اہم انکشافات
ایرانی قوت ختم ہونے کے نتیجے میں پاکستان بھی بھارت کی ذیلی ریاست بن کر رہ جائے گا۔
کراچی:
بے نظیر دور کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے حال ہی میں ایک انٹرویو دیا ہے جس میں بے نظیر کے قتل کے حوالے سے اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔ ان کے دوستوں، بہی خواہوں اور باخبر لوگوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ پاکستان نہ جائیں جہاں ان کی جان جانے کا یقینی خطرہ تھا۔
الم ناک بات یہ ہے کہ وہ اس خطرے سے خود بھی آگاہ تھیں۔ یہ وقت تھا جب شاہ نواز بھٹو کو زہر دے کر قتل کر دیا گیا اور بے نظیر کے قتل سے پہلے مرتضیٰ بھٹو کا بھی پراسرار انداز میں خاتمہ کر دیا گیا۔ اس طرح بھٹو مخالف قوتوں نے مرحلہ وار ایک منصوبہ بندی کے تحت بھٹو خاندان کا صفایا کر دیا۔
اس طرح پاکستانی سیاست سے اس بھٹو عنصر کا خاتمہ کر دیا گیا جس کا آغاز 1960 کی دہائی کے آخر سے ہوا۔ یہ کام بڑا مشکل تھا لیکن بھٹو مخالف قوتیں بڑی مستقل مزاجی سے ایک طویل مدت تک اپنے ہدف پر عمل پیرا رہیں۔ آخری ٹارگٹ بے نظیر تھیں جو آخر کار 40 سال بعد حاصل کر لیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ دوبئی میں بے نظیر کے پاس رائل فیملی کے ایک دوست آئے اور ان کو آگاہ کیا کہ آپ کے قتل کا منصوبہ بن چکا ہے۔ آپ نہیں جائیں۔
محترمہ نے کہا کہ نہیں میں تو جائوں گی۔ ابوظہبی میں جنرل مشرف اور بے نظیر بھٹو کی آخری ملاقات ہوئی جو 15 منٹ کی تھی۔ جنرل مشرف نے کہا کہ ابھی آپ پاکستان نہ آئیں۔ بے نظیر نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہو مجھے پاکستان آنے سے روکنے والے۔ میں اپنی مرضی سے پاکستان آئوں گی۔ جس پر جنرل مشرف نے کہا کہ میں پھر آپ کی زندگی کی گارنٹی نہیں دیتا ہوں۔ وہاں آپ کی سیکیورٹی کو خطرہ ہے۔ وہاں پر یہ مسئلہ ہو گا آپ کے لیے۔ ان سب باتوں کے باوجود فیصلہ یہی ہوا کہ پاکستان جانا ہے۔
رحمان ملک نے کہا کہ ہمارے پاس بھی پاکستان سے الرٹس آ رہے تھے۔ اس میں محترمہ پر ٹی ٹی پی کی طرف سے الرٹس تھے۔ اس میں ماسٹر مائینڈ بیت اللہ محسود تھا۔ جس رات محترمہ نے جانا تھا۔ ایک اہم شخصیت محترمہ سے ملاقات کے لیے تشریف لائی اور کہا کہ کل آپ لیاقت باغ نہ جائیں۔ آپ پر حملہ ہونے والا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کچھ بھی ہو جائے میں نے جانا ہے۔
رحمان ملک نے کہا کہ بے نظیر کی موت کے بعد ہم نے 8لوگوں کو ٹریس کیا جو اس میں ملوث تھے۔ جس کے پیچھے ہم بھاگتے تھے وہ مار دیا جاتا تھا۔ کیا وجہ تھی کہ پولیس کے رجسٹر میں ٹمپرنگ کی گئی اور قتل گاہ کو فوری طور پر دھو دیا گیا تاکہ کوئی نشان باقی نہ رہے۔
آخر میں سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ بی بی کے قتل میں ٹی ٹی پی پاکستان تھی اس کے سینئر لوگ تھے۔ پاکستان سے کچھ لوگ ملوث ہو سکتے ہیں۔ لیکن جتنے کردار اس میں ملوث ہوئے سب کی شناخت بھی کی، پکڑا بھی اور عدالت نے سزا بھی دی اور پھر انھیں چھوڑا بھی گیا۔ اس سوال کا جواب تو کسی اور سے پوچھیں ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ جب یہ سب کچھ ہونے جا رہا تھا تو اس وقت خطے کی صورتحال کیا تھی۔ بے نظیر کے قتل کے بعد جب 8 مہینے بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔ جنرل مشرف عالمی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کے نتیجے میں اقتدار سے دستبردار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ پاکستان نہ جانے کے حوالے سے بے نظیر نے ہر مشورے کو رد کر دیا۔ کیونکہ انھوں نے امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کی اس ضمانت پر اعتبار کر لیا تھا کہ پاکستان واپسی کی صورت میں ان کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
