خلائی مخلوق سے ممکنہ ملاقات ناسا نے مذہبی پیشواؤں کی خدمات حاصل کرلیں
یہ تفصیلات منظرِ عام پر آنے کے بعد افواہیں گردش میں ہیں کہ ناسا نے خلائی مخلوق دریافت کرلی ہے
کراچی:
امریکی خلائی تحقیقی ادارے 'ناسا' نے ایک نئے پروگرام کے تحت 24 مذہبی پیشواؤں کی خدمات حاصل کرلی ہیں جن میں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیشوا بھی شامل ہیں۔
تقریباً ایک سال تک جاری رہنے والے اس پروگرام کا مقصد خلائی مخلوق سے رابطے کی صورت میں مذہبی نقطہ نگاہ کو جاننا، سمجھنا، اور اسے مدنظر رکھتے ہوئے مناسب ترین ردِعمل کا تعین کرنا ہے۔
واضح رہے کہ کائنات میں زمین جیسے سیاروں کے علاوہ وہاں پر انسان جیسی ذہین اور ترقی یافتہ مخلوق ملنے کے امکانات بہت روشن ہیں لیکن اب تک ایسی کسی 'خلائی مخلوق' سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آنے والے ہزاروں سال تک ہمیں خلائی مخلوق کا کوئی سراغ نہ ملے، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ چند مہینوں کے دوران ہمیں اپنے جیسی کسی ذہین خلائی مخلوق کا پیغام موصول ہوجائے۔
ایسی صورت میں ایک پوری نوعِ انسانی کی حیثیت سے ہمارا جامع ترین جواب کیا ہونا چاہیے جو ہماری علمی سطح کے ساتھ ساتھ مذہبی عقائد کا اظہار بھی کرے؟ اس منصوبے کا مقصد یہی تعین کرنا ہے۔
سال بھر جاری رہنے والے اس پروگرام کو 'فلکی حیاتیات کے سماجی مضمرات' کا عنوان دیا گیا ہے جو پرنسٹن یونیورسٹی، نیو جرسی کے 'مرکز برائے مذہبی تحقیق' (سینٹر فار تھیولوجیکل انکوائری) یا مختصراً 'سی ٹی آئی' میں منعقد کیا جارہا ہے۔
امریکی اخبار 'دی ٹائمز' میں اس پروگرام کی تفصیلات منظرِ عام پر آنے کے بعد سے یہ چہ مگوئیاں بھی شروع ہوگئی ہیں کہ شاید ناسا نے خلائی مخلوق دریافت کرلی ہے یا اس کا رابطہ کسی ذہین خلائی مخلوق سے ہوگیا ہے۔ تاہم اس بارے میں اب تک ناسا کی جانب سے کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔
امریکی خلائی تحقیقی ادارے 'ناسا' نے ایک نئے پروگرام کے تحت 24 مذہبی پیشواؤں کی خدمات حاصل کرلی ہیں جن میں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیشوا بھی شامل ہیں۔
تقریباً ایک سال تک جاری رہنے والے اس پروگرام کا مقصد خلائی مخلوق سے رابطے کی صورت میں مذہبی نقطہ نگاہ کو جاننا، سمجھنا، اور اسے مدنظر رکھتے ہوئے مناسب ترین ردِعمل کا تعین کرنا ہے۔
واضح رہے کہ کائنات میں زمین جیسے سیاروں کے علاوہ وہاں پر انسان جیسی ذہین اور ترقی یافتہ مخلوق ملنے کے امکانات بہت روشن ہیں لیکن اب تک ایسی کسی 'خلائی مخلوق' سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آنے والے ہزاروں سال تک ہمیں خلائی مخلوق کا کوئی سراغ نہ ملے، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ چند مہینوں کے دوران ہمیں اپنے جیسی کسی ذہین خلائی مخلوق کا پیغام موصول ہوجائے۔
ایسی صورت میں ایک پوری نوعِ انسانی کی حیثیت سے ہمارا جامع ترین جواب کیا ہونا چاہیے جو ہماری علمی سطح کے ساتھ ساتھ مذہبی عقائد کا اظہار بھی کرے؟ اس منصوبے کا مقصد یہی تعین کرنا ہے۔
سال بھر جاری رہنے والے اس پروگرام کو 'فلکی حیاتیات کے سماجی مضمرات' کا عنوان دیا گیا ہے جو پرنسٹن یونیورسٹی، نیو جرسی کے 'مرکز برائے مذہبی تحقیق' (سینٹر فار تھیولوجیکل انکوائری) یا مختصراً 'سی ٹی آئی' میں منعقد کیا جارہا ہے۔
امریکی اخبار 'دی ٹائمز' میں اس پروگرام کی تفصیلات منظرِ عام پر آنے کے بعد سے یہ چہ مگوئیاں بھی شروع ہوگئی ہیں کہ شاید ناسا نے خلائی مخلوق دریافت کرلی ہے یا اس کا رابطہ کسی ذہین خلائی مخلوق سے ہوگیا ہے۔ تاہم اس بارے میں اب تک ناسا کی جانب سے کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی ہے۔