ادب سے زندگی تک
سچ ہے کہ علم کے سرے شعور سے جا کر ہی ملتے ہیں جو انسان کو جینے کے آداب سکھاتا ہے۔
ہمارے یہاں زندگی میں اس قدر مسائل ہیں کہ انسان انھیں سلجھاتے سلجھاتے ہلکان ہو جاتا ہے اور مسائل ہیں کہ سلجھنے میں نہیں آتے جس سے لوگوں میں احساس محرومی، شدت پسندی اور منفی جذبات کی شدت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ پچھلے دو برسوں میں وبائی امراض نے زندگی کو اتھل پتھل کردیا جس سے غربت اور معاشی مسائل نے بڑا منہ کھول دیا ہے، ایسے میں ادب اور اس سے جڑے اشخاص اپنی کاوشوں کو تقریب دیتے دیتے نہیں تھکتے ، ایسے جیسے سخت تپتی دھوپ میں اچانک نخلستان میسر ہو۔ ایسے ہی لوگوں سے ایک نئی روش بننا شروع ہوئی ہے ، ادب کے اس گہوارے سے یقینا زندگی کے مسائل سلجھائے نہیں جاسکتے، لیکن ان کی سختیوں کو کم کرنے اور نمٹنے کے لیے کوشش تو کی جاسکتی ہے۔
2008 میں بین الاقوامی اردو کانفرنس کی سالانہ روایت کچھ ایسی پڑی اس نے پورے ملک میں ادبی حوالے سے ایک لہر سی دوڑا دی اور آج تک یہ بخوبی جاری ہے لیکن اس کے ساتھ کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد، سرگودھا، کوئٹہ، گلگت بلتستان سے لے کر خیبر پختونخوا اور اندرون سندھ میں بھی ادب کے حوالے سے جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے، کتب میلے، مذاکرے، شعر و سخن، موسیقی اور دیگر تقریبات سال کے آخر سے اوائل تک منعقد ہوتی رہتی ہیں یہ ایک زندہ قوم ہونے کی نشانی بھی ہے کہ ابھی سانس چل رہی ہے، یہ ایک دلچسپ سفر ہے جو ملک بھر میں جاری رہتا ہے، یقینا ابتدائی دور میں دشواریاں حائل رہی ہوں گی اور حالیہ کوڈ کے پھیلائو اور ایس او پیز کے باعث بھی حالات گمبھیر رہے تھے لیکن ادب کی چاندنی بکھرتی ہی رہی۔
گوادر کے حوالے سے بات کی جائے تو وہاں مقامی نوجوان اور دیگر تنظیمیں حکومتی سطح پر تو ہیں البتہ اپنی بساط سے بڑھ کر گوادر کے فیسٹیول کا انعقاد 2018 سے کر رہے ہیں اور یہ جان کر خوش گوار احساس اجاگر ہوا کہ ہمارے مکران کے نوجوان نئی کتابیں خریدنے اور پڑھنے کے شوقین ہیں چاہے ان کے کپڑے کتنے ہی پرانے کیوں نہ ہوں۔
ادب کے حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دیگر زبانوں کے ادب کے فروغ اور دلچسپی کو دیکھا گیا، کیونکہ ادب کی جڑیں تو زمین سے جڑی ہوتی ہیں اور زمین کا رشتہ بہت مضبوط ہوتا ہے جب کہ اردو کو اب بین الاقوامی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے کہ اس میں وسعت بہت ہے اور اپنے اندر سمونے کی گنجائش بھی بہت ہے، بہت خوبصورت لگتا ہے جب ہر رنگ ہر نسل سے تعلق رکھنے والا فیض احمد فیض، منیر نیازی اور حبیب جالب کے شعروں کو سن کر واہ واہ کرتا ہے کسی بڑے محقق یا لکھاری کی تقریر کو خوب سمجھتے ہوئے برتاؤ کرتا ہے کہ کس پر ہنسنا ہے اور کس بات پر مسکرانا ہے، کس کو داد دینی ہے اور کس پر تالی بجانا ہے۔
کتابوں کی بات چل نکلی تو ایک دلچسپ کتاب ''ذاتوں کا انسائیکلوپیڈیا'' کے کچھ اوراق پڑھنے کا موقع ملا، یہ کتاب انگریزی میں لکھی گئی تھی A Glossary of the Tribes and Castes of Punjab and N.W.F.P۔
تین جلدوں پر مشتمل کتاب تھی جسے ای ڈی میکلیگن سی ایس آئی نے سر ڈینزل اسٹن KCSI کی پنجاب مردم شماری رپورٹ1892 کی بنیاد پر لکھی، ایچ اے روز نے مرتب کیا اور پہلی بار 1911 میں شایع ہوئی تھی۔
یاسر جواد نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ اردو زبان میں موجودہ مشرقی اور مغربی پنجاب میں پائی جانے والی ذاتوں سے متعلق یہ ایک دلچسپ اور منفرد کتاب ہے اور اگر اس میں برصغیر یعنی غیر منقسم ہند میں موجود ذاتوں کا بھی شمار کرلیا جاتا تو شاید اس کے لیے مصنف کو کئی اور جلدوں کی ضرورت پڑتی۔
آج کل ان ذاتوں سے جڑے لوگ کیسے ہیں، کیا کرتے ہیں یہ ماضی میں کیسے تھے اور کس طرح ان کی ذات کا نام پڑا، یا انھوں نے اپنے نام اختیار کیے، یہ خاصا دلچسپ ہے اس سلسلے میں اوڈ، اوڈھ یا بیلدار ذات پر نظر پڑی جو آج بھی آپ کے اطراف نظر آتی ہے یا نظر سے گزری ہوگی یا معمول زندگی میں آپ کے ساتھ ہے۔
اس کے بارے میں لکھا ہے کہ بیلدار محض ایک پیشہ کا موزوں نام ہے یہ بیل (یعنی کدال) سے مشتق اور اس کے ساتھ کام کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن صوبہ میں عام مزدور کھدائی کے کام میں ہاتھ نہیں ڈالے گا، اوڈھ پنجاب کا ''پیشہ ور'' تعمیراتی مزدور ہے کم ازکم ایک قبائلی نام کی حیثیت میں لفظ بیلدار کسی بھی دوسری ذات کے ارکان کے لیے شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا ہے تاہم مشرق میں زیادہ عام نظر آتا ہے۔
وہاں مغرب کے اوڈھ کو بالعموم بطور بیلدار جانا جاتا ہے۔ اوڈھ ایک آوارہ گرد قبیلہ ہے اس کا اصل گھر مغربی ہندوستان اور راجپوتانہ نظر آتا ہے، وہ اپنے کنبوں کے ہمراہ کھدائی کے کام کی تلاش میں ادھر ادھر گھومنے والے سیلانی ہیں اصولی طور پر وہ چھوٹے موٹے کام نہیں لیں گے لیکن شاہراہوں، نہروں، ریلویز وغیرہ پر چھوٹے معاہدوں یعنی کوئی رہائشی مکان تعمیر کرنے، تالاب کھودنے یا حتیٰ کہ ایک کنواں کھودنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ (موجودہ کراچی میں کئی تاریخی عمارات ایسے ہی جانفشاں اوڈھوں کے کارنامے ہیں۔)
ان کے سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ بھی لکھی تھی کہ وہ ادنیٰ کپڑے یا کم ازکم ایک ادنیٰ کپڑا پہنتے ہیں وہ بھاگیرت کی نسل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جس نے یہ قسم کھائی تھی کہ ایک کنویں سے ''دو مرتبہ پانی نہیں پئے گا'' لہٰذا وہ ہر روز نیا کنواں کھودتا، یہاں تک کہ ایک دن وہ کھودتا رہا اور کھودتا رہا اور کبھی واپس نہ آیا، اسی کے افسوس میں وہ اون پہنتے اور اس کی تقلید میں (حتیٰ کہ ہندو ہونے کی صورت میں بھی) اپنے مردوں کو دفن کرتے ہیں تاہم شادی بیاہ کی رسومات ہندوؤں کی طرح ہی کرتے، (بہرحال پاکستان میں پائے جانے والے اس نسل کے لوگ زیادہ تر مسلمان ہی ہیں)۔
اولکھ یہ ایک جٹ قبیلہ اس کا صدر مقام امرتسر میں ہے، راوی کے مغرب میں لیہ تک کے علاقے میں وہ ایک زراعت پیشہ جٹ قبیلے کے طور پر ملتے ہیں منٹمگری میں وہ ہندو اور مسلمان دونوں ہیں۔
لیہ کے مسلمان اولکھ کی دلچسپ روایت کچھ اس طرح ہے کہ ہمایوں سے شکایت کی گئی کہ پیر محمد راجن نے شریعت کو مسترد کرتے ہوئے بھنگ پی لی تھی۔ چنانچہ شہنشاہ نے بزرگ کو دہلی بلوایا اور اسے ایک تنگ راستے پر چلنے کو کہا جس کے دونوں طرف زہریلی تلواریں لگائی گئی تھیں جب کہ ایک غضب ناک ہاتھی پیچھے چھوڑ دیا گیا لیکن پیر محمد کے پیروں تلے آنے والا لوہا پانی بنتا گیا اور اس کے شاگرد نے لاٹھی کے ایک ہی وار سے ہاتھی کو بھی مار ڈالا۔
درباریوں میں ایک پنوار راجپوت راجا اولکھ بھی موجود تھا جس نے یہ معجزہ دیکھتے ہی اسلام قبول کرلیا، پیر محمد راجن واپس راجن پور آگیا۔ راجا اولکھ بھی اس کے پیچھے پیچھے آگیا، اس نے بلوچ قبیلے کو شکست دے کر علاقہ فتح کرلیا اور پیروں کے حوالے کردیا، تب شہنشاہ نے بھی یہ علاقہ بطور جاگیر منظور کرلیا۔
بات کہاں سے کہاں جا نکلی لیکن سچ ہے کہ علم کے سرے شعور سے جا کر ہی ملتے ہیں جو انسان کو جینے کے آداب سکھاتا ہے اور علم کا تعلق نور سے ہے تو بس اپنے نور کو پہچاننے کی کوشش کریں اس پر چلنے اور عمل کرنے کی کوشش کریں تو زندگی کے دشوار گزار راستے سہل ہوجائیں گے۔
یہ سچ ہے کہ پچھلے دو برسوں میں وبائی امراض نے زندگی کو اتھل پتھل کردیا جس سے غربت اور معاشی مسائل نے بڑا منہ کھول دیا ہے، ایسے میں ادب اور اس سے جڑے اشخاص اپنی کاوشوں کو تقریب دیتے دیتے نہیں تھکتے ، ایسے جیسے سخت تپتی دھوپ میں اچانک نخلستان میسر ہو۔ ایسے ہی لوگوں سے ایک نئی روش بننا شروع ہوئی ہے ، ادب کے اس گہوارے سے یقینا زندگی کے مسائل سلجھائے نہیں جاسکتے، لیکن ان کی سختیوں کو کم کرنے اور نمٹنے کے لیے کوشش تو کی جاسکتی ہے۔
2008 میں بین الاقوامی اردو کانفرنس کی سالانہ روایت کچھ ایسی پڑی اس نے پورے ملک میں ادبی حوالے سے ایک لہر سی دوڑا دی اور آج تک یہ بخوبی جاری ہے لیکن اس کے ساتھ کراچی، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد، سرگودھا، کوئٹہ، گلگت بلتستان سے لے کر خیبر پختونخوا اور اندرون سندھ میں بھی ادب کے حوالے سے جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے، کتب میلے، مذاکرے، شعر و سخن، موسیقی اور دیگر تقریبات سال کے آخر سے اوائل تک منعقد ہوتی رہتی ہیں یہ ایک زندہ قوم ہونے کی نشانی بھی ہے کہ ابھی سانس چل رہی ہے، یہ ایک دلچسپ سفر ہے جو ملک بھر میں جاری رہتا ہے، یقینا ابتدائی دور میں دشواریاں حائل رہی ہوں گی اور حالیہ کوڈ کے پھیلائو اور ایس او پیز کے باعث بھی حالات گمبھیر رہے تھے لیکن ادب کی چاندنی بکھرتی ہی رہی۔
گوادر کے حوالے سے بات کی جائے تو وہاں مقامی نوجوان اور دیگر تنظیمیں حکومتی سطح پر تو ہیں البتہ اپنی بساط سے بڑھ کر گوادر کے فیسٹیول کا انعقاد 2018 سے کر رہے ہیں اور یہ جان کر خوش گوار احساس اجاگر ہوا کہ ہمارے مکران کے نوجوان نئی کتابیں خریدنے اور پڑھنے کے شوقین ہیں چاہے ان کے کپڑے کتنے ہی پرانے کیوں نہ ہوں۔
ادب کے حوالے سے یہ بات بہت اہم ہے کہ اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دیگر زبانوں کے ادب کے فروغ اور دلچسپی کو دیکھا گیا، کیونکہ ادب کی جڑیں تو زمین سے جڑی ہوتی ہیں اور زمین کا رشتہ بہت مضبوط ہوتا ہے جب کہ اردو کو اب بین الاقوامی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے کہ اس میں وسعت بہت ہے اور اپنے اندر سمونے کی گنجائش بھی بہت ہے، بہت خوبصورت لگتا ہے جب ہر رنگ ہر نسل سے تعلق رکھنے والا فیض احمد فیض، منیر نیازی اور حبیب جالب کے شعروں کو سن کر واہ واہ کرتا ہے کسی بڑے محقق یا لکھاری کی تقریر کو خوب سمجھتے ہوئے برتاؤ کرتا ہے کہ کس پر ہنسنا ہے اور کس بات پر مسکرانا ہے، کس کو داد دینی ہے اور کس پر تالی بجانا ہے۔
کتابوں کی بات چل نکلی تو ایک دلچسپ کتاب ''ذاتوں کا انسائیکلوپیڈیا'' کے کچھ اوراق پڑھنے کا موقع ملا، یہ کتاب انگریزی میں لکھی گئی تھی A Glossary of the Tribes and Castes of Punjab and N.W.F.P۔
تین جلدوں پر مشتمل کتاب تھی جسے ای ڈی میکلیگن سی ایس آئی نے سر ڈینزل اسٹن KCSI کی پنجاب مردم شماری رپورٹ1892 کی بنیاد پر لکھی، ایچ اے روز نے مرتب کیا اور پہلی بار 1911 میں شایع ہوئی تھی۔
یاسر جواد نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ اردو زبان میں موجودہ مشرقی اور مغربی پنجاب میں پائی جانے والی ذاتوں سے متعلق یہ ایک دلچسپ اور منفرد کتاب ہے اور اگر اس میں برصغیر یعنی غیر منقسم ہند میں موجود ذاتوں کا بھی شمار کرلیا جاتا تو شاید اس کے لیے مصنف کو کئی اور جلدوں کی ضرورت پڑتی۔
آج کل ان ذاتوں سے جڑے لوگ کیسے ہیں، کیا کرتے ہیں یہ ماضی میں کیسے تھے اور کس طرح ان کی ذات کا نام پڑا، یا انھوں نے اپنے نام اختیار کیے، یہ خاصا دلچسپ ہے اس سلسلے میں اوڈ، اوڈھ یا بیلدار ذات پر نظر پڑی جو آج بھی آپ کے اطراف نظر آتی ہے یا نظر سے گزری ہوگی یا معمول زندگی میں آپ کے ساتھ ہے۔
اس کے بارے میں لکھا ہے کہ بیلدار محض ایک پیشہ کا موزوں نام ہے یہ بیل (یعنی کدال) سے مشتق اور اس کے ساتھ کام کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن صوبہ میں عام مزدور کھدائی کے کام میں ہاتھ نہیں ڈالے گا، اوڈھ پنجاب کا ''پیشہ ور'' تعمیراتی مزدور ہے کم ازکم ایک قبائلی نام کی حیثیت میں لفظ بیلدار کسی بھی دوسری ذات کے ارکان کے لیے شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا ہے تاہم مشرق میں زیادہ عام نظر آتا ہے۔
وہاں مغرب کے اوڈھ کو بالعموم بطور بیلدار جانا جاتا ہے۔ اوڈھ ایک آوارہ گرد قبیلہ ہے اس کا اصل گھر مغربی ہندوستان اور راجپوتانہ نظر آتا ہے، وہ اپنے کنبوں کے ہمراہ کھدائی کے کام کی تلاش میں ادھر ادھر گھومنے والے سیلانی ہیں اصولی طور پر وہ چھوٹے موٹے کام نہیں لیں گے لیکن شاہراہوں، نہروں، ریلویز وغیرہ پر چھوٹے معاہدوں یعنی کوئی رہائشی مکان تعمیر کرنے، تالاب کھودنے یا حتیٰ کہ ایک کنواں کھودنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ (موجودہ کراچی میں کئی تاریخی عمارات ایسے ہی جانفشاں اوڈھوں کے کارنامے ہیں۔)
ان کے سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ بھی لکھی تھی کہ وہ ادنیٰ کپڑے یا کم ازکم ایک ادنیٰ کپڑا پہنتے ہیں وہ بھاگیرت کی نسل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جس نے یہ قسم کھائی تھی کہ ایک کنویں سے ''دو مرتبہ پانی نہیں پئے گا'' لہٰذا وہ ہر روز نیا کنواں کھودتا، یہاں تک کہ ایک دن وہ کھودتا رہا اور کھودتا رہا اور کبھی واپس نہ آیا، اسی کے افسوس میں وہ اون پہنتے اور اس کی تقلید میں (حتیٰ کہ ہندو ہونے کی صورت میں بھی) اپنے مردوں کو دفن کرتے ہیں تاہم شادی بیاہ کی رسومات ہندوؤں کی طرح ہی کرتے، (بہرحال پاکستان میں پائے جانے والے اس نسل کے لوگ زیادہ تر مسلمان ہی ہیں)۔
اولکھ یہ ایک جٹ قبیلہ اس کا صدر مقام امرتسر میں ہے، راوی کے مغرب میں لیہ تک کے علاقے میں وہ ایک زراعت پیشہ جٹ قبیلے کے طور پر ملتے ہیں منٹمگری میں وہ ہندو اور مسلمان دونوں ہیں۔
لیہ کے مسلمان اولکھ کی دلچسپ روایت کچھ اس طرح ہے کہ ہمایوں سے شکایت کی گئی کہ پیر محمد راجن نے شریعت کو مسترد کرتے ہوئے بھنگ پی لی تھی۔ چنانچہ شہنشاہ نے بزرگ کو دہلی بلوایا اور اسے ایک تنگ راستے پر چلنے کو کہا جس کے دونوں طرف زہریلی تلواریں لگائی گئی تھیں جب کہ ایک غضب ناک ہاتھی پیچھے چھوڑ دیا گیا لیکن پیر محمد کے پیروں تلے آنے والا لوہا پانی بنتا گیا اور اس کے شاگرد نے لاٹھی کے ایک ہی وار سے ہاتھی کو بھی مار ڈالا۔
درباریوں میں ایک پنوار راجپوت راجا اولکھ بھی موجود تھا جس نے یہ معجزہ دیکھتے ہی اسلام قبول کرلیا، پیر محمد راجن واپس راجن پور آگیا۔ راجا اولکھ بھی اس کے پیچھے پیچھے آگیا، اس نے بلوچ قبیلے کو شکست دے کر علاقہ فتح کرلیا اور پیروں کے حوالے کردیا، تب شہنشاہ نے بھی یہ علاقہ بطور جاگیر منظور کرلیا۔
بات کہاں سے کہاں جا نکلی لیکن سچ ہے کہ علم کے سرے شعور سے جا کر ہی ملتے ہیں جو انسان کو جینے کے آداب سکھاتا ہے اور علم کا تعلق نور سے ہے تو بس اپنے نور کو پہچاننے کی کوشش کریں اس پر چلنے اور عمل کرنے کی کوشش کریں تو زندگی کے دشوار گزار راستے سہل ہوجائیں گے۔