دلکی چال سے سرپٹ دوڑنے کی طرف
افراط زرکوکنٹرول نہ کیا جاسکے تو یہ بڑھتا ہی رہتا ہے حتیٰ کہ معاشی حالات سخت ترین ابتری کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔
گزشتہ سال کے اسی ماہ جنوری میں افراط زرکی شرح 5 فیصد قرار دی گئی تھی۔ سال بھر افراط زرکی شرح میں اضافہ ہوتا رہا۔ سال کے آخر میں یہ شرح 11.5 فیصد بتائی گئی اور نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی اس سے بھی زائد شرح سے نبرد آزما ہونے کا وقت آچکا ہے۔ افراط زر کی کئی اقسام ماہرین نے بیان کی ہیں۔
دھیما افراط زر جسے رینگنے والا افراط زرکہا جاتا ہے جس میں قیمتوں میں سالانہ اضافہ 5 فیصد تک ہوتا ہے۔ پاکستان میں کئی مواقع پر بیان کیا جاتا ہے کہ شرح 5 فیصد ہے لیکن حقیقتاً کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا۔ دوسرے درجے کے افراط زر کو دلکی چال والا افراط زر کہا جاتا ہے۔ جس میں سالانہ 5 فیصد سے 20فیصد تک اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں عموماً اسی قسم کا افراط زر پایا جاتا ہے، لیکن پاکستان کے معاشی حالات جس قسم کے ادوار سے گزر رہے ہیں ان میں آیندہ دنوں میں افراط زرکا جو درجہ ملکی معیشت پر مسلط ہو سکتا ہے اسے سرپٹ دوڑنے والا افراط زر کہا جائے گا۔ اسے شدید افراط زرکہا جاتا ہے۔
جس میں قیمتوں کی سطح میں اضافہ 20سے30فیصد تک ہوتا ہے۔ جیسے پاکستان میں یک دم اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اب افراط زر کی شرح 11.5 فیصد بتائی جا رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے مختلف ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث اور آئی ایم ایف کی مسلط کردہ شرائط اس بات کا ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ دلکی چال اور سرپٹ دوڑنے والے گھوڑے سے ملتی جلتی افراط زر کے خدشات نظر آرہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے افراط زرکی شرح کو کم کرنے کی خاطر شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔ یہ 2008 کی بات تھی جب مہنگائی کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا تھا۔ انھی دنوں کی بات ہے جب گندم اور چینی کی قیمت میں اضافہ ہو چکا تھا۔
اب آٹا جس کا استعمال پاکستان بھر میں وسیع پیمانے پر بھی ہوتا ہے اور آٹے کی قیمت میں اضافے سے روٹی کی قیمت، بیکری کی اشیا کی قیمت اور گندم سے بننے والی ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔2008 میں آٹا بھی 15 روپے فی کلو سے تیزی سے بڑھ رہا تھا ایک موقع پر 25 روپے فی کلو سے بھی زائد ہو چکا تھا۔ اس موقع پر اس وقت کی گورنر اسٹیٹ بینک نے حکومت پر زور دیا کہ وہ گندم اور چینی کی قیمت ریگولیٹ کرے۔ اس موقع پر گندم کی خریداری کے لیے قرضوں کی فراہمی پر زور دیا گیا اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔
اس کے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک نے بھی شرح سود میں اضافہ کردیا۔ دیگر سخت مالیاتی اقدامات اٹھائے گئے جس کا جواز یہ بتایا گیا کہ بصورت دیگر افراط زر کی شرح دگنی ہو سکتی تھی ، لیکن اس وقت بھی تجارتی حلقے اس بات پر سخت نالاں تھے کہ اس طرح کے اقدامات سے کاروباری اور صنعتی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ پیداواری لاگت بڑھے گی اور افراط زر میں مزید اضافہ ہوگا۔
عوام یقینی طور پر مہنگائی سے سخت نالاں اور پریشان تھے، تنخواہ دار طبقہ انتہائی مفلسی کا مسافر بنتا چلا جا رہا تھا۔ سرکاری ملازمین اور پنشن یافتہ افراد حتیٰ کہ نجی ملازمین بھی اس بات کے خواہاں تھے کہ ان کی تنخواہوں اور پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہو۔ جلد ہی اس کا بھی حل تلاش کرلیا گیا کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں معقول اضافہ کردیا گیا۔ اس طرح ملک بھر کے اکثر نجی ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوا۔
