انسانی جانیں زیادہ قیمتی ہیں
ایک عرصے سے کراچی کے شہری کتوں کے نرغے میں ہیں
جب شیر کو جنگلی کتے چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اب نرغے میں آگیا ہے تو پھر زور زور سے بھونکتے ہوئے اس کے گرد چکر لگانا شروع کردیتے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنا گھیرا مزید تنگ کرنا شروع کردیتے ہیں اور جب دیکھتے کہ ان کا شکار بدحواس ہوگیااور تھک گیا ہے تو پھر کوئی آگے سے کوئی پیچھے سے اس پر حملے شروع کردیتے ہیں اور پھر ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ شیر زمین پر گر جاتا ہے تو کتے اس پر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ آہستہ آہستہ شیر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے اور پھر کتے اپنے پنجوں اور دانتوں سے بھنبھوڑنا شروع کردیتے ہیں اور اس طرح جنگل کا بادشاہ کتوں کے ہاتھوں دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔
پاکستان کے میگا سٹی کراچی کی سڑکوں اور گلیوں میں بھی جابجا ایسے ہی متعدد مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جب کو ئی راہ گیر اپنے راستے پر چل رہا ہوتا ہے تو آوارہ کتوں کے غول کے غول اس شخص کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں، بھوکنا شروع کردیتے ہیں اس کا گھیرا تنگ کردیتے ہیں اور پھر موقع ملتے ہی کوئی کتا آگے سے تو کوئی کتا پیچھے سے اس راہ گیر شخص پر حملے شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح یہ شخص موت کے حوالے ہوجاتا ہے یا پھر شدید زخمی ہوکر ریبیز مرض کا شکار ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ موت ہوتا ہے یا پھر پاگل پن۔
ایک عرصے سے کراچی کے شہری کتوں کے نرغے میں ہیں۔ گلی محلوں میں دن رات آوارہ کتے جن میں پاگل کتے بھی شامل ہوتے ہیں دندناتے پھرتے ہیں یہ کتے لوگوں کو کاٹتے، رہتے ہیں، بچے ان کا خصوصی نشانہ ہوتے ہیں۔
ان کی خون آشامی کا شکار زخمی شخص اسپتال جاتے ہیں تو وہاں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں ہوتی ۔ کراچی میں یومیہ ایک سو افراد کتوں کے کاٹنے کا شکار ہوتے ہیں آئے روز میڈیا میں ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ پر فلاں آدمی کو کتوں نے کاٹ لیا ہے مگر مجال ہے کہ شہری انتظامیہ حرکت میں آئے اور کتوں کا سد باب کرے۔
اگر غلطی سے شہری انتظامیہ کسی علاقے میں کتا مار مہم شروع کردیں تو ترقی پسند اور روشن خیال این جی اوز کے کرتا دھرتا شور مچانا شروع کردیتے ہیں کہ یہ کتوں کے ساتھ ظلم ہے، یہ کتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، کتوں کو مارو نہیں بلکہ کھسی کرو ۔ کتوں کے کاٹنے سے انسانی جانیں زخمی ہورہے ہیں تو کوئی بات نہیں، دس بیس پچاس کے باولے ہوجانے، ہوس حواس کھورہے ہیں، جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، دنیا سے اٹھ جانے سے ایسا کون سا فرق پڑجائے گا۔
کتوں سے ہمدردی تو ترقی پسندی اور روشن خیالی کا طرہ امتیاز بنتا جارہا ہے جسے قائم و دائم رکھنے کے لیے انسانی قیمتی جانوں کو آوارہ کتوں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا گیا ہے جب کہ دوسری طرف کراچی کے سڑکوں اور محلوں میں آوارہ اور پاگل کتوں نے ایک آفت برپا کررکھی ہے۔
