امن مذاکرات میں مثبت پیش رفت
حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کے نتیجہ خیز سمت میں بڑھنے کی خوش آیند اطلاعات کی آمد کا سلسلہ جاری ہے
حکومت اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مابین مذاکرات کے نتیجہ خیز سمت میں بڑھنے کی خوش آیند اطلاعات کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، مذاکراتی کمیٹیاں دو طرفہ مکالمہ کے مختلف مراحل میں بات چیت کی اصل روح کے مطابق اتفاق رائے کی کسی منزل تک پہنچتی ہیں تو اس سے بڑھ کر قوم کے لیے خوشخبری کیا ہو سکتی ہے۔ ملک کا وسیع تر مفاد اسی امر میں پوشیدہ ہے کہ مذاکرات جلد مکمل ہوں، طالبان جنگ بندی کا اعلان کریں تا کہ جان لیوا وارداتوں سے اٹھنے والے شکوک و شبہات کا خاتمہ ہو، ان واقعات میں ملوث عناصر کو قانون کے شکنجہ میں لایا جا سکے، امن کی طرف جانے والے قدم کسی تیسری قوت کی سازشوں کے باعث رک نہ سکیں اور ملک کے 18 کروڑ عوام کو سکون، اطمینان، دلی طمانیت اور پائیدار امن کا یقین ہو جائے۔ یہ بھی خوش آیند پیش رفت ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف مکمل رجائیت پسندی کے ساتھ اور پرجوش طریقے سے ساری بات چیت کو خود مانیٹر کر رہے ہیں، انھوں نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے پر تشدد کارروائیاں بند کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت خلوص نیت سے مذاکرات کو کامیاب بنانا چاہتی ہے۔ طالبان سے مذاکرات کے لیے قائم حکومتی کمیٹی سے ملاقات میں نواز شریف نے کہا کہ طالبان کی طرف سے اس قسم کی کارروائیوں سے لاتعلقی کا اعلان مثبت پیشرفت ہے، تاہم یہ کافی نہیں، یہ سلسلہ بند کرنے کے لیے تمام فریقوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
انھوں نے کمیٹی کو ہدایت کی کہ وہ اپنا کام سنجیدگی اور جانفشانی سے جاری رکھے۔ ادھر ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے واضح کیا ہے کہ حالیہ بم دھماکوں میں تحریک طالبان ملوث نہیں، دھماکوں میں ملوث قوتوں کو تلاش کرنا حکومت کا کام ہے۔ ہم ایسے دھماکوں کی حمایت نہیں کرتے جن میں بے گناہ لوگوں کی ہلاکتیں ہوں۔ یہ بات چیت کا خوش آیند پہلو ہے کہ طالبان قتل و غارت اور افسوس ناک واقعات سے فوری لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں، تاہم اس ضمن میں حکام اور طالبان قیادت اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان شدت پذیر وارداتوں کے پیچھے کون سی ملک دشمن طاقتیں سرگرم عمل ہیں تا کہ ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکے، ورنہ بیگناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے مذاکرات کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ ادھر منگل کو حکومتی کمیٹی کے رکن میجر (ر) محمد عامر کے گھر ہونے والی دونوں کمیٹیوں کے ارکان کی غیر رسمی ملاقات میں یہ امید افزا امکان ظاہر کیا گیا کہ دونوں اطراف سے مکمل فائر بندی کو یقینی بنانے کے لیے بات کی جائے گی اور اس وقت جب دونوں جانب سے کوئی کسی کی نیت کے حوالے سے ذرا برابر شک نہیں کر رہا کہ پشاور اور گرد و نواح میں مسلسل دھماکے کون کرا رہا ہے۔
یاد رہے ایک روز قبل قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے جوانوں پر بھی حملے کیے گئے، پھر پشاور میں خودکش دھماکے میں چار خواتین جاں بحق ہوئیں، منگل کو پشاور میں سینما گھر پر درد انگیز و ہلاکت خیز بم دھماکا ہوا، کئی افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات کے دوران دھماکے کرنے والے اگر حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں تو وہ بالواسطہ طور پر اپنے آپ کو طالبان قیادت کے اثر و رسوخ کے دائرے سے بھی باہر قرار دے رہے ہیں۔ یہ ''سپوائلر'' ہیں، ان کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔ اب ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ دونوں طرف سے سراغ لگایا جائے کہ یہ دھماکے کہیں کوئی تیسری قوت یا بیرونی سازشی عناصر کی پاکستان دشمنی کا شاخسانہ تو نہیں۔ اس ضمن میں بعض سیاسی رہنماؤں کے بیانات قابل غور ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے رکن قومی اسمبلی حاجی غلام احمد بلور کے مطابق جب سے نئی حکومت آئی ہے لوگ زیادہ مر رہے ہیں، اب طالبان ذمے داری قبول نہیں کرتے تو دھماکے کون کر رہا ہے، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مفتی کفایت اﷲ نے امید ظاہر کی ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوں گے، آٹھ سال بعد مذاکرات کا دور شروع ہوا ہے، اس لیے مذاکرات سبوتاژ نہیں ہونے چاہئیں، فریقین احتیاط کا مظاہرہ کریں اور اس کو کامیاب بنائیں، قوم کو اس کا بے چینی سے انتظار ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پشاور دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ملک میں امن کے قیام کے لیے جاری بات چیت سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک نے کہا کہ ثابت ہو گیا ہے کہ ہمارے قومی دشمن ہمیں امن قائم کرنے کے قابل نہیں بنانا چاہتے اور امن مذاکرات کو سبوتاژ کر کے پاکستان میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں، جب بھی ملک کے اندر مذاکرات کی فضا بنتی ہے اس طرح کی دہشتگردی ہو جاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے طالبان اور حکومت کے مذاکرات کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مذاکرات کامیابی پر ہی ختم ہونے چاہئیں۔ بلوچستان میں حکمران نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ علیحدگی پسند بلوچ رہنماؤں سے جلد مذاکرات شروع کرنے والے ہیں، وزیر اعظم نواز شریف نے مذاکرات کی حمایت کا وعدہ کر رکھا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے، موافق فضا اور ماحول بننے میں کچھ وقت لگے گا، مذاکرات پر بداعتمادی کا اظہار نامناسب ہے۔ پروفیسر محمد ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ نے طالبان کی شوریٰ سے 2 روزہ بات چیت کی تفصیل سے آگاہ کیا، بعد ازاں اجلاس کو بتایا کہ طالبان شوریٰ نے حکومتی کمیٹی کے نکات پر مثبت اور حوصلہ افزا ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ طالبان کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کھلے ذہن سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور حکومت کی بھی یہی خواہش ہے کہ قوم کو جلد خوشخبری سنائیں۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ حکومتی کمیٹی کی جانب سے اطمینان کا جب کہ طالبان کی جانب سے دور اندیشی کا اظہار کیا گیا۔ مذاکرات کی کامیابی کے حوالہ سے وزیر اعظم نواز شریف سے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں بطور خاص ملاقات کی۔
حقیقت یہ ہے کہ امن بات چیت ملکی معیشت کے استحکام سے الگ نہیں کی جاسکتی۔ بدامنی کا سب سے پہلا شکار ہی ملکی اقتصادی صورتحال بنتی ہے، تاہم قوم کے لیے یہ اطلاع خوش کن ہو گی کہ آئی ایم ایف کے ہیڈ آف مشن جیفری فرینک نے پاکستانی معیشت کے درست سمت میں آگے بڑھنے کا اقرار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی کارکردگی قابل اطمینان ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کو 14 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی قسط ادا کر دی ہے جو سابقہ حکومت کے دور میں آئی ایم ایف سے لیے گئے اسٹینڈ بائی قرضے کی 27 ویں قسط ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت اور طالبان بات چیت ایک تاریخ ساز بریک تھرو پر منتج ہو، پوری قوم کی یہی دعا ہے۔
انھوں نے کمیٹی کو ہدایت کی کہ وہ اپنا کام سنجیدگی اور جانفشانی سے جاری رکھے۔ ادھر ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے واضح کیا ہے کہ حالیہ بم دھماکوں میں تحریک طالبان ملوث نہیں، دھماکوں میں ملوث قوتوں کو تلاش کرنا حکومت کا کام ہے۔ ہم ایسے دھماکوں کی حمایت نہیں کرتے جن میں بے گناہ لوگوں کی ہلاکتیں ہوں۔ یہ بات چیت کا خوش آیند پہلو ہے کہ طالبان قتل و غارت اور افسوس ناک واقعات سے فوری لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں، تاہم اس ضمن میں حکام اور طالبان قیادت اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان شدت پذیر وارداتوں کے پیچھے کون سی ملک دشمن طاقتیں سرگرم عمل ہیں تا کہ ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکے، ورنہ بیگناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے مذاکرات کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ ادھر منگل کو حکومتی کمیٹی کے رکن میجر (ر) محمد عامر کے گھر ہونے والی دونوں کمیٹیوں کے ارکان کی غیر رسمی ملاقات میں یہ امید افزا امکان ظاہر کیا گیا کہ دونوں اطراف سے مکمل فائر بندی کو یقینی بنانے کے لیے بات کی جائے گی اور اس وقت جب دونوں جانب سے کوئی کسی کی نیت کے حوالے سے ذرا برابر شک نہیں کر رہا کہ پشاور اور گرد و نواح میں مسلسل دھماکے کون کرا رہا ہے۔
