حکومتی کمیٹی کو طالبان شوریٰ سے ملاقات کا گرین سگنل مل گیا

طالبان کی رابطہ کار کمیٹی نے یہ ملاقات یقینی بنانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انتظامات شروع کردیے ہیں، ذرائع

طالبان کی رابطہ کار کمیٹی نے یہ ملاقات یقینی بنانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انتظامات شروع کردیے ہیں، ذرائع. فوٹو فائل

QUETTA:
حکومتی کمیٹی طالبان کی سیاسی شوریٰ سے ان کی عملداری والے علاقے میں ملاقات کریگی جس میں سیز فائر، ٹھوس یقین دہانیوں کے تعین، حکومتی قیادت اور طالبان شوریٰ کے براہ راست رابطے کے امکانات پر بھی بات چیت ہوگی۔

ذرائع کے مطابق حکومتی کمیٹی کو طالبان کی سیاسی شوریٰ سے ملاقات کا گرین سگنل مل گیا ہے اور طالبان کی رابطہ کار کمیٹی نے یہ ملاقات یقینی بنانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انتظامات شروع کردیے ہیں، ملاقات کی جگہ اور وقت کا تعین تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کریگی۔ مذاکراتی عمل سے منسلک ایک اہم ذریعے نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پراس نمائندے کو بتایا کہ وزیراعظم کے ساتھ منگل کے روز حکومتی کمیٹی کی ملاقات اس حوالے سے اہم رہی ہے جس میں جہاں طالبان کمیٹی کی طرف سے وزیراعظم اور عسکری قیادت سے ملاقات کی خواہش پر غور کیا گیا، وہاں یہ بھی ضروری سمجھا گیا کہ حکومتی کمیٹی طالبان کی سیاسی شوریٰ سے براہ راست بات چیت کرے۔ اس ملاقات کا بنیادی مقصد سیز فائر کے بریک تھرو تک پہنچنا ہی ہے جس کے بعد ہی حکومت اور طالبان کی قیادت میں براہ راست رابطہ ممکن ہو سکے گا۔ براہ راست رابطے میں ایک اور بڑی رکاوٹ عدم اعتماد بھی ہے، طالبان کی قیادت کوئی ٹھوس یقین دہانیاں ملنے پر ہی باقاعدہ طور پر سامنے آنے کا فیصلہ کریگی۔

حکومتی کمیٹی تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ان کی عملداری والے علاقوں میں کب اور کیسے ملاقات کرے گی، آنے جانے کا طریقہ کارطے کیا جار ہا ہے۔ طالبان کی رابطہ کار کمیٹی کے ارکان کی طالبان کی سیاسی شوریٰ سے ملاقات جنوبی وزیرستان کے علاقے شکتو میں ہوئی تھی، دریائے شکتو سے جڑے اس مقام پر مرسنزئی قبائل آباد ہیں جن کا شمار چھوٹے قبائل میں ہوتا ہے، اس ذریعے کے مطابق غالبا طالبان قیادت اپنے ہیڈکوارٹرز کو خفیہ رکھنا چاہتی ہے اسی وجہ سے شمالی وزیرستان کے وہ علاقے جہاں طالبان قیادت کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں وہاں حکومتی کمیٹی کے آنے کو موزوں نہ سمجھا جائے۔ ذریعے کے مطابق ملاقات کے انتظامات ہونے میں ایک ہفتہ بھی لگ سکتا ہے، تاہم وہ پرامید نظر آئے کہ رواں ہفتے کے اختتام یا اگلے ہفتے کے شروع میں مذاکراتی عمل کا یہ مشکل مگر اہم سنگ میل طے ہو سکتا ہے۔ اس سوال پر کہ جس طرح حکومتی کمیٹی طالبان شوریٰ سے ملنے جا رہی ہے کیا اسی طرح طالبان کی رابطہ کار کمیٹی کی وزیراعظم اور عسکری قیادت سے ملاقات ہو گی تو ان کا جواب تھا، اس کا امکان بھی موجود ہے تاہم یہ فیصلہ وزیراعظم کے دورہ ترکی سے آنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ طالبان اور حکومتی کمیٹیوں کی آئندہ ملاقات طالبان شوریٰ سے حکومتی کمیٹی کی ملاقات کا طریقہ کار طے کرنے کیلیے ہی ہو گی۔


طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ طالبان کے تمام گروپوں نے مذاکراتی عمل کی حمایت کی ہے، کوئی گروپ مذاکرات کے خلاف ہوتا تو ضرور مخالفت سامنے آ جاتی۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا بعض عناصر دہشت گردی کی کارروائیاں کرکے امن عمل کی کوششوں پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں، انھیں کامیاب نہیں ہونے دیا جائیگا، امن عمل کو آگے بڑھانے کیلیے طالبان اور حکومت کی جانب سے فائر بندی کے لیے تجاویز دی گئی ہیں، توقع ہے جلد فائر بندی ہو جائیگی۔ طالبان کمیٹی نے وزیراعظم' آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کیلیے باضابطہ درخواست کر دی ہے، حکومت سے جواب ملنے پر دوبارہ وزیرستان جائینگے'ملک میں قیام امن کیلئے بار بار وزیرستان جا کر طالبان قیادت سے ملاقات کرنی پڑی تو کریں گے' حالیہ بم دھماکے طالبان نے نہیں کرائے، دشمن مذاکرات سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا کمیٹیوں کی پہلی ترجیح فائر بندی ہے۔

حکومتی کمیٹی جب چاہے اس کی طالبان سے ملاقات کرا دینگے۔ مولانا سمیع الحق نے ہفتے 15 فروری کو لاہور کے مقامی ہوٹل میں ملک کے جید علما و مشائخ کا اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں امن مذاکرات میں پیش رفت پر اعتماد میں لیا جائیگا۔ طالبان اور حکومتی کمیٹیوں میں بدھ کو ہونیوالا اجلاس موخر کر دیا گیا یوسف شاہ کے مطابق آج جمعرات کو ملاقات کے حوالے سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہو سکا لہٰذا اس ملاقات کا امکان نہیں، اب یہ ملاقات حکومتی کمیٹی کے رکن رحیم اللہ یوسفزئی کی وطن واپسی پر ہی ہوگی۔ انھوں نے کہا طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد سے منسوب انٹرویو کے بعض حصوں کو غلط رنگ دیا گیا ہے۔ حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر جان کی ضمانت دی جائے تو طالبان کی قیادت براہ راست سامنے بیٹھ کرمذاکرات کرنے کیلیے تیار ہے۔ طالبان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے قبل طالبان کی قیادت جب مذاکرات کیلئے سامنے آئی تو انھیں گرفتار کیا گیا، مذاکراتی کمیٹیوں کا کام فوری فائر بندی ہے جبکہ تحریک طالبان کی قیادت جنگ بندی پر اصولی طور پر متفق ہو چکی ہے تاہم ابھی جو خدشات ہیں وہ دوسرے گروپوں کی طرف سے ہیں جو جنگ بندی نہیں چاہتے۔

مذاکرات صرف تحریک طالبان پاکستان سے ہی ہونگے، آئین سے ہٹ کر مذاکرات میں کوئی بات نہیں ہو گی اور کسی تنظیم یا گروپ کاکسی علاقے پر حق تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ جنگ بندی کا مطالبہ دونوں جانب سے کیا گیا تاہم کچھ یقین دہانیاں ابھی باقی ہیں جو حکومتی اور طالبان کی رابطہ کار کمیٹیوں کے درمیان آئندہ ملاقات میں طے کی جائیں گی۔ طالبان نے حالیہ دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، طالبان کے کچھ مخالفین ہیں جو مذاکرت کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ شریعت کے نفاذ کی بات مذاکرات میں شامل نہیں ہے۔ طالبان کی قیادت سے بھی مل بیٹھنے کا پروگرام ہے۔ مذاکرات کیلیے طالبان نے کوئی شرط عائد کی نہ ہی شریعت کے نفاذ کیلیے کوئی علاقہ کسی گروپ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ مذاکراتی عمل مہینوں میں نہیں بلکہ ہفتوں میں مکمل ہوگا۔ طالبان کے دفتر کے قیام کا کوئی ارادہ نہیں۔ طالبان نے نفاذ شریعت کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔

آئی این پی کے مطابق طالبان کی سیاسی شوریٰ نے واضح کردیا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات قران و سنت کی روشنی میں ہی ہونگے۔ ذرائع کے مطابق حکومتی کمیٹی کو موصول ہونے والے خط میں طالبان کی سیاسی شوریٰ نے کہا ہے کہ دونوں جانب سے حالات کی بہتری کے لیے مثبت اقدامات اٹھائے جانا چاہئیں' طالبان نے آپریشن کے علاقوں میں گرفتار کی گئی خواتین' بچوں اور بوڑھوں کی بھی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ طالبان کی سیاسی کمیٹی کی طرف سے حکومتی کمیٹی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ مولانا عبدالعزیز کو طالبان کی مذاکراتی کمیٹی سے عملاً الگ کردیا گیا ہے اور اب ان کا طالبان کمیٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ طالبان نے شورش زدہ علاقوںکی بھی وضاحت طلب کی ہے۔ ادھر ایک انٹرویو میں مولانا عبدالعزیز نے کہا ایسا لگ رہا ہے کہ مذاکراتی کمیٹیاں مجھے غیر فعال بنانا چاہتی ہیں اورمجھے مذاکرات کا حصہ نہیں دیکھنا چاہتیں۔

Recommended Stories

Load Next Story