ساتھ ہی مزدوروں کی مزدوری کے ریٹ بھی بڑھ گئے اور اس مہنگائی کی ایک اور خاص وجہ یہ تھی کہ ڈالر ریٹ بڑی تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ 2007 تک ڈالر جوکہ 60 یا 62 روپے کا تھا وہ 80 روپے سے زائد کا ہو چکا تھا اس کے ساتھ ہی حکومت نے جیسے ہی آئی ایم ایف سے رجوع کیا اسے کڑوی گولی کا نسخہ تھما دیا گیا۔ بیمار معیشت کو افاقہ دلانے کی خاطر کڑوی گولی کھلا تو دی گئی لیکن 13 برس بیت چکے اس کے سائیڈ افیکٹس ابھی تک معیشت کو نڈھال کیے ہوئے ہیں اور ایک ڈالر 80 روپے سے 180 روپے کا ہو چکا ہے۔
معیشت سے متعلق دوسری اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک عوام کے معیار زندگی بلند کرنے کے لیے ترقیاتی اخراجات کے نام پر بھاری رقم صرف کرتے ہیں۔ ملک بھر میں سیکڑوں منصوبوں پر کام چل رہا ہوتا ہے۔ جہاں لاکھوں مزدور، ہنرمند، کلرک، سپروائزر، منیجرز کام کرکے اپنی اپنی صلاحیتوں اور ہنرمندی کے لحاظ سے اجرت پاتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں ان افراد کے لیے مہنگائی کا مقابلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اب ترقیاتی اخراجات کا ایک بڑا حصہ کم کرنے کی صورت میں بہت سے ترقیاتی کاموں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جس کے باعث غریبوں کے لیے ایسا افراط زر جوکہ دلکی چال اور سرپٹ گھوڑے کے درمیان ہو زیادہ ہی عفریت ناک ثابت ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ افراط زرکوکنٹرول نہ کیا جاسکے تو یہ بڑھتا ہی رہتا ہے حتیٰ کہ معاشی حالات سخت ترین ابتری کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں اور ہمارے ملک کی یہی صورت حال ہے۔ اس قسم کی صورت حال کئی ملکوں میں دیکھی گئی۔ خراب ترین صورت 1930 کے عشرے میں جرمنی کی تھی جہاں لوگ ٹوکرے میں ڈال کر نوٹ لے کر جاتے پھر بھی تسلی بخش خریداری نہ کر پاتے۔ دنیا بھر کے بیشتر ملکوں نے افراط زر کی شرح دو یا تین فیصد تک رہنے دی ہے ،کیونکہ اتنا بھی افراط زر کے نہ ہونے پر معیشت کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملتا۔ پاکستان کے معاشی اعشاریے اتنے زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں کہ افراط زر کے پھیلاؤ سے بچاؤ ممکن ہو سکے ، اگر برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے تو درآمدات میں دگنا اضافہ ہو رہا ہے۔
عالمی مارکیٹ میں تقریباً ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ جنوری میں اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گزشتہ ایک سال کے دوران بارہا اضافہ ہوا ہے ، جس نے ہر شے پر مہنگائی کی آگ لگا دی ہے۔
دھیما افراط زر جسے رینگنے والا افراط زرکہا جاتا ہے جس میں قیمتوں میں سالانہ اضافہ 5 فیصد تک ہوتا ہے۔ پاکستان میں کئی مواقع پر بیان کیا جاتا ہے کہ شرح 5 فیصد ہے لیکن حقیقتاً کبھی ایسا نہیں بھی ہوتا۔ دوسرے درجے کے افراط زر کو دلکی چال والا افراط زر کہا جاتا ہے۔ جس میں سالانہ 5 فیصد سے 20فیصد تک اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں عموماً اسی قسم کا افراط زر پایا جاتا ہے، لیکن پاکستان کے معاشی حالات جس قسم کے ادوار سے گزر رہے ہیں ان میں آیندہ دنوں میں افراط زرکا جو درجہ ملکی معیشت پر مسلط ہو سکتا ہے اسے سرپٹ دوڑنے والا افراط زر کہا جائے گا۔ اسے شدید افراط زرکہا جاتا ہے۔
جس میں قیمتوں کی سطح میں اضافہ 20سے30فیصد تک ہوتا ہے۔ جیسے پاکستان میں یک دم اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اب افراط زر کی شرح 11.5 فیصد بتائی جا رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے مختلف ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث اور آئی ایم ایف کی مسلط کردہ شرائط اس بات کا ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ دلکی چال اور سرپٹ دوڑنے والے گھوڑے سے ملتی جلتی افراط زر کے خدشات نظر آرہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے افراط زرکی شرح کو کم کرنے کی خاطر شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔ یہ 2008 کی بات تھی جب مہنگائی کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا تھا۔ انھی دنوں کی بات ہے جب گندم اور چینی کی قیمت میں اضافہ ہو چکا تھا۔