کراچی انتظامیہ کتوں کے خلاف کوئی ٹھوس آپریشن کرنے سے قاصر ہے محض دکھاوے کے لیے چند ایک ہاتھ کتے مار ے جاتے ہیں ۔ستم ظریفی یہ کہ کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب نہیں ہے ۔روزانہ سیکڑوں لوگ کتے کے کاٹے کی ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہوجاتے ہیں ۔آخر ان واقعات کے اموات کا ذمے دار کون ہے ؟ کوئی تو ذمے داری اٹھائے ۔سندھ حکومت کے محکمہ صحت کی اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 کے پہلے نو مہینوں میں صوبہ سندھ بھر کے اسپتالوں میں ڈیڈھ لاکھ سے زائد کتے کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
سگ گزیدگی کے سب سے زیادہ واقعات کراچی میں 17ہزار آٹھ سو ہوئے تھے ۔سندھ میں ہر مہینے کتے کے کاٹنے کے 16 ہزار سے 17ہزار کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر کو اینٹی ریبیز ویکسین نہیں ملتی۔ سندھ میں کتوں کی آبادی 28لاکھ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ حکومت سندھ ان کتوں کی آبادی کو کم کرنے کے لیے سرکاری سطح پر کئی اقدامات کرتی رہتی ہے جن میں کتوں کو گولی مارنا یا زہر دے کر مارنا شامل ہیں۔
جانوروں کے حقوق پر کام کرنے والی جی اوز کے احتجاج کے بعد اب کتوں کو زہر دے کر ان کی نسل کشی نہیں کی جاتی بلکہ ان کو پکڑ کر ویکسین لگائی جاتی ہے تاکہ کتے کھسی ہوجائیں، اگر وہ کسی کو کاٹیں بھی تو بیماری نہ پھیلے مگر کتوں کی آبادی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ صحت کے ماہرین کے مطابق ریبیز ایک وائرل انفکشن ہے جو ریبیز سے متاثرہ کتے، بلی، لومڑی، گیدڑ، چمگاڈر یا ایسے کسی جانور کے کاٹنے پر تھوک سے انسان میں داخل ہوجاتا ہے، ریبیز کے اثرات ظاہر ہونے پر مریض کے دماغ میں سوجن ہوجانے کے بعد وہ حواس کھو بیٹھتا ہے۔
ایسے مریض اکثر بے قابو ہوجاتے ہیں، انھیں پانی سے خوف آتاہے اور ذہنی انتشار اور ہوش کھونے جیسی علامات بھی ہوسکتی ہیں۔ ہرسال پانچ ہزار پاکستانی ریبیز سے متاثر ہوتے ہیں اور ملک میں سب سے زیادہ کیس سندھ میں ریکارڈ ہوتے ہیں۔ ریبیز سے انسانوں کی اموات 99 فیصد کتوں کے کاٹنے سے ہوتا ہے، متاثرین میں 40فیصد 15سال سے کم عمر بچے ہوتے ہیں جب کہ ریبیز سے 95 فیصد اموات واقع ہوتے ہیں۔ بروقت ویکسین لگا کر انسان کو ریبیز سے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب اٹلی میں قائم جانوروں کے تحفظ کی عالمی تنظیم انٹر نیشنل آرگنائزیشن فار اینمل پروٹیکشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان کی گلیوں میں 50ہزار سے زائد کتے حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں یا انھیں ماردیا جاتا ہے اور حکومت خود ملک کے تقریبا ہر شہر میں کتوں کو زہر دے کر مارتی ہے۔ صرف لاہور اور کراچی شہر میں ہرسال 20ہزار کتوں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔
اس تنظیم نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھ کر اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان میں کتوں کی ہلاکت کو روکیں اور تجویز دی ہے کہ کتوں کو مارنے کے بجائے پکڑکر تولیدی نظام ناکارہ بناکر اور ویکسین لگا کر چھوڑ دیا کریں۔ این جی اوز والے کتوں کی نسل کشی کو انتہائی ظلم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کتا بھی ہمارے ماحول کا حصہ ہے جہاں انسان ہوتے ہیں، وہیں کتا پایا جاتا ہے، ہم کتے کو مارنے کی بجائے ان کے ساتھ سکون سے رہ سکتے ہیں، اگر ہم کتوں کا خیال کریں اور ان سے محبت کریں تو وہ بھی ہم سے محبت کریں گے۔
