بات ہے رویہ کی
یہ روس وہ ملک ہے جہاں کمیونسٹ انقلاب آیا اور کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی
کراچی:
پچھلے دنوں جب فرانس کے صدر میکرون نے گستاخانہ خاکوں کی تشکیل اور اشاعت کو اظہار رائے کی آزادی قرار دے کر اپنے ملک میں بعض اسلامی شعائر مثلاً حجاب کی پابندی کرنا یا مخلوط اجتماعات سے گریز وغیرہ پر پابندیاں عائد کرنے کی نہ صرف دھمکی دی تھی بلکہ اس سلسلے میں بعض اقدامات کی ابتدا بھی کردی تھی۔
اس وقت ہم اپنی اندرونی کیفیت سے مجبور ہو کر ایک کالم لکھ بیٹھے اور اس میں یہ اصولی موقف اختیار کیا کسی بھی قسم کی آزادی اظہار اگر کسی دوسرے فرد یا گروہ کی دل آزاری کا باعث بنے تو اسے آزادی نہیں '' دل آزاری'' کہا جاتا ہے اور اگر کسی کی دل آزاری ہوتی ہے تو وہ اپنا ردعمل ظاہر کرنے میں حق بجانب ہوتا ہے، مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ ہمارا لکھا صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔
البتہ ہمیں یہ حسرت رہی ہے کہ مسلم ممالک کی کسی تنظیم یا کسی مسلم ملک کے صاحب اقتدار افراد کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی موثر آواز اٹھے اور یورپ کے روشن خیال معاشرے کو ان کی '' اندھی بصارت '' کا یقین دلائے، مگر اس قسم کا کوئی اقدام کسی طرف سے نہ ہو سکا۔
جب انسانی مساعی بے سود اور رائیگاں ہو جاتی ہیں اور قدرت اپنا کھیل کھیلنا چاہتی ہے تو پھر قدرتی طور پر کوئی نہ کوئی ایسا اقدام ظہور پذیر ہوتا ہے جس کی کسی کو بھی توقع نہیں ہوتی۔ اہل مغرب کی ہرزہ سرائی کا جواب اس بار ایک ایسے گوشہ سے آیا جس کی کوئی توقع نہیں کرسکتا تھا۔ قطعاً غیر متوقع طور پر روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں اس سلسلے میں چند اصولی باتیں کہی ہیں اور بڑے دو ٹوک انداز میں کہی ہیں۔
یہ روس وہ ملک ہے جہاں کمیونسٹ انقلاب آیا اور کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی اور غیر طبقاتی نظام کو رائج کرنے کا تجربہ ہوا۔ یہ وہی ملک ہے جس نے کارل مارکس کے نظریے کو پہلی بار عملی شکل بخشی جس کے تحت مذہب کو ایسی افیون قرار دیا گیا تھا جو تیسرے طبقے کو نشہ میں مبتلا رکھ کر بورژوا طاقت کو کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور طبقہ امرا کے ذریعہ وسائل سے محروم طبقات کو زندگی سے مزید دور کرتی ہے۔اب اس کا کیا کیا جائے کہ جب اپنے خواب غفلت میں مبتلا ہوں یا ایسی بے حسی کا شکار ہوں کہ حق بات کہنے کی جرأت اپنے اندر نہ پاتے ہوں تو قدرت خود حق کی محافظ بن جاتی ہے چنانچہ اس بار یہی ہوا کہ:
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
بات یہ نہیں ہے کہ مسٹر پیوٹن نے اسلام قبول کرلیا ہے نہ وہ اسلام کے خیر خواں ہیں البتہ انھوں نے وہ حق بات بڑی شد و مد کے ساتھ کہہ دی ہے جسے کہنے کا حق مسلم ممالک یا اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم کو تھا۔ قدرت نے یہ حق مسٹر پیوٹن کی زبان پر جاری کرادیا۔ انھوں نے مذکورہ سالانہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ''پیغمبر اسلام اور دیگر مذہبی شخصیات کی توہین ہرگز آزادی اظہار نہیں بلکہ مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انھوں نے مذہبی آزادی میں رکاوٹ کے بغیر فنکارانہ اظہار کی اہمیت پر گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فنکارانہ آزادی ضروری ہے تاہم دوسروں کے جذبات اور مقدسات کا احترام رکھنا بھی ضروری ہے۔ آزادی اظہار رائے اور فنکارانہ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو پیغمبر اسلام سمیت دیگر مذہبی شخصیات کی گستاخی کا لائسنس مل گیا ہے۔ کسی کی دل آزاری مجرمانہ عمل ہے ہم کو دوسروں کی دل آزاری سے بچنا چاہیے۔ فنکارانہ آزادی کی اپنے حدود ہیں اور اس سے کسی دوسرے کی آزادیوں کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔ مذہبی شخصیات کی اہانت آمیز تصاویر ان کے چاہنے والوں کو تشدد پر اکسانے کا باعث بنتی ہیں۔
