اسلام کے سپہ سالار اور متعدد حضرات حصہ اول
اس میدان جنگ میں اس قوم کے سرکش راڈرک پرخود حملہ آورہوں گا اورانشااللہ تعالیٰ اسے قتل کرڈالوں گا،تم سب میرا ساتھ دینا۔
ANKARA:
پاکستان کے جو آج حالات ہیں، اس کی وجہ محب وطن اور غیور حکمرانوں کی غفلت اور بے حسی ہے، بیرونی قوتوں خصوصاً امریکا نے امت مسلمہ کی کمزوری سے خوب فائدہ اٹھایا اور انھیں اپنے بوٹوں تلے مسلنے کی کوشش وہ ہمیشہ کرتا ہے، کئی ملکوں کو تہہ و بالا کرنے اور ان کا نظام تباہ کرنے کے بعد اب اس کی نگاہ پاکستان پر ہے۔
ہر مخلص اور ذی شعور پاکستانی وزیر اعظم پاکستان کی نیت پر شبہ کرنے کے بجائے سابقہ حکومتوں کے کرتوت اور ہوس زر کے حصول کی داستان کو مدنظر رکھتا ہے ، لیکن اس کے ساتھ ہی موجودہ حکمرانوں کی حکمت عملی سے بھی نالاں ہے۔ ان کے اطراف میں ایسے لوگ ہیں جو پاکستان کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
مہنگائی کے خاتمے کے بہت سے طریقے ہیں جب آپ جانتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے پاکستان کو تمام قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے، تب اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایک نہیں بے شمار کارخانے اور آمدنی کے ذرایع کے لیے بہت سے ایسے ادارے وجود میں لائے جاسکتے تھے، جن سے بے روزگاری ، دہشت گردی کا خاتمہ آسانی سے ہو سکتا تھا۔ آج پاکستان کل سے بدتر حالات میں ہے، قرضوں کے بوجھ نے اس کی کمر توڑنے کی کوشش کی ہے۔
امریکا کا منفی کردار پوری دنیا کے سامنے ہے، بھارت اور امریکا نے ایسا جال بنا کہ CPEC پر کام کرنے والے فنی ماہرین اور سرمایہ کار کام کو آگے بڑھانے کے بجائے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ CPEC کو گردشی قرضوں سے آزاد کرایا جائے۔ گردشی قرضہ پاکستانی کرنسی (روپیہ) کی قدر کم ہونے کی وجہ سے بڑھ رہا ہے، سی پیک پر کام کرنا اور چینی فنی ماہرین کا چلے جانا آئی ایم ایف کا پہلا مقصد تھا جو قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے پورا ہو چکا ہے۔
پاکستان میں ایک ڈالر 180 روپے کا ہے، جب کہ بھارت اور بنگلادیش میں ایک ڈالر کی شرح 100 روپے سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان ایک طرف آئی ایم ایف تو دوسری طرف FATAF کی سازش کا شکار ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی نگاہ میں پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا کھٹکتا ہے۔
مغربی ممالک خاص طور پر امریکا یہ نہیں چاہتا ہے کہ کوئی مسلم ملک جوہری طاقت بنے یا پھر جوہری معلومات حاصل کرسکے، یہی وجہ ہے کہ امریکا میں کسی طالب علم کو جوہری نیوکلیئر فزکس میں داخلہ نہیں دیا جاتا ہے۔ ان سپر طاقتوں کی مخالفت اور تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان کا جوہری طاقت بننا ایک کرشمے سے کم نہیں، بے شک اس کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا شامل تھی۔
اپنے ناپاک عزائم کی وجہ سے آئی ایم ایف پاکستان پر قرضے کا بوجھ مسلسل بڑھا رہا ہے۔ پاکستان قرضوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے ، اب پاکستان وہ کام کرنے جا رہا ہے، جس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی لیکن حالات ابتر ہوچکے تھے۔ اس کے باوجود ہر شخص امید کا دیا روشن کرکے اجالے کا منتظر تھا۔
پچھلی حکومتوں نے بھی دل کھول کر قرضے لیے، پیپلز پارٹی نے 16 ارب اور مسلم لیگ (ن) نے اس سے ڈبل قرضہ لے لیا اور پی ٹی آئی بھی حالات کی سنگینی کے تحت قرضے لینے پر مجبور ہوگئی اور اب ملک معاشی بحران کا شکار ہے اور دشمن اپنی چال میں کامیاب ہو گیا۔ وفاقی کابینہ نے بروز منگل 28 دسمبر عمران خان کی صدارت میں اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے متنازع بل کی منظوری دے دی ہے، اور اب قومی اسمبلی میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے 360 ارب روپے کا منی بجٹ پیش کردیا ہے۔
