انسانی المیہ اور خواتین

ریاستی جبر کے خلاف افغان خواتین کی مزاحمت کا سلسلہ کم ہوتا نظر نہیں آرہا۔

tauceeph@gmail.com

ISLAMABAD:
افغانستان میں اقتدارکی تبدیلی سے انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ شروع ہوا۔ طالبان نے افغانستان پر اپنا کنٹرول سنبھالتے ہی خواتین کے لیے تعلیم کے دروازے بندکیے۔ بین الاقوامی منظر نامہ پر خواتین کی تعلیم کے حوالے سے آوازیں اٹھیں تو طالبان رہنماؤں نے مختلف نوعیت کی وضاحتیں شروع کردیں۔

ایک رہنما نے فرمایا کہ طالبات کو اسکول جانے کی اجازت دیدی گئی ہے، مگر مخلوط تعلیم پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ کہا گیا کہ یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعلیم کے بارے میں پالیسی تیار ہو رہی ہے۔ افغان حکومت کا ایک بیان یہ بھی آیا کہ یونیورسٹی میں طالبات کو طلبا سے علیحدہ تعلیم کی اجازت ہوگی۔ کہا گیا کہ ابھی اس بارے میں پالیسی تیار ہو رہی ہے۔

طالبان کی حکومت نے خواتین کو مکمل پردہ کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ، جن خواتین کے چہرے کھلے ہوں گے انھیں سرعام کوڑے مارے جائیں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ضروری محکموں میں خواتین کوکام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اب طالبان حکومت نے خواتین کے تنہا سفر کرنے پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ افغانستان کی حکومت نے جو نئے قوانین نافذ کیے ہیں، ان کے مطابق کوئی خاتون یا خواتین محرم کے بغیر طویل سفر نہیں کرسکیں گی۔

بغیر محرم کے محدود سفرکی اجازت دی گئی ہے۔ فقہ حنفیہ کے مطابق محرم سے مراد والد ، بھائی ، شوہر یا بیٹے ہیں۔ طالبان کی اس پالیسی کی بناء پر خواتین کے تعلیم، علاج اور روزگار کے حق پر عملی طور پر پابندی لگ جائے گی۔ افغان پولیس کے اہلکاروں کو یہ اختیار حاصل ہوا ہے کہ سڑک پر چلتی ہوئی خواتین یا بسوں میں سفرکرنے والے خواتین سے پوچھ گچھ کریں کہ ان کا محرم کون ہے جو خاتون محرم کے بغیر سفر کرتی ہوئی پائی گئی اس کو سر عام کوڑے مارے جائیں گے یا جیل میں مقید کیا جائے گا۔

افغانستان گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ پہلے مجاہدین اور سوویت یونین کی فوجیں نبرد آزما تھیں۔ ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے خاتمہ کے بعد مجاہدین کے گروہ ایک دوسرے سے برسر پیکار رہے۔ طالبان نے کابل پر قبضہ کے لیے چڑھائی کی۔ طالبان کے کابل پر قبضہ کے بعد شمالی اتحاد ہزارہ قبائل کی جنگ جاری رہی۔ نائن الیون کی نیو یارک میں ہونے والی دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے امریکا اور نیٹو افواج کارپٹ بم گراتے اور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے خلاف برسرپیکار جنگ جو گولے برساتے رہے۔

گولہ بارود کی فضاء میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ مرنے والوں میں اکثریت جوانوں کی تھی۔ مرنے والے بوڑھوں اور بچوں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ اس جنگی ماحول میں بڑی تعداد میں عورتیں ماری گئیں، ہزاروں افراد اپاہج ہوئے ، جن علاقوں میں جنگ ختم ہوئی تھی وہاں بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے ہلاکتوں کی تعداد سیکڑوں نہیں ہزاروں تھی۔ سینکڑوں گھرانے ہیں جہاں باپ، بھائی یا شوہر سمیت جنگ کا شکار ہوئے۔ صرف عورتیں اور بچے بچ گئے۔