اب آٹا جس کا استعمال پاکستان بھر میں وسیع پیمانے پر بھی ہوتا ہے اور آٹے کی قیمت میں اضافے سے روٹی کی قیمت، بیکری کی اشیا کی قیمت اور گندم سے بننے والی ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔2008 میں آٹا بھی 15 روپے فی کلو سے تیزی سے بڑھ رہا تھا ایک موقع پر 25 روپے فی کلو سے بھی زائد ہو چکا تھا۔ اس موقع پر اس وقت کی گورنر اسٹیٹ بینک نے حکومت پر زور دیا کہ وہ گندم اور چینی کی قیمت ریگولیٹ کرے۔ اس موقع پر گندم کی خریداری کے لیے قرضوں کی فراہمی پر زور دیا گیا اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔
اس کے ساتھ ہی اسٹیٹ بینک نے بھی شرح سود میں اضافہ کردیا۔ دیگر سخت مالیاتی اقدامات اٹھائے گئے جس کا جواز یہ بتایا گیا کہ بصورت دیگر افراط زر کی شرح دگنی ہو سکتی تھی ، لیکن اس وقت بھی تجارتی حلقے اس بات پر سخت نالاں تھے کہ اس طرح کے اقدامات سے کاروباری اور صنعتی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ پیداواری لاگت بڑھے گی اور افراط زر میں مزید اضافہ ہوگا۔
عوام یقینی طور پر مہنگائی سے سخت نالاں اور پریشان تھے، تنخواہ دار طبقہ انتہائی مفلسی کا مسافر بنتا چلا جا رہا تھا۔ سرکاری ملازمین اور پنشن یافتہ افراد حتیٰ کہ نجی ملازمین بھی اس بات کے خواہاں تھے کہ ان کی تنخواہوں اور پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ ہو۔ جلد ہی اس کا بھی حل تلاش کرلیا گیا کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں معقول اضافہ کردیا گیا۔ اس طرح ملک بھر کے اکثر نجی ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوا۔
ساتھ ہی مزدوروں کی مزدوری کے ریٹ بھی بڑھ گئے اور اس مہنگائی کی ایک اور خاص وجہ یہ تھی کہ ڈالر ریٹ بڑی تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ 2007 تک ڈالر جوکہ 60 یا 62 روپے کا تھا وہ 80 روپے سے زائد کا ہو چکا تھا اس کے ساتھ ہی حکومت نے جیسے ہی آئی ایم ایف سے رجوع کیا اسے کڑوی گولی کا نسخہ تھما دیا گیا۔ بیمار معیشت کو افاقہ دلانے کی خاطر کڑوی گولی کھلا تو دی گئی لیکن 13 برس بیت چکے اس کے سائیڈ افیکٹس ابھی تک معیشت کو نڈھال کیے ہوئے ہیں اور ایک ڈالر 80 روپے سے 180 روپے کا ہو چکا ہے۔
معیشت سے متعلق دوسری اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک عوام کے معیار زندگی بلند کرنے کے لیے ترقیاتی اخراجات کے نام پر بھاری رقم صرف کرتے ہیں۔ ملک بھر میں سیکڑوں منصوبوں پر کام چل رہا ہوتا ہے۔ جہاں لاکھوں مزدور، ہنرمند، کلرک، سپروائزر، منیجرز کام کرکے اپنی اپنی صلاحیتوں اور ہنرمندی کے لحاظ سے اجرت پاتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں ان افراد کے لیے مہنگائی کا مقابلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ لیکن اب ترقیاتی اخراجات کا ایک بڑا حصہ کم کرنے کی صورت میں بہت سے ترقیاتی کاموں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے جس کے باعث غریبوں کے لیے ایسا افراط زر جوکہ دلکی چال اور سرپٹ گھوڑے کے درمیان ہو زیادہ ہی عفریت ناک ثابت ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ افراط زرکوکنٹرول نہ کیا جاسکے تو یہ بڑھتا ہی رہتا ہے حتیٰ کہ معاشی حالات سخت ترین ابتری کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں اور ہمارے ملک کی یہی صورت حال ہے۔ اس قسم کی صورت حال کئی ملکوں میں دیکھی گئی۔ خراب ترین صورت 1930 کے عشرے میں جرمنی کی تھی جہاں لوگ ٹوکرے میں ڈال کر نوٹ لے کر جاتے پھر بھی تسلی بخش خریداری نہ کر پاتے۔ دنیا بھر کے بیشتر ملکوں نے افراط زر کی شرح دو یا تین فیصد تک رہنے دی ہے ،کیونکہ اتنا بھی افراط زر کے نہ ہونے پر معیشت کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملتا۔ پاکستان کے معاشی اعشاریے اتنے زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں کہ افراط زر کے پھیلاؤ سے بچاؤ ممکن ہو سکے ، اگر برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے تو درآمدات میں دگنا اضافہ ہو رہا ہے۔
عالمی مارکیٹ میں تقریباً ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ جنوری میں اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گزشتہ ایک سال کے دوران بارہا اضافہ ہوا ہے ، جس نے ہر شے پر مہنگائی کی آگ لگا دی ہے۔