مہنگائی کے عذاب اور ملک کی سالمیت کو خطرے سے بچانے کے لیے، سیاستدانوں، دانشوروں کی آرا سامنے آ رہی ہیں، یہ مفکرین اس منی بجٹ کو امریکا کا ایجنڈا قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل قومی اسمبلی سے پاس ہو جاتا ہے تو پاکستان کی موجودہ حالت برقرار نہیں رہے گی اور ہمارا دفاعی نظام بھی بری طرح متاثر ہوگا۔
ڈیفنس کی مد میں جو رقم خرچ ہوتی ہے اس پر بھی پابندی لگا دی جائے گی۔ مزید دکھ اور پچھتاوے کی یہ بات ہے کہ اسٹیٹ بینک میں پہلے ہی سے ان کا آدمی موجود ہے۔ ملکی معاشیات پر گہری نگاہ رکھنے والے ماہر معاشیات جناب اشفاق حسن نے خود مختاری بل پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں کہا کہ منی بجٹ کی ذمے دار سابقہ حکومتیں ہیں۔ کہا پاکستان کی یہی قیمت ہے صرف ایک بلین ڈالر۔ ایسا ہوا تو بہت برا ہوگا۔
اس سیاہ دن کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ سابق حکمرانوں نے اپنی پالیسیوں کے باعث ہمیں غلام قوم بنا دیا ہے۔ مقتدر حضرات کا یہ بھی کہنا تھا کہ منی بجٹ کے آجانے سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ ایک غلام قوم کے لیے تو ہر دن قیامت کا ہی ہوتا ہے۔ جب اس کی آزادی سلب کرلی جائے وہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہ کرسکے تو اس سے بڑا دکھ اور عذاب کیا ہوگا۔
بھارت اور اس کے ساتھی ملک تو یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان شکست، غربت، افلاس کی چکی میں پستا رہے اور جس طرح انھوں نے معصوم و بے گناہ لوگوں کو درندگی کا نشانہ بنایا ہے اسی طرح وہ پاکستان پر بھی اپنا حکم چلالیں لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کا انشا اللہ کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکے گا۔ افواج پاکستان اپنے ملک کی حفاظت کرنا اچھی طرح جانتی ہے۔
مسلم حکمران اگر اللہ کے احکام پر عمل کر رہے ہوتے تو آج امریکا مسلمانوں کا غلام ہوتا۔ ہندوستان کے سفاک مودی کی جرأت نہ ہوتی ہر روز کشمیریوں کو شہید کرنے کی۔ ان کے گھروں کو آگ لگانے اور معصوم عورتوں کو اغوا کرنے کی۔ مسلم حکمران اپنے مسلمان بھائیوں پر ہونے والے ظلم کو دیکھ کر ایسے خاموش ہیں جیسے وہ ان کے اپنے بھائی نہیں ہیں مسلم نہیں ہیں، انسان نہیں۔ ہائے رے بے حسی، سب کچھ بھول گئے، رسول پاکؐ کی تعلیم، اسوہ حسنہ، انصاف، مسلم سپہ سالاروں کی قیادت، دشمن کو شکست فاش ۔ مجھے اس وقت فاتح اندلس طارق بن زیادؒ کا اپنے فوجیوں سے خطاب یاد آگیا ہے۔ ایمان افروز تقریر میں انھوں نے فرمایا:
اے لوگو! اب راہ فرار کہاں ہے؟ سمندر تمہارے پیچھے اور دشمن تمہارے آگے ہے، اللہ کی قسم! تمہارے لیے صدق و صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں، جان لو تم اس جزیرہ نما میں اس قدر بے وقعت ہو کہ کم ظرف لوگوں کے دستر خوان پر یتیم بھی اتنے بے وقعت نہیں ہوتے۔ اس جزیرہ نما میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے دین کو فروغ دینے پر اللہ کی طرف سے ثواب تمہاری قسمت بن چکا ہے۔ یاد رکھو! جس چیز کی دعوت دے رہا ہوں اس پر خود لبیک کہوں گا۔
اس میدان جنگ میں اس قوم کے سرکش راڈرک پر خود حملہ آور ہوں گا اور انشا اللہ تعالیٰ اسے قتل کر ڈالوں گا، تم سب میرا ساتھ دینا۔ اس کے بعد طارق بن زیادؒ نے اپنے بحری بیڑے کو آگ لگا دی۔ اس عمل کو دیکھ کر فوجیوں نے کہا کہ یہ بات عقل کی رو سے درست نہیں اس لیے کہ ہم اپنے وطن سے بہت دور ہیں واپس کس وسیلے سے پہنچیں گے۔ طارقؒ نے جب یہ بات سنی تو ہنس دیے اور تلوار پر ہاتھ رکھ کر بولے، ہر ملک ہمارا ملک ہے کیونکہ وہ ہمارے خدا کا ملک ہے جذبہ جہاد و شہادت سے مغلوب مومن کسی باطل قوت سے نہیں ڈرتا۔
(جاری ہے۔)
پاکستان کے جو آج حالات ہیں، اس کی وجہ محب وطن اور غیور حکمرانوں کی غفلت اور بے حسی ہے، بیرونی قوتوں خصوصاً امریکا نے امت مسلمہ کی کمزوری سے خوب فائدہ اٹھایا اور انھیں اپنے بوٹوں تلے مسلنے کی کوشش وہ ہمیشہ کرتا ہے، کئی ملکوں کو تہہ و بالا کرنے اور ان کا نظام تباہ کرنے کے بعد اب اس کی نگاہ پاکستان پر ہے۔
ہر مخلص اور ذی شعور پاکستانی وزیر اعظم پاکستان کی نیت پر شبہ کرنے کے بجائے سابقہ حکومتوں کے کرتوت اور ہوس زر کے حصول کی داستان کو مدنظر رکھتا ہے ، لیکن اس کے ساتھ ہی موجودہ حکمرانوں کی حکمت عملی سے بھی نالاں ہے۔ ان کے اطراف میں ایسے لوگ ہیں جو پاکستان کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
مہنگائی کے خاتمے کے بہت سے طریقے ہیں جب آپ جانتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے پاکستان کو تمام قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے، تب اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایک نہیں بے شمار کارخانے اور آمدنی کے ذرایع کے لیے بہت سے ایسے ادارے وجود میں لائے جاسکتے تھے، جن سے بے روزگاری ، دہشت گردی کا خاتمہ آسانی سے ہو سکتا تھا۔ آج پاکستان کل سے بدتر حالات میں ہے، قرضوں کے بوجھ نے اس کی کمر توڑنے کی کوشش کی ہے۔
امریکا کا منفی کردار پوری دنیا کے سامنے ہے، بھارت اور امریکا نے ایسا جال بنا کہ CPEC پر کام کرنے والے فنی ماہرین اور سرمایہ کار کام کو آگے بڑھانے کے بجائے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ CPEC کو گردشی قرضوں سے آزاد کرایا جائے۔ گردشی قرضہ پاکستانی کرنسی (روپیہ) کی قدر کم ہونے کی وجہ سے بڑھ رہا ہے، سی پیک پر کام کرنا اور چینی فنی ماہرین کا چلے جانا آئی ایم ایف کا پہلا مقصد تھا جو قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے پورا ہو چکا ہے۔
پاکستان میں ایک ڈالر 180 روپے کا ہے، جب کہ بھارت اور بنگلادیش میں ایک ڈالر کی شرح 100 روپے سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان ایک طرف آئی ایم ایف تو دوسری طرف FATAF کی سازش کا شکار ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی نگاہ میں پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا کھٹکتا ہے۔
مغربی ممالک خاص طور پر امریکا یہ نہیں چاہتا ہے کہ کوئی مسلم ملک جوہری طاقت بنے یا پھر جوہری معلومات حاصل کرسکے، یہی وجہ ہے کہ امریکا میں کسی طالب علم کو جوہری نیوکلیئر فزکس میں داخلہ نہیں دیا جاتا ہے۔ ان سپر طاقتوں کی مخالفت اور تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان کا جوہری طاقت بننا ایک کرشمے سے کم نہیں، بے شک اس کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا شامل تھی۔
اپنے ناپاک عزائم کی وجہ سے آئی ایم ایف پاکستان پر قرضے کا بوجھ مسلسل بڑھا رہا ہے۔ پاکستان قرضوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے ، اب پاکستان وہ کام کرنے جا رہا ہے، جس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی لیکن حالات ابتر ہوچکے تھے۔ اس کے باوجود ہر شخص امید کا دیا روشن کرکے اجالے کا منتظر تھا۔
پچھلی حکومتوں نے بھی دل کھول کر قرضے لیے، پیپلز پارٹی نے 16 ارب اور مسلم لیگ (ن) نے اس سے ڈبل قرضہ لے لیا اور پی ٹی آئی بھی حالات کی سنگینی کے تحت قرضے لینے پر مجبور ہوگئی اور اب ملک معاشی بحران کا شکار ہے اور دشمن اپنی چال میں کامیاب ہو گیا۔ وفاقی کابینہ نے بروز منگل 28 دسمبر عمران خان کی صدارت میں اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے متنازع بل کی منظوری دے دی ہے، اور اب قومی اسمبلی میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے 360 ارب روپے کا منی بجٹ پیش کردیا ہے۔
مہنگائی کے عذاب اور ملک کی سالمیت کو خطرے سے بچانے کے لیے، سیاستدانوں، دانشوروں کی آرا سامنے آ رہی ہیں، یہ مفکرین اس منی بجٹ کو امریکا کا ایجنڈا قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ بل قومی اسمبلی سے پاس ہو جاتا ہے تو پاکستان کی موجودہ حالت برقرار نہیں رہے گی اور ہمارا دفاعی نظام بھی بری طرح متاثر ہوگا۔
ڈیفنس کی مد میں جو رقم خرچ ہوتی ہے اس پر بھی پابندی لگا دی جائے گی۔ مزید دکھ اور پچھتاوے کی یہ بات ہے کہ اسٹیٹ بینک میں پہلے ہی سے ان کا آدمی موجود ہے۔ ملکی معاشیات پر گہری نگاہ رکھنے والے ماہر معاشیات جناب اشفاق حسن نے خود مختاری بل پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں کہا کہ منی بجٹ کی ذمے دار سابقہ حکومتیں ہیں۔ کہا پاکستان کی یہی قیمت ہے صرف ایک بلین ڈالر۔ ایسا ہوا تو بہت برا ہوگا۔
اس سیاہ دن کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ سابق حکمرانوں نے اپنی پالیسیوں کے باعث ہمیں غلام قوم بنا دیا ہے۔ مقتدر حضرات کا یہ بھی کہنا تھا کہ منی بجٹ کے آجانے سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ ایک غلام قوم کے لیے تو ہر دن قیامت کا ہی ہوتا ہے۔ جب اس کی آزادی سلب کرلی جائے وہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہ کرسکے تو اس سے بڑا دکھ اور عذاب کیا ہوگا۔
بھارت اور اس کے ساتھی ملک تو یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان شکست، غربت، افلاس کی چکی میں پستا رہے اور جس طرح انھوں نے معصوم و بے گناہ لوگوں کو درندگی کا نشانہ بنایا ہے اسی طرح وہ پاکستان پر بھی اپنا حکم چلالیں لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کا انشا اللہ کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکے گا۔ افواج پاکستان اپنے ملک کی حفاظت کرنا اچھی طرح جانتی ہے۔
مسلم حکمران اگر اللہ کے احکام پر عمل کر رہے ہوتے تو آج امریکا مسلمانوں کا غلام ہوتا۔ ہندوستان کے سفاک مودی کی جرأت نہ ہوتی ہر روز کشمیریوں کو شہید کرنے کی۔ ان کے گھروں کو آگ لگانے اور معصوم عورتوں کو اغوا کرنے کی۔ مسلم حکمران اپنے مسلمان بھائیوں پر ہونے والے ظلم کو دیکھ کر ایسے خاموش ہیں جیسے وہ ان کے اپنے بھائی نہیں ہیں مسلم نہیں ہیں، انسان نہیں۔ ہائے رے بے حسی، سب کچھ بھول گئے، رسول پاکؐ کی تعلیم، اسوہ حسنہ، انصاف، مسلم سپہ سالاروں کی قیادت، دشمن کو شکست فاش ۔ مجھے اس وقت فاتح اندلس طارق بن زیادؒ کا اپنے فوجیوں سے خطاب یاد آگیا ہے۔ ایمان افروز تقریر میں انھوں نے فرمایا:
اے لوگو! اب راہ فرار کہاں ہے؟ سمندر تمہارے پیچھے اور دشمن تمہارے آگے ہے، اللہ کی قسم! تمہارے لیے صدق و صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں، جان لو تم اس جزیرہ نما میں اس قدر بے وقعت ہو کہ کم ظرف لوگوں کے دستر خوان پر یتیم بھی اتنے بے وقعت نہیں ہوتے۔ اس جزیرہ نما میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور اس کے دین کو فروغ دینے پر اللہ کی طرف سے ثواب تمہاری قسمت بن چکا ہے۔ یاد رکھو! جس چیز کی دعوت دے رہا ہوں اس پر خود لبیک کہوں گا۔
اس میدان جنگ میں اس قوم کے سرکش راڈرک پر خود حملہ آور ہوں گا اور انشا اللہ تعالیٰ اسے قتل کر ڈالوں گا، تم سب میرا ساتھ دینا۔ اس کے بعد طارق بن زیادؒ نے اپنے بحری بیڑے کو آگ لگا دی۔ اس عمل کو دیکھ کر فوجیوں نے کہا کہ یہ بات عقل کی رو سے درست نہیں اس لیے کہ ہم اپنے وطن سے بہت دور ہیں واپس کس وسیلے سے پہنچیں گے۔ طارقؒ نے جب یہ بات سنی تو ہنس دیے اور تلوار پر ہاتھ رکھ کر بولے، ہر ملک ہمارا ملک ہے کیونکہ وہ ہمارے خدا کا ملک ہے جذبہ جہاد و شہادت سے مغلوب مومن کسی باطل قوت سے نہیں ڈرتا۔
(جاری ہے۔)