لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
مسجد کے قیام سے اب تک کئی حکومتیں آئی اور چلی گئیں، لیکن کسی نے اس مسجد پر اعتراض نہیں کیا۔
RAWALPINDI:
جب بھی مذہبی نوعیت کا کوئی مسئلہ سامنے آیا ہے تو ہر مسلمان کے خون نے جوش مارا ہے اور جس کو اللہ رب العزت توفیق دے وہ اس پر لکھنے، بولنے، عدالت میں قانونی جنگ اور اپنی جمع پونجی کو اس پر خرچ کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ رب العزت ہر بندے سے جس پر وہ مکلف ہوگا پوچھے گا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں حق کا ساتھ دینے اور اس پر استقامت سے نوازے۔
بحیثیت لکھاری میں اس پر مکلف ہوں کہ اس پر ترجیحی بنیادوں پر ایسے مسائل پر لکھوں۔ آج کل کراچی کے معروف تجارتی مرکز طارق روڈ پر واقعہ مدینہ مسجد کو گرانے کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ حساس مسلمان اور مذہبی حلقے اس معاملے پر جذباتی نظر آتے ہیں جو ایک فطری عمل ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق شہر کے تجارتی مقام طارق روڈ پرواقع پانچ منزلہ مدینہ مسجد کی عمارت کو پارک کی زمین پر تعمیر قرار دے کر شہید کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو ہدایت دی ہے کہ پارک کی جگہ کو واگزار کرکے اسے ایک ہفتے میں بحال کیا جائے۔
عدالت نے یہ حکم سماعت کے دوران اس وقت دیا تھا جب عدالت نے استفسار کیا کہ پاکستان کوآپریٹوہاؤسنگ سوسائٹی (پی ای سی ایچ ایس) طارق روڈ کے مقام پر اصل نقشے میں موجود دلکشاء پارک اور کلب کی زمین پر تعمیرات کیسے کر دی گئیں؟ عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ مدینہ مسجد 1100گز دلکشاء پارک کی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے جب کہ اس کے ساتھ متصل دلکشاء کلب کی زمین پر بھی مدرسہ قائم کیا گیا ہے جو اس کے علاوہ ہے۔ سپریم کورٹ نے تمام تعمیرات کو مسمار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
عدالتی حکم پر پارک بحال کرنے کے معاملے پر انتظامی افسران کا اہم اجلاس ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن (ڈی ایم سی) ایسٹ کے دفتر میں ہوا۔ اجلاس میں پارک بحال کرنے کے سلسلے میں اہم فیصلے کیے گئے۔ ان فیصلوں کے مطابق انتظامیہ اس بات پر متفق ہوئی کہ پارک کی جگہ پر تعمیرات دو دن میں خالی کرواکے پارک بحال کر دیا جائے گا۔
اجلاس میں 5 منزلہ مدینہ مسجد کے ٹرسٹی جاوید اقبال ایڈووکیٹ بھی پیش ہوئے۔ ان کے توسط سے مسجد کمیٹی نے مدرسہ، دکانیں اور کلب ایک دن میں خالی کرنے کی حامی بھری جب کہ پارک پر مدینہ مسجد کی تعمیر کا پی ای سی ایچ سوسائٹی کا این او سی پیش کیا گیا۔