سادہ لوح بے نظیر یہ نہ جان سکیں کہ یہ سب ان کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے لیے عالمی سازش تھی۔ کیونکہ بے نظیر خطے میں اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی طرح امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی تھیں۔ اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ جب یہ سب کچھ ہونے جا رہا تھا تو اس وقت خطے کا کیا منظر نامہ تھا۔ پاکستان میں جنرل مشرف کو اقتدار سے محروم کیا جا چکا تھا۔ کنڈولیزارائس اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں بیٹھ کر ری برتھ آف مڈل ایسٹ یعنی نئے مشرق وسطی کی پیدائش کا اعلان کر رہی تھیں۔
پلان یہ تھا کہ لبنان کو فتح کر کے بذریعہ شام ایران تک پہنچا جائے۔ لیکن اسرائیل کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ اسرائیل کو لبنانی حزب اللہ کے ہاتھوں شکست فاش ہوئی۔ وہ اسرائیل جس کو تمام عرب حکومتیں مل کر بھی شکست نہ دے سکیں۔ لیکن ری برتھ آف مڈل ایسٹ کا امریکی منصوبہ ختم نہیں ہوا۔ بلکہ وقتی طور پر پینڈنگ میں پڑ گیا۔ آج بھی اس منصوبے پر عمل درآمد جاری ہے۔ ماضی کی طرح اس میں آج بھی سب سے بڑی رکاوٹ ایران ہے۔
نئے مشرق وسطیٰ کا ایک ہی مطلب ہے کہ اسرائیل کو بلا شرکت غیرے مشرق وسطیٰ کا مالک بنا دیا جائے۔ اور اس میں اس کا شراکت دار بھارت ہو۔ ایرانی قوت ختم ہونے کے نتیجے میں پاکستان بھی بھارت کی ذیلی ریاست بن کر رہ جائے گا۔ جب کہ بھارت پہلے ہی چین کے مقابلے میں امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر بن چکا ہے۔ پھر پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔یعنی ایک تیر میں کئی شکار۔ اس طرح سے پورے خطے میں سیکولرزم، لبرل ازم روشن خیالی کا دور دورہ ہو گا۔ جس کی طرف عرب ریاستیں پہلے ہی بڑی تیزی سے پیش قدمی کر رہی ہیں۔
جنوری کے دوسرے ہفتے سے افغانستان کے لیے آسان وقت شروع ہو جائے گا۔ جس کا بینفیشری پاکستان بھی ہو گا۔ امریکا پاکستان تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہوں گے۔
بے نظیر دور کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے حال ہی میں ایک انٹرویو دیا ہے جس میں بے نظیر کے قتل کے حوالے سے اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔ ان کے دوستوں، بہی خواہوں اور باخبر لوگوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ پاکستان نہ جائیں جہاں ان کی جان جانے کا یقینی خطرہ تھا۔
الم ناک بات یہ ہے کہ وہ اس خطرے سے خود بھی آگاہ تھیں۔ یہ وقت تھا جب شاہ نواز بھٹو کو زہر دے کر قتل کر دیا گیا اور بے نظیر کے قتل سے پہلے مرتضیٰ بھٹو کا بھی پراسرار انداز میں خاتمہ کر دیا گیا۔ اس طرح بھٹو مخالف قوتوں نے مرحلہ وار ایک منصوبہ بندی کے تحت بھٹو خاندان کا صفایا کر دیا۔
اس طرح پاکستانی سیاست سے اس بھٹو عنصر کا خاتمہ کر دیا گیا جس کا آغاز 1960 کی دہائی کے آخر سے ہوا۔ یہ کام بڑا مشکل تھا لیکن بھٹو مخالف قوتیں بڑی مستقل مزاجی سے ایک طویل مدت تک اپنے ہدف پر عمل پیرا رہیں۔ آخری ٹارگٹ بے نظیر تھیں جو آخر کار 40 سال بعد حاصل کر لیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ دوبئی میں بے نظیر کے پاس رائل فیملی کے ایک دوست آئے اور ان کو آگاہ کیا کہ آپ کے قتل کا منصوبہ بن چکا ہے۔ آپ نہیں جائیں۔
محترمہ نے کہا کہ نہیں میں تو جائوں گی۔ ابوظہبی میں جنرل مشرف اور بے نظیر بھٹو کی آخری ملاقات ہوئی جو 15 منٹ کی تھی۔ جنرل مشرف نے کہا کہ ابھی آپ پاکستان نہ آئیں۔ بے نظیر نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہو مجھے پاکستان آنے سے روکنے والے۔ میں اپنی مرضی سے پاکستان آئوں گی۔ جس پر جنرل مشرف نے کہا کہ میں پھر آپ کی زندگی کی گارنٹی نہیں دیتا ہوں۔ وہاں آپ کی سیکیورٹی کو خطرہ ہے۔ وہاں پر یہ مسئلہ ہو گا آپ کے لیے۔ ان سب باتوں کے باوجود فیصلہ یہی ہوا کہ پاکستان جانا ہے۔