طالبان کے دور میں تو خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں پر مکمل پابندی تھی مگر حامد کرزئی کا دور خواتین کے لیے آزادی کا دور رہا۔ خواتین کو ہر سطح پر تعلیم حاصل کرنے کا حق ملا۔ خواتین تعلیم ، صحافت ، وکالت ، بینکنگ اور سروسز سیکٹر کے شعبوں میں داخل ہوئیں۔ خواتین کی کرکٹ ٹیم بن گئی۔

افغان کلچر کی اپنی رسمیں ہیں۔ پشتو فارسی اور دری زبانوں میں رومانی شاعری کی علیحدہ اہمیت ہے ، خواتین نے دوبارہ گلوکاری کا شعبہ اپنایا۔ خواتین اداکاری کرنے لگیں۔ نئے ٹی وی چینلز پر اینکر پرسن بن گئیں۔ خواتین ڈاکٹروں اور خواتین اساتذہ کی تعداد بڑھی۔ جنگجوؤں نے گزشتہ جنگ کے دوران تعلیم یافتہ خواتین کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا تھا۔ کئی صحافی، ڈاکٹر، وکلاء اور عدالتوں کے جج ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہوئے اور بہت سے مرد اور خواتین ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔

اب خواتین کی محرم کے بغیر گھر سے باہر نکلنے پر عائد پابندیوں میں ان کا کام کرنا ، تعلیم حاصل کرنا اور علاج کرانا بند ہوجائے گا۔ ایک غیر ملکی صحافی نے ایک ماہ قبل لکھا تھا کہ کابل میں صرف ایک ہی کاروبار زوروں پر ہے وہ کاروبار شٹل کاک برقعوں کا ہے۔ اس دفعہ افغان خواتین میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔

اب خواتین رجعت پسند قوانین کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں۔ خواتین نے افغانستان کا قومی پرچم تبدیل کرنے کے خلاف افغانستان کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے تھے۔ افغان پولیس کے اہلکاروں نے بندوقوں کے بٹ اور ڈنڈوں کے ذریعے خواتین کو منتشرکرنے کی کوشش کی تھی۔ خواتین کو حراست میں بھی لیا گیا ، اب کابل وغیرہ میں خواتین کے مظاہرے معمول بن گئے ہیں۔ کابل کے علاوہ دیگر شہروں میں خواتین کی مزاحمت کے مناظر نظر آئے تھے۔ ان خواتین کو ریاستی اہلکاروں کے طاقت سے کچلنے کی بار بار کوشش کی گئی۔

گزشتہ ہفتہ سابق فوجیوں کی پر اسرار ہلاکتوں کی وارداتیں میڈیا کی خبروں میں نمایاں ہوئیں۔ افغان حکومت نے اس بارے میں خاموشی اختیارکیے رکھی۔ خواتین نے کابل اور دیگر شہروں میں بھر پور احتجاج کیا۔ اخبارات میں شائع ہونے والی ایک تصویر سے دنیا کو پتہ چلا کہ پولیس اہلکار خواتین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کررہے ہیں، کئی خواتین کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔ ان مظاہروں کو کورکرنے والے صحافیوں پر تشدد ہوا۔ اس مظاہرہ کو کورکرنے والے صحافیوں اور کیمرہ مین کو حراست میں لیا گیا۔

ان کے آلات توڑ دیے گئے۔ ریاستی جبر کے خلاف افغان خواتین کی مزاحمت کا سلسلہ کم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ امریکا نے افغانستان کے حقوق کے تحفظ کے لیے دو خصوصی نمایندوں کا تقررکیا ہے ان میں ایک افغان نژاد امریکی خاتون شامل ہیں۔

افغانستان میں ریاست کے کھوکھلا ہونے پر انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اس المیہ کو روکنے کے لیے عالمی برادری سے مدد کے طلب گار ہیں مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں کہ افغانستان میں رونما ہونے والے انسانی المیہ کو ایک ہی صورت میں بچایا جاسکتا ہے کہ وہاں خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔
Load Next Story