قومی خزانہ ذاتی مال تو نہیں
سب کو پتا ہے کہ ارکان اسمبلی صرف حاضری لگا کر لوٹ جاتے ہیں
LONDON:
گورنر کے پی کے سے متعلق ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ گورنر ہاؤس پشاور کے سرکاری اخراجات میں مقررہ بجٹ سے زائد 5 کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔
ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، پی ایم دفاتر، صوبوں کے گورنروں، وزرائے اعلیٰ ہاؤسز، پارلیمنٹ سمیت ہر سرکاری ادارے کے لیے بجٹ میں رقوم مختص کی جاتی ہیں جہاں ہمیشہ اخراجات زیادہ ہی ہوتے ہیں کم کبھی نہیں ہوتے ،صرف وزیر اعظم عمران خان ہی کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ وہ اپنے غیر ملکی دوروں میں اخراجات میں بچت کرتے آ رہے ہیں مگر وزیر اعظم ہاؤس اور پی ایم سیکریٹریٹ کے سرکاری اخراجات میں کسی کمی کی خبریں میڈیا پر نہیں آئیں بلکہ یہ خبریں اب میڈیا کے بعد عدالتوں تک پہنچ گئی ہیں کہ وزیر اعظم کو غیر ملکی دوروں میں جو قیمتی تحائف ملے ان کی کوئی تفصیل سرکاری ادارے کو فراہم نہیں کی گئی اور پوچھنے پر حکومت نے عدلیہ سے رجوع کرلیا تاکہ متعلقہ ادارہ وزیر اعظم سے تفصیلات معلوم کرنے سے باز رہے۔
ہر دور میں قومی خزانے کا بیدردی سے استعمال ہوتا رہا۔ وزیر اعظم اور دیگر اہم عہداروں کے اپنے صوابدیدی فنڈ موجود ہیں اور اسپیکر قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلی کے اپنے فنڈ ہوتے ہیں۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے سرکاری ادارے کا سربراہ قومی خزانے کو اس طرح خرچ کرتا ہے جیسے اسے یہ رقم وراثت میں ملی ہے جس کا اسے حساب نہیں دینا۔ نیب ہر دور میں صرف حکومتی مخالفوں سے ہی یہ پوچھتا ہے کہ اس نے مقررہ رقم سے زیادہ کیوں خرچ کیا۔
سابق وزرائے اعظم یا موجودہ وزیراعظم غیر ملکی تحائف کا جواب کیوں نہیں دے رہے۔ ملک میں کوئی ادارہ وزیر اعظم کے اقتدار میں ہوتے ہوئے، ان سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ وہ من پسند تقرریاں کررہے ہیں۔ اپنے اعلان کے برعکس وسیع کابینہ کیوں بنائی اور باہر سے اپنوں کو بلا کر اہم سرکاری عہدے کیوں دیے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کو سب پتا ہے کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔ قومی خزانہ من مانی سے کیوں خرچ کیا جا رہا ہے اعلیٰ سرکاری دفاتر و محلات میں بجٹ سے مقررہ زائد اخراجات کیوں کیے جا رہے ہیں۔
سب کو پتا ہے کہ ارکان اسمبلی صرف حاضری لگا کر لوٹ جاتے ہیں ایوان میں نہیں جاتے تاکہ ملنے والے سرکاری الاؤنسز کے قانونی طور پر حق دار بن سکیں۔ سب کو پتا ہے کہ ایک ایمانداری کے دعویدار صدر نے امریکا جانے کے لیے ایک سرکاری تقریب رکھ لی تھی جب کہ وہ گئے اپنے صاحبزادے کو اسناد ملنے کی نجی تقریب میں شرکت کے لیے تھے مگر سرکاری مال اپنی ذات پر خرچ کرنے کا جواز بنالیا گیا تھا۔
حکمرانوں کے جانے کے بعد ان کے شاہانہ اخراجات کی تفصیلات ظاہر کی جاتی ہیں۔ سابق حکمران ایک دوسرے کے افعال ظاہر اسی لیے نہیں کرتے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور وہ خود بھی یہ سب کچھ کریں گے یا کر چکے ہیں اس لیے ایک دوسرے کے غیر قانونی اقدامات کو چھپانا سب کی مجبوری رہا ہے اور ان کی یہی حرکات اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان نے قوم کو بتائی تھیں اور خود اقتدار میں آ کر ایسا کچھ نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وزیر اعظم بن کر انھوں نے گورنر ہاؤسز ختم کرنے تھے، پی ایم ہاؤس میں یونیورسٹی بنانی تھی۔ وفاقی کابینہ 17 وزیروں تک محدود رکھنی تھی اور بھی بہت کچھ کرکے قومی خزانے کو ماضی کی طرح ضایع ہونے سے بچانا تھا مگر اب حال یہ ہے کہ قومی خزانے میں تنخواہ دینے کے لیے رقم نہیں اور غیر ملکی قرضے اتارنے کے لیے اتنا قرض لے لیا ہے جو ماضی میں حکمرانوں نے اپنے ادوار میں نہیں لیا تھا۔
سابق حکمران قومی دولت ضایع کرنے کے الزامات تسلیم کر رہے ہیں نہ حکومت ثبوت دے پا رہی ہے اور موجودہ حکمرانوں کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ سائنس ترقی کر چکی ہے، اپنی کرپشن کے کوئی ثبوت چھوڑ کر نہیں جاتا اور یہی کچھ اب ہو رہا ہے اور ایسا کرنے والے کاغذی کارروائی مکمل رکھتے ہیں، کابینہ سے منظوری لے کر خود کو محفوظ کرلیا جاتا ہے۔
سابق وزیر اعظم کو گرفت میں لایا جاتا ہے، غلط فیصلے کرنے والی کابینہ کبھی نہیں پکڑی جاتی جب کہ وزیر اعظم اپنی صوابدید کے قانونی تحفظ کو استعمال کرکے محفوظ رہتا ہے کیونکہ قانون بڑوں پر لاگو نہیں ہوتا۔
گورنر کے پی کے سے متعلق ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ گورنر ہاؤس پشاور کے سرکاری اخراجات میں مقررہ بجٹ سے زائد 5 کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔
ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، پی ایم دفاتر، صوبوں کے گورنروں، وزرائے اعلیٰ ہاؤسز، پارلیمنٹ سمیت ہر سرکاری ادارے کے لیے بجٹ میں رقوم مختص کی جاتی ہیں جہاں ہمیشہ اخراجات زیادہ ہی ہوتے ہیں کم کبھی نہیں ہوتے ،صرف وزیر اعظم عمران خان ہی کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ وہ اپنے غیر ملکی دوروں میں اخراجات میں بچت کرتے آ رہے ہیں مگر وزیر اعظم ہاؤس اور پی ایم سیکریٹریٹ کے سرکاری اخراجات میں کسی کمی کی خبریں میڈیا پر نہیں آئیں بلکہ یہ خبریں اب میڈیا کے بعد عدالتوں تک پہنچ گئی ہیں کہ وزیر اعظم کو غیر ملکی دوروں میں جو قیمتی تحائف ملے ان کی کوئی تفصیل سرکاری ادارے کو فراہم نہیں کی گئی اور پوچھنے پر حکومت نے عدلیہ سے رجوع کرلیا تاکہ متعلقہ ادارہ وزیر اعظم سے تفصیلات معلوم کرنے سے باز رہے۔
ہر دور میں قومی خزانے کا بیدردی سے استعمال ہوتا رہا۔ وزیر اعظم اور دیگر اہم عہداروں کے اپنے صوابدیدی فنڈ موجود ہیں اور اسپیکر قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلی کے اپنے فنڈ ہوتے ہیں۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے سرکاری ادارے کا سربراہ قومی خزانے کو اس طرح خرچ کرتا ہے جیسے اسے یہ رقم وراثت میں ملی ہے جس کا اسے حساب نہیں دینا۔ نیب ہر دور میں صرف حکومتی مخالفوں سے ہی یہ پوچھتا ہے کہ اس نے مقررہ رقم سے زیادہ کیوں خرچ کیا۔
سابق وزرائے اعظم یا موجودہ وزیراعظم غیر ملکی تحائف کا جواب کیوں نہیں دے رہے۔ ملک میں کوئی ادارہ وزیر اعظم کے اقتدار میں ہوتے ہوئے، ان سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ وہ من پسند تقرریاں کررہے ہیں۔ اپنے اعلان کے برعکس وسیع کابینہ کیوں بنائی اور باہر سے اپنوں کو بلا کر اہم سرکاری عہدے کیوں دیے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کو سب پتا ہے کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔ قومی خزانہ من مانی سے کیوں خرچ کیا جا رہا ہے اعلیٰ سرکاری دفاتر و محلات میں بجٹ سے مقررہ زائد اخراجات کیوں کیے جا رہے ہیں۔
سب کو پتا ہے کہ ارکان اسمبلی صرف حاضری لگا کر لوٹ جاتے ہیں ایوان میں نہیں جاتے تاکہ ملنے والے سرکاری الاؤنسز کے قانونی طور پر حق دار بن سکیں۔ سب کو پتا ہے کہ ایک ایمانداری کے دعویدار صدر نے امریکا جانے کے لیے ایک سرکاری تقریب رکھ لی تھی جب کہ وہ گئے اپنے صاحبزادے کو اسناد ملنے کی نجی تقریب میں شرکت کے لیے تھے مگر سرکاری مال اپنی ذات پر خرچ کرنے کا جواز بنالیا گیا تھا۔
حکمرانوں کے جانے کے بعد ان کے شاہانہ اخراجات کی تفصیلات ظاہر کی جاتی ہیں۔ سابق حکمران ایک دوسرے کے افعال ظاہر اسی لیے نہیں کرتے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور وہ خود بھی یہ سب کچھ کریں گے یا کر چکے ہیں اس لیے ایک دوسرے کے غیر قانونی اقدامات کو چھپانا سب کی مجبوری رہا ہے اور ان کی یہی حرکات اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان نے قوم کو بتائی تھیں اور خود اقتدار میں آ کر ایسا کچھ نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وزیر اعظم بن کر انھوں نے گورنر ہاؤسز ختم کرنے تھے، پی ایم ہاؤس میں یونیورسٹی بنانی تھی۔ وفاقی کابینہ 17 وزیروں تک محدود رکھنی تھی اور بھی بہت کچھ کرکے قومی خزانے کو ماضی کی طرح ضایع ہونے سے بچانا تھا مگر اب حال یہ ہے کہ قومی خزانے میں تنخواہ دینے کے لیے رقم نہیں اور غیر ملکی قرضے اتارنے کے لیے اتنا قرض لے لیا ہے جو ماضی میں حکمرانوں نے اپنے ادوار میں نہیں لیا تھا۔
سابق حکمران قومی دولت ضایع کرنے کے الزامات تسلیم کر رہے ہیں نہ حکومت ثبوت دے پا رہی ہے اور موجودہ حکمرانوں کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ سائنس ترقی کر چکی ہے، اپنی کرپشن کے کوئی ثبوت چھوڑ کر نہیں جاتا اور یہی کچھ اب ہو رہا ہے اور ایسا کرنے والے کاغذی کارروائی مکمل رکھتے ہیں، کابینہ سے منظوری لے کر خود کو محفوظ کرلیا جاتا ہے۔
سابق وزیر اعظم کو گرفت میں لایا جاتا ہے، غلط فیصلے کرنے والی کابینہ کبھی نہیں پکڑی جاتی جب کہ وزیر اعظم اپنی صوابدید کے قانونی تحفظ کو استعمال کرکے محفوظ رہتا ہے کیونکہ قانون بڑوں پر لاگو نہیں ہوتا۔