حضرت محمد مصطفیؐ کی توہین مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور یہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ چارلی ہیبڈو میگزین میں پیغمبر اسلام کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور اس کے نتیجے میں میگزین کے دفتر پر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایسی کارروائیاں انتہا پسندانہ انتقامی کارروائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ صدر پیوٹن نے کہا کہ روس ایک کثیرالنسلی اور کثیرالاعتقادی ملک ہے اور ہمارے ملک میں ایک دوسرے کی روایات کا احترام کیا جاتا ہے۔
مسٹر پیوٹن نے جو بات بڑے واضح انداز میں کہی ہے وہ بات کسی مسلم ملک کی طرف سے آنی چاہیے تھی مگر یہ اعزاز مسٹر پیوٹن کے مقدر میں لکھا تھا ان کا یہ بیان اس قابل ہے کہ اسے مغربی معاشرے کے منہ پر مار دیا جائے۔
یہ اس لیے کہ فرانسیسی صدر ایک ملک کے سربراہ اور سیاست دان ہیں اور سیاسیات کا ادنیٰ طالب علم بھی وہ بات جانتا ہے جو جناب پیوٹن نے کہی ہے۔ ہمارے انڈر گریجویٹ طالب علم جن کا موضوع سیاسیات ہو یا انٹر کا طالب علم جو سوکس کا طالب علم ہو، حق اور فرض کے فرق کو سمجھتا ہے، اسے معلوم ہے کہ ہر آزادی کے ساتھ پابندی لگی ہوئی ہے ہر حق کی کچھ حدود ہیں ان حدود میں رہ کر ہی حق کو استعمال کیا جاسکتا ہے اور وہ وہی ہیں جو مسٹر پیوٹن نے بیان کیے ہیں۔فرانسیسی صدر ایک سیاست دان ہیں کوئی وجہ نہیں کہ وہ سیاسیات کے اس بنیادی اصول سے آگاہ نہ ہوں آپ کی آزادی اظہار کسی کی دل آزاری کا باعث نہیں ہونی چاہیے۔ وہ اصول جو شہریت اور سیاسیات کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے ممکن نہیں کہ ایک آزاد خودمختار اور ترقی یافتہ ملک کا صدر اس سے واقف نہ ہو۔
پچھلے دنوں جب فرانس کے صدر میکرون نے گستاخانہ خاکوں کی تشکیل اور اشاعت کو اظہار رائے کی آزادی قرار دے کر اپنے ملک میں بعض اسلامی شعائر مثلاً حجاب کی پابندی کرنا یا مخلوط اجتماعات سے گریز وغیرہ پر پابندیاں عائد کرنے کی نہ صرف دھمکی دی تھی بلکہ اس سلسلے میں بعض اقدامات کی ابتدا بھی کردی تھی۔
اس وقت ہم اپنی اندرونی کیفیت سے مجبور ہو کر ایک کالم لکھ بیٹھے اور اس میں یہ اصولی موقف اختیار کیا کسی بھی قسم کی آزادی اظہار اگر کسی دوسرے فرد یا گروہ کی دل آزاری کا باعث بنے تو اسے آزادی نہیں '' دل آزاری'' کہا جاتا ہے اور اگر کسی کی دل آزاری ہوتی ہے تو وہ اپنا ردعمل ظاہر کرنے میں حق بجانب ہوتا ہے، مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ ہمارا لکھا صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔
البتہ ہمیں یہ حسرت رہی ہے کہ مسلم ممالک کی کسی تنظیم یا کسی مسلم ملک کے صاحب اقتدار افراد کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی موثر آواز اٹھے اور یورپ کے روشن خیال معاشرے کو ان کی '' اندھی بصارت '' کا یقین دلائے، مگر اس قسم کا کوئی اقدام کسی طرف سے نہ ہو سکا۔
جب انسانی مساعی بے سود اور رائیگاں ہو جاتی ہیں اور قدرت اپنا کھیل کھیلنا چاہتی ہے تو پھر قدرتی طور پر کوئی نہ کوئی ایسا اقدام ظہور پذیر ہوتا ہے جس کی کسی کو بھی توقع نہیں ہوتی۔ اہل مغرب کی ہرزہ سرائی کا جواب اس بار ایک ایسے گوشہ سے آیا جس کی کوئی توقع نہیں کرسکتا تھا۔ قطعاً غیر متوقع طور پر روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں اس سلسلے میں چند اصولی باتیں کہی ہیں اور بڑے دو ٹوک انداز میں کہی ہیں۔
