پاکستان اور عالمی سیاست

بھٹو صاحب کی یہ پیش گوئی بالکل صحیح ثابت ہوئی کہ میری موت پر ہمالیہ روئے گا

www.facebook.com/shah Naqvi

ISLAMABAD:
پاکستان 16 دسمبر کو ٹوٹا۔ ہر سال جب بھی یہ تاریخ آتی ہے مختلف بحثوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ایک گروہ سیاستدانوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے تو دوسرا اس وقت کے حکمران طبقوں کو۔ پاکستان ٹوٹنے کا آغاز تو پاکستان کے قیام سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ بہت جلد بنگالیوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ مغربی پاکستان کے غلام بن چکے ہیں۔ 1958 کے ایوب مارشل لاء نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ یہی وہ دس سالہ دور تھا جب بنگالیوں میں پاکستان سے علیحدگی کی سوچ پختہ ہو گئی۔ بنگالی اکثریت میں ہونے کے باوجود صوبائی خود مختاری سے محروم تھے۔

اوپر سے لسانی تحریک یعنی اردو کو زبردستی بنگالیوں پر مسلط کرنا۔ مزید یہ کہ ایوب اور یحییٰ مارشل لاؤں نے مشرقی پاکستانیوں کے لیے متحدہ پاکستان میں رہنے کی گنجائش ختم کر دی۔ ایک بنگالی میجر شریف الحق دالیم نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا ہے کہ دور ایوبی نے مشرقی پاکستان کے عوام کو متحدہ پاکستان کے تصور کے خلاف کر دیا تھا۔ بعد میں اسی نے مجیب کے قتل میں بھرپور حصہ لیا۔ مغربی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف نفرت اور بیگانگی کس قدر تھی کہ بنگالی گلوکارہ شہناز بیگم جنھوں نے پاکستان کی محبت میں ڈوب کر سدا بہار ملی نغمے جیوے جیوے پاکستان اور سوہنی دھرتی اللہ رکھے گائے، کہا کہ بنگالی ہونے کے ناتے لوگ مجھ سے فاصلہ ہی رکھتے ۔ میری آواز کی تعریف صرف میرے سامنے کی جاتی تھی لیکن بعد میں تضحیک آمیز انداز میں بنگالی گلوکارہ کہا جاتا۔

اگر آپ قیام پاکستان سے لے کر 1971کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ایسے بہت سے مواقعے تھے جب آسانی سے مشرقی پاکستانیوں کے جائز مطالبات پورے کر کے پاکستان کو متحد رکھا جا سکتا تھا۔ یحییٰ خان جو اس وقت مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا اور ہر طرح کی طاقت اس کے پاس تھی۔ اس کے لیے پاکستان بچانا بہت آسان تھا لیکن لگتا ہے کہ اس وقت کے حکمران امریکی اشارے پر پاکستان توڑنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھے۔ متحدہ پاکستان کا قیام برٹش سامراج نے مجبوری کے عالم میں قبول کیا کہ اس وقت اس کے سواء کوئی راستہ نہ تھا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد سے ہی اس بات کا فیصلہ ہو گیا تھا کہ آخر کار پاکستان کو ایک وقت کے بعد توڑ دیا جائے گا۔ چنانچہ سرد جنگ کو سوویت یونین کے خلاف گرم جنگ میں تبدیل ہونے سے 8 سال پہلے ہی پاکستان توڑ دیا گیا۔ اسی طرح پاکستان میں امریکا نے مذہبی شدت پسندی کی سرپرستی کر کے سوویت یونین کو بھی توڑ ڈالا۔ اس طریقے سے امریکا نے پوری دنیا پر قبضہ کر لیا۔


ذوالفقار علی بھٹو نے وہ ریڈ لائن عبور کر لی تھی جو انھیں کسی صورت کراس نہیں کرنا چاہیے تھی۔ جب سوویت یونین کے خلاف سامراجی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے والی تھی تو بھٹو صاحب نے عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے اور بارگیننگ پاور بڑھانے کے لیے اسلامی کانفرنس ، ایٹمی صلاحیت اور مغرب کی معاشی شہ رگ تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکی سامراج کی نظر میں یہ ناقابل معافی جرم تھا۔ چنانچہ اس بغاوت کی سزا تیسری دنیا کی لیڈر شپ کے لیے بقول ہنری کسینجر بھٹو صاحب کو عبرت کا نشان بنا کر کی گئی۔ پاکستان میں عبرت کا نشان صرف بھٹو صاحب ہی بنے کوئی اور نہیں بنا۔ یہ بھٹو صاحب کا وہ خوفناک بلنڈر تھا جس نے نہ صرف ان کی بلکہ ان کے ملک پاکستان کی قسمت کا بھی فیصلہ آیندہ کئی دہائیوں کے لیے کر دیا۔

یعنی گیارہ سالہ ضیاء آمریت نے پاکستان کو بنیاد پرست، شدت پسند ریاست میں تبدیل کر دیا۔ ضیاء الحق کی بنیاد پرستی سے گھبرا کر بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے بھی ہندو بنیاد پرستی کی راہ اپنائی۔ جس کا خمیازہ آج بھارتی مسلمان بی جے پی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ امریکی تھنک ٹینکوں کی شاہکار بے وقوفانہ پالیسیوں کے نتیجے میں آج پورے خطے میں بنیاد پرستی کا جن دندنا رہا ہے۔ ایرانی ، افغانی، پاکستانی ، اسرائیلی ، ہندو بنیاد پرستی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھٹو صاحب امریکا اور سوویت یونین کے درمیان عالمی سیاست کے خوفناک زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے تباہ کن ایڈونچر سے گریز کرتے ہوئے درمیانی راہ اختیار کرتے۔

بھٹو صاحب کی یہ پیشنگوئی بالکل صحیح ثابت ہوئی کہ میری موت پر ہمالیہ روئے گا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا پر امریکی سامراجی قبضے اور نیو ورلڈ آرڈر کے نام پر مسلم دنیا کی فوجی ، معاشی قوت کو آیندہ کئی دہائیوں کے لیے تہس نہس کرنا۔ نتیجے میں خطے میں کئی ملین مسلمان مارے اور کروڑوں تباہ و برباد ہو کر اپنی آیندہ نسلوں کا مستقبل تاریک کر گئے۔

باپ ، بیٹی دونوں نے فاش غلطیاں کیں۔ ایک نے عالمی جنگی اکھاڑے میں مداخلت کر کے دوسرا بے نظیر نے وقت سے پہلے پاکستان آ کر۔ بے نظیر کے قتل پر بھٹو مخالف قوتوں نے بظاہر اظہار ہمدردی اور آنسو بھی بہائے لیکن ان کی مہربان قوتوں نے ہمیشہ کی طرح سیاست کے اکھاڑے سے ان کے سب سے بڑے حریف کا خاتمہ کر دیا۔آپ اندازہ کریں کہ بھٹو مخالف قوتیں اتنی بے رحم تھیں کہ انھوں نے پاکستانی ایٹم بم کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کر ڈالا۔ جس کی وجہ سے پاکستان آج بھی قائم ہے۔ پاکستان سمیت آج بھی پورا خطہ خون کے آنسو رو رہا ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
Load Next Story