رحمان ملک نے کہا کہ ہمارے پاس بھی پاکستان سے الرٹس آ رہے تھے۔ اس میں محترمہ پر ٹی ٹی پی کی طرف سے الرٹس تھے۔ اس میں ماسٹر مائینڈ بیت اللہ محسود تھا۔ جس رات محترمہ نے جانا تھا۔ ایک اہم شخصیت محترمہ سے ملاقات کے لیے تشریف لائی اور کہا کہ کل آپ لیاقت باغ نہ جائیں۔ آپ پر حملہ ہونے والا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کچھ بھی ہو جائے میں نے جانا ہے۔
رحمان ملک نے کہا کہ بے نظیر کی موت کے بعد ہم نے 8لوگوں کو ٹریس کیا جو اس میں ملوث تھے۔ جس کے پیچھے ہم بھاگتے تھے وہ مار دیا جاتا تھا۔ کیا وجہ تھی کہ پولیس کے رجسٹر میں ٹمپرنگ کی گئی اور قتل گاہ کو فوری طور پر دھو دیا گیا تاکہ کوئی نشان باقی نہ رہے۔
آخر میں سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ بی بی کے قتل میں ٹی ٹی پی پاکستان تھی اس کے سینئر لوگ تھے۔ پاکستان سے کچھ لوگ ملوث ہو سکتے ہیں۔ لیکن جتنے کردار اس میں ملوث ہوئے سب کی شناخت بھی کی، پکڑا بھی اور عدالت نے سزا بھی دی اور پھر انھیں چھوڑا بھی گیا۔ اس سوال کا جواب تو کسی اور سے پوچھیں ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ جب یہ سب کچھ ہونے جا رہا تھا تو اس وقت خطے کی صورتحال کیا تھی۔ بے نظیر کے قتل کے بعد جب 8 مہینے بھی پورے نہیں ہوئے تھے۔ جنرل مشرف عالمی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کے نتیجے میں اقتدار سے دستبردار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ پاکستان نہ جانے کے حوالے سے بے نظیر نے ہر مشورے کو رد کر دیا۔ کیونکہ انھوں نے امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کی اس ضمانت پر اعتبار کر لیا تھا کہ پاکستان واپسی کی صورت میں ان کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔
سادہ لوح بے نظیر یہ نہ جان سکیں کہ یہ سب ان کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے لیے عالمی سازش تھی۔ کیونکہ بے نظیر خطے میں اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی طرح امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی تھیں۔ اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ جب یہ سب کچھ ہونے جا رہا تھا تو اس وقت خطے کا کیا منظر نامہ تھا۔ پاکستان میں جنرل مشرف کو اقتدار سے محروم کیا جا چکا تھا۔ کنڈولیزارائس اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں بیٹھ کر ری برتھ آف مڈل ایسٹ یعنی نئے مشرق وسطی کی پیدائش کا اعلان کر رہی تھیں۔
پلان یہ تھا کہ لبنان کو فتح کر کے بذریعہ شام ایران تک پہنچا جائے۔ لیکن اسرائیل کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ اسرائیل کو لبنانی حزب اللہ کے ہاتھوں شکست فاش ہوئی۔ وہ اسرائیل جس کو تمام عرب حکومتیں مل کر بھی شکست نہ دے سکیں۔ لیکن ری برتھ آف مڈل ایسٹ کا امریکی منصوبہ ختم نہیں ہوا۔ بلکہ وقتی طور پر پینڈنگ میں پڑ گیا۔ آج بھی اس منصوبے پر عمل درآمد جاری ہے۔ ماضی کی طرح اس میں آج بھی سب سے بڑی رکاوٹ ایران ہے۔
نئے مشرق وسطیٰ کا ایک ہی مطلب ہے کہ اسرائیل کو بلا شرکت غیرے مشرق وسطیٰ کا مالک بنا دیا جائے۔ اور اس میں اس کا شراکت دار بھارت ہو۔ ایرانی قوت ختم ہونے کے نتیجے میں پاکستان بھی بھارت کی ذیلی ریاست بن کر رہ جائے گا۔ جب کہ بھارت پہلے ہی چین کے مقابلے میں امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر بن چکا ہے۔ پھر پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔یعنی ایک تیر میں کئی شکار۔ اس طرح سے پورے خطے میں سیکولرزم، لبرل ازم روشن خیالی کا دور دورہ ہو گا۔ جس کی طرف عرب ریاستیں پہلے ہی بڑی تیزی سے پیش قدمی کر رہی ہیں۔
جنوری کے دوسرے ہفتے سے افغانستان کے لیے آسان وقت شروع ہو جائے گا۔ جس کا بینفیشری پاکستان بھی ہو گا۔ امریکا پاکستان تعلقات بہتری کی طرف گامزن ہوں گے۔