یہ روس وہ ملک ہے جہاں کمیونسٹ انقلاب آیا اور کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی اور غیر طبقاتی نظام کو رائج کرنے کا تجربہ ہوا۔ یہ وہی ملک ہے جس نے کارل مارکس کے نظریے کو پہلی بار عملی شکل بخشی جس کے تحت مذہب کو ایسی افیون قرار دیا گیا تھا جو تیسرے طبقے کو نشہ میں مبتلا رکھ کر بورژوا طاقت کو کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور طبقہ امرا کے ذریعہ وسائل سے محروم طبقات کو زندگی سے مزید دور کرتی ہے۔اب اس کا کیا کیا جائے کہ جب اپنے خواب غفلت میں مبتلا ہوں یا ایسی بے حسی کا شکار ہوں کہ حق بات کہنے کی جرأت اپنے اندر نہ پاتے ہوں تو قدرت خود حق کی محافظ بن جاتی ہے چنانچہ اس بار یہی ہوا کہ:
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
بات یہ نہیں ہے کہ مسٹر پیوٹن نے اسلام قبول کرلیا ہے نہ وہ اسلام کے خیر خواں ہیں البتہ انھوں نے وہ حق بات بڑی شد و مد کے ساتھ کہہ دی ہے جسے کہنے کا حق مسلم ممالک یا اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم کو تھا۔ قدرت نے یہ حق مسٹر پیوٹن کی زبان پر جاری کرادیا۔ انھوں نے مذکورہ سالانہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ''پیغمبر اسلام اور دیگر مذہبی شخصیات کی توہین ہرگز آزادی اظہار نہیں بلکہ مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انھوں نے مذہبی آزادی میں رکاوٹ کے بغیر فنکارانہ اظہار کی اہمیت پر گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فنکارانہ آزادی ضروری ہے تاہم دوسروں کے جذبات اور مقدسات کا احترام رکھنا بھی ضروری ہے۔ آزادی اظہار رائے اور فنکارانہ آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو پیغمبر اسلام سمیت دیگر مذہبی شخصیات کی گستاخی کا لائسنس مل گیا ہے۔ کسی کی دل آزاری مجرمانہ عمل ہے ہم کو دوسروں کی دل آزاری سے بچنا چاہیے۔ فنکارانہ آزادی کی اپنے حدود ہیں اور اس سے کسی دوسرے کی آزادیوں کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔ مذہبی شخصیات کی اہانت آمیز تصاویر ان کے چاہنے والوں کو تشدد پر اکسانے کا باعث بنتی ہیں۔
حضرت محمد مصطفیؐ کی توہین مذہبی آزادی کی خلاف ورزی اور یہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ چارلی ہیبڈو میگزین میں پیغمبر اسلام کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور اس کے نتیجے میں میگزین کے دفتر پر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایسی کارروائیاں انتہا پسندانہ انتقامی کارروائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ صدر پیوٹن نے کہا کہ روس ایک کثیرالنسلی اور کثیرالاعتقادی ملک ہے اور ہمارے ملک میں ایک دوسرے کی روایات کا احترام کیا جاتا ہے۔
مسٹر پیوٹن نے جو بات بڑے واضح انداز میں کہی ہے وہ بات کسی مسلم ملک کی طرف سے آنی چاہیے تھی مگر یہ اعزاز مسٹر پیوٹن کے مقدر میں لکھا تھا ان کا یہ بیان اس قابل ہے کہ اسے مغربی معاشرے کے منہ پر مار دیا جائے۔
یہ اس لیے کہ فرانسیسی صدر ایک ملک کے سربراہ اور سیاست دان ہیں اور سیاسیات کا ادنیٰ طالب علم بھی وہ بات جانتا ہے جو جناب پیوٹن نے کہی ہے۔ ہمارے انڈر گریجویٹ طالب علم جن کا موضوع سیاسیات ہو یا انٹر کا طالب علم جو سوکس کا طالب علم ہو، حق اور فرض کے فرق کو سمجھتا ہے، اسے معلوم ہے کہ ہر آزادی کے ساتھ پابندی لگی ہوئی ہے ہر حق کی کچھ حدود ہیں ان حدود میں رہ کر ہی حق کو استعمال کیا جاسکتا ہے اور وہ وہی ہیں جو مسٹر پیوٹن نے بیان کیے ہیں۔فرانسیسی صدر ایک سیاست دان ہیں کوئی وجہ نہیں کہ وہ سیاسیات کے اس بنیادی اصول سے آگاہ نہ ہوں آپ کی آزادی اظہار کسی کی دل آزاری کا باعث نہیں ہونی چاہیے۔ وہ اصول جو شہریت اور سیاسیات کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے ممکن نہیں کہ ایک آزاد خودمختار اور ترقی یافتہ ملک کا صدر اس سے واقف نہ ہو۔