کس کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

وزیر اعظم نے اٹارنی جنرل کو نواز شریف کی واپسی کے لیے تمام اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے

jamilmarghuz1@gmail.com

ISLAMABAD:
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت مسلم لیگ کے قائد نواز شریف کے وطن واپس نہ آنے پر ان کے ضمانتی شہباز شریف کے خلاف کارروائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرے گی' وزیر اعظم نے اٹارنی جنرل کو نواز شریف کی واپسی کے لیے تمام اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جب سے میاں نواز شریف کو حکومت سے نکالا گیا ہے' پاکستان کی سیاست ان کے گرد ہی گھوم رہی ہے' آج کل سیاست کچھ زیادہ ہی ان کی ذات کے گرد گھوم رہی ہے' ساری حکومتی مشینری اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور عوام کو کچھ ریلیف دینے کے بجائے نواز شریف خاندان کو سزا دلانے کے طریقے اور گر تلاش کرنے کی تگ و دو میںپریشان حال ہے' یہاں تک کہ اکثر کابینہ اجلاس بھی صرف اسی نکتے پر ہوتے ہیں' ایسی بدحواسیاں دیکھ کر شاعر نے کہا تھا۔

غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر

محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسما ن جیسے

جناب وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں پارٹی ترجمانوں کے اجلاس کے دوران کہاکہ ''نواز شریف کی سزا ختم ہونے سے متعلق قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں'یہ کیسے ممکن ہے کہ سزا یافتہ شخص کی سزا ختم ہو جا ئے 'نواز شریف نے عوام کا پیسہ لوٹا اورباہر منتقل کیا ہے 'پاناما میں نواز شریف کا نام آیا ہے اورعدالت نے ان کو ڈس کوالیفائی کیا ہے' نواز شریف آج تک منی ٹریل بھی نہ دے سکے' ایک مجرم کی سزا ختم کرکے کیسے چوتھی بار وزیر اعظم بنایا جا سکتا ہے؟۔نواز شریف کو اعلیٰ عدلیہ نے سزا سنائی ہے ۔

اب نواز شریف کی نا اہلی ختم کرانے کے لیے راستے نکالے جا رہے ہیں'نواز شریف کی سزا ختم کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے 'نواز شریف کی جو نا اہلی ہوئی 'اگر وہ کرپشن نہیں ہے تو کرپشن کیا ہو تی ہے۔؟ نوازشریف کی سزا ختم کرنی ہے تو ساری جیلیں کھول دی جائیں'جھوٹے کیسز میں ملوث لوگ جیلوں میں بند ہیں، بڑے چوروں کے لیے راستے نکالے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں' ترجمانوں کو چاہیے کہ نواز شریف کی کرپشن کو ہائی لائٹ کریں''۔اس پورے بیان میں وزیراعظم نے یہ نہیں بتایا کہ کون نواز شریف کے لیے راستہ ہموار کر رہا ہے؟

عجیب ہنگامہ برپا ہے 'پیپلز پارٹی کے رہنماء رحمان ملک کو بھی کہنا پڑا کہ '' وزراء کی بوکھلاہٹ بتا رہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے''روزانہ چار چار وزراء پریس کانفرنس کر رہے ہیں'خیبر پختونخوا کی بلدیاتی الیکشن میں بد ترین شکست کو چھوڑ کر پوری حکومت اس مسئلے کے پیچھے پڑ گئی ہے ۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب مسلم لیگ کے رہنماء میاں جاوید لطیف نے مرحوم خواجہ رفیق کی برسی کے موقع پر اور پھر ایک ٹی وی پروگرام میں کہا ہے کہ '' نواز شریف ہفتوں میں پاکستان میںنظر آئیں گے 'عمران خان بتائیں کہ نواز شریف کی واپسی کا راستہ کون بنا رہا ہے؟'' ۔اس سوال کا جواب آج تک کسی نے نہیں دیا ۔

نواز شریف کے خلاف مقدمات اور سزا کا معاملہ پہلے دن سے قانون دانوں کی نظر میں متنازعہ رہا ہے۔ اس معاملے میں مختلف اوقات میں وڈیوز بھی سامنے آئی ہیں 'جن میں جسٹس شمیم 'جسٹس صدیقی'جج ارشد ملک کے بیانات بہت نمایاں ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ معاملہ نواز شریف اور عدلیہ کے درمیان ہے لیکن تکلیف تحریک انصاف کوہوتی ہے۔ رحمان ملک 'رانا ثناء اللہ کاکہنا سچ لگتاہے کہ نواز شریف کے واپس آنے کا خوف'حکومتی ارکان کو سونے نہیں دے رہا۔

یہ تماشہ بھی پاکستان نے دیکھا کہ کس طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تین مرتبہ کے منتخب وزیر اعظم'جن کا نام بھی پاناما لیکس میںشامل نہیں تھا'ان کے خلاف احتساب کا عمل شروع کیا گیا 'جو ابھی تک جاری ہے۔پاناما لیکس میں کم وبیش 400سے زائدلوگوںکے نام تھے مگراحتساب کے نام پر صرف منتخب وزیر اعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے لیڈر اور ان کی بیٹی اور داماد کو سزادی گئی۔

ان کے ساتھیوں اورخاندان والوںکو بھی متواتر جیلوں میں رکھا گیا۔اب یہ حکومت سانپ کے منہ میںچھچھوند بن کر پھنس گئی ہے 'جس کو نہ نگلتے بنتی ہے اور نہ اگلتے' اقتدارمیں شریک سب قوتیں اس وقت بند گلی میں ہیں'یہ گتھی کچھ اس طرح سے الجھائی گئی ہے کہ اب اس کا سلجھنا کم و بیش نا ممکن ہے' جنھوں نے الجھائی ہے' وہ بھی سنوارنے سے رہے'اس کے لیے جس سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے وہ موجود نہیں' یہ بصیرت اہل سیاست میں ہوسکتی 'اگروہ گروہی مفادات سے بلند ہو سکیں'سر دست وہ اس پر آمادہ نہیں'کوئی نیا حل جیسے صدارتی نظام بھی تباہ کن ہوگا۔بقول شاعر۔


غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے

اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے

وزیراعظم حیران ہیںکہ ایک سزا یافتہ مجرم کو چوتھی بار وزیراعظم کیسے بنایا جا سکتا ہے؟کیا انھیں معلوم نہیں کہ پاکستان میں یہ معجزے ہوتے رہتے ہیں جیسے کہ ''مشرف کو بھگایا جا سکتا ہے 'جیسے کسی کوصادق اور امین بنایا جا سکتا ہے 'جیسے بھٹو کو پھانسی دی جا سکتی ہے' جیسے پاناما میں سے اقامہ نکالاجا سکتا ہے 'جیسے رانا ثناء اللہ پر 15کلو ہیروئین ڈالی جا سکتی ہے' جیسے فاطمہ جناح کو غدار ٹھرایا جا سکتا ہے''۔

اب اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے'اس پر بھی وزراء نے ناراضی کا اظہار کیا ہے 'سب سے پہلے توآرٹیکل 184کے تحت نواز شریف کا کیس سننا غلًط تھا'یہ سوموٹو اختیار صرف مفاد عامہ کے مسائل کے حل کے لیے ہے 'سیاستدانوں کو نا اہل کرنے کے لیے نہیں'اس آرٹیکل کے تحت سزا یافتہ فرد کو اپیل کاحق بھی نہیں ہوتا' جو دنیا بھر کے قانون اور انسانی حقوق کے خلاف ہے 'جہاں تک تا حیات نا اہلی کا معاملہ ہے۔

اس کا سیاست میں کوئی تصور نہیں ہے' بڑے سے بڑے گناہگارکوبھی اﷲ تعالی توبہ کی رعایت دیتا ہے'کیا کوئی فرد جرم کرنے کے بعد تائب نہیں ہو سکتا 'کیا قاتل کو بھی معاف نہیں کیاجاتا؟ان مسائل کو حل کرنے کے لیے جمہوریت پسند وکلاء جناب احسن بھون کی سرکردگی میں میدان میںہیں' موجودہ بحران کاحل یہی ہے کہ نواز شریف کے معاملے میں قانون کو اپنا راستہ بنانے دیا جائے، ملک میں منصفانہ انتخابات کرائے جائیںاور حکومت منتخب نمایندوںکے سپرد کی جائے، یہ تو میری رائے ہے ، زمینی حقیقت کے مطابق یہ بحران کہاں پر ختم ہوگا'یہ معاملہ جن قوتوں نے پیدا کیا ہے وہی اس کاصحیح جواب دے سکتے ہیں۔

البتہ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ ہائبرڈ نظام لانے کا تجربہ کرلیا گیا 'یہ تجربہ اتنا ناکام ثابت ہوا کہ اب نہ معیشت سنبھالی جا رہی ہے اور نہ سیاست' مہنگائی اور بے روزگاری 'ملک کی سیاسی مسائل کا حل صرف ایک جمہوری طور پرمنتخب پاپولر لیڈر ہی حل سکتا ہے ، دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے ' عوام کی مرضی کی حکومت کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں' اب مزید فارمولوں کی گنجائش نہیں ہے'اس ایک تجربے نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ حکومت کے رویے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ بقول ۔ افتخار عارف۔

یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گے 'رات کے وقت

سحر سے پہلے پہلے سب تماشہ ختم ہوگا

تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے کہ

پردہ کب گرے گا'کب تماشاختم ہوگا
Load Next Story