جعلی اکثریت کی حکومت کراچی پر قابض ہے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
کراچی سے 250 ارب پاکستان پیپلز پارٹی کے حکمران خاندان کو جاتا ہے، کنوینئر ایم کیو ایم پاکستان
لاہور:
کنوینئر ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 14 سالوں سے جعلی اکثریت کی حکومت اس شہر پر قابض ہے، لگتا ہے ہماری تباہی میں کوئی قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
کراچی تاجر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ تاجر اپنے مطالبات کی فہرست لے کر عدالت جائیں کیونکہ ہم سمیت سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی ایکٹ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
کنوینئر ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ آپ کے ٹیکس سے نکاسی آب کا نظام سمیت شہر کا نظم و نسق چلتا ہے، آپ کے ٹیکس سے پولیس کو تنخواہ ملتی ہے لیکن آپ کی جان و مال کا تحفظ نہیں ہوتا اور بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے، اس شہر سے 250 ارب پاکستان پیپلز پارٹی کے حکمران خاندان کو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کے ٹیکسوں سے ملک چلتا ہے، اس شہر کے حقوق کے حصول کے لیے مہذب معاشروں کے سارے طریقے ہم نے استعمال کیے اور اب فیصلہ کن احتجاج کا وقت ہوا چاہتا ہے، ہماری آدھی آبادی کو غائب کیا گیا جس پر ہم سپریم کورٹ گئے، 3 کروڑ کے شہر کی سیاسی نمائندگی 50 لاکھ بھی نہیں ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ اس شہر پر ستم یہ ہے کہ ہمارا انصاف اندھا ہی نہیں بہرہ اور گونگا بھی ہے، ہماری عدالتیں نسلہ ٹاور کو گرانے پر تیار ہیں لیکن کالا قانون ڈیمالش کرنے کو تیار نہیں، اپنے حق اور سچائی کیلئے کھڑا ہونا سب سے بڑا جہاد ہے۔
کنوینئر ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 14 سالوں سے جعلی اکثریت کی حکومت اس شہر پر قابض ہے، لگتا ہے ہماری تباہی میں کوئی قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
کراچی تاجر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ تاجر اپنے مطالبات کی فہرست لے کر عدالت جائیں کیونکہ ہم سمیت سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی ایکٹ کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
کنوینئر ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ آپ کے ٹیکس سے نکاسی آب کا نظام سمیت شہر کا نظم و نسق چلتا ہے، آپ کے ٹیکس سے پولیس کو تنخواہ ملتی ہے لیکن آپ کی جان و مال کا تحفظ نہیں ہوتا اور بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے، اس شہر سے 250 ارب پاکستان پیپلز پارٹی کے حکمران خاندان کو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کے ٹیکسوں سے ملک چلتا ہے، اس شہر کے حقوق کے حصول کے لیے مہذب معاشروں کے سارے طریقے ہم نے استعمال کیے اور اب فیصلہ کن احتجاج کا وقت ہوا چاہتا ہے، ہماری آدھی آبادی کو غائب کیا گیا جس پر ہم سپریم کورٹ گئے، 3 کروڑ کے شہر کی سیاسی نمائندگی 50 لاکھ بھی نہیں ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے مزید کہا کہ اس شہر پر ستم یہ ہے کہ ہمارا انصاف اندھا ہی نہیں بہرہ اور گونگا بھی ہے، ہماری عدالتیں نسلہ ٹاور کو گرانے پر تیار ہیں لیکن کالا قانون ڈیمالش کرنے کو تیار نہیں، اپنے حق اور سچائی کیلئے کھڑا ہونا سب سے بڑا جہاد ہے۔