پہلی مرتبہ دماغ میں اوسی ڈی کی وجہ بننے والا برقی عمل دریافت
اس دماغی کیفیت کے شکار افراد ایک کام کو بار بار کرتے ہیں اور ان دیکھے خوف کے شکار رہتے ہیں
لاہور:
ٓبسیسو کمپلسیو ڈس آرڈر (اوسی ڈی) ایک دماغی نفسیاتی کیفیت ہے جس میں کوئی شخص ایک ہی عمل بار بار دہراتا ہے یا پھر ان دیکھے خوف کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔ اب سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ اس کیفیت کی دماغی برقی سرگرمی کے اصل مقام کا سراغ لگایا ہے۔
اس دریافت سے اوسی ڈی کی وجہ بننے والے برقی سگنلوں کو کمزور یا ان کی راہ بدل کر لاکھوں کروڑوں مریضوں کو سکون کی زندگی مل سکے گی جس کے لیے وہ مہنگی ادویہ کھانے پر مجبور ہیں۔ کئی ممالک میں ہر 100 میں سے دو افراد اوسی ڈی سے متاثر ہیں اور ان کی روزمرہ زندگی اجیرن ہوکررہ گئی ہے۔
براؤن یونیورسٹی میں بایو میڈیکل انجینیئر ڈیوڈ بورٹن اور ان کے ساتھیوں نے او سی ڈی کی شدید کیفیت میں مبتلا پانچ افراد کی دماغی سرگرمی کو تجربہ گاہ اور گھر میں نوٹ کیا۔ اس کے علاوہ چہرے کے تاثرات، جسمانی حرکات، دل کی دھڑکن اور دیگر کیفیات کو بھی نوٹ کیا۔
اس کے بعد رویے میں بدلاؤ اور دماغی (برقی) سرگرمی کے تعلق پرغورہوا۔ اگرچہ صرف چند لوگوں پر یہ تحقیق ہوئی ہے لیکن اس کے نتائج اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس سے علاج کی نئی راہیں کھلیں گی۔ ماہرین نے گھر اور تجربہ گاہ میں او سی ڈی کی وجہ بننے والے دماغی سگنلوں کی درست شناخت کی اور اس وقت جسمانی برتاؤ کا جائزہ بھی لیا۔
سائنسداں اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ دماغی برقی لہروں کو دیکھ کر بتاسکیں کہ اس وقت اوسی ڈی کی کتنی شدت ہے اور کس وقت مریض نارمل ہے۔ اس طرح دن اور رات میں دورے کا غلبہ اور شدت معلوم کی جاسکتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ اوسی ڈی ریکارڈ کرنے والا نظام دماغ کو سکون بھی پہنچا سکتا ہے۔ یہ آلات ڈی بی ایس یعنی ڈیپ برین سیمولیشن فراہم کرتے ہیں۔ یعنی جیسے ہی او سی ڈی کو نوٹ کریں یہ اپنے طور پر برقی سرگرمی کی فائرنگ شروع کرکے اسے کم کرسکتے ہیں تاہم ڈی بی ایس کا عمل بہت کم فائدہ مند رہا ہے۔ کئی مریضوں میں تو اس کا کوئی فائدہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
لیکن اب اوسی ڈی کا برقی پیٹرن معلوم کرکے ڈی بی ایس کو اس لحاظ سے تبدیل کیا جاسکتا ہے یعنی اوسی ڈی دیکھ کر بی ڈی ایس اپنے سگنل تبدیل کرے گا اور اس برقی عمل کو دبانے کا کمزور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اسے سائنسدانوں نے ایڈاپٹو ڈی بی ایس کا نام دیا ہے۔
براؤن یونیورسٹی کے مطابق اوسی ڈی کی برقی سرگرمی کا سراغ پانے سے علاج کے نئے طریقے سامنے آئیں گے۔
ٓبسیسو کمپلسیو ڈس آرڈر (اوسی ڈی) ایک دماغی نفسیاتی کیفیت ہے جس میں کوئی شخص ایک ہی عمل بار بار دہراتا ہے یا پھر ان دیکھے خوف کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔ اب سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ اس کیفیت کی دماغی برقی سرگرمی کے اصل مقام کا سراغ لگایا ہے۔
اس دریافت سے اوسی ڈی کی وجہ بننے والے برقی سگنلوں کو کمزور یا ان کی راہ بدل کر لاکھوں کروڑوں مریضوں کو سکون کی زندگی مل سکے گی جس کے لیے وہ مہنگی ادویہ کھانے پر مجبور ہیں۔ کئی ممالک میں ہر 100 میں سے دو افراد اوسی ڈی سے متاثر ہیں اور ان کی روزمرہ زندگی اجیرن ہوکررہ گئی ہے۔
براؤن یونیورسٹی میں بایو میڈیکل انجینیئر ڈیوڈ بورٹن اور ان کے ساتھیوں نے او سی ڈی کی شدید کیفیت میں مبتلا پانچ افراد کی دماغی سرگرمی کو تجربہ گاہ اور گھر میں نوٹ کیا۔ اس کے علاوہ چہرے کے تاثرات، جسمانی حرکات، دل کی دھڑکن اور دیگر کیفیات کو بھی نوٹ کیا۔
اس کے بعد رویے میں بدلاؤ اور دماغی (برقی) سرگرمی کے تعلق پرغورہوا۔ اگرچہ صرف چند لوگوں پر یہ تحقیق ہوئی ہے لیکن اس کے نتائج اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس سے علاج کی نئی راہیں کھلیں گی۔ ماہرین نے گھر اور تجربہ گاہ میں او سی ڈی کی وجہ بننے والے دماغی سگنلوں کی درست شناخت کی اور اس وقت جسمانی برتاؤ کا جائزہ بھی لیا۔
سائنسداں اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ دماغی برقی لہروں کو دیکھ کر بتاسکیں کہ اس وقت اوسی ڈی کی کتنی شدت ہے اور کس وقت مریض نارمل ہے۔ اس طرح دن اور رات میں دورے کا غلبہ اور شدت معلوم کی جاسکتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ اوسی ڈی ریکارڈ کرنے والا نظام دماغ کو سکون بھی پہنچا سکتا ہے۔ یہ آلات ڈی بی ایس یعنی ڈیپ برین سیمولیشن فراہم کرتے ہیں۔ یعنی جیسے ہی او سی ڈی کو نوٹ کریں یہ اپنے طور پر برقی سرگرمی کی فائرنگ شروع کرکے اسے کم کرسکتے ہیں تاہم ڈی بی ایس کا عمل بہت کم فائدہ مند رہا ہے۔ کئی مریضوں میں تو اس کا کوئی فائدہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
لیکن اب اوسی ڈی کا برقی پیٹرن معلوم کرکے ڈی بی ایس کو اس لحاظ سے تبدیل کیا جاسکتا ہے یعنی اوسی ڈی دیکھ کر بی ڈی ایس اپنے سگنل تبدیل کرے گا اور اس برقی عمل کو دبانے کا کمزور کرنے کی کوشش کرے گا۔ اسے سائنسدانوں نے ایڈاپٹو ڈی بی ایس کا نام دیا ہے۔
براؤن یونیورسٹی کے مطابق اوسی ڈی کی برقی سرگرمی کا سراغ پانے سے علاج کے نئے طریقے سامنے آئیں گے۔