جو دلوں کو فتح کرلے
زیرتذکرہ کتاب ’’جو دلوں کوفتح کرلے‘‘ گو ایک تاریخی دستاویزہے تاہم پروفیسر صاحب نے شروع میں اسے ایک ناول کا رنگ دیا ہے
KHOBAR:
جن لوگوں نے عصبیت کی عینک اتار کر تاریخ اسلام اور خصوصاً اسلامی فتوحات کا مطالعہ کیا ہے، وہ اس حقیقت کا اظہار کرنے سے ہرگز انکار نہیں کرسکتے کہ اسلام تلوار سے نہیں اخلاق محمدیؐ سے پھیلا ہے، تاہم جہاں اسلام کے پرامن پیغام کی راہ میں باطل قوتیں مزاحم ہوئیں وہاں اہل ایمان بھی چٹان کی طرح ڈٹ گئے اور باطل کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔
ان فاتحین کی فہرست کوئی زیادہ طویل نہیں ہے تاہم ان گنے چنے مجاہدین نے دنیا کے مطلق العنان ظالم و جابر حکمرانوں کی سرکوبی کرکے انسانوں کی بڑی تعداد کو ان کے ظلم و ستم سے آزاد کرانے میں مثالی تاریخی کارنامے انجام دیے ہیں۔
اسلام کے نظام میں انسانیت سے محبت،احترام اور انصاف ایسے امور ہیں جنھوں نے دوسری قوموں کے پسے ہوئے طبقات کو متاثر اور اپنی جانب مائل کیا۔ان کمزور اور درماندہ افراد نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے سامنے نئی دنیا کے دروازے وا ہوئے۔انھیں پہلی بار اپنی قدر و قیمت کا احساس ہوا،انھیں معلوم ہوا کہ ان کا بھی معاشرے میں کوئی مقام ہے اور وہ آگے بڑھ کر بہت سے ترقی کا امور سرانجام دے سکتے ہیں جو وہ پہلے نہیں کر سکتے تھے۔
اسلام نے انھیں زندگی کے نئے انداز سے آشنا کیا اور ان کا رشتہ خالق کائنات سے جوڑا۔ان پسے ہوئے لوگوں میں جینے کا پہلی بار نیا احساس ابھرا ،اسلام کے نظام عدل اور مساوات نے ان لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ان کے لیے اسلام ہی حقیقی جائے پناہ ہے۔مجاہدین نے اسلام کا پرچم سربلند کرنے اور ظلم کے خاتمے کے لیے تلوار اٹھائی نہ کہ جاہ و حشمت کے حصول کے لیے خون بہایا۔
ان مجاہدین میں ایک نام محمد بن قاسم کا بھی ہے جس نے سندھ کے مغرور راجا داہر کی ایک بڑی آبادی کو اس کے آمرانہ مظالم سے چھٹکارا دلایا۔ پھر سندھ کے خطے پر اللہ کریم کی ایسی نظر کرم ہوئی کہ یہاں اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰؐ کے دین کا چراغ روشن کردیا اور یوں سندھ کی سرزمین کو یہ شرف اور اعزاز حاصل ہوا کہ وہ باب الاسلام کہلائی۔
فاتح سندھ محمد بن قاسم جہاں داہری ظلم کے خلاف کھلی تلوار ثابت ہوا وہیں سندھ کے باسیوں کے لیے اس نے خود کو پیکر محبت بن کر دکھایا یہاں جو گرے پڑے لوگ تھے انھیں اٹھایا گلے لگایا اور ان کی کچلی ہوئی عزت نفس کو بحال کیا،انھیں ظالمانہ نظام کی زنجیروں سے آزادی دلائی۔سندھ کے پسماندہ لوگوں کو پہلی بار حکمران طبقے کی جانب سے محبت بھرے جذبات ملے۔تاریخ میں فاتحین بستیاں اجاڑتے اور بے گناہ لوگوں کے قتل کرتے آئے تھے مگر سندھ کے لوگوں کو فاتح محمد بن قاسم کی جانب سے امن ملا۔
محمد بن قاسم نے اہل سندھ کے دلوں کو اس طرح فتح کیا کہ وہ اس کی محبت کے اسیر ہوگئے اور جب محمد بن قاسم قیدی بنا کر رخصت ہوا تو سندھ کے لوگوں نے آنسو بہا کر اس کی سچائی کی تصدیق کی اور ثابت کیا کہ انھیں اس سے پہلے ایسا مہربان اور مشفق حکمران نہیں ملا۔ اس وقت ہمارے پیش نظر اسی جواں سال فاتح پر لکھی گئی کتاب ''جو دلوں کو فتح کرلے'' ہے۔ اس کتاب کا عنوان ہی اس پیکر محبت کی شخصیت کی واضح ترجمانی کرتا نظر آتا ہے، یہ پروفیسر خیال آفاقی کی تالیف ہے۔ یہ کتاب محمد بن قاسم کی حیات و فتوحات کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔
محمد بن قاسم کی شخصیت پر اب تک درجنوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ تاریخی حوالہ جات کے انداز میں بھی اور ناول کے طور پر بھی لیکن دور حاضر کے منفرد طرز نگارش و ممتاز قلم کار پروفیسر خیال آفاقی نے اس موضوع پر منفرد انداز میں طبع آزمائی فرمائی ہے۔ ان کا انداز بیاں ان کے قلم کا خاصہ بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب قاری ان کی نگارشات کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو پھر اس کے ذوق مطالعہ کا رہوار رکنے نہیں پاتا۔ یہ بات ہم خیال آفاقی کی دیگر تصنیفات کے حوالوں کی روشنی میں بھی کہہ رہے ہیں۔
ان کا سب سے قابل ذکر کام سیرت رسولؐ پر تصنیف کی گئی کتاب ''رسول اعظم'' ہے جو دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ اس انداز سے لکھی گئی ہے کہ قاری اس کا مطالعہ کرتے ہوئے خود بھی اسی دور میں سانس لے رہا ہوتا ہے جس کا ذکر ہو رہا ہے۔ اسے یوں لگتا ہے کہ تمام واقعات اس کے سامنے رونما ہو رہے ہیں اور وہ خود بھی ان واقعات کا ایک جز ہے۔ ان کے مشہور ناول ''اے جذبۂ دل گر تُو چاہے'' ایک شاہکار تخلیق ہے جس کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ کاغذوں پر لکھی تحریر نہیں پڑھ رہا ہے بلکہ اس کے سامنے گویا اسکرین ہے جس پر کوئی فلم متحرک ہے۔
پروفیسر خیال آفاقی علامہ اقبال کے عاشق ہیں۔ اقبالیات پر ان کا خاصا کام ہے۔ خصوصاً ان کی تالیف کردہ کتاب '' شاعرِ اسلام '' اب تک علامہ اقبال پر لکھی جانے والی کتب میں بلاشبہ ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ مختصر یہ کہ وہ شایقین ادب جو پروفیسر صاحب کی طرز نگارش سے آشنا ہیں ان کی اس تازہ تصنیف ''جو دلوں کو فتح کرلے'' سے اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین پانے میں لطف محسوس کریں گے۔
زیر تذکرہ کتاب ''جو دلوں کو فتح کرلے'' گو ایک تاریخی دستاویز ہے تاہم پروفیسر صاحب نے شروع میں اسے ایک ناول کا رنگ دیا ہے تاہم تاریخی واقعات کی روح کو ہلکا سا بھی صدمہ نہیں لگنے دیا۔ سندھ کی فتح اور فاتح کی شخصیت کے واقعات و حالات کی سند کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ مذکورہ کتاب ان عاقبت نااندیش لوگوں کے لیے ایک آئینہ ہے جو اپنی بے عملی اور متعصبانہ ذہنیت سے مغلوب ہو کراس فرشتہ سیرت مرد مومن سالار کے کردار پر کیچڑ اچھال کر خود اپنے ضمیر سے ناانصافی کرتے ہیں۔
جن لوگوں نے عصبیت کی عینک اتار کر تاریخ اسلام اور خصوصاً اسلامی فتوحات کا مطالعہ کیا ہے، وہ اس حقیقت کا اظہار کرنے سے ہرگز انکار نہیں کرسکتے کہ اسلام تلوار سے نہیں اخلاق محمدیؐ سے پھیلا ہے، تاہم جہاں اسلام کے پرامن پیغام کی راہ میں باطل قوتیں مزاحم ہوئیں وہاں اہل ایمان بھی چٹان کی طرح ڈٹ گئے اور باطل کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔
ان فاتحین کی فہرست کوئی زیادہ طویل نہیں ہے تاہم ان گنے چنے مجاہدین نے دنیا کے مطلق العنان ظالم و جابر حکمرانوں کی سرکوبی کرکے انسانوں کی بڑی تعداد کو ان کے ظلم و ستم سے آزاد کرانے میں مثالی تاریخی کارنامے انجام دیے ہیں۔
اسلام کے نظام میں انسانیت سے محبت،احترام اور انصاف ایسے امور ہیں جنھوں نے دوسری قوموں کے پسے ہوئے طبقات کو متاثر اور اپنی جانب مائل کیا۔ان کمزور اور درماندہ افراد نے جب اسلام قبول کیا تو ان کے سامنے نئی دنیا کے دروازے وا ہوئے۔انھیں پہلی بار اپنی قدر و قیمت کا احساس ہوا،انھیں معلوم ہوا کہ ان کا بھی معاشرے میں کوئی مقام ہے اور وہ آگے بڑھ کر بہت سے ترقی کا امور سرانجام دے سکتے ہیں جو وہ پہلے نہیں کر سکتے تھے۔
اسلام نے انھیں زندگی کے نئے انداز سے آشنا کیا اور ان کا رشتہ خالق کائنات سے جوڑا۔ان پسے ہوئے لوگوں میں جینے کا پہلی بار نیا احساس ابھرا ،اسلام کے نظام عدل اور مساوات نے ان لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ان کے لیے اسلام ہی حقیقی جائے پناہ ہے۔مجاہدین نے اسلام کا پرچم سربلند کرنے اور ظلم کے خاتمے کے لیے تلوار اٹھائی نہ کہ جاہ و حشمت کے حصول کے لیے خون بہایا۔
ان مجاہدین میں ایک نام محمد بن قاسم کا بھی ہے جس نے سندھ کے مغرور راجا داہر کی ایک بڑی آبادی کو اس کے آمرانہ مظالم سے چھٹکارا دلایا۔ پھر سندھ کے خطے پر اللہ کریم کی ایسی نظر کرم ہوئی کہ یہاں اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰؐ کے دین کا چراغ روشن کردیا اور یوں سندھ کی سرزمین کو یہ شرف اور اعزاز حاصل ہوا کہ وہ باب الاسلام کہلائی۔
فاتح سندھ محمد بن قاسم جہاں داہری ظلم کے خلاف کھلی تلوار ثابت ہوا وہیں سندھ کے باسیوں کے لیے اس نے خود کو پیکر محبت بن کر دکھایا یہاں جو گرے پڑے لوگ تھے انھیں اٹھایا گلے لگایا اور ان کی کچلی ہوئی عزت نفس کو بحال کیا،انھیں ظالمانہ نظام کی زنجیروں سے آزادی دلائی۔سندھ کے پسماندہ لوگوں کو پہلی بار حکمران طبقے کی جانب سے محبت بھرے جذبات ملے۔تاریخ میں فاتحین بستیاں اجاڑتے اور بے گناہ لوگوں کے قتل کرتے آئے تھے مگر سندھ کے لوگوں کو فاتح محمد بن قاسم کی جانب سے امن ملا۔
محمد بن قاسم نے اہل سندھ کے دلوں کو اس طرح فتح کیا کہ وہ اس کی محبت کے اسیر ہوگئے اور جب محمد بن قاسم قیدی بنا کر رخصت ہوا تو سندھ کے لوگوں نے آنسو بہا کر اس کی سچائی کی تصدیق کی اور ثابت کیا کہ انھیں اس سے پہلے ایسا مہربان اور مشفق حکمران نہیں ملا۔ اس وقت ہمارے پیش نظر اسی جواں سال فاتح پر لکھی گئی کتاب ''جو دلوں کو فتح کرلے'' ہے۔ اس کتاب کا عنوان ہی اس پیکر محبت کی شخصیت کی واضح ترجمانی کرتا نظر آتا ہے، یہ پروفیسر خیال آفاقی کی تالیف ہے۔ یہ کتاب محمد بن قاسم کی حیات و فتوحات کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔
محمد بن قاسم کی شخصیت پر اب تک درجنوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ تاریخی حوالہ جات کے انداز میں بھی اور ناول کے طور پر بھی لیکن دور حاضر کے منفرد طرز نگارش و ممتاز قلم کار پروفیسر خیال آفاقی نے اس موضوع پر منفرد انداز میں طبع آزمائی فرمائی ہے۔ ان کا انداز بیاں ان کے قلم کا خاصہ بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب قاری ان کی نگارشات کا مطالعہ شروع کرتا ہے تو پھر اس کے ذوق مطالعہ کا رہوار رکنے نہیں پاتا۔ یہ بات ہم خیال آفاقی کی دیگر تصنیفات کے حوالوں کی روشنی میں بھی کہہ رہے ہیں۔
ان کا سب سے قابل ذکر کام سیرت رسولؐ پر تصنیف کی گئی کتاب ''رسول اعظم'' ہے جو دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ اس انداز سے لکھی گئی ہے کہ قاری اس کا مطالعہ کرتے ہوئے خود بھی اسی دور میں سانس لے رہا ہوتا ہے جس کا ذکر ہو رہا ہے۔ اسے یوں لگتا ہے کہ تمام واقعات اس کے سامنے رونما ہو رہے ہیں اور وہ خود بھی ان واقعات کا ایک جز ہے۔ ان کے مشہور ناول ''اے جذبۂ دل گر تُو چاہے'' ایک شاہکار تخلیق ہے جس کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ کاغذوں پر لکھی تحریر نہیں پڑھ رہا ہے بلکہ اس کے سامنے گویا اسکرین ہے جس پر کوئی فلم متحرک ہے۔
پروفیسر خیال آفاقی علامہ اقبال کے عاشق ہیں۔ اقبالیات پر ان کا خاصا کام ہے۔ خصوصاً ان کی تالیف کردہ کتاب '' شاعرِ اسلام '' اب تک علامہ اقبال پر لکھی جانے والی کتب میں بلاشبہ ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ مختصر یہ کہ وہ شایقین ادب جو پروفیسر صاحب کی طرز نگارش سے آشنا ہیں ان کی اس تازہ تصنیف ''جو دلوں کو فتح کرلے'' سے اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین پانے میں لطف محسوس کریں گے۔
زیر تذکرہ کتاب ''جو دلوں کو فتح کرلے'' گو ایک تاریخی دستاویز ہے تاہم پروفیسر صاحب نے شروع میں اسے ایک ناول کا رنگ دیا ہے تاہم تاریخی واقعات کی روح کو ہلکا سا بھی صدمہ نہیں لگنے دیا۔ سندھ کی فتح اور فاتح کی شخصیت کے واقعات و حالات کی سند کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ مذکورہ کتاب ان عاقبت نااندیش لوگوں کے لیے ایک آئینہ ہے جو اپنی بے عملی اور متعصبانہ ذہنیت سے مغلوب ہو کراس فرشتہ سیرت مرد مومن سالار کے کردار پر کیچڑ اچھال کر خود اپنے ضمیر سے ناانصافی کرتے ہیں۔