ناپ تول کا اسلامی اصول

’’اور جب کسی کو کوئی چیز پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو اور تولنے کے لیے صحیح ترازو استعمال کرو!

فوٹو : فائل

لاہور:
تجارت اور سوداگری کے باہمی لین دین کے معاملات میں کمی بیشی کرنے یعنی لیتے ہوئے تول کو بڑھا دینے اور دیتے ہوئے تول کو گھٹا دینے کو اصطلاح میں ''ناپ تول میں کمی بیشی'' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

ناپ تول میں کمی بیشی کو اسلام سمیت دُنیا بھر کے تمام مذاہب میں انتہائی حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ناپ تول میں کمی بیشی درحقیقت دوسرے شخص کے حق کو حرام اور ناجائز طریقے سے مارنے کا دوسرا نام ہے۔ اسلام نے اپنی کامل اور گراں قدر تعلیمات کی روشنی میں اپنے ماننے والوں کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں احکاماتِ الٰہیہ کا پابند بنایا ہے۔ تجارت و سوداگری بھی ہماری زندگی کا ایک اہم ترین شعبہ ہے جس سے ہر وقت ہمیں واسطہ پڑتا رہتا ہے۔

گزشتہ اقوام میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ''اہل مدین'' تجارت و سودا گری میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ مدین، ایک قبیلے کا نام تھا، اور اسے کے نام پر ایک بستی بھی تھی، جو اُردن میں واقع تھی، اور انتہائی سرسبز و شاداب تھی، جس کی بہ دولت اہل مدین خاصے خوش حال اور پُر امن طور پر زندگی گزار رہے تھے۔

لیکن رفتہ رفتہ جب اُن میں مختلف قسم کی بدعنوانیوں کفر و شرک، راہ زنی و چوری اور لوگوں سے ظالمانہ طور پر ٹیکس لینے کے علاوہ بالخصوص ناپ توپ میں کمی بیشی جیسی بدعنوانی کی بہتات ہونے لگی تو اﷲ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کی زبانی اُن کو ناپ تول میں کمی بیشی سے منع فرمایا۔

سورۂ اعراف میں ہے، مفہوم: ''اور مدین کی طرف ہم نے اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا، اُنہوں نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اﷲ کی عبادت کرو! اﷲ کی عبادت کرو! اُس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل آچکی ہے۔ لہٰذا ناپ تول پورا پورا کیا کرو! (سورۂ اعراف)

سورۂ ہود میں ہے، مفہوم: ''اور مدین کی طرف ہم نے اُن کے بھائی حضرت شعیب علیہ السلام کو پیغمبر بناکر بھیجا، انہوں نے (اُن سے) کہا: اے میری قوم اﷲ کی عبادت کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور ناپ تول میں کمی مت کیا کرو۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ خوش حال ہو۔ اور مجھے تم پر ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو تمہیں چاروں طرف سے گھیر لے گا۔ اور اے میری قوم کے لوگو! ناپ تول پورا پورا کیا کرو! اور لوگوں کو اُن کی چیزیں گھٹا کر مت دیا کرو! اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرا کرو۔''

لیکن جب وہ لوگ ناپ تول میں کمی بیشی جیسی بدعنوانی سے باز نہیں آئے تو اﷲ تعالیٰ نے انہیں ظالم فرمایا۔ مفہوم: ''اور ایکہ کے باشندے (بھی) بڑے ظالم تھے!'' ایکہ، اصل میں گھنے جنگل کو کہتے ہیں۔ حضرت شعیب علیہ السلام جس قوم کی بستی کی طرف بھیجے گئے تھے، وہ ایسے ہی گھنے جنگل کے پاس واقع تھی۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اسی بستی کا نام مدین تھا۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ مدین کے علاوہ کوئی اور بستی تھی اور حضرت شعیب علیہ السلام اُس کی طرف بھی بھیجے گئے تھے۔