مذکورہ بالا حالات و واقعات کی روشنی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتوں کی جانیں انسانوں کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں یا انسانوں کی جانیں کتوں کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں؟۔ فیصلہ آپ عوام کا۔
پاکستان کے میگا سٹی کراچی کی سڑکوں اور گلیوں میں بھی جابجا ایسے ہی متعدد مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جب کو ئی راہ گیر اپنے راستے پر چل رہا ہوتا ہے تو آوارہ کتوں کے غول کے غول اس شخص کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں، بھوکنا شروع کردیتے ہیں اس کا گھیرا تنگ کردیتے ہیں اور پھر موقع ملتے ہی کوئی کتا آگے سے تو کوئی کتا پیچھے سے اس راہ گیر شخص پر حملے شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح یہ شخص موت کے حوالے ہوجاتا ہے یا پھر شدید زخمی ہوکر ریبیز مرض کا شکار ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ موت ہوتا ہے یا پھر پاگل پن۔
ایک عرصے سے کراچی کے شہری کتوں کے نرغے میں ہیں۔ گلی محلوں میں دن رات آوارہ کتے جن میں پاگل کتے بھی شامل ہوتے ہیں دندناتے پھرتے ہیں یہ کتے لوگوں کو کاٹتے، رہتے ہیں، بچے ان کا خصوصی نشانہ ہوتے ہیں۔
ان کی خون آشامی کا شکار زخمی شخص اسپتال جاتے ہیں تو وہاں کتے کے کاٹے کی ویکسین نہیں ہوتی ۔ کراچی میں یومیہ ایک سو افراد کتوں کے کاٹنے کا شکار ہوتے ہیں آئے روز میڈیا میں ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ پر فلاں آدمی کو کتوں نے کاٹ لیا ہے مگر مجال ہے کہ شہری انتظامیہ حرکت میں آئے اور کتوں کا سد باب کرے۔
اگر غلطی سے شہری انتظامیہ کسی علاقے میں کتا مار مہم شروع کردیں تو ترقی پسند اور روشن خیال این جی اوز کے کرتا دھرتا شور مچانا شروع کردیتے ہیں کہ یہ کتوں کے ساتھ ظلم ہے، یہ کتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، کتوں کو مارو نہیں بلکہ کھسی کرو ۔ کتوں کے کاٹنے سے انسانی جانیں زخمی ہورہے ہیں تو کوئی بات نہیں، دس بیس پچاس کے باولے ہوجانے، ہوس حواس کھورہے ہیں، جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، دنیا سے اٹھ جانے سے ایسا کون سا فرق پڑجائے گا۔
کتوں سے ہمدردی تو ترقی پسندی اور روشن خیالی کا طرہ امتیاز بنتا جارہا ہے جسے قائم و دائم رکھنے کے لیے انسانی قیمتی جانوں کو آوارہ کتوں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا گیا ہے جب کہ دوسری طرف کراچی کے سڑکوں اور محلوں میں آوارہ اور پاگل کتوں نے ایک آفت برپا کررکھی ہے۔
کراچی انتظامیہ کتوں کے خلاف کوئی ٹھوس آپریشن کرنے سے قاصر ہے محض دکھاوے کے لیے چند ایک ہاتھ کتے مار ے جاتے ہیں ۔ستم ظریفی یہ کہ کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب نہیں ہے ۔روزانہ سیکڑوں لوگ کتے کے کاٹے کی ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہوجاتے ہیں ۔آخر ان واقعات کے اموات کا ذمے دار کون ہے ؟ کوئی تو ذمے داری اٹھائے ۔سندھ حکومت کے محکمہ صحت کی اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 کے پہلے نو مہینوں میں صوبہ سندھ بھر کے اسپتالوں میں ڈیڈھ لاکھ سے زائد کتے کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