ٹرسٹی جاوید اقبال ایڈووکیٹ کے مطابق اس مقام پر پہلے پارک تھا، 1994 میں پی ای سی ایچ ایس انتظامیہ نے یہ جگہ مسجد کے لیے وقف کر دی تھی۔ انھوں نے مؤقف اختیار کیا کہ مدینہ مسجد قبضہ کی جگہ پر نہیں بلکہ وقف جگہ پر قائم کی گئی۔ مسجد انتظامیہ کا موقف ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے قبضے کی جگہ مساجد کو بند کرنے کا جو حکم دیا ہے، یہ وقف کی جگہ پر لاگو نہیں ہوتے۔ عدالت عظمیٰ نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا۔ اس مسئلے پر شرعی نقطہ نظر مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی صاحب کا سامنے آیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ "اسلامی ریاست میں مسجد بنانا ریاست کی ذمے داری ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب مسلمانوں کو اقتدار نصیب ہو ان کا پہلا کام ہے کہ مسجدیں بنائیں تاکہ مسلمان عبادت کرسکیں۔ حکومتیں تو ہمیشہ اس مسئلے میں پہلو تہی کرتی آئی ہیں، کوئی ایک مسجد بتا دیں جو حکومت نے بنائی ہو۔ اگر حکومت نے کوئی مسجد بنائی ہو تو کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔
حکومت تو اپنی اس ذمے داری کو نبھانے میں قاصر رہی ہے، ایسی صورت میں اگر مسلمان کسی ایسی زمین جو ملکیت سے خالی ہو یا سرکاری زمین ہو وہاں مسجد تعمیر کرتے ہیں تاکہ نماز قائم ہوسکے تو اس کو قانونی حیثیت مل جاتی ہے۔'' بہرحال تمام علماء و فقہا اور ماہرین قانون کو اس حوالے سے حتمی رائے بنانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اس معاملے پر مسجد انتظامیہ، مقامی آبادی اور جمعیت علماء اسلام ڈٹ گئی ہیں اور فیصلہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔ اس وقت مدینہ مسجد کے معاملے پر جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے، وہ ایک بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔
دینی جماعتوں کا موقف ہے کہ چار دہائیاں قبل اور باقاعدہ اجازت نامہ کے بعد اہل محلہ نے مدینہ مسجد کی تعمیر شروع کی تھی۔ اس کے بعد ہر سال آڈٹ ہوتا رہا ہے۔ تمام یوٹیلیٹی بلز وغیرہ ادا کیے جاتے ہیں اور ہر سال گوشوارہ آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ رجسٹرڈ کمپنی سے کرایا جاتا ہے۔
مسجد کے قیام سے اب تک کئی حکومتیں آئی اور چلی گئیں، لیکن کسی نے اس مسجد پر اعتراض نہیں کیا۔ بعض دینی حلقے وقف کی تشریح یوں بھی کرتے ہیں کہ اگر کسی محلے کے مسلمانوں نے مسجد کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کسی موزوں اور مناسب سرکاری زمین پر مجاز اتھارٹی سے این او سی لے کر مسجد تعمیر کر لی ہے تو یہ شرعی طور پر وقف کہلاتاہے۔
یہ ایسا معاملہ ہے جسے انتہائی احتیاط کے ساتھ ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے' اگر قانونی طور پر ممکن ہے تو فیصلے پر نظرثانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرکے اس کا کوئی ایسا حل سامنے آنا چاہیے جو آئین و قانون کے ساتھ فقہی بنیادوں پر پورا اترتا ہو' یہ ایسا معاملہ نہیں ہے کہ اس کا حل نہ نکلے' عدالت کے حکم کے بعد گھیراؤ جلاؤ کی طرف جانا بھی درست نہیں ہے بلکہ مہذب انداز سے قانونی تقاضوں کے مطابق کام کرنا چاہیے۔
بہرحال ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر بات قانون کی عملداری یا شرعی حیثیت کی پاسداری کی ہے تو اس کا اطلاق اسلام آباد سمیت پورے ملک میں غیر قانونی سرکاری اور نجی املاک اور زمینوں پر قبضوں پر بھی ہونا چاہیے اور کسی بھی عنوان سے سرکاری اراضی پر بغیر اجازت تعمیر کی جانے والی تمام عمارتوں کے خلاف اجتماعی آپریشن کا فیصلہ بھی سامنے آنا چاہیے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دنیا کے اختتام پر میدان حشر میں ایک اعلیٰ و ارفع عدالت رب کائنات نے لگانی ہے کیا ریاست اور عدالت اس معاملے پر وہاں جواب دے سکے گی کہ کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان اور ریاست مدینہ کے دعویدار تبدیلی سرکار کے دور حکومت میں بنی گالہ کی اربوں مالیت کے سرکاری زمین کو ایک شخص کی خاطر معمولی رقم کے عوض ریگولرائنر کیا جاسکتا ہے تو مسجد کے معاملے میں ایسی رعایت کیوں نہیں ہے؟
ایک فقہی مسئلہ ہے کہ اگر کسی سلطنت کے حکمران و بادشاہ وقت اپنی بیوی کو ''مشروط طلاق'' ان الفاظ میں دے کہ ''اگر آپ فلاں وقت تک میری سلطنت کی حدود سے نہ نکل سکی تو آپ کو تین طلاق ہو''۔ شریعت مطہرہ کی رو سے اگر مشروط طلاق میں شرط پوری نہ ہو تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
اگر وہ عورت اپنے گھر سے نکل کر مختصر وقت کے لیے شاہی محل کی مسجد میں بھی داخل ہوگئی تو طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ جیسے ہی عورت مسجد میں داخل ہوگی تو بادشاہ کی سلطنت کی حدود سے نکل جائے گی۔ بہرحال جو مباحث ہو رہے ہیں' ان میں ہر قسم کی بات ہوتی ہے' البتہ ایک خالصتاً عوامی رائے بھی ہے کہ پورے ملک میں تمام سرکاری زمینیں جو با اثر خاندانوں کو وقتاً فوقتاً عنایت کی گئیں' وہ بھی واپس لی جائیں اور جن سرکاری زمینوں پر قبضے کر کے محلات کھڑے کیے گئے ہیں' انھیں بھی مسمار کیا جانا چاہیے۔
اگر باقی تمام غیر قانونی قبضوں کو نظر انداز کر کے صرف مساجد کے خلاف آپریشن کیا جائے تو پھر جذبات تو بھڑکتے ہیں۔
جب بھی مذہبی نوعیت کا کوئی مسئلہ سامنے آیا ہے تو ہر مسلمان کے خون نے جوش مارا ہے اور جس کو اللہ رب العزت توفیق دے وہ اس پر لکھنے، بولنے، عدالت میں قانونی جنگ اور اپنی جمع پونجی کو اس پر خرچ کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ رب العزت ہر بندے سے جس پر وہ مکلف ہوگا پوچھے گا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں حق کا ساتھ دینے اور اس پر استقامت سے نوازے۔
بحیثیت لکھاری میں اس پر مکلف ہوں کہ اس پر ترجیحی بنیادوں پر ایسے مسائل پر لکھوں۔ آج کل کراچی کے معروف تجارتی مرکز طارق روڈ پر واقعہ مدینہ مسجد کو گرانے کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ حساس مسلمان اور مذہبی حلقے اس معاملے پر جذباتی نظر آتے ہیں جو ایک فطری عمل ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق شہر کے تجارتی مقام طارق روڈ پرواقع پانچ منزلہ مدینہ مسجد کی عمارت کو پارک کی زمین پر تعمیر قرار دے کر شہید کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو ہدایت دی ہے کہ پارک کی جگہ کو واگزار کرکے اسے ایک ہفتے میں بحال کیا جائے۔
عدالت نے یہ حکم سماعت کے دوران اس وقت دیا تھا جب عدالت نے استفسار کیا کہ پاکستان کوآپریٹوہاؤسنگ سوسائٹی (پی ای سی ایچ ایس) طارق روڈ کے مقام پر اصل نقشے میں موجود دلکشاء پارک اور کلب کی زمین پر تعمیرات کیسے کر دی گئیں؟ عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ مدینہ مسجد 1100گز دلکشاء پارک کی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے جب کہ اس کے ساتھ متصل دلکشاء کلب کی زمین پر بھی مدرسہ قائم کیا گیا ہے جو اس کے علاوہ ہے۔ سپریم کورٹ نے تمام تعمیرات کو مسمار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
عدالتی حکم پر پارک بحال کرنے کے معاملے پر انتظامی افسران کا اہم اجلاس ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن (ڈی ایم سی) ایسٹ کے دفتر میں ہوا۔ اجلاس میں پارک بحال کرنے کے سلسلے میں اہم فیصلے کیے گئے۔ ان فیصلوں کے مطابق انتظامیہ اس بات پر متفق ہوئی کہ پارک کی جگہ پر تعمیرات دو دن میں خالی کرواکے پارک بحال کر دیا جائے گا۔
اجلاس میں 5 منزلہ مدینہ مسجد کے ٹرسٹی جاوید اقبال ایڈووکیٹ بھی پیش ہوئے۔ ان کے توسط سے مسجد کمیٹی نے مدرسہ، دکانیں اور کلب ایک دن میں خالی کرنے کی حامی بھری جب کہ پارک پر مدینہ مسجد کی تعمیر کا پی ای سی ایچ سوسائٹی کا این او سی پیش کیا گیا۔
ٹرسٹی جاوید اقبال ایڈووکیٹ کے مطابق اس مقام پر پہلے پارک تھا، 1994 میں پی ای سی ایچ ایس انتظامیہ نے یہ جگہ مسجد کے لیے وقف کر دی تھی۔ انھوں نے مؤقف اختیار کیا کہ مدینہ مسجد قبضہ کی جگہ پر نہیں بلکہ وقف جگہ پر قائم کی گئی۔ مسجد انتظامیہ کا موقف ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے قبضے کی جگہ مساجد کو بند کرنے کا جو حکم دیا ہے، یہ وقف کی جگہ پر لاگو نہیں ہوتے۔ عدالت عظمیٰ نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا۔ اس مسئلے پر شرعی نقطہ نظر مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی صاحب کا سامنے آیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ "اسلامی ریاست میں مسجد بنانا ریاست کی ذمے داری ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب مسلمانوں کو اقتدار نصیب ہو ان کا پہلا کام ہے کہ مسجدیں بنائیں تاکہ مسلمان عبادت کرسکیں۔ حکومتیں تو ہمیشہ اس مسئلے میں پہلو تہی کرتی آئی ہیں، کوئی ایک مسجد بتا دیں جو حکومت نے بنائی ہو۔ اگر حکومت نے کوئی مسجد بنائی ہو تو کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔
حکومت تو اپنی اس ذمے داری کو نبھانے میں قاصر رہی ہے، ایسی صورت میں اگر مسلمان کسی ایسی زمین جو ملکیت سے خالی ہو یا سرکاری زمین ہو وہاں مسجد تعمیر کرتے ہیں تاکہ نماز قائم ہوسکے تو اس کو قانونی حیثیت مل جاتی ہے۔'' بہرحال تمام علماء و فقہا اور ماہرین قانون کو اس حوالے سے حتمی رائے بنانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اس معاملے پر مسجد انتظامیہ، مقامی آبادی اور جمعیت علماء اسلام ڈٹ گئی ہیں اور فیصلہ ماننے سے انکار کردیا ہے۔ اس وقت مدینہ مسجد کے معاملے پر جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے، وہ ایک بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔
دینی جماعتوں کا موقف ہے کہ چار دہائیاں قبل اور باقاعدہ اجازت نامہ کے بعد اہل محلہ نے مدینہ مسجد کی تعمیر شروع کی تھی۔ اس کے بعد ہر سال آڈٹ ہوتا رہا ہے۔ تمام یوٹیلیٹی بلز وغیرہ ادا کیے جاتے ہیں اور ہر سال گوشوارہ آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ رجسٹرڈ کمپنی سے کرایا جاتا ہے۔
مسجد کے قیام سے اب تک کئی حکومتیں آئی اور چلی گئیں، لیکن کسی نے اس مسجد پر اعتراض نہیں کیا۔ بعض دینی حلقے وقف کی تشریح یوں بھی کرتے ہیں کہ اگر کسی محلے کے مسلمانوں نے مسجد کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کسی موزوں اور مناسب سرکاری زمین پر مجاز اتھارٹی سے این او سی لے کر مسجد تعمیر کر لی ہے تو یہ شرعی طور پر وقف کہلاتاہے۔
یہ ایسا معاملہ ہے جسے انتہائی احتیاط کے ساتھ ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے' اگر قانونی طور پر ممکن ہے تو فیصلے پر نظرثانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرکے اس کا کوئی ایسا حل سامنے آنا چاہیے جو آئین و قانون کے ساتھ فقہی بنیادوں پر پورا اترتا ہو' یہ ایسا معاملہ نہیں ہے کہ اس کا حل نہ نکلے' عدالت کے حکم کے بعد گھیراؤ جلاؤ کی طرف جانا بھی درست نہیں ہے بلکہ مہذب انداز سے قانونی تقاضوں کے مطابق کام کرنا چاہیے۔
بہرحال ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر بات قانون کی عملداری یا شرعی حیثیت کی پاسداری کی ہے تو اس کا اطلاق اسلام آباد سمیت پورے ملک میں غیر قانونی سرکاری اور نجی املاک اور زمینوں پر قبضوں پر بھی ہونا چاہیے اور کسی بھی عنوان سے سرکاری اراضی پر بغیر اجازت تعمیر کی جانے والی تمام عمارتوں کے خلاف اجتماعی آپریشن کا فیصلہ بھی سامنے آنا چاہیے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دنیا کے اختتام پر میدان حشر میں ایک اعلیٰ و ارفع عدالت رب کائنات نے لگانی ہے کیا ریاست اور عدالت اس معاملے پر وہاں جواب دے سکے گی کہ کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان اور ریاست مدینہ کے دعویدار تبدیلی سرکار کے دور حکومت میں بنی گالہ کی اربوں مالیت کے سرکاری زمین کو ایک شخص کی خاطر معمولی رقم کے عوض ریگولرائنر کیا جاسکتا ہے تو مسجد کے معاملے میں ایسی رعایت کیوں نہیں ہے؟
ایک فقہی مسئلہ ہے کہ اگر کسی سلطنت کے حکمران و بادشاہ وقت اپنی بیوی کو ''مشروط طلاق'' ان الفاظ میں دے کہ ''اگر آپ فلاں وقت تک میری سلطنت کی حدود سے نہ نکل سکی تو آپ کو تین طلاق ہو''۔ شریعت مطہرہ کی رو سے اگر مشروط طلاق میں شرط پوری نہ ہو تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
اگر وہ عورت اپنے گھر سے نکل کر مختصر وقت کے لیے شاہی محل کی مسجد میں بھی داخل ہوگئی تو طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ جیسے ہی عورت مسجد میں داخل ہوگی تو بادشاہ کی سلطنت کی حدود سے نکل جائے گی۔ بہرحال جو مباحث ہو رہے ہیں' ان میں ہر قسم کی بات ہوتی ہے' البتہ ایک خالصتاً عوامی رائے بھی ہے کہ پورے ملک میں تمام سرکاری زمینیں جو با اثر خاندانوں کو وقتاً فوقتاً عنایت کی گئیں' وہ بھی واپس لی جائیں اور جن سرکاری زمینوں پر قبضے کر کے محلات کھڑے کیے گئے ہیں' انھیں بھی مسمار کیا جانا چاہیے۔
اگر باقی تمام غیر قانونی قبضوں کو نظر انداز کر کے صرف مساجد کے خلاف آپریشن کیا جائے تو پھر جذبات تو بھڑکتے ہیں۔