ایکسپورٹرز کا منی لانڈرنگ کے لیے برآمدی اشیاء کی انڈر انوائسنگ کا انکشاف
ٹیکس بچانے کے لیے کاشت کاروں کی جانب سے بھی کپاس کی پیداوار بھی کم ظاہر کرنے کا انکشاف ہوا ہے
لاہور:
برآمد کنندگان کی جانب سے منی لانڈرنگ کے لیے برآمدی اشیاء کی بڑے پیمانے پر انڈر انوائسنگ کا انکشاف ہوا ہے جب کہ ٹیکس بچانے کے لیے کاشت کاروں کی جانب سے بھی کپاس کی پیداوار بھی کم ظاہر کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
اس بات کا انکشاف وفاقی وزیر برائے بحری امور سید علی حیدر زیدی نے 21 دسمبر کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا۔
''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقیات و خصوصی اقدامات اسد عمر کی جانب سے رواں مالی سال 2021-22ء کے پہلے پانچ ماہ (جولائی تا نومبر) کے لیے اہم اقتصادی اعداد و شمار کے بارے میں جامع بریفنگ دی گئی۔
بریفنگ میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی نے مختلف شعبوں کے اعداد و شمار کے بارے میں آگاہ کیا کہ رواں مالی سال کے دوران کپاس کا پیداواری ہدف ایک کروڑ پانچ لاکھ گانٹھیں مقرر کیا گیا تھا مگر کپاس کی پیداوار 85 لاکھ گانٹھیں رہی ہے جو کہ گزشتہ مالی سال2020-21 کی 71 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار کے مقابلے میں 19.5 فیصد زیادہ ہے۔
اس پر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں موجود ایک ممبر نے نشاندہی کی کہ رواں مالی سال کے دوران ٹیکس بچانے کے لیے کپاس کی پیداوار کی انڈر رپورٹنگ کی گئی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ٹیکس بچانے کے لیے کپاس کی کی پیداوار 15 لاکھ سے 20 لاکھ گانٹھیں کم ظاہر کی گئی ہے۔
اس موقع پر علی زیدی نے وفاقی کابینہ کی توجہ برآمد کنندگان کی جانب سے کی جانے والی انڈر انوائسنگ کی طرف مبذول کروائی۔ ان کا کہنا تھا کہ برآمد کنندگان کی جانب سے برآمدی اشیاء کی انڈر انوائسنگ کی جارہی ہے جس سے برآمدات کے مجموعی اعداد و شمار متاثر ہوتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کابینہ کو آگاہ کیا کہ بہت سے برآمدی کیسوں میں اشیاء کی برآمدی قیمت ان اشیاء کی درآمدی قیمت سے بھی کم پائی گئی ہے جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تجویز دی کہ اس حوالے سے جامع اینالسز کروانے کی ضرورت ہے۔
اس بارے میں جب ایف بی آر حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ درآمدات و برآمدات کی انڈر انوائسنگ ایک دیرنہ مسئلہ چلا آرہا ہے کیونکہ انڈر انوائیسنگ کی بدولت غیر ملکی ترسیلات میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے معیشت کو نقصان پہنچتا ہے، اوور انوائیسنگ کی بدولت پیسہ ملک سے باہر منتقل کیا جاتا ہے اور منی لانڈرنگ کو ترویج ملتی ہے۔
ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ درآمدی سطح پر درآمد کنندگان ڈیوٹی اور ٹیکس بچانے کے لیے انڈر انوائسنگ کرتے ہیں جبکہ برآمدی سطح پر برآمد کنندگان سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے کے لیے انڈر انوائسنگ کرتے ہیں اور یہ بھی منی لانڈرنگ کا ایک ذریعہ ہے، بعض برآمد کنندگان برآمدی اشیاء کی انڈر انوائسنگ ظاہر کرتے ہیں اس اقدام سے ان اشیا کا کم زرمبادلہ پاکستان آتا ہے اور باقی رقم بیرون ملک کی منتقل کردی جاتی ہے۔
ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے علم میں بھی لایا گیا تھا اور اس وقت شبر زیدی نے برآمدی اشیا کی انڈر انوائسنگ اور انوائیس میں ردوبدل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایات جاری کی تھیں ا ور یہ بھی ہدایت دی گئی تھی کہ جعل سازی کرنے والوں کی نشاندہی کی جائے اور تمام برآمدی اشیا کی تفصیلات مرتب کی جائیں، اس بات کا تعین کیا جائے کہ کون سے برآمد کنندگان انوائس میں ردوبدل کرتے ہیں اور کون ٹھیک انوائیسنگ کرتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کی ہدایات پر عمل درآمد کے لیے اس وقت کے ممبر کسٹمز آپریشنز نے ڈائریکٹر جنرل کسٹمز ویلیو ایشن سے رپورٹ بھی طلب کی تھی مگر اس بارے میں کوئی مزید پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے رسک پر مبنی نظام وضع کرنے کی بھی ہدایت کی تھی اس کے علاوہ قانونی تقاضے پورے نہ کرنے والے اور غلط انوائیسنگ کو استعمال کرنے والے برآمد کنندگان کے خلاف کسٹمز ایکٹ 1979ء کے سیکشن 32 سی اور ان سے منسلکہ قوانین کے تحت سخت قانونی کاروائی کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی مگر اس معاملے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی اور وہ خود چیئرمین ایف بی آر کے عہدے سے فارغ ہوگئے۔
برآمد کنندگان کی جانب سے منی لانڈرنگ کے لیے برآمدی اشیاء کی بڑے پیمانے پر انڈر انوائسنگ کا انکشاف ہوا ہے جب کہ ٹیکس بچانے کے لیے کاشت کاروں کی جانب سے بھی کپاس کی پیداوار بھی کم ظاہر کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
اس بات کا انکشاف وفاقی وزیر برائے بحری امور سید علی حیدر زیدی نے 21 دسمبر کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا۔
''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقیات و خصوصی اقدامات اسد عمر کی جانب سے رواں مالی سال 2021-22ء کے پہلے پانچ ماہ (جولائی تا نومبر) کے لیے اہم اقتصادی اعداد و شمار کے بارے میں جامع بریفنگ دی گئی۔
بریفنگ میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی نے مختلف شعبوں کے اعداد و شمار کے بارے میں آگاہ کیا کہ رواں مالی سال کے دوران کپاس کا پیداواری ہدف ایک کروڑ پانچ لاکھ گانٹھیں مقرر کیا گیا تھا مگر کپاس کی پیداوار 85 لاکھ گانٹھیں رہی ہے جو کہ گزشتہ مالی سال2020-21 کی 71 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار کے مقابلے میں 19.5 فیصد زیادہ ہے۔
اس پر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں موجود ایک ممبر نے نشاندہی کی کہ رواں مالی سال کے دوران ٹیکس بچانے کے لیے کپاس کی پیداوار کی انڈر رپورٹنگ کی گئی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ٹیکس بچانے کے لیے کپاس کی کی پیداوار 15 لاکھ سے 20 لاکھ گانٹھیں کم ظاہر کی گئی ہے۔
اس موقع پر علی زیدی نے وفاقی کابینہ کی توجہ برآمد کنندگان کی جانب سے کی جانے والی انڈر انوائسنگ کی طرف مبذول کروائی۔ ان کا کہنا تھا کہ برآمد کنندگان کی جانب سے برآمدی اشیاء کی انڈر انوائسنگ کی جارہی ہے جس سے برآمدات کے مجموعی اعداد و شمار متاثر ہوتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کابینہ کو آگاہ کیا کہ بہت سے برآمدی کیسوں میں اشیاء کی برآمدی قیمت ان اشیاء کی درآمدی قیمت سے بھی کم پائی گئی ہے جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تجویز دی کہ اس حوالے سے جامع اینالسز کروانے کی ضرورت ہے۔
اس بارے میں جب ایف بی آر حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ درآمدات و برآمدات کی انڈر انوائسنگ ایک دیرنہ مسئلہ چلا آرہا ہے کیونکہ انڈر انوائیسنگ کی بدولت غیر ملکی ترسیلات میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے معیشت کو نقصان پہنچتا ہے، اوور انوائیسنگ کی بدولت پیسہ ملک سے باہر منتقل کیا جاتا ہے اور منی لانڈرنگ کو ترویج ملتی ہے۔
ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ درآمدی سطح پر درآمد کنندگان ڈیوٹی اور ٹیکس بچانے کے لیے انڈر انوائسنگ کرتے ہیں جبکہ برآمدی سطح پر برآمد کنندگان سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے کے لیے انڈر انوائسنگ کرتے ہیں اور یہ بھی منی لانڈرنگ کا ایک ذریعہ ہے، بعض برآمد کنندگان برآمدی اشیاء کی انڈر انوائسنگ ظاہر کرتے ہیں اس اقدام سے ان اشیا کا کم زرمبادلہ پاکستان آتا ہے اور باقی رقم بیرون ملک کی منتقل کردی جاتی ہے۔
ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے علم میں بھی لایا گیا تھا اور اس وقت شبر زیدی نے برآمدی اشیا کی انڈر انوائسنگ اور انوائیس میں ردوبدل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایات جاری کی تھیں ا ور یہ بھی ہدایت دی گئی تھی کہ جعل سازی کرنے والوں کی نشاندہی کی جائے اور تمام برآمدی اشیا کی تفصیلات مرتب کی جائیں، اس بات کا تعین کیا جائے کہ کون سے برآمد کنندگان انوائس میں ردوبدل کرتے ہیں اور کون ٹھیک انوائیسنگ کرتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کی ہدایات پر عمل درآمد کے لیے اس وقت کے ممبر کسٹمز آپریشنز نے ڈائریکٹر جنرل کسٹمز ویلیو ایشن سے رپورٹ بھی طلب کی تھی مگر اس بارے میں کوئی مزید پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے رسک پر مبنی نظام وضع کرنے کی بھی ہدایت کی تھی اس کے علاوہ قانونی تقاضے پورے نہ کرنے والے اور غلط انوائیسنگ کو استعمال کرنے والے برآمد کنندگان کے خلاف کسٹمز ایکٹ 1979ء کے سیکشن 32 سی اور ان سے منسلکہ قوانین کے تحت سخت قانونی کاروائی کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی مگر اس معاملے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی اور وہ خود چیئرمین ایف بی آر کے عہدے سے فارغ ہوگئے۔