غریبوں کا سوشل میڈیا

بعض دیواری تحریروں کامشتہر’’اہلیان فلاں‘‘یا’’محبان فلاں‘‘کاقلمی نام بھی اختیارکرتاہے،جب کہ کچھ اس سےبھی پُراسرار۔۔۔

پتا نہیں سرکار ہم جیسے ملک کی عوام سے آزادی اظہار کا سستا ترین ذریعہ چھیننے کے درپے کیوں ہے۔ فوٹو: زیگ ٹاک ڈاٹ کام

وال چاکنگ کا شمار کبھی نہ حل ہونے والے مسائل میں کیا جاتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں ایک قانون منظور ہوا کہ وال چاکنگ کے مرتکب افراد کو چھ ماہ قید اور پانچ ہزار جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

کراچی میں دیواریں صاف کرنے کے جتن نئے نہیں۔ پتا نہیں سرکار ہم جیسے ملک کی عوام سے آزادی اظہار کا سستا ترین ذریعہ چھیننے کے درپے کیوں ہے۔



یہ غریب عوام کے لیے فیس بک اور ٹوئٹر کی طرح اہم ہے۔ پھر ہماری دیواروںپر تو ایک تاریخ رقم ہے۔

آج بھی کوئی دیواری تحریر ہمیں ماضی میں لے جاتی ہے، بشرطے کہ اس دوران چاکنگ اور دیوار دونوں کے رنگوں نے وفا کی ہو یا اس پرنیا روغن نہ چڑھا دیا گیا ہو۔۔۔ کبھی برسات میں دھلی دیواروں کی پرانی تحریریں نمایاں ہوجاتی ہیں۔۔۔



جیسے1997ء میں جماعت اسلامی کے انتخابی بائیکاٹ کی چاکنگ ''ووٹ دینے کا ابھی موڈ نہیں ہے کل آنا'' یا پھر 1990ء کی دہائی میں ایک اخبار کے خلاف دیواروں پر لکھے یہ نعرے ''جنگ سے نفرت' امن سے محبت'' وغیرہ وہ نعرے ہیں جو ماضی قریب میں اپنے سے جڑے کسی مخصوص واقعے کی یاد دلاتے ہیں۔



اظہارِ رائے سے اظہارِ محبت تک' آستانوں سے دواخانوں تک۔ بہت سے واقعات عام ذرائع ابلاغ کے بہ جائے دیواروں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔



کہیں ملازمتوں اور درس وتدریس کے اشتہار... کسی کے لہو سے انقلاب کی نوید... کسی کو سرخ سلام... کسی کے جینے کے نعرے تو کہیں کسی کے لیے نعرۂ مرگ... کسی کے قتل و کفر کے فتوے ،تو کہیں دیواروں پر لکھ کر انتباہ کیا گیا کہ ''یہاں'' لکھنا منع ہے...



انتخابی نشانوں کی شبیہ، تو کہیں جلسے جلوس کی خبر... کسی کی رہائی کی دہائی ہے، تو کہیں کسی کی رہائی پہ دہائی...! کہیں اشعار تو کہیں مذہبی تہوار... الغرض ہر طرح کے خیالات و جذبات آپ کو ان دیواروں پر مل جائیں گے۔

2011ء میں کراچی میں ایک دیواری تحریر وجہ تنازع بھی بنی ''ضروری ہے ضروری ہے مہاجر صوبہ ضروری ہے!''



اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے اس پر شدید ردعمل دیا۔ پھر ذوالفقار مرزاکے بیان پر کراچی اور حیدرآباد میں زبردست احتجاج ہوا اورشہر کی دیواریں پھر اس احتجاج کی بھی گواہ بنیں۔



کراچی پریس کلب اور گرد ونواح کی دیواروں کا رنگ خاصا منفرد۔ یہاں ہر مظاہرے اور احتجاج کرنے والا اپنی ''حاضری'' ضرور لگاتا ہے۔




۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



کچھ عرصے قبل شہر بھر کی دیواروں پر ایک ''تحریک'' کا بڑا چرچا رہا ''چار گھنٹے ڈیوٹی ٹائم...'' ساتھ ہی اس تحریک کے سرخیل ''شکیل نائی'' کا نام بھی لکھا ہوتا۔

خدا جانے یہ بھلا مانس دُہری ملازمتوں میں پسنے والوں سے کیسی ہمدردی رکھتا تھا کہ جو 12 سے 16 اور 18 گھنٹے کام کرکے روکھی سوکھی کھاتے تھے...جب لوگوں کو 8گھنٹے کام کا حق نہیں مل رہا تو 4گھنٹے بھلا کیوں کر ہوسکتے ہیں۔دیواری نعروں سے ہی ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم کس کی راجدھانی میں ہیں... علاقے کا سیاسی و مذہبی رجحان کیا ہے۔ جابجا لکھے ''اگر نہ مگر۔۔۔نگر'' یا فلاں کے متوالے فلاں علاقے والے'' وغیرہ اس کا پتا دیتے ہیں۔ بعض دیواری تحریروں کا مشتہر ''اہلیان فلاں'' یا ''محبان فلاں'' کا قلمی نام بھی اختیار کرتا ہے، جب کہ کچھ اس سے بھی پُراسرار ہوتی ہیں ۔



جیسے آپ نے اس ہی شہر میں لکھا دیکھا ہوگا ''آؤ سچ بولیں'' یا ''سچ بولنا منع ہے!'' وغیرہ۔ دیواری تحریریں بعض اوقات عوام کی بے چینی کی عکاس بھی ہوتی ہیں، جیسے سن سیٹ بلیوارڈاور کورنگی روڈ کے سنگم پر ایک گم نام مطالبہ کافی عرصے درج رہا ''کراچی کو۔۔۔ کے حوالے کیا جائے اور۔۔۔کے خلاف جہاد کیا جائے'' اس ہی طرح ایک جگہ تو حد ہی ہوگئی۔



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



ایک انتہائی مخدوش دیوار خطرناک طریقے سے یوں جھکی تھی کہ گویا اب گری کہ جب گری' اس پر نہایت اہتمام سے چونا کرا کے خوش خط لکھوایا گیا ''دیوار مخدوش ہے' یہاں گاڑی کھڑی نہ کریں!''



سابق ناظم مصطفیٰ کمال نے شہرکی صفائی کا بیڑہ اٹھایا اور شہر کو اپنانے کی مہم "I own Karachi" شروع کی تو رضاکاروں کو دیواریں صاف کرتے دیکھا گیا۔ یار لوگوں نے کہا کہ انہوں نے بھی تو خوب صورت رنگ وروغن کے بعد بھی لکھ ہی دیا ناں ''آئی اون کراچی!''



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



ذرا سوچیں دیواریں کوری ہوگئیں، تو پھر کوئی یہ کیسے کہے گا کہ فلاں بات نوشتہ دیوار ہے یا پھر فلاں نوشتہ دیوار پڑھ لےوغیرہ۔۔



اتنی ''اہمیت'' کے باوجود اگر وال چاکنگ مٹانے کی یہ کوشش کارگر ہو جاتی ہے تو یہ اچھی بات ہوگی، کیوں کہ یہ ساری ''اہمیت'' ہمیں دوسروں کی دیواروں پر نظر آرہی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم پُرزور مطالبہ کرتے کہ 'نہ مٹاؤ ''نوشتہ دیوار'' کو مرے شہر سے...!' کیوں کہ یہ دراصل غریبوں کا سوشل میڈیا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story