کر پولیو، حفاظتی ٹیکہ جات، کرونا، الیکشن و دیگر ڈیوٹیاں دے دی جاتی ہیں، ہماری ورکرز دن رات کام کر رہی ہیں، ہمیں حکومت کی جانب سے شعبہ صحت کی ریڑھ کی ہڈی قراردیا جاتا ہے مگر جب حقوق کی بات آتی ہے تو کنارہ کشی اختیار کر لی جاتی ہے۔
احتجاج کرنے پر عدالتی حکم کی وجہ سے ہمیں ریگولر کیا گیا، ہمیں موجودہ وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے بہت توقع تھی کیونکہ ان کا تعلق شعبہ صحت سے ہے تاہم افسوس ہے کہ موجودہ دور حکومت میں ہمیں مکمل نظر انداز کر دیا گیا۔ 60 برس کی عمر میں لیڈی ہیلتھ ورکر کو ایک ماہ کی تنخواہ دیکر فارغ کر دیا جاتا ہے، اس کی پینشن و دیگر حوالے سے کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔ ہم نے اس حوالے سے 9 دن احتجاج کیا اور ہمارے ساتھ وعدہ کیا گیا مگر تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
پنجاب میں لیڈی ہیلتھ ورکر کی تنخواہ 25 ہزار جبکہ سندھ میں 56 ہزار ہے، سندھ میں 17 ہزار ماہانہ کرونا الاؤنس بھی دیا گیا مگر پنجاب میں کسی کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ضلع میں کہیں بھی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے، انہیں ٹرانسپورٹ الاؤنس بھی نہیں ملتا، سکیورٹی کے مسائل بھی درپیش ہیں، ہراسمنٹ کا مسئلہ بھی ہے مگر کوئی ان مسائل کے حل کیلئے تیار نہیں ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تحفظ، انصاف اور حقوق کیلئے سڑکوں پر آنا پڑتاہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے جائز حقوق دیے جائیں اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی کمیٹیوں کو فعال بنایا جائے۔
22 دسمبر کو سرکاری سطح پر 'ورکنگ ویمن کا قومی دن' منایا جاتا ہے جس کا مقصد رسمی اور غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے کام کو تسلیم کرنا اور ان کے حقوق وتحفظ کیلئے اقدامات کرنا ہے۔
2011ء میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس دن کو سرکاری طور پر منانے کا اعلان کیا جس کے بعد سے اب تک یہ دن ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے، ملازمت پیشہ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لیا جاتا ہے اور مستقبل کا تعین کیا جاتا ہے۔
اس اہم دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
عظمیٰ کاردار (چیئرپرسن سٹینڈنگ کمیٹی برائے جینڈر مین سٹریمنگ ، پنجاب اسمبلی )
ملکی آبادی کا 50 فیصد سے زائد خواتین پر مشتمل ہے جنہیں قومی دھارے میں لائے بغیر ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ ملکی ترقی کیلئے ہمیں خواتین کو سازگار ماحول، تحفظ ، آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہونگے اور ان کی معاشی حالت بہتر بنانا ہوگی۔
خواتین کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کا جائزہ لیں تو اس وقت خواتین اور بچوں کے حقوق و تحفظ کے لیے 100 سے زائد بہترین قوانین موجود ہیں تاہم عملدرآمد کا میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے تاحال خواتین کے مسائل حل نہیں ہوسکے اور نہ ہی اِن قوانین سے صحیح معنون میں فائدہ اٹھایا جاسکا۔ خواتین کے حوالے سے کام تو ہورہا ہے لیکن ابھی بہت سارا کام باقی ہے، ہم اس پر توجہ کیے ہوئے ہیں اور ہمیں ادراک ہے کہ تیزی سے اقدامات کرنا ہونگے لیکن اگر ہم من حیث القوم اسی رفتار سے چلتے رہے تو جینڈر گیپ ختم کرنے میں 139 برس لگیں گے۔
پنجاب فیئر رپریزنٹیشن آف ویمن ایکٹ 2014ء سے خواتین کو مناسب مواقع ملے۔ یہ اسی قانون کا ثمر ہے کہ اداروں میں سیکرٹری سطح تک خواتین نے ترقی پائی ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ گراس روٹ لیول کی خواتین کہاں ہیں؟ ان کو کیا حقوق حاصل ہیں اور ان کے مسائل کیا ہیں؟ ان کے پاس ترقی کے مواقع کتنے ہیں؟ انہیں روزگار میسر ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا وہ محفوظ ہے؟
