اومیکرون وائرس کا پھیلاؤ

کورونا وبا اور اومیکرون کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سرحدوں کو بند کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔

کورونا وبا اور اومیکرون کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سرحدوں کو بند کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور:
دنیا بھر میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کا پھیلاؤ مسلسل بڑھ رہا ہے' اومیکرون کے پھیلاؤ کی وجہ سے اس برس بھی کرسمس کی خوشیاں بڑے محتاط طریقے اور حفاظتی پہلو کو سامنے رکھ کر منائی گئی ہیں جب کہ دنیا میں نئے سال کی آمد کی خوشیاں منانے کے لیے جو تیاریاں ہو رہی ہیں۔

وہاں بھی سخت حفاظتی اقدامات کی وارننگز جاری ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے نئے سال کی آمد پر بھی ہلہ گلہ ہو گا' امریکا' کینیڈا' آسٹریلیا اور یورپ میں اومیکرون وائرس خاصے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ ان ایام میں سیاحت عروج پر ہوتی ہے، کاروباری سرگرمیاں ٹاپ تک جاتی ہیں۔لیکن اس بار بھی ماضی کی طرح کی ہی صورتحال رہے گی۔

میڈیا کی اطلاع کے مطابق اومیکرون کے بڑھتے کیسز کی وجہ سے دنیا بھر میں کمرشل ایئرلائنز کمپنیوں نے تقریباً 6 ہزار پروازیں منسوخ کر دی ہیں، برطانوی نشریاتی ادارے نے فلائٹ ٹریکنگ ویب سائٹ، فلائٹ اویئر ڈاٹ کام کے حوالے سے بتایا کہ کرسمس سے ایک روز پہلے دنیا بھر میں فضائی کمپنیوں نے2401پروازیں منسوخ کیں حالانکہ عام طور پر ایسے موقع پر لوگ بائی ایئر زیادہ سفر کرتے ہیں۔تقریباً 10 ہزار پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں۔

کرسمس والے دن دنیا بھر میں 1779 پروازیں موخر کی گئیں جب کہ402 اتوار کے لیے ری شیڈول کی گئیں، میڈیا نے بتایا ہے کہ فرانسیسی خبررساں ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایاکہ فضائی کمپنیوں کے پائلٹس اور عملے نے بیمار ہونے پر ٹیلی فون کال کر کے ڈیوٹی پر نہ آنے کا بتایا یا انھیں قرنطینہ میں رہنا پڑ رہا ہے،اس صورت حال میں متعدد فضائی کمپنیاں پروازیں منسوخ کرنے پر مجبور ہو گئیں۔

پروازوں کی منسوخی نے ان شہریوں کی مایوسی میں اضافہ کیا جو چھٹیوں میں اپنے خاندانوں کے پاس جانا چاہتے تھے یا وہ سیاح جوکسی دوسرے ملک میں جاکر کرسمس اور نیوائر کی خوشیاں منانا چاہتے ہیں۔ سیاحت کے لیے مشہور ممالک کی معیشت بھی متاثر ہورہی ہے۔ گزشتہ سال بھی کرسمس اور نیوائرکی سرگرمیوں کو سختی سے محدود کر دیا گیا تھا۔ کورونا وائرس سے بھارت بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔

اطلاعات کے مطابق بھارت میں گزشتہ روز تک 7ہزار189نئے کیس رپورٹ ہوئے جس کے بعد متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 3 کروڑ 47 لاکھ 79 ہزار815 ہو گئی ہے،387نئی ہلاکتوں کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 4لاکھ 79ہزار520 تک پہنچ گئی ہے۔ بھارت کورونا وائرس کے مریضوں کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ بھارتی معیشت کو بھی خاصا دھچکا لگا ہے اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔

پاکستان کے لیے بھی صورت حال الارمنگ ہو رہی ہے کیونکہ گزشتہ روز اسلام آباد میں بھی اومیکرون ویرینٹ کا ایک مریض سامنے آگیا ہے، میڈیا کے مطابق ڈاکٹروں نے مریض کی تصدیق کردی ہے، متاثرہ مریض کے خاندان و قریبی روابط والے افراد کے خون کے نمونے لے لیے گئے ہیں، ان کے بچوں کے ہم جماعتوں کے بھی نمونے لیے جائیں گے، ڈی ایچ او کے مطابق مریض نے بیرون ملک کوئی سفر نہیں کیا تاہم یہ اندرون ملک سفرکرتا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی ملک کے مختلف علاقوں سے اومیکرون سے متاثرہ مشتبہ مریضوں کے بارے میں خبریں آتی رہیں جن کی بعد میں تصدیق نہیں ہوسکی۔

بہرحال سب کو اچھی طرح علم ہے کہ اومی کورون تیزی سے پھیلنے والا ویرینٹ ہے، اس سے بچنے کے لیے ویکسی نیشن ضروری ہے، حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے شہری پوری سنجیدگی کے ساتھ احتیاطی تدابیر اختیار کریں، ویکسی نیشن کرائیں ، ماسک کا استعمال لازمی کیا جائے اورجو شہری بوسٹر ویکسین کے اہل ہیں تو فوری طور پر بوسٹر لگوائیں۔

خوش آیند بات یہ ہے کہ امریکا نے کرسمس پر پاکستان کو مزید 50 لاکھ کووڈ ویکسین کا عطیہ دیا ہے، اس کھیپ کی آمد کے بعد امریکی حکومت کی جانب سے پاکستان کے لیے عطیہ کیے جانے والے ٹیکوں کی مجموعی تعداد تین کروڑ 70 لاکھ ہوجائے گی، یہ عطیہ جلد ہی پاکستان کو مل جائے گا۔ اس موقع پر امریکی سفارتخانہ اسلام آباد کی ناظم الاُمور اینجلا ایگلر نے کہا کہ تہوار کے موقع پر پیاروں کے لیے سب سے اچھا تحفہ اُن کو ویکسین لگوانا ہے، اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ نئے سال کا جشن خود کو کورونا سے تحفظ کا ٹیکہ لگوا کر منائیں۔


ادھر پاکستان میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے 353 نئے مصدقہ کیس سامنے آئے ہیں جب کہ مزید 7 افراد جان کی بازی ہار گئے،این سی او سی نے ہفتہ کو بتایا کہ مریضوں کی مجموعی تعداد12 لاکھ 54 ہزار 413جب کہ اموات کی مجموعی تعداد 28 ہزار905 ہو گئی ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پنجاب میں58نئے کیسز سامنے آئے۔

پاکستان میں اب بھی کورونا سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں، اسی لیے کورونا کے خاتمہ کے لیے ابھی تک کوئی حتمی اعلان جاری نہیں ہوسکا، موجودہ حالات میں حکومت کی ذمے داری مزید بڑھ گئی ہے۔ حفظان صحت کے سسٹم کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرنا اور ڈاکٹرز، نرسوں، پیرامیڈیکل اسٹاف اور عوام کو وباؤں سے بچانا وفاقی و صوبائی حکومتوں کی بنیادی آئینی ذمے داری ہے۔

آئین پاکستان وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر فرض عائد کرتا ہے کہ وہ پاکستان کے شہریوں کو مذہب و مسلک، قومیت اور لسانیت کے امتیاز کے بغیر یکساں تعلیم، صحت، روزگار، ٹرانسپورٹ اور رہائش کے لیے سہولتیں مہیا کریں۔ امید کی جانی چاہیے کہ وائرسز سے نمٹنے میں پاکستان خطے کے کسی ملک سے پیچھے نہیں رہے گا۔ اہل اقتدار کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ بیماری طاقتور ترین انسان کو بھی مایوسی اور احساس شکست کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔

یہ ایک الم ناک حقیقت ہے کہ کورونا کے حوالے سے ملک کے کسی حصے سے کورونا کی بیماری، اس سے پیدا شدہ مصائب سرکاری اسپتالوں اور نجی اسپتالوں کی چیرہ دستیوں کی داستانیں کسی کتاب یا تحقیقی دستاویز کی شکل میں سامنے نہیں آئیں، یہ ایسی وباء تھی جس نے لاکھوں گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر دیے، لاکھوں محنت کشوں سے ان کا روزگار چھینا، دنیا میں بھی لاکھوں کی تعداد میں انسانی ہلاکتیں ہوئیں، بعض ماہرین نے لکھا کہ پہلی بار دنیا کا ہیلتھ کیئر سسٹم لاوارثی کی نذر ہوا۔

امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ایران، بھارت، اسپین اور دیگر ملکوں میں لوگ پاگلوں کی طرح در بدر مسیحاؤں کی تلاش میں سرگرداں رہے، پاکستان میں کورونا کی ابتدا ایران سے ہوئی تھی، افغانستان سے آنے اور یہاں سے جانے والوں کا تو کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔لیکن افغانستان میں کورونا وباء نے بہت زیادہ نقصان کیا ہے۔ وہاں تو صحت کا نظام ہی زمیں بوس ہے، کسی مریض کو علاج کی سہولت کیا ملتی۔

پاکستان میں کورونا کی تباہ کاریاں سب کے سامنے ہیں۔ لوگ تین فٹ فاصلہ تو درکنار اپنے قریبی عزیز و اقارب سے منہ چھپاتے پھرتے رہے، جن کو کورونا ہوا ان کے لیے اسپتالوں میں داخلہ بند ہوگیا، قبرستان میں میتوں کی تدفین مشکل ہوگئی۔ صنعتی یونٹس، دفاتر، کارخانے اور فیکٹریوں کو تالے لگ گئے، جو دیہاڑی دار مزدور تھے، ان کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی، کورونا کی ٹیسٹ رپورٹ مہنگی ہوگئی۔پاکستان کے عوام نے یہ المناک مناظر خود دیکھے ہیں۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح نئے کورونا ویرینٹ کا پاکستان آنا بھی ناگزیر لگ رہاہے کیونکہ یہاں کی حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے برسرپیکار ہے۔سرکاری شعبے میں صحت کا نظام اپاہج ہوچکا ہے جب کہ نجی اسپتال، لیبارٹرز اورفارما انڈسٹری کاروباری اصولوں کو سامنے رکھ کر کام کررہے ہیں، ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے۔ پاکستان میں نئے کورونا ویرینٹ کوکنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

اقدامات سے وائرس کی آمد کوکچھ وقت کے لیے ٹالا جاسکتا ہے لیکن وہ پھیلے گا۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ ویکسینیشن کر کے اس کا خطرہ کم کیا جاسکتاہے۔ جب وائرس ملک میں آجائے گا تو ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہوگا ، اس لیے کل کے بجائے آج پالیسی بنائیں اور عوام کو ویکسین لگوانے کے لیے تیار کریں ، کورونا امیکرون کی زد میں متوسط طبقہ ہی آئے گا، امیر، کروڑ پتی اور مسائل سے بے نیاز اشرافیہ اور سیاست دان نئے چیلنج سے براہ راست متاثر نہیں ہوںگے، انھیں زندگی کی ڈھیر ساری مراعات حاصل ہیں، مصیبت ان پر ٹوٹے گی جو دیہاڑی دار مزدور ہیں، وہ متوسط طبقہ جو ہر سماج کی مشینی زندگی کے دباؤکا سامنا کرتا ہے، ملکی معیشت اور تہذیبی زندگی کی بقا کے لیے ہراول دستے کے طور پر ہمیشہ فرنٹ لائن پر رہتا ہے، اس پر امیکرون کا پہلا وار پڑے گا، زندگی اس کی مصائب اور پریشانیوں کا شکار ہوگی۔

پاکستان کی معیشت کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے' ادھر ملک کے شمال مغرب میں جو حالات ہیں' بتانے کی ضرورت نہیں ہے' کورونا وبا اور اومیکرون کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سرحدوں کو بند کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔
Load Next Story