یاد رہے ایک روز قبل قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے جوانوں پر بھی حملے کیے گئے، پھر پشاور میں خودکش دھماکے میں چار خواتین جاں بحق ہوئیں، منگل کو پشاور میں سینما گھر پر درد انگیز و ہلاکت خیز بم دھماکا ہوا، کئی افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات کے دوران دھماکے کرنے والے اگر حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں تو وہ بالواسطہ طور پر اپنے آپ کو طالبان قیادت کے اثر و رسوخ کے دائرے سے بھی باہر قرار دے رہے ہیں۔ یہ ''سپوائلر'' ہیں، ان کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔ اب ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ دونوں طرف سے سراغ لگایا جائے کہ یہ دھماکے کہیں کوئی تیسری قوت یا بیرونی سازشی عناصر کی پاکستان دشمنی کا شاخسانہ تو نہیں۔ اس ضمن میں بعض سیاسی رہنماؤں کے بیانات قابل غور ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے رکن قومی اسمبلی حاجی غلام احمد بلور کے مطابق جب سے نئی حکومت آئی ہے لوگ زیادہ مر رہے ہیں، اب طالبان ذمے داری قبول نہیں کرتے تو دھماکے کون کر رہا ہے، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مفتی کفایت اﷲ نے امید ظاہر کی ہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوں گے، آٹھ سال بعد مذاکرات کا دور شروع ہوا ہے، اس لیے مذاکرات سبوتاژ نہیں ہونے چاہئیں، فریقین احتیاط کا مظاہرہ کریں اور اس کو کامیاب بنائیں، قوم کو اس کا بے چینی سے انتظار ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پشاور دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ملک میں امن کے قیام کے لیے جاری بات چیت سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک نے کہا کہ ثابت ہو گیا ہے کہ ہمارے قومی دشمن ہمیں امن قائم کرنے کے قابل نہیں بنانا چاہتے اور امن مذاکرات کو سبوتاژ کر کے پاکستان میں انارکی پھیلانا چاہتے ہیں، جب بھی ملک کے اندر مذاکرات کی فضا بنتی ہے اس طرح کی دہشتگردی ہو جاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے طالبان اور حکومت کے مذاکرات کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مذاکرات کامیابی پر ہی ختم ہونے چاہئیں۔ بلوچستان میں حکمران نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ علیحدگی پسند بلوچ رہنماؤں سے جلد مذاکرات شروع کرنے والے ہیں، وزیر اعظم نواز شریف نے مذاکرات کی حمایت کا وعدہ کر رکھا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے، موافق فضا اور ماحول بننے میں کچھ وقت لگے گا، مذاکرات پر بداعتمادی کا اظہار نامناسب ہے۔ پروفیسر محمد ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ نے طالبان کی شوریٰ سے 2 روزہ بات چیت کی تفصیل سے آگاہ کیا، بعد ازاں اجلاس کو بتایا کہ طالبان شوریٰ نے حکومتی کمیٹی کے نکات پر مثبت اور حوصلہ افزا ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ طالبان کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کھلے ذہن سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور حکومت کی بھی یہی خواہش ہے کہ قوم کو جلد خوشخبری سنائیں۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ حکومتی کمیٹی کی جانب سے اطمینان کا جب کہ طالبان کی جانب سے دور اندیشی کا اظہار کیا گیا۔ مذاکرات کی کامیابی کے حوالہ سے وزیر اعظم نواز شریف سے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں بطور خاص ملاقات کی۔
حقیقت یہ ہے کہ امن بات چیت ملکی معیشت کے استحکام سے الگ نہیں کی جاسکتی۔ بدامنی کا سب سے پہلا شکار ہی ملکی اقتصادی صورتحال بنتی ہے، تاہم قوم کے لیے یہ اطلاع خوش کن ہو گی کہ آئی ایم ایف کے ہیڈ آف مشن جیفری فرینک نے پاکستانی معیشت کے درست سمت میں آگے بڑھنے کا اقرار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی کارکردگی قابل اطمینان ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کو 14 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی قسط ادا کر دی ہے جو سابقہ حکومت کے دور میں آئی ایم ایف سے لیے گئے اسٹینڈ بائی قرضے کی 27 ویں قسط ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت اور طالبان بات چیت ایک تاریخ ساز بریک تھرو پر منتج ہو، پوری قوم کی یہی دعا ہے۔