اہل مدین کو اﷲ تعالیٰ نے ایک دوسرے زاویے سے یوں سمجھایا ہے۔ چناں چہ سورۂ شعراء میں ہے، مفہوم: ''ایکہ کے باشندوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا، جب کہ شعیب نے اُن سے کہا کہ کیا تم اﷲ سے ڈرتے نہیں ہو؟ یقین جانو کہ میں تمہارے لیے ایک امانت دار پیغمبر ہوں، لہٰذا تم اﷲ سے ڈرو اور میری بات مانو، اور میں تم سے اِس کام پر کسی قسم کی کوئی اُجرت نہیں مانگتا، میرا اَجر تو صرف اُس ذات نے اپنے ذمے لے رکھا ہے جو سارے دُنیا جہان کی پروَرِش کرتی ہے۔ پورا پورا ناپ دیا کرو! اور اُن لوگوں میں سے نہ بنو جو دوسروں کو گھاٹے میں ڈالتے ہیں۔ اور سیدھی ترازو سے تولا کرو! اور لوگوں کو اُن کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو! اور زمین میں فساد مچاتے مت پھرو۔'' (سورۂ شعراء)

لیکن جب کسی طرح بھی اُن لوگوں نے اﷲ تعالیٰ اور اُس کے برگزیدہ پیغمبر حضرت شعیب علیہ السلام کی حکموں کو نہیں مانا اور اپنی بدعنوانیوں سے باز نہیں آئے تو پھر اﷲ تعالیٰ نے اُن پر زلزلے کا عذاب بھیجا جس میں وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ چناں چہ سورۂ عنکبوت میں آتا ہے، مفہوم: ''اور مدین کی طرف ہم نے اُن کے بھائی حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا۔ چناں چہ اُنہوں نے کہا: ''میری قوم کے لوگو! اﷲ کی عبادت کرو اور آخرت والے دن کی اُمید رکھو! اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو! پھر ہوا یہ کہ اُن لوگوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو جھٹلایا۔ چناں چہ زلزلے نے اُن کو آپکڑا اور وہ اپنے گھر میں اوندھے پڑے رہ گئے۔'' (سورۂ عنکبوت)

علاوہ ازیں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سورۂ بنی اسرائیل میں جو اخلاقی نصیحتیں فرمائیں اُن کے ایک یہ بھی ہے، مفہوم: ''اور جب کسی کو کوئی چیز پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو اور تولنے کے لیے صحیح ترازو استعمال کرو! یہی طریقہ درُست ہے اور اسی کا انجام بہتر ہے۔'' (سورۂ بنی اسرائیل)

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہم فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ناپ تول میں کمی بیشی کرنے والوں کو فرمایا کہ تم ایسا کام کر رہے ہو جس سے پہلی اُمتیں ہلاک ہوچکی ہیں۔ (جامع ترمذی)

حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''ناپ تول میں کمی بیشی کرنے سے قحط اِس طرح پڑ جاتا ہے، جس طرح زنا کی کثرت سے طاعون مسلط ہوجاتا ہے۔'' (ابن ماجہ)

قرآنِ کریم اور احادیث نبویہؐ کی مذکورہ بالا تعلیمات کی روشنی میں اگر ہم آج کل کے اپنے معاشی و اقتصادی حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح نظر آتی ہے کہ آج ہماری زندگیوں سے جو راحت و سکون اُٹھ گیا ہے، ہماری آمدنیوں سے جو خیر و برکت نکل گئی ہے، اور ہمارے معاشی و اقتصادی حالات جو زوال پذیر ہوگئے ہیں۔

من جملہ دیگر وجوہات کے ان کی ایک اہم اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم لوگ سوداگری و بیوپاری میں ناپ تول میں کمی بیشی سے کام لیتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ نے گزشتہ لوگوں کے ناپ تول میں کمی کرنے والے لوگوں کے حالات و واقعات سنا کر ہمیں اُن سے عبرت حاصل کرکے صحیح طرح سے ایمان داری کے ساتھ سودا گری، و بیوپاری اور تجارت کرنے کی تعلیم دی ہے۔
Load Next Story