پاکستان میں عوامی مقامات پر خواتین کی کم تعداد نظر آتی ہے اس کی وجہ ہراسمنٹ جیسے مسائل ہیں، اس کے علاوہ خواتین کو کام کی جگہ پر بھی ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھریلو تشدد بھی خواتین کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے جس سے خواتین کی ذہنی و جسمانی صحت متاثر ہورہی ہے۔ خواتین کے مسائل کے حل میں جہاں حکومت کی ذمہ داریاں ہیں وہی معاشرہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔ میرے نزدیک خواتین کے مسائل کے حل اور ان سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کیلئے کمیونٹی سپورٹ گروپ بنانا ہوگا۔
خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی نے ویمن سیفٹی ایپ بنائی ہے جو بہترین ہے مگر 98 فیصد لوگوں کو اس کا معلوم نہیں ہے۔ ہم اس بارے میں آگاہی دینے کیلئے ان کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے پنجاب کی 11 یونیورسٹیز میں اس بارے میں آگاہی دی ، اب صوبے بھر کے تعلیمی اداروں میں یہ مہم چلائی جائے گی۔کام کی جگہ پر تحفظ دینے اور ہراسمنٹ کے خاتمے کیلئے خاتون محتسب کا ادارہ موجود ہے، تمام سرکاری و نجی اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم کی جا چکی ہیں جن سے کافی بہتری آئی ہے۔
ملکی کی 70 فیصد معیشت غیر دستاویزی ہے جس میں ایک بڑا حصہ خواتین ورکرز سے حاصل ہوتا ہے، ایک کروڑ بیس لاکھ ہوم بیسڈ ورکرز ہیں، 40 فیصد خواتین کھیتوں میں کام کرتی ہیں جنہیں حقوق حاصل نہیں ہیں، انہیں رجسٹر کرنے، ان کی کم از کم اجرت کا تعین سمیت سوشل سکیورٹی جیسی سہولیات فراہم کرنے پر غور جاری ہے، اس میں جلد پیشرفت ہوگی۔ خواتین کو روزگار کمانے کی تربیت دی جارہی ہے، انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔
انہیں آئی ٹی و دیگر جدید کورسز کروائے جا رہے ہیں، ای کامرس کی تربیت بھی دی جارہی ہے تاکہ وہ بہتر اندز میں اپنا روزگار کماسکیں، اسی طرح علاقائی وسائل دیکھتے ہوئے فشریز، مگس بانی و دیگر کاموں کی تربیت بھی دی جا رہی ہے، موبائل ریپیئرنگ کے کورسز بھی کروائے جا رہے ہیں، حکومت نے چھوٹے کاروبار کرنے کیلئے خواتین کیلئے قرض بھی مختص کیا ہے، جس سے یقینا بہتری آئے گی۔
خاتون محتسب کے ادارے کو خواتین کے جائیداد میں وراثتی حق کے حوالے سے کیسز سننے کا اختیار بھی دے دیا ہے جس کے بعد سے بے شمار خواتین کو فائدہ ہوا ہے اور ابھی بھی درخواستوں کا انبار ہے۔پنجاب میں 16 سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز ہیں جو انتہائی کم ہیں تاہم نجی ہاسٹلز کو چلانے والا مافیا مضبوط ہے، خواتین کی سمگلنگ و دیگر مسائل کی شکایات بھی ہیں، ہم ورکنگ ویمن ہاسٹلز اتھارٹی بنانے جا رہے ہیں جو ان تمام ہاسٹلز کی مانیٹرنگ کرے گی۔
سوا کروڑ خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے جو ووٹ کے حق سے محروم ہیں، اب بلدیاتی انتخابات نزدیک ہیں، میری رائے ہے کہ اس میںسیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستوں کے علاوہ جنرل نشستوں پر بھی خواتین کو ٹکٹ دینے چاہئیں۔ جینڈر مین سٹریمنگ کمیٹی کو حال ہی میں بااختیار بنایا گیا ہے، اب ہم مختلف محکموں سے جواب طلب کر رہے ہیں کہ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے کتنا کام کیا، ان کے مسائل کے حل کیلئے کیا پالیسی ہے؟
بشریٰ خالق (نمائندہ سول سوسائٹی)
خواتین ملکی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لہٰذا یہ خواتین کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ خاندان اور معاشرہ ان کے کام کو تسلیم کرے۔ اس حوالے سے 2011ء میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے رسمی و غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے کام کو تسلیم کرنے کیلئے22 دسمبر کو 'ورکنگ ویمن کا قومی دن' قرار دیا جسے ہر سال منایا جاتا ہے۔
یہ ریاست اور حکومت کی طرف سے دنیا کو پیغام ہے کہ ہم نہ صرف خواتین کے کام کو مانتے ہیں بلکہ انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے کیلئے کام بھی کرر ہے ہیں۔ 22 دسمبر خواتین کیلئے اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اس روزایک عالمی ادارے میں کام کرنے والی پاکستانی خاتو ن نے اپنے خلاف ہونے والی ' ورک پلیس ہراسمنٹ' پر آواز اٹھائی جس پر سخت ایکشن لیا گیا۔
ایک عورت کے خاموش نہ رہنے کی وجہ سے اتنا اثر ہوا کہ اس دن کو قومی دن قرار دے دیا گیا لہٰذا اگر ملک کی تمام خواتین اپنے حقوق اور اپنے ساتھ ہونے والے استحصال کے خلاف آواز اٹھائیں تو صورتحال بہتر ہوجائے گی۔ کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے تدارک اور برابر مواقع کے حوالے سے کافی کام ہوچکا ہے۔
اب کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف کمیٹیاں موجود ہیں، ایسے کیسز سننے کیلئے خاتون محتسب کا ادارہ بھی قائم کیا گیا ہے، خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے موثر قانون سازی بھی ہوچکی ہے جوخواتین اور ان کے خاندان کیلئے حوصلہ افزاء ہے کہ حکومت خواتین کو کام کی جگہ پر سازگار اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کیلئے کام کر رہی ہے، ہم خواتین کے حوالے سے کام کرنے پر سیاسی جماعتوں اور ریاست کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں اور اپنے خاندان کا خیال رکھتی ہیں۔
فیکٹریوں، کارخانوں، کھیتوں، دفاتر غرض کہ ہر شعبے میں خواتین کام کر رہی ہیں۔ قومی معیشت میں بھی ان کا اہم کردار ہے۔ اسی طرح سیاست اور پارلیمان میں بھی خواتین کا کردار قابل تعریف ہے۔ خواتین اراکین اسمبلی کافی متحرک ہیں، قانون سازی میں ان کا کردار زیادہ ہے، پرائیویٹ بل اور قراردادیں بھی خواتین اراکین اسمبلی کی جانب سے ہی زیادہ پیش کی گئی لہٰذا یہ کہنا کہ اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر خواتین کے آنے سے فائدہ نہیں ہوتا درست نہیں ہے۔
اعداد و شمار کی بات کریں تو ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کی معاشی شمولیت اور مواقع کے لحاظ سے پاکستان 156 ممالک میں سے 152 ویں نمبر پر ہے جو تشویشناک ہے۔ اگرچہ بہت سارے نئے شعبوں میں خواتین آگے آئی ہیں تاہم ابھی بھی ملکی خواتین کا ایک بڑا حصہ پیچھے ہے جس کے پاس آگے بڑھنے کے برابر یا مناسب مواقع نہیں ہیں۔ ہماری ورک فورس میں خواتین کی شمولیت 22.6 فیصد ہے جو جنوبی ایشیاء اور دنیا میں کم ہے لہٰذا ہمیں خواتین کو قومی دھارے میں لانا ہوگا۔
صنفی مساوات کو فروغ دینا اور جینڈر گیپ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے سازگار ماحول سمیت جو بھی اقدامات چاہئیں، کرنا ہونگے۔ خواتین کو تعلیم، ملازمت سمیت دیگر کاموں کیلئے آمد و رفت کے مسائل کا سامنا ہے لہٰذا انہیں سہولت دینے کیلئے محفوظ ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے۔
اس کے علاوہ خواتین کو گھر سے دور ملازمت یا تعلیم کے حصول کیلئے رہائش کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا ان کیلئے ورکنگ ویمن ہاسٹلز بنائے جائیں ۔ ملازمت کرنے والی ماؤں کو سہولت دینے کیلئے ڈے کیئر سینٹرز بنائے جائیں۔ خواتین کی حالت بہتر بنانے کیلئے قوانین پر عملدرآمد کا میکنزم بنا کر آگے بڑھنا ہوگا۔
سلمیٰ عبدالغنی (لیڈی پٹرولنگ آفیسر، سٹی ٹریفک پولیس لاہور )
ٹریفک پولیس میں خواتین کے لیے سازگار اور محفوظ ماحول ہے۔ خواتین کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو آئین پاکستان نے دیے ہیں۔ ہمارے ادارے میں ہراسمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے، تاہم اگر ہو تو اس پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے اور اعلیٰ حکام کی جانب سے فوری ایکشن لیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے واٹس ایپ گروپ قائم کیا گیا ہے جس میں ڈی آئی جی ٹریفک، سی ٹی او، ایس پی، ڈی ایس پی و دیگر افسران بھی موجود ہیں، یہ کمیٹی فعال ہے اور ہمارے افسران بالا خود معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔
خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے اچھے قوانین بنائے گئے ہیں تاہم عملدرآمد کے مسائل ہیں جن پر کام کرنا ہوگا۔ ون وے کی خلاف ورزی اور بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے پر 2 ہزار کا چلان کیاجاتا ہے، ایک ماہ میں قانون کی اس خلاف ورزی میں 50 فیصد کمی آئی ہے لہٰذا اگر اسی طرح خواتین سے متعلق قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے تو ہراسمنٹ سمیت دیگر مسائل میں کمی آجائے گی۔
ملک میں 51فیصد خواتین ہیں جو معیشت میں 22 فیصد حصہ ڈال رہی ہیں، اس کے علاوہ غیر رسمی شعبے میں بھی خواتین کی بڑی تعداد کام کر رہی ہے، سب کو قومی دھارے میں لانا ہوگا، انہیں سازگار ماحول فراہم کرنا اور قوانین پر عملدرآمد کا میکنزم بنانا ہوگا۔
ثمینہ ناز (چیئرپرسن لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن پنجاب)
لیڈی ہیلتھ ورکرز کو 25 برس ہوچکے ہیں، ہمارے کام کو عالمی و قومی سطح پر سراہا گیا مگر ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ پولیو مہم ہو یا کرونا وباء، لیڈی ہیلتھ ورکرز نے ہمیشہ فرنٹ لائن پر موثر کردار ادا کیا، ہم نے بے شمار قربانیاں بھی دی ہیں مگر افسوس ہے کہ ہمیں ہماری خدمات کے مطابق صلہ نہیں ملا۔ ہمارا استحصال ہورہا ہے اور ہمیں اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکز کا اصل کام ماں بچے کی صحت اور فیملی پلاننگ ہے مگر ہمیں اس سے ہٹا کر پولیو، حفاظتی ٹیکہ جات، کرونا، الیکشن و دیگر ڈیوٹیاں دے دی جاتی ہیں، ہماری ورکرز دن رات کام کر رہی ہیں، ہمیں حکومت کی جانب سے شعبہ صحت کی ریڑھ کی ہڈی قراردیا جاتا ہے مگر جب حقوق کی بات آتی ہے تو کنارہ کشی اختیار کر لی جاتی ہے۔
احتجاج کرنے پر عدالتی حکم کی وجہ سے ہمیں ریگولر کیا گیا، ہمیں موجودہ وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے بہت توقع تھی کیونکہ ان کا تعلق شعبہ صحت سے ہے تاہم افسوس ہے کہ موجودہ دور حکومت میں ہمیں مکمل نظر انداز کر دیا گیا۔ 60 برس کی عمر میں لیڈی ہیلتھ ورکر کو ایک ماہ کی تنخواہ دیکر فارغ کر دیا جاتا ہے، اس کی پینشن و دیگر حوالے سے کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔ ہم نے اس حوالے سے 9 دن احتجاج کیا اور ہمارے ساتھ وعدہ کیا گیا مگر تاحال کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
پنجاب میں لیڈی ہیلتھ ورکر کی تنخواہ 25 ہزار جبکہ سندھ میں 56 ہزار ہے، سندھ میں 17 ہزار ماہانہ کرونا الاؤنس بھی دیا گیا مگر پنجاب میں کسی کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ضلع میں کہیں بھی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے، انہیں ٹرانسپورٹ الاؤنس بھی نہیں ملتا، سکیورٹی کے مسائل بھی درپیش ہیں، ہراسمنٹ کا مسئلہ بھی ہے مگر کوئی ان مسائل کے حل کیلئے تیار نہیں ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تحفظ، انصاف اور حقوق کیلئے سڑکوں پر آنا پڑتاہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے جائز حقوق دیے جائیں اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی کمیٹیوں کو فعال بنایا جائے۔