دوری کا تعلق کسی سراب سے کم نہیں
میاں بیوی کے درمیان دوری رشتے کو کمزور اور کھوکھلا کر سکتی ہے
ISLAMABAD:
دوری کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ آپ یہ جاننے سے قاصر ہوتے ہیں کے کسی کوآپ کی یادبھی آتی ہے یا پھر آپ بھلا دیئے گئے ہیں۔
انسانی زندگی میں خوف چٹان کی طرح ہوتا ہے، جس کے پار گلزار ہوں یا کہکشاںانسان درست اندازہ لگانے سے قاصر رہتا ہے۔ اور اس خوف میں ہی اسے سر کرنے سے گریز کرتا ہے کے نجانے کچھ حاصل ہوگا بھی یا نہیں۔ رشتے ناطے انسانی معاشرے کی ضرورت اوراساس ہوتے ہیں۔
ان کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان قربت اور ایک دوسرے کا سہارا بننے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کی بات کی جائے تو اس میں میاں بیوی کا رشتہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس رشتے کا تقاضا ہے کہ دوری تعلق پہ حاوی نہ ہو۔ لیکن بعض اوقات حالات و واقعات زندگی میں بہت سے ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں جن کا محرک ہماری مادی ضروریات ہوتی ہیں اور ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی خواہشات کے خلاف ان پر عمل کرنا پڑتا ہے۔
فوزیہ ایک امیر علاقے میں اپنے چار بچوں کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں۔ وہ جوائینٹ فیملی سسٹم کا حصہ ہیں جہاں ان کے پورشن کے علاوہ ان کی تین دیوارانائیاں بمع اہل وایال ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ان کی کہانی حقائق پہ مبنی ہے جو شوہر سے دور عورت کے لئے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔ فوزیہ نے اپنے بارے میں بتایا کے وہ ڈپریشن کی مریضہ ہیںا ور چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپے سے باہر ہو جاتی ہیں۔ بچوں کی شررات پہ ان کی دھلائی کر کے رکھ دیتی ہیں۔
اپنے دیورانیوں سے بات بات پہ لڑنے کو تیار رہتی ہیں اور ان پہ طنز کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ہر چھوٹی سی بات کو ایک بڑا ایشو بنانے میں دیر نہیں لگاتیں۔ اور سب گھر والوں سے نالاں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ''آج سے ایک برس قبل میں یہی سمجھتی تھی کے میرے سسرال والے ظالم اور خود غرض ہیں اور انھیں میری کوئی پرواہ ہے نہ میرے بچوں کی۔'' فوزیہ نے گزشتہ برس اپنی ایک دوست کے مشورے پر ماہر نفسیات سے رجوع کیا اوران کے اس رویے اور سوچ کی جو وجوہات سامنے آئیں وہ افسوسناک بھی تھیں اور قابل رحم بھی۔ دراصل ان کے شوہر شادی سے قبل روزگار کی غرض بیرون ملک مقیم تھے، جب ان کی شادی ہوئی تو وہ دونوں صرف ڈیڑھ ماہ ساتھ رہ سکے جس کے بعد ان کے شوہر ویزہ ختم ہونے پہ واپس چلے گئے۔
فوزیہ کوشروع میں زیادہ توجہ ملی کیونکہ وہ پہلی بہوتھیں جب ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا مگر اس موقع پر ان کے شوہر موجود نہ تھے۔ وقت گزرتا گیا اور یکے بادیگرے ان کے تینوں دیوروں کی شادیاں ہو گئیں اور گھر میں مزید لوگوں کا اضافہ ہو گیا۔
فوزیہ نے نئے لوگوں کو جگہ دینے کے بجائے اپنا حریف سمجھنا شروع کر دیا اور کیونکہ ان کے شوہر تاحال باہر ہی مقیم تھے اور وہ تنہا چار بچوں کی پروریش کر رہی تھیں اس بات کو لے کر وہ حد سے زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرنے لگیں۔ وہ کہتی ہیں کے''مجھے اپنی دیورانیوں پہ بے حد غصہ آتا تھا اور بات بات پہ جھگڑا ہو جاتا تھا، خصوصاً جب وہ اپنے میاں کے لئے تیار ہوتیں یا اپنے بچوں اور میاں کے ہمراہ کہیں جاتیں۔ دراصل میں ان سے حسد کرنے لگی تھی'' ماہر نفسیات نے انھیں بتایا کے وہ ذہنی اور روحانی طور پہ بیمار ہو چکی ہیں خود کومظلوم اور باقی دنیا کو ظالم سمجھ لینا مسئلے کا حل نہیں، اگر شوہر روزگار کی غرض سے باہر ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کے وہ آپ سے کٹ چکے ہیں اور وہ آپ اور آپ کے بچوں کے لئے ہی پردیس کاٹ رہے ہیں اور رہی بات گھر میں اہمیت کی تو وہ انسان خلوص اور محبت سے حاصل کر سکتا ہے۔
فوزیہ باقائدگی سے اپنے سیشینز لے رہی ہیں اور اب نارمل زندگی کی جانب گامزن ہیں''میں اپنے سسرال اور دیورانیوں سے بے حد شرمندہ ہوں کے میں نے گزشتہ نو برس میں ان کی زندگی کو جہنم بنا دیا اور اپنے بچوں کو بھی ذہنی اذیت دی۔لیکن میں جانتی ہوں وہ اعلٰی ظرف ہیں مجھے معاف کر دیں گے۔ ایک بات یہ کہنا چاہوں گی کے کوئی بھی نارمل انسان بلا وجہ فساد نہیں پھیلاتا۔ کاش بروقت میرے گھر والوں نے مجھے ماہر نفسیات کو دکھایا ہوتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی، ہاں میں یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ شادی عمر بھر کا ساتھ ہے جیون ساتھی ساتھ نہ ہو تو زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی''۔
فوزیہ جیسی کئی کہانیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، اس میں تو کوئی دورائے نہیں کے دوری کا تعلق کسی سراب سے کم نہیں مگر ایسی صورت حال میں فریقین کو حالات و واقعات کو سمجھنا چاہیئے اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنا چاہئے۔دوری کے تعلق میں صرف میاں بیوی ہی نہیں بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
کیا تعلق میں دوری طلاق کا سبب ہے؟
یوں تو جنوبی ایشیاء میں طلاق کی شرع کم ترین ہے لیکن اس کی وجہ تعلق میں قربت نہیں بلکہ تحقیق سے یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ رشتوں کے جڑے رہنے کی ایک بڑی وجہ سماجی و خاندانی دباؤ بھی ہے۔دنیا بھر میں کثرتِ طلاق کی وجوہات میں سے میاں بیوی کے درمیان دوری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سن 2018میں سامنے آنے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کے جن جوڑوں میںدوری کا تعلق ہوتا ہے ان کی واضح اکثریت علیحدگی اختیار کر لیتی ہے جس میں نوجوان جوڑے سر فہراست ہیں۔
تحمل، بردباری ، برداشت اور ہمدردی کا مظاہرہ ہی تعلق کی بقاء کا ضامن ہو سکتا ہے، ڈاکٹر محسن
ماہر نفسیات ڈاکٹر محسن عطاء کا تعلق سرگودھا سے ہے وہ میاں بیوی کے درمیان دوری کے تعلق کے حوالے سے اپنے علمی و تحقیقی تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ،'' میاں بیوی کے درمیان پیسہ یا ظاہری خوبصورتی کے مقابلے میں تعلق کو مضبوط کرنے والی اصل چیز اعتماد ہے جو قربت اور زیادہ وقت گزارنے سے پیدا ہوتا ہے۔دوری کی صورت میں خطرناک ترین بات یہ ہوتی ہے کے عورت کے پاس کتھارسسز کرنے کے لئے کوئی نہیں ہوتا اور ہمارے معاشرے میں عموماً سسرالی ماحول سخت ہوتا ہے اور شوہر والدین کو بیوی پہ ترجع دیتا ہے جس سے دونوں کے درمیان دوری اور اینگزائٹی پیدا ہوتی ہے۔
جیسے بیرون ممالک مقیم شوہر مختصر قیام کے لئے آتے ہیں تو اس وجہ سے ان دونوں کے درمیان اس قدر جذباتی وابستگی پیدا نہیں ہو سکتی جو کے قریب رہنے والے اور ساتھ وقت گزارنے والے جوڑوں میں ہوتی ہے۔اینگزائٹی بڑھنے کی وجہ سے دونوں میں منفی رویے جنم لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو کے تعلق کے لئے خطرناک ہے۔ بچوں کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کو بخوشی یا بحالتِ مجبوری قبول کر رہے ہوتے ہیں لیکن اصل چیز آہستہ آہستہ دم توڑتا اعتماد ہے''۔جب اس صورت حال کا حل پوچھا تو ڈاکٹر محسن کا کہنا تھا کے ''بیرون ملک تعلیم یا نوکری کی غرض سے جانے والوں کے پاس اپنے شریک حیات کو ساتھ لے جانے کے مواقع بھی ہوتے ہیں۔
جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان اگر مسائل پیدا بھی ہوں گے تو وہ خودان کو حل کر سکتے ہیں۔لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو دونوں کو تحمل، بردباری ، برداشت اور ہمدری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔اور سمجھنا چاہیئے کے آگر شوہر باہر گیا ہے تو وہ بھی اکیلا ایک مشکل زندگی گزار رہا ہے۔اگر اپنی محسوسیات اور احساسات کا جارحانہ اظہار کیا جائے تو رشتہ بچنا ممکن نہیں رہتا۔ ضرورت پڑنے پہ ماہر نفسیات سے رجوع کی جا سکتی ہے۔
اسلام کے بہترین ادوار میں بھی بیوی سے دوری کو ناپسند کیا گیا،مفتی ضیاء
اسلامی و دینی نقطۂ نظر سے میاں بیوی کے درمیان دوری پر احکامات جاننے کے لئے ہم نے عالم دین مفتی ضیاء الرحمن سے رابطہ کیا جس میں انھوں نے تفصیلاً بتایا کے ''نبی کریم ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں دین کا پھیلائو ہوا تو صحابہ کرام ؓ طویل مدت کے لئے جہاد کی غرض سے جاتے توواپسی لمبے عرصے بعد ہوتی۔ ایک رات حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک عورت کو اپنے شوہر کی یاد میں دکھی اشعار پڑھتے سنا جس پہ وہ اپنی صاحبزای حضرت حفصہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور سوال کیا کے ایک عورت اپنے شوہر کے بنا کتنا عرصہ رہ سکتی ہے جس پہ انھوںؓنے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کے چار ماہ۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اس کے بعد حکم دیا کے ہر فوجی چار ماہ بعد ضرور گھر آئے گا۔
تو گویا یہ افضل ترین احکام میں سے ہے کے چار ماہ سے زائد بیوی سے دور نہ رہا جائے۔ آجکل کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہتر یہ ہے کے اگر باہر تعلیم یا روزگار کی غرض سے جایا جائے تو بیوی کی اجازت سے جائے اور واپسی میں چار ماہ سے زائد عرصہ نہ لگے۔ بعض آئمہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ چھ ماہ سے زائد اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے بنا اجازت دور رہتا ہے تو وہ ایک ناجائز کام کرتا ہے۔ یاد رہے کے جس وقت یہ حکم آیا وہ حضرت عمر فاروق ؓ کا دور تھا جو اسلام کے بہترین و پاکیزہ وقتوں میں سے تھا۔ آج کے حساب سے دیکھا جائے تو دیگر معاشرتی مسائل کے ساتھ بے حیائی و فحاشی عام ہو چکی ہے۔ تو اگر شوہر کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے بیوی جانے انجانے میں کسی گناہ کی مرتکب ہوتی ہے تو اس کا قصور شوہر کے سر ہو گا۔
دوری کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ آپ یہ جاننے سے قاصر ہوتے ہیں کے کسی کوآپ کی یادبھی آتی ہے یا پھر آپ بھلا دیئے گئے ہیں۔
انسانی زندگی میں خوف چٹان کی طرح ہوتا ہے، جس کے پار گلزار ہوں یا کہکشاںانسان درست اندازہ لگانے سے قاصر رہتا ہے۔ اور اس خوف میں ہی اسے سر کرنے سے گریز کرتا ہے کے نجانے کچھ حاصل ہوگا بھی یا نہیں۔ رشتے ناطے انسانی معاشرے کی ضرورت اوراساس ہوتے ہیں۔
ان کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان قربت اور ایک دوسرے کا سہارا بننے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کی بات کی جائے تو اس میں میاں بیوی کا رشتہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس رشتے کا تقاضا ہے کہ دوری تعلق پہ حاوی نہ ہو۔ لیکن بعض اوقات حالات و واقعات زندگی میں بہت سے ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں جن کا محرک ہماری مادی ضروریات ہوتی ہیں اور ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی خواہشات کے خلاف ان پر عمل کرنا پڑتا ہے۔
فوزیہ ایک امیر علاقے میں اپنے چار بچوں کے ہمراہ رہائش پذیر ہیں۔ وہ جوائینٹ فیملی سسٹم کا حصہ ہیں جہاں ان کے پورشن کے علاوہ ان کی تین دیوارانائیاں بمع اہل وایال ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ان کی کہانی حقائق پہ مبنی ہے جو شوہر سے دور عورت کے لئے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔ فوزیہ نے اپنے بارے میں بتایا کے وہ ڈپریشن کی مریضہ ہیںا ور چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپے سے باہر ہو جاتی ہیں۔ بچوں کی شررات پہ ان کی دھلائی کر کے رکھ دیتی ہیں۔
اپنے دیورانیوں سے بات بات پہ لڑنے کو تیار رہتی ہیں اور ان پہ طنز کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ہر چھوٹی سی بات کو ایک بڑا ایشو بنانے میں دیر نہیں لگاتیں۔ اور سب گھر والوں سے نالاں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ''آج سے ایک برس قبل میں یہی سمجھتی تھی کے میرے سسرال والے ظالم اور خود غرض ہیں اور انھیں میری کوئی پرواہ ہے نہ میرے بچوں کی۔'' فوزیہ نے گزشتہ برس اپنی ایک دوست کے مشورے پر ماہر نفسیات سے رجوع کیا اوران کے اس رویے اور سوچ کی جو وجوہات سامنے آئیں وہ افسوسناک بھی تھیں اور قابل رحم بھی۔ دراصل ان کے شوہر شادی سے قبل روزگار کی غرض بیرون ملک مقیم تھے، جب ان کی شادی ہوئی تو وہ دونوں صرف ڈیڑھ ماہ ساتھ رہ سکے جس کے بعد ان کے شوہر ویزہ ختم ہونے پہ واپس چلے گئے۔
فوزیہ کوشروع میں زیادہ توجہ ملی کیونکہ وہ پہلی بہوتھیں جب ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا مگر اس موقع پر ان کے شوہر موجود نہ تھے۔ وقت گزرتا گیا اور یکے بادیگرے ان کے تینوں دیوروں کی شادیاں ہو گئیں اور گھر میں مزید لوگوں کا اضافہ ہو گیا۔
فوزیہ نے نئے لوگوں کو جگہ دینے کے بجائے اپنا حریف سمجھنا شروع کر دیا اور کیونکہ ان کے شوہر تاحال باہر ہی مقیم تھے اور وہ تنہا چار بچوں کی پروریش کر رہی تھیں اس بات کو لے کر وہ حد سے زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرنے لگیں۔ وہ کہتی ہیں کے''مجھے اپنی دیورانیوں پہ بے حد غصہ آتا تھا اور بات بات پہ جھگڑا ہو جاتا تھا، خصوصاً جب وہ اپنے میاں کے لئے تیار ہوتیں یا اپنے بچوں اور میاں کے ہمراہ کہیں جاتیں۔ دراصل میں ان سے حسد کرنے لگی تھی'' ماہر نفسیات نے انھیں بتایا کے وہ ذہنی اور روحانی طور پہ بیمار ہو چکی ہیں خود کومظلوم اور باقی دنیا کو ظالم سمجھ لینا مسئلے کا حل نہیں، اگر شوہر روزگار کی غرض سے باہر ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کے وہ آپ سے کٹ چکے ہیں اور وہ آپ اور آپ کے بچوں کے لئے ہی پردیس کاٹ رہے ہیں اور رہی بات گھر میں اہمیت کی تو وہ انسان خلوص اور محبت سے حاصل کر سکتا ہے۔
فوزیہ باقائدگی سے اپنے سیشینز لے رہی ہیں اور اب نارمل زندگی کی جانب گامزن ہیں''میں اپنے سسرال اور دیورانیوں سے بے حد شرمندہ ہوں کے میں نے گزشتہ نو برس میں ان کی زندگی کو جہنم بنا دیا اور اپنے بچوں کو بھی ذہنی اذیت دی۔لیکن میں جانتی ہوں وہ اعلٰی ظرف ہیں مجھے معاف کر دیں گے۔ ایک بات یہ کہنا چاہوں گی کے کوئی بھی نارمل انسان بلا وجہ فساد نہیں پھیلاتا۔ کاش بروقت میرے گھر والوں نے مجھے ماہر نفسیات کو دکھایا ہوتا تو آج نوبت یہاں تک نہ پہنچتی، ہاں میں یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ شادی عمر بھر کا ساتھ ہے جیون ساتھی ساتھ نہ ہو تو زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی''۔
فوزیہ جیسی کئی کہانیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، اس میں تو کوئی دورائے نہیں کے دوری کا تعلق کسی سراب سے کم نہیں مگر ایسی صورت حال میں فریقین کو حالات و واقعات کو سمجھنا چاہیئے اور ایک دوسرے پر اعتماد کرنا چاہئے۔دوری کے تعلق میں صرف میاں بیوی ہی نہیں بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
کیا تعلق میں دوری طلاق کا سبب ہے؟
یوں تو جنوبی ایشیاء میں طلاق کی شرع کم ترین ہے لیکن اس کی وجہ تعلق میں قربت نہیں بلکہ تحقیق سے یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ رشتوں کے جڑے رہنے کی ایک بڑی وجہ سماجی و خاندانی دباؤ بھی ہے۔دنیا بھر میں کثرتِ طلاق کی وجوہات میں سے میاں بیوی کے درمیان دوری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سن 2018میں سامنے آنے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کے جن جوڑوں میںدوری کا تعلق ہوتا ہے ان کی واضح اکثریت علیحدگی اختیار کر لیتی ہے جس میں نوجوان جوڑے سر فہراست ہیں۔
تحمل، بردباری ، برداشت اور ہمدردی کا مظاہرہ ہی تعلق کی بقاء کا ضامن ہو سکتا ہے، ڈاکٹر محسن
ماہر نفسیات ڈاکٹر محسن عطاء کا تعلق سرگودھا سے ہے وہ میاں بیوی کے درمیان دوری کے تعلق کے حوالے سے اپنے علمی و تحقیقی تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ،'' میاں بیوی کے درمیان پیسہ یا ظاہری خوبصورتی کے مقابلے میں تعلق کو مضبوط کرنے والی اصل چیز اعتماد ہے جو قربت اور زیادہ وقت گزارنے سے پیدا ہوتا ہے۔دوری کی صورت میں خطرناک ترین بات یہ ہوتی ہے کے عورت کے پاس کتھارسسز کرنے کے لئے کوئی نہیں ہوتا اور ہمارے معاشرے میں عموماً سسرالی ماحول سخت ہوتا ہے اور شوہر والدین کو بیوی پہ ترجع دیتا ہے جس سے دونوں کے درمیان دوری اور اینگزائٹی پیدا ہوتی ہے۔
جیسے بیرون ممالک مقیم شوہر مختصر قیام کے لئے آتے ہیں تو اس وجہ سے ان دونوں کے درمیان اس قدر جذباتی وابستگی پیدا نہیں ہو سکتی جو کے قریب رہنے والے اور ساتھ وقت گزارنے والے جوڑوں میں ہوتی ہے۔اینگزائٹی بڑھنے کی وجہ سے دونوں میں منفی رویے جنم لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو کے تعلق کے لئے خطرناک ہے۔ بچوں کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کو بخوشی یا بحالتِ مجبوری قبول کر رہے ہوتے ہیں لیکن اصل چیز آہستہ آہستہ دم توڑتا اعتماد ہے''۔جب اس صورت حال کا حل پوچھا تو ڈاکٹر محسن کا کہنا تھا کے ''بیرون ملک تعلیم یا نوکری کی غرض سے جانے والوں کے پاس اپنے شریک حیات کو ساتھ لے جانے کے مواقع بھی ہوتے ہیں۔
جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان اگر مسائل پیدا بھی ہوں گے تو وہ خودان کو حل کر سکتے ہیں۔لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو دونوں کو تحمل، بردباری ، برداشت اور ہمدری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔اور سمجھنا چاہیئے کے آگر شوہر باہر گیا ہے تو وہ بھی اکیلا ایک مشکل زندگی گزار رہا ہے۔اگر اپنی محسوسیات اور احساسات کا جارحانہ اظہار کیا جائے تو رشتہ بچنا ممکن نہیں رہتا۔ ضرورت پڑنے پہ ماہر نفسیات سے رجوع کی جا سکتی ہے۔
اسلام کے بہترین ادوار میں بھی بیوی سے دوری کو ناپسند کیا گیا،مفتی ضیاء
اسلامی و دینی نقطۂ نظر سے میاں بیوی کے درمیان دوری پر احکامات جاننے کے لئے ہم نے عالم دین مفتی ضیاء الرحمن سے رابطہ کیا جس میں انھوں نے تفصیلاً بتایا کے ''نبی کریم ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں دین کا پھیلائو ہوا تو صحابہ کرام ؓ طویل مدت کے لئے جہاد کی غرض سے جاتے توواپسی لمبے عرصے بعد ہوتی۔ ایک رات حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک عورت کو اپنے شوہر کی یاد میں دکھی اشعار پڑھتے سنا جس پہ وہ اپنی صاحبزای حضرت حفصہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے اور سوال کیا کے ایک عورت اپنے شوہر کے بنا کتنا عرصہ رہ سکتی ہے جس پہ انھوںؓنے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کے چار ماہ۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اس کے بعد حکم دیا کے ہر فوجی چار ماہ بعد ضرور گھر آئے گا۔
تو گویا یہ افضل ترین احکام میں سے ہے کے چار ماہ سے زائد بیوی سے دور نہ رہا جائے۔ آجکل کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہتر یہ ہے کے اگر باہر تعلیم یا روزگار کی غرض سے جایا جائے تو بیوی کی اجازت سے جائے اور واپسی میں چار ماہ سے زائد عرصہ نہ لگے۔ بعض آئمہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ چھ ماہ سے زائد اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے بنا اجازت دور رہتا ہے تو وہ ایک ناجائز کام کرتا ہے۔ یاد رہے کے جس وقت یہ حکم آیا وہ حضرت عمر فاروق ؓ کا دور تھا جو اسلام کے بہترین و پاکیزہ وقتوں میں سے تھا۔ آج کے حساب سے دیکھا جائے تو دیگر معاشرتی مسائل کے ساتھ بے حیائی و فحاشی عام ہو چکی ہے۔ تو اگر شوہر کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے بیوی جانے انجانے میں کسی گناہ کی مرتکب ہوتی ہے تو اس کا قصور شوہر کے سر ہو گا۔