تاریخ پر تاریخ کا کلچر

چھ سال کے بعد تیسرے جج نے جو تین ماہ میں بحث سن کر بریت کا فیصلہ کیا وہی مبنی بر انصاف تھا۔

h.sethi@hotmail.com

KATHMANDU:
اتوار کا دن تھا۔ صبح 11 بجے کا وقت تھا۔ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف حماد تھا۔ اس نے کہا پورے ایک بج کر ایک منٹ پر میں تمہارے گھر کے دروازے پر ہوں گا۔ چھوٹی الائچی والی مکس چائے تیار ہونی چاہیے۔ حلوہ پوری میں گرما گرم ساتھ لائوں گا۔ یہ میرا دیرینہ دوست اصولوں کا پابند، ایماندار اور قابل سول سرونٹ، ریٹائر کمشنر، اسکول کے دنوں کا دوست تھا۔

ناشتے سے فارغ ہو کر اس نے اپنی فائل سے نکال کر صفحوں کا ایک نیب کورٹ کا فیصلہ اور مقدمے کی فائل رکھی۔ وہ فائل میں دس بار پڑھ چکا تھا۔ نیب کورٹ کا فیصلہ حماد مجھے ایک روز پہلے عدالت ہی میں بتا چکا تھا جس کے مطابق حماد کی اس مقدمے میں کوئی involvement نہیں تھی لہٰذا وہ بری تھا۔

اس مقدمے میں دراصل ایک سیاسی مخالفت تھی جسکے مبینہ ملزم ملک سے فرار ہو چکے یا settlement کر چکے تھے۔ نیب کورٹس کی مشکل یہ تھی کہ وہ ملزمان کو سزا دینے کا ریکارڈ قائم رکھنا چاہتی ہیںے لیکن سزا کے لیے ضروری Evidence کمزور تھا لہٰذا نیب وکلاء کے پاس کیس کو لٹکائے رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ پہلی Cr. PC 265K کی petition سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج، حماد کے دوست سیّد جمشید علی شاہ نے اس کی بریت کے لیے تیار کی کہ حماد بے قصور ہے لہٰذا اسے بری کیا جائے۔

نیب کورٹ نے petition خارج کر دی کہ ابھی پوری شہادتیں نہیں آئیں۔ اس کے بعد استغاثہ کے گواہ کی بار آگئی۔ ایک سال میں صرف نو (9)گواہ حاضر ہوئے ۔ اس دوران ملزم حاضر ہوتا رہا۔ کل چار ملزموں میں سے دو اس دوران انتقال کر گئے تھے ۔ باقی دو میں سے بھی صرف حماد ہر تاریخ پر عدالت میں حاضر ہوتا ۔ چوتھا چلنے کے قابل نہ تھا لہٰذا اس کی جگہ وکیل پیش ہوتا اور تاریخ پر تاریخ پڑتی رہی ۔


ایک بار حماد نے نیب کورٹ کے کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ اس ایشو پر مشورہ کرنے شام کو عابد حسن منٹو صاحب کے پاس جائے گا تو جج صاحب نے اسے دھمکی سمجھ لیا اور اسے معافی طلب کرنا پڑ گئی، اس کے بعد حماد کے وکیل نے اس سے کہا کہ تم کبھی کبھی جج صاحب سے ہم کلام ہو جاتے ہو آیندہ مکمل خاموشی رکھو۔

حماد نے مجھے بتایا کہ نیب کورٹ میں گواہوں کی حاضری یقینی بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی اور تاریخ پر تاریخ کا کلچر مقدمے کو ختم نہیں ہونے دیتا چلے جاتے تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ مہینے میں بمشکل ایک گواہ کا بیان قلمبند ہوتاتھا اور کبھی کبھی پورا مہینہ خالی جاتا۔ میں حماد کا دُکھ سمجھتا تھا کیونکہ میں ہی نہیں وہ بھی جانتا تھا کہ Justice delayed is justice denied ۔

حماد نے مجھے بتایا کہ اس نے پڑھا ہے اور قانون دانوں سے سُنا بھی ہے کہ عدالتوں میں پیش ہونے والے مجرم بھی ہوتے ہیں اور بے قصور بھی لیکن قصور واروں کو تو جزا اور سزا کی منزل تک جلد از جلد پہنچانا انصاف کا بنیادی اصُول ہے تاکہ بے قصور جلد کٹہرے سے رہائی پائے اور مجرم جلد اپنے کیے کی سزا پائے لیکن ہمارے نظام انصاف میں چھ ماہ میں انجام کو پہنچنے کے قابل مقدمے کو تاریخ پر تاریخ ڈالنے کے کلچر کے باعث برسوں تک لٹکائے رکھا جاتا ہے اور کوئی بھی تاخیر کی وجہ دریافت نہیں کر تا۔

حماد نے چونکہ بے قصور ہونے کے باوجودعدالت میں پیش ہوتے رہنے کا چھ سال تک عرصہ گزارا تھا۔ مقدمے کی نوعیت سے وہ مجھے باخبر رکھتا تھا۔ جب چار میں سے دو ملزم اللہ کو پیارے ہو گئے تو چند ماہ بعد وہیل چیئر والا ملز م بھی فوت ہو گیا اور اب حماد رہ گیا۔ کچھ روز بعد موجودہ نیب کورٹ جج بھیRetire ہو گئے اور تیسرے جج آئے ۔

تیسرے جج نے حماد کی فائل اور گواہوں کے عدالتی بیان اپنی فائل میں سے پڑھ کر یہ بھی دیکھا کہ اس کیس اور فائل کے مرحوم Custodian ملزم نے کمیٹی کی فائل میں آخری فقرے Submitted for approval کو دیکھنے کے باوجود کہ Approval چیف منسٹر نے دینی تھی، اس کی Approval اپنے دفتر کے Assistant Director سے کروا کر حماد سمیت باقی 3 افسروں کو بھی پھنسا دیا تھا ۔چھ سال کے بعد تیسرے جج نے جو تین ماہ میں بحث سن کر بریت کا فیصلہ کیا وہی مبنی بر انصاف تھا۔ حماد خدا کا شکر ادا کرتے میرے سامنے بیٹھا آدھے گھنٹے تک روتا رہا۔
Load Next Story