تحریک انصاف چارسدہ کا قلعہ بھی زمین بوس

تحریک انصاف کی مقامی قیادت عمران خان کی سیاسی تسلی ’’ گھبرانا نہیں‘‘ کے باوجود زمینی حقیقت کو دیکھ کر گھبرا گئی۔

ashfaqkhan@express.com.pk

SARGODHA:
تحریک انصاف کے قلعہ چارسدہ کی مسماری کو ماضی اور حال کے آئینے میں دیکھ کر چارسدہ کے سیاسی مستقبل کے خاکے میں رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر زمانے پر اپنے نقوش اور اثرات چھوڑنے اور چارسدہ کی پہچان بننے والی ماضی کی شخصیات کی بات کریں تو ان میں عوامی نیشنل پارٹی کے بانی و رہبر باچا خان بابا مرحوم، تحریک آزادی کے مشہور و معروف مجاہد اور روحانی پیشوا ولی کامل حاجی محمد امین صاحب ترنگزئی رحمہ اللہ، پیپلزپارٹی کے بانی رکن حیات محمد خان شیرپاؤ شہید اور جمعیت علمائے اسلام کے ممتاز عالم دین مولانا حسن جان شہید رحمہ اللہ سر فہرست ہیں۔

ماضی کے انتخابی نتائج کی بات کریں تو کوئی بھی سیاسی پارٹی چارسدہ کو اپنا سیاسی قلعہ ثابت نہ کرسکی۔ مگر عوامی نیشنل پارٹی، اور جمعیت علمائے اسلام بحیثیت پارٹی چارسدہ میں مانی ہوئی اور ثابت شدہ حقیقتیں ہیں۔

مگر آج ذرا ماضی کے انتخابی نتائج کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ کیا چارسدہ واقعی کسی کا مضبوط سیاسی قلعہ نہیں رہا؟ 1988 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی واحد نشست پر خان عبدالولی خان کامیاب ہوئے، ایم آر ڈی کے فیصلے کے مطابق پی پی پی اور جے یو آئی کا کوئی امیدوار ولی خان کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہوا اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر سابق صوبائی وزیر احسان اللہ خان نے خان عبدالولی خان کا مقابلہ کیا۔

1988 کے الیکشن میں خان عبدالولی خان ایک صوبائی نشست پر سابق صوبائی وزیر قانون بیرسٹر ارشد عبداللہ کے چچا مرحوم امیر خسرو خان کے مقابلے میں ہار گئے، ایک صوبائی حلقے میں آفتاب شیرپاؤ کو کامیابی ملی اور وزیراعلیٰ بن گئے، باقی تین نشستیں اے این پی نے اپنے نام کرلیں۔ 1990 کے انتخابات میں خان عبدالولی ولی خان کو جمعیت علمائے اسلام کے مولاناحسن جاں شہید نے بھاری اکثریت سے شکست دی، ایک صوبائی نشست پر آفتاب شیرپاؤ اور باقی 4 نشستوں پر اے این پی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔

مولانا حسن جان شہید رحمہ اللہ سے شکست کے بعد خان عبدالولی خان نے انتخابات میں کبھی حصہ نہیں لیا، ان کا استدلال تھا کہ اگر میرے آبائی حلقے کے لوگوں نے مجھے مسترد کیا ہے تو مجھے کوئی حق نہیں کہ میں صوابی یا کسی دوسرے علاقے سے الیکشن لڑوں۔ وہ اس ہار پر اتنے دلبرداشتہ تھے کہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو کر پارٹی کے علامتی رہبر بن گئے۔

باچا خان بابا سمیت عوامی نیشنل پارٹی کے تمام لیڈران نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، خان عبدالولی خان کی گرفتاری کے دوران جب بیگم نسیم ولی خان سیاسی میدان میں آئیں تو مخالفین نے ان پر کیچڑ اچھالا ہی مگر عوامی نیشنل پارٹی کی صف اول کی قیادت بشمول ان کے بیٹے اور پارٹی کے موجودہ راہبر اسفندیار ولی خان نے بھی پسند نہیں کیا کیونکہ یہ پختون روایات کے خلاف تھا۔ اس زمانے میں اپنی روایتوں کے امین پختون قوم کے معاشرے میں ناقابل تصور تھا کہ کوئی عورت اس طرح عملی سیاست میں حصہ لے۔ ماضی میں پختون بحیثیت بشمول عوامی نیشنل پارٹی اپنی عورتوں کو سیاست کے گندے، غلیظ اور بد بو دار تالاب سے بچا کر رکھتے تھے۔

مگر عورت کی آزادی کے علمبردار دیسی لبرلز نے اس کو بہت سراہا۔ اس پر اے این پی سمیت تمام سیاسی لوگ متفق ہیں کہ ان کی وجہ سے پورے صوبے میں پارٹی کی مقبولیت بری طرح متاثر ہوئی۔ 1993 میں قومی نشست پر اسفندیار ولی خان چند سو ووٹوں کی لیڈ سے کامیاب ہوگئے، ایک نشست پر پیپلزپارٹی کے آفتاب شیرپاؤ اور باقی چار نشستوں پر اے این پی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔1997 میں اسفندیار ولی خان اور مولانا گوہر شاہ کے درمیان جوڑ پڑا جس میں اسفندیار ولی خان کامیاب رہے اور ایک سیٹ پرآفتاب شیرپاؤ، جب کہ باقی 4 اے این پی جیتنے میں کامیاب ہوئی۔

2002 کے انتخابات میں ایم ایم اے کے ساتھ مقامی اتحاد کی وجہ سے آفتاب خان شیرپاؤ کو قومی اور صوبائی دونوں نشستوں پر کامیابی ملی۔ قومی اسمبلی کی دوسری نشست پر جمعیت علمائے اسلام کے مولانا گوہر شاہ نے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر اسفندیار ولی خان کو بڑے مارجن سے شکست دی۔


صوبائی نشستیں بھی اے این پی مخالف اتحاد کی رہیں۔ ایک نشست سابق وفاقی وزیر نثار خان کے بیٹے سعید خان نے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر ایم ایم اے کے ساتھ مقامی سطح پر آفتاب شیرپاؤ کے اتحاد کی وجہ سے جیتی، جمعیت کے مولانا مثمر شاہ اور سکندر شیرپاؤ بھی صوبائی نشستوں پر کامیاب ہوئے۔ آفتاب شیرپاؤ کی صوبائی نشست خالی ہونے پر ضمنی انتخابات میں ممتاز عالم دین شیخ ادریس بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔

قومی اسمبلی کی ایک نشست پر2008 میں اسفندیار کامیاب ہوئے اوردوسری نشست پر آفتاب شیرپاؤ چند سو ووٹوں سے جیت گئے، ایک صوبائی نشست جو سکندر شیرپاؤ نے جیتی کے علاوہ باقی نشستیں اے این پی اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئی۔ 2013 کے انتخابات میں مولانا گوہر شاہ نے پی ٹی آئی کے فضل محمد خان اور اسفندیار ولی خان دونوں کو بہت بڑے مارجن سے شکست دی۔

قومی وطن پارٹی کے قائد آفتاب احمد خان شیرپاؤ قومی اسمبلی کی دوسری نشست پر جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے مولانا مثمر شاہ کو شکست دے کر ایم این اے منتخب ہوگئے۔ ایک بار پھر پورے ضلع سے عوامی نیشنل پارٹی کا پارلیمانی سطح پر صفایا ہوگیا۔ صوبائی سیٹوں پر قومی وطن پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار کامیاب ہوگئے، شبقدر کے صوبائی حلقہ سے تحریک انصاف کے عارف احمدزئی کامیاب ہوئے۔

2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے فضل محمد خان نے اسفندیار ولی خان کو شکست دی اور دوسری قومی سیٹ پر تحریک انصاف کے ملک انورتاج نے جمعیت علمائے اسلام کے ظفر علی خان کو بہت کم مارجن سے ہرایا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی ایک صوبائی نشست کے علاوہ باقی 4 نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ اگر 1988 سے لے کر 2013 کے انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھیں تو چارسدہ بحیثیت مجموعی کسی جماعت کا قلعہ نہیں رہا کبھی عوامی نیشنل پارٹی اور کبھی جمعیت علمائے اسلام کا پلڑا بھاری رہا۔

مگر 2018 کے الیکشن میں RO سرکار کی کرامات اور ایک صفحے کی برکات و عنایات کی وجہ سے چارسدہ میں تحریک انصاف والے ایک صوبائی نشست کے علاوہ باقی نشستوں پر کامیابی سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ وہ چارسدہ کو تحریک انصاف کا قلعہ بنانے میں کامیاب ہوگئے مگر بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحصیل چارسدہ میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالروف شاکر، تحصیل شبقدر میں آصف خان کی تاریخی فتح اور تحصیل تنگی کی نشست جمعیت کے اندرونی اختلاف کی وجہ حاجی دانشمند کے بجائے آزاد امیدوار نے اپنے نام کرلی۔

ضلع چارسدہ کی تین تحصیلوں میں جمعیت نے مجموعی طور پر 124993، عوامی نیشنل پارٹی نے 62117 اور تحریک انصاف نے 53048 ووٹ حاصل کیے یعنی جمعیت نے اے این پی اور پی ٹی آئی کے مجموعی ووٹوں سے 9827 ووٹ زیادہ لیے۔اگر جمعیت کے حاصل کردہ ووٹوں اور انتخابی فتح کو دیکھ لیں تو چارسدہ کے سیاسی قلعے پر جمعیت اپنا جھنڈا گاڑ کر یہ ثابت کر گئی کہ مولانا چارسدہ میں بھی چھا گئے۔ اور تحریک انصاف جو چارسدہ کو اپنا قلعہ قرار دیتی تھی اس کے امیدوار کسی بھی نشست پر مقابلے کی دوڑ میں دکھائی نہیں دیے یوں تحریک انصاف کا یہ قلعہ ناصرف مسمار بلکہ زمین بوس ہوگیا۔

تحریک انصاف کی مقامی قیادت عمران خان کی سیاسی تسلی '' گھبرانا نہیں'' کے باوجود زمینی حقیقت کو دیکھ کر گھبرا گئی اور دوسرے اضلاع کی طرح چارسدہ والوں کی گھبراہٹ کو دیکھ کر عمران خان بھی گھبرا گئے مگر کسی میں ہمت نہیں کہ انھیں یہ کہہ سکے '' خان صاحب آپ نے گھبرانا نہیں'' ۔

آیندہ انتخابات سے پہلے اگر جمعیت علمائے اسلام مقامی سطح پر اختلافات پر قابو پاکر کارکنان کو یکسوئی اور اتحاد کے ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب ہوئی اور مولانا گوہر شاہ، شیخ ادریس صاحب پیر گوہر علی شاہ تنگی، مولانا مثمر شاہ صاحب جیسی علمی اور بیرسٹر عبداللہ خان اتمانزئی اور محمد احمد خان جیسی دوسری سماجی شخصیات کو تمام قومی اور صوبائی اسمبلی کے نشستوں پر کھڑے کرنے میں کامیاب ہوئے اور RO سرکار کی نظر بندی اور صفحہ نہیں کتاب ہی ایک کردی تو چارسدہ میں کلین سویپ کرکے جمعیت والے چارسدہ کو مستقل طور پر اپنا قلعہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اور اگر اندرونی اختلافات نے مزید سر اٹھایا تو بہترین نظم اور مقامی تنظیموں کے بہترین نیٹ ورک کے ہوتے ہوئے بھی جمعیت مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے گی، اور ماضی کی عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی اپنا اپنا حصہ لینے میں کامیاب ہوجائیں گی، تحریک انصاف کی کہانی ختم ہو چکی، اب ان کے ممبران چارسدہ میں بھی سابقہ ایم پی اے، سابقہ ایم این اے، سابقہ وزیر، سابقہ مشیر کے لاحقے لگا کر گزارا کر یںگے۔
Load Next Story