سگ گزیدگی کے سب سے زیادہ واقعات کراچی میں 17ہزار آٹھ سو ہوئے تھے ۔سندھ میں ہر مہینے کتے کے کاٹنے کے 16 ہزار سے 17ہزار کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر کو اینٹی ریبیز ویکسین نہیں ملتی۔ سندھ میں کتوں کی آبادی 28لاکھ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ حکومت سندھ ان کتوں کی آبادی کو کم کرنے کے لیے سرکاری سطح پر کئی اقدامات کرتی رہتی ہے جن میں کتوں کو گولی مارنا یا زہر دے کر مارنا شامل ہیں۔
جانوروں کے حقوق پر کام کرنے والی جی اوز کے احتجاج کے بعد اب کتوں کو زہر دے کر ان کی نسل کشی نہیں کی جاتی بلکہ ان کو پکڑ کر ویکسین لگائی جاتی ہے تاکہ کتے کھسی ہوجائیں، اگر وہ کسی کو کاٹیں بھی تو بیماری نہ پھیلے مگر کتوں کی آبادی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ صحت کے ماہرین کے مطابق ریبیز ایک وائرل انفکشن ہے جو ریبیز سے متاثرہ کتے، بلی، لومڑی، گیدڑ، چمگاڈر یا ایسے کسی جانور کے کاٹنے پر تھوک سے انسان میں داخل ہوجاتا ہے، ریبیز کے اثرات ظاہر ہونے پر مریض کے دماغ میں سوجن ہوجانے کے بعد وہ حواس کھو بیٹھتا ہے۔
ایسے مریض اکثر بے قابو ہوجاتے ہیں، انھیں پانی سے خوف آتاہے اور ذہنی انتشار اور ہوش کھونے جیسی علامات بھی ہوسکتی ہیں۔ ہرسال پانچ ہزار پاکستانی ریبیز سے متاثر ہوتے ہیں اور ملک میں سب سے زیادہ کیس سندھ میں ریکارڈ ہوتے ہیں۔ ریبیز سے انسانوں کی اموات 99 فیصد کتوں کے کاٹنے سے ہوتا ہے، متاثرین میں 40فیصد 15سال سے کم عمر بچے ہوتے ہیں جب کہ ریبیز سے 95 فیصد اموات واقع ہوتے ہیں۔ بروقت ویکسین لگا کر انسان کو ریبیز سے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب اٹلی میں قائم جانوروں کے تحفظ کی عالمی تنظیم انٹر نیشنل آرگنائزیشن فار اینمل پروٹیکشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان کی گلیوں میں 50ہزار سے زائد کتے حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں یا انھیں ماردیا جاتا ہے اور حکومت خود ملک کے تقریبا ہر شہر میں کتوں کو زہر دے کر مارتی ہے۔ صرف لاہور اور کراچی شہر میں ہرسال 20ہزار کتوں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔
اس تنظیم نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو خط لکھ کر اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان میں کتوں کی ہلاکت کو روکیں اور تجویز دی ہے کہ کتوں کو مارنے کے بجائے پکڑکر تولیدی نظام ناکارہ بناکر اور ویکسین لگا کر چھوڑ دیا کریں۔ این جی اوز والے کتوں کی نسل کشی کو انتہائی ظلم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کتا بھی ہمارے ماحول کا حصہ ہے جہاں انسان ہوتے ہیں، وہیں کتا پایا جاتا ہے، ہم کتے کو مارنے کی بجائے ان کے ساتھ سکون سے رہ سکتے ہیں، اگر ہم کتوں کا خیال کریں اور ان سے محبت کریں تو وہ بھی ہم سے محبت کریں گے۔
مذکورہ بالا حالات و واقعات کی روشنی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتوں کی جانیں انسانوں کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں یا انسانوں کی جانیں کتوں کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں؟۔ فیصلہ آپ عوام کا۔