عقیدۂ توحید
’’اور وہ ایک اﷲ ہی عبادت کے لائق ہے جو سب پر قابو پانے والا ہے۔‘‘
لاہور:
قرآن و حدیث اور تاریخ انسانی کا مطالعہ اس پر شاہد ہے کہ جو قومیں کفر و شرک کے مرض میں مبتلا ہوئیں وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئیں۔
ان کی دنیاوی شان و شوکت بھی خاک ہوگئی اور آخرت میں بھی ان کے لیے جہنم مقدر بنادی گئی، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ عقیدۂ توحید کا زبان و دل سے اقرار ہی ذریعۂ نجات ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لیے تخلیق آدم سے لے کر محسن انسانیت ﷺ کی آخری نبوت تک جس قدر انبیاء و رسلؑ دنیا میں تشریف لائے، ان سب کی دعوت و فکر کا محور و مرکز یہی فلسفۂ توحید رہا۔ سرور عالم ﷺ کی بعثت کے ساتھ اس عقیدۂ توحید پر ایمان و ایقان کی حجت فرما دی گئی۔
سورۃ الاخلاص میں رب تعالیٰ نے انتہائی وضاحت سے زبان رسالت ﷺ سے کہلوا دیا کہ آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ اﷲ یکتا ہے یعنی وہ اپنی ذات و صفات میں اکیلا ہے اور ان امور میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے، گویا اﷲ تعالیٰ ناصرف اپنی ذات بل کہ صفات عالیہ مثلاً خالقیت' مالکیت' رزاقیت، زندگی دینے اور چھین لینے' قیامت کے دن میزان قائم کرنے' حساب و کتاب لینے' اولاد دینے، نعمتوں کے چھین لینے یا ہر طرح کی بھلائیوں و خیر کا عطا کرنے والا ہے اور نظام کائنات کو اپنے حسن و تدبیر سے چلانے میں اسے کسی کی مدد یا اعانت کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح نہ اسے کسی نے جنا ہے اور نہ ہی اس نے کسی کو جنا، گویا نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی اس کی اولاد یا اس کے وجود کا حصہ ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
وہ ہر قسم کے عیبوں سے پاک ہے، وہ کسی چیز کا محتاج نہیں، بل کہ سب مخلوقات انسان، جنات، چرند، پرند، شجر، حجر، زمین، آسمان، ولی، پیمبر، فرشتے سارے اس کے محتاج ہیں۔ وہ ہر چیز پر قادر مطلق ہے،
کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی۔ وہی غیب کا جاننے والا ہے اور کوئی اس کا مشابہ نہیں۔ وہ مثالوں سے پاک ہے، اس کی کوئی مثل یا نظیر نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے۔ وہ عالم سے جدا ہے، وہ سب کا خالق ہے، اس لیے بس وہی ہر قسم کی عبادت کا مستحق ہے۔
اسی عقیدۂ توحید کی تعلیم کے لیے اﷲ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام ؑ کو مبعوث فرمایا جنہوں نے اپنے معاشروں، علاقوں، بستیوں اور قوموں میں آ کر یہی فلسفہ سمجھایا کہ اﷲ کی توحید کا اقرار کرو او ