شکر ہے کہ…
اب گورنر تین سال کے بجائے پانچ سال تک اسٹیٹ بینک پر راج کرے گا
WASHINGTON:
نیا سال مہنگائی کا طوفان لائے گا۔ کمپیوٹر، موبائل، نمک اور بیکری کا سامان ہی نہیں ادویات کی قیمتیں بھی بڑھیں گی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے ضمنی بجٹ کے فیصلوں کو ظاہر کرتے ہوئے اپنی تقریر میں عوام کو نئے سال کی یہ خوش خبری سنائی کہ مشینری پر 112 ارب روپے، فارماسوٹیکل پر 110ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم، بچوں کا دودھ ، نیوز پرنٹ، کتابیں، سلائی مشین اور کپاس کے بیج بھی مہنگے ہوں گے۔
حکومت نے انکم ٹیکس ری فنڈ کی سہولت کو بھی واپس لے لیا ہے۔ ساری زندگی بینکنگ کے ذریعہ امراء کی خدمت کرنے والے وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے احتجاج کے دوران کہا کہ صرف 2ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ اس سے کون سا مہنگائی کا طوفان آئے گا؟ منی بجٹ میں لگائے گئے ٹیکسوں سے ملک میں افراطِ زر میں اضافہ نہیں ہوگا۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے نئے مالیاتی سال کے لیے گزشتہ سال جو بجٹ پیش کیا تھا اس وقت موصوف نے مہنگائی کم ہونے، روزگار کے مواقع مہیا ہونے کا اعلان کیا گیا تھا، مگر اس عرصہ میں تمام اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ حکومت مالیاتی خسارہ کو دور کرنے کے لیے ٹیکس کی وصولی میں ناکام رہی۔
حکومت نے گزشتہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کی جو پالیسی اختیار کی تھی اس کے نتیجہ میں مالیاتی خسارہ بڑھ گیا۔ حکومت نے مالیاتی خسارہ پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ کے لیے مذاکرات کیے تو آئی ایم ایف کے ماہرین نے نئی شرائط عائد کردیں۔ اب حکومت نے ان شرائط کی تکمیل کے لیے منی بجٹ تیار کیا، یوں عوام کی اقتصادیات کو حکومت نے تارپیڈو کردیا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا بل اکثریت کی بنیاد پر منظور کرلیا۔ اس بل کی بناء پر اسٹیٹ بینک کے گورنر کی معیاد میں توسیع ہوگی۔
اب گورنر تین سال کے بجائے پانچ سال تک اسٹیٹ بینک پر راج کرے گا۔ اسٹیٹ بینک خودمختار ہو کر عالمی مالیاتی اداروں کے نرغہ میںآگیا۔ اگرچہ شوکت ترین نے دعوی کیا کہ بینک کے بورڈز آف گورنرز کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی مگر اب وفاقی اورصوبائی حکومتیں قومی بینک سے قرضے نہیں لے سکیں گی۔ اب حکومتوں کو کمرشل بینکوں کا محتاج ہونا پڑے گا۔ کمرشل بینک مارکیٹ میں سو دکی شرح کے مطابق قرضے دیں گے جس کے نتیجہ میں پھر مالیاتی خسارہ بڑھے گا۔ اس کے ساتھ قومی بینک سول اور قومی ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کے بلوں پر نظر رکھے گا۔ آئی ایم ایف ملازمین کو پنشن دینے کا مخالف ہے، یوں اگلے سال پنشن کے خاتمہ کے لیے کام تیز ہوجائے گا۔
اس ضمنی بجٹ کے خلاف سب سے پہلے احتجاج ڈاکٹروں کی مرکزی تنظیم پاکستان میڈیکل کونسل PMA نے کیا۔ پی ایم اے کے اعلامیہ میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ادویات کی تیاری کے لیے ضروری خام مال پر 17فیصد جی ایس ٹی عائد کیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں ادویات کی قیمتوں میں 11دفعہ اضافہ ہوا ہے۔ یوں مجموعی طور پر بعض ادویات کی قیمت 500 فیصد تک بڑھی ہے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد عزیز صدیقی نے لکھا ہے کہ پاکستان کو نومبر 2021 تک 2006 ارب ڈالر کے تجارتی خسارہ کا سامنا تھا ۔
اس دوران ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا حجم سب سے زیادہ بڑھا ہے اور قرضوں کا مجموعی حجم 50.484 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے اپنا بیانیہ یوں ترتیب دیا ہے کہ کورونا کے بحران کے دوران ادویات کی قیمتوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ اب پھر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کی لہر آئے گی۔ ڈاکٹر قیصر سجاد کی خواہش ہے کہ حکومت 2022 تک ہر فرد کو صحت کی مفید سہولتوں کی فراہمی کے لیے حقیقی اقدامات کرے۔
موجودہ حکومت اقتصادی صورتحال میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ جب وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان اقوام متحدہ کی ایشیاء اور مشرق بعید کی مالیاتی دہشت گردی کی روک تھام کی ٹاسک فورس کے نرغے میں تھا۔ ایف اے ٹی ایف نے منی لانڈرنگ کے خاتمہ کے لیے سخت شرائط پیش کی ہوئی تھیں۔ حکومت نے ان شرائط پر عملدرآمد کرنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں بینکنگ سیکٹر پر سخت پابندیاں عائد ہوئیں۔ نیب کی کارروائیوں سے بھی معیشت کو نقصان پہنچا۔ ادھر بھارت سے تجارت ختم ہونے کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔
بھارت کے ملک کی فارماسوٹیکل انڈسٹریز کے ادویات کی تیاری کے خام مال پر پابندی لگ گئی۔ بعض تاجروں نے دبئی سے بھارت کا خام مال منگوانا شروع کیا۔ یہ خام مال زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں ادویات کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں۔ ملک میں سانپ کے کاٹنے کے مرض کے خاتمہ کے لیے ویکسین بھی بھارت سے آتی ہے، وہ ویکسین بھی نایاب ہوئی۔ بھارت سے تجارت پر پابندیوں سے امریکا سے تعلقات میں سرد مہری آئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس خارجہ پالیسی اور دفاعی اخراجات سمیت دیگر پیداواری اخراجات کم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
عمران خان مخالف سیاست دانوںکو پردہ سیمی سے خارج کرنے کے لیے نیب کے کردار کو کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے نتیجہ میں پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت قطر سے ایل این جی کی فراہمی کے لیے سستا معاہدہ کرنے میں ناکام رہی، یوں ملک موسم سرما میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے۔
صنعتوں کی گیس کی فراہمی بند ہونے سے پیداوار متاثر ہورہی ہے اور مزدوروں کو بے روزگاری کا سامنا ہے۔ اقتصادیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کے دودھ پر ٹیکس میں اضافہ سے متوسط طبقہ کے خاندان نوزائیدہ بچوں کو صحت مند خوراک فراہم نہیں کرسکیں گے جس کے نتیجہ میں اب غریبوں کے بچوں کی طرح متوسط طبقہ کے بچوں میں قوت مدافعت کم ہوجائے گی۔ نیوز پرنٹ کی قیمتوں میں مزید اضافہ سے اخبارات اور کتابوں پر آنے والی لاگت بڑھے گی۔ اس ملک میں مطالعہ کا رجحان پہلے سے کم ہے۔
کتابوں کے مہنگا ہونے سے یہ رجحان مزید کم ہوجائے گا۔ اخبارات کی اشاعت پہلے ہی کم ہوئی ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کو حکومتی اشتہار نہیں ملیں گے، نجی شعبہ بھی اب اس پوزیشن میں نہیں ہوگا کہ میڈیا کو اشتہارات دے سکے۔ میڈیا کی اقتصادیات کی بربادی پر وزیر اعظم اور ان کے وزراء کو کوئی تشویش نہیں ہے ۔
مفتاح اسماعیل اور نوید قمر نے اس بات پر شکریہ کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ابھی تک سانس لینے پر ٹیکس نہیں لگایا۔ ایک صحافی نے لکھا ہے کہ اگر گزشتہ ادوار میں اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے نرغہ میں دینے کا قانون قومی اسمبلی میں پیش ہوتا تو تحریک انصاف کے قائدین ریڈ زون میں دھرنا دے چکے ہوتے اور مقتدر قوتوں سے حرارت حاصل کرنے والے گروہ سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے۔ ایف بی آر کے سابق سربراہ شبر زیدی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ موجودہ دور میں ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے یہ خواب دیکھا ہے کہ پاکستان جلد ویلفیئر اسٹیٹ بنے گا۔ حقائق کچھ اورکہہ رہے ہیں۔ حکمران طبقہ ہوش کے ناخن لے، وہ وقت آنے والا ہے کہ افغانستان کے بعد پاکستان میں انسانی المیہ جنم لے گا۔
نیا سال مہنگائی کا طوفان لائے گا۔ کمپیوٹر، موبائل، نمک اور بیکری کا سامان ہی نہیں ادویات کی قیمتیں بھی بڑھیں گی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے ضمنی بجٹ کے فیصلوں کو ظاہر کرتے ہوئے اپنی تقریر میں عوام کو نئے سال کی یہ خوش خبری سنائی کہ مشینری پر 112 ارب روپے، فارماسوٹیکل پر 110ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم، بچوں کا دودھ ، نیوز پرنٹ، کتابیں، سلائی مشین اور کپاس کے بیج بھی مہنگے ہوں گے۔
حکومت نے انکم ٹیکس ری فنڈ کی سہولت کو بھی واپس لے لیا ہے۔ ساری زندگی بینکنگ کے ذریعہ امراء کی خدمت کرنے والے وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے احتجاج کے دوران کہا کہ صرف 2ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ اس سے کون سا مہنگائی کا طوفان آئے گا؟ منی بجٹ میں لگائے گئے ٹیکسوں سے ملک میں افراطِ زر میں اضافہ نہیں ہوگا۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے نئے مالیاتی سال کے لیے گزشتہ سال جو بجٹ پیش کیا تھا اس وقت موصوف نے مہنگائی کم ہونے، روزگار کے مواقع مہیا ہونے کا اعلان کیا گیا تھا، مگر اس عرصہ میں تمام اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ حکومت مالیاتی خسارہ کو دور کرنے کے لیے ٹیکس کی وصولی میں ناکام رہی۔
حکومت نے گزشتہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کی جو پالیسی اختیار کی تھی اس کے نتیجہ میں مالیاتی خسارہ بڑھ گیا۔ حکومت نے مالیاتی خسارہ پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ کے لیے مذاکرات کیے تو آئی ایم ایف کے ماہرین نے نئی شرائط عائد کردیں۔ اب حکومت نے ان شرائط کی تکمیل کے لیے منی بجٹ تیار کیا، یوں عوام کی اقتصادیات کو حکومت نے تارپیڈو کردیا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا بل اکثریت کی بنیاد پر منظور کرلیا۔ اس بل کی بناء پر اسٹیٹ بینک کے گورنر کی معیاد میں توسیع ہوگی۔
اب گورنر تین سال کے بجائے پانچ سال تک اسٹیٹ بینک پر راج کرے گا۔ اسٹیٹ بینک خودمختار ہو کر عالمی مالیاتی اداروں کے نرغہ میںآگیا۔ اگرچہ شوکت ترین نے دعوی کیا کہ بینک کے بورڈز آف گورنرز کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی مگر اب وفاقی اورصوبائی حکومتیں قومی بینک سے قرضے نہیں لے سکیں گی۔ اب حکومتوں کو کمرشل بینکوں کا محتاج ہونا پڑے گا۔ کمرشل بینک مارکیٹ میں سو دکی شرح کے مطابق قرضے دیں گے جس کے نتیجہ میں پھر مالیاتی خسارہ بڑھے گا۔ اس کے ساتھ قومی بینک سول اور قومی ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کے بلوں پر نظر رکھے گا۔ آئی ایم ایف ملازمین کو پنشن دینے کا مخالف ہے، یوں اگلے سال پنشن کے خاتمہ کے لیے کام تیز ہوجائے گا۔
اس ضمنی بجٹ کے خلاف سب سے پہلے احتجاج ڈاکٹروں کی مرکزی تنظیم پاکستان میڈیکل کونسل PMA نے کیا۔ پی ایم اے کے اعلامیہ میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ادویات کی تیاری کے لیے ضروری خام مال پر 17فیصد جی ایس ٹی عائد کیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں ادویات کی قیمتوں میں 11دفعہ اضافہ ہوا ہے۔ یوں مجموعی طور پر بعض ادویات کی قیمت 500 فیصد تک بڑھی ہے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد عزیز صدیقی نے لکھا ہے کہ پاکستان کو نومبر 2021 تک 2006 ارب ڈالر کے تجارتی خسارہ کا سامنا تھا ۔
اس دوران ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا حجم سب سے زیادہ بڑھا ہے اور قرضوں کا مجموعی حجم 50.484 ارب تک پہنچ گیا ہے۔ پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے اپنا بیانیہ یوں ترتیب دیا ہے کہ کورونا کے بحران کے دوران ادویات کی قیمتوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ اب پھر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کی لہر آئے گی۔ ڈاکٹر قیصر سجاد کی خواہش ہے کہ حکومت 2022 تک ہر فرد کو صحت کی مفید سہولتوں کی فراہمی کے لیے حقیقی اقدامات کرے۔
موجودہ حکومت اقتصادی صورتحال میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ جب وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان اقوام متحدہ کی ایشیاء اور مشرق بعید کی مالیاتی دہشت گردی کی روک تھام کی ٹاسک فورس کے نرغے میں تھا۔ ایف اے ٹی ایف نے منی لانڈرنگ کے خاتمہ کے لیے سخت شرائط پیش کی ہوئی تھیں۔ حکومت نے ان شرائط پر عملدرآمد کرنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں بینکنگ سیکٹر پر سخت پابندیاں عائد ہوئیں۔ نیب کی کارروائیوں سے بھی معیشت کو نقصان پہنچا۔ ادھر بھارت سے تجارت ختم ہونے کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔
بھارت کے ملک کی فارماسوٹیکل انڈسٹریز کے ادویات کی تیاری کے خام مال پر پابندی لگ گئی۔ بعض تاجروں نے دبئی سے بھارت کا خام مال منگوانا شروع کیا۔ یہ خام مال زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں ادویات کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں۔ ملک میں سانپ کے کاٹنے کے مرض کے خاتمہ کے لیے ویکسین بھی بھارت سے آتی ہے، وہ ویکسین بھی نایاب ہوئی۔ بھارت سے تجارت پر پابندیوں سے امریکا سے تعلقات میں سرد مہری آئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس خارجہ پالیسی اور دفاعی اخراجات سمیت دیگر پیداواری اخراجات کم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
عمران خان مخالف سیاست دانوںکو پردہ سیمی سے خارج کرنے کے لیے نیب کے کردار کو کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے نتیجہ میں پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت قطر سے ایل این جی کی فراہمی کے لیے سستا معاہدہ کرنے میں ناکام رہی، یوں ملک موسم سرما میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے۔
صنعتوں کی گیس کی فراہمی بند ہونے سے پیداوار متاثر ہورہی ہے اور مزدوروں کو بے روزگاری کا سامنا ہے۔ اقتصادیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کے دودھ پر ٹیکس میں اضافہ سے متوسط طبقہ کے خاندان نوزائیدہ بچوں کو صحت مند خوراک فراہم نہیں کرسکیں گے جس کے نتیجہ میں اب غریبوں کے بچوں کی طرح متوسط طبقہ کے بچوں میں قوت مدافعت کم ہوجائے گی۔ نیوز پرنٹ کی قیمتوں میں مزید اضافہ سے اخبارات اور کتابوں پر آنے والی لاگت بڑھے گی۔ اس ملک میں مطالعہ کا رجحان پہلے سے کم ہے۔
کتابوں کے مہنگا ہونے سے یہ رجحان مزید کم ہوجائے گا۔ اخبارات کی اشاعت پہلے ہی کم ہوئی ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کو حکومتی اشتہار نہیں ملیں گے، نجی شعبہ بھی اب اس پوزیشن میں نہیں ہوگا کہ میڈیا کو اشتہارات دے سکے۔ میڈیا کی اقتصادیات کی بربادی پر وزیر اعظم اور ان کے وزراء کو کوئی تشویش نہیں ہے ۔
مفتاح اسماعیل اور نوید قمر نے اس بات پر شکریہ کا اظہار کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ابھی تک سانس لینے پر ٹیکس نہیں لگایا۔ ایک صحافی نے لکھا ہے کہ اگر گزشتہ ادوار میں اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے نرغہ میں دینے کا قانون قومی اسمبلی میں پیش ہوتا تو تحریک انصاف کے قائدین ریڈ زون میں دھرنا دے چکے ہوتے اور مقتدر قوتوں سے حرارت حاصل کرنے والے گروہ سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے۔ ایف بی آر کے سابق سربراہ شبر زیدی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ موجودہ دور میں ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے یہ خواب دیکھا ہے کہ پاکستان جلد ویلفیئر اسٹیٹ بنے گا۔ حقائق کچھ اورکہہ رہے ہیں۔ حکمران طبقہ ہوش کے ناخن لے، وہ وقت آنے والا ہے کہ افغانستان کے بعد پاکستان میں انسانی المیہ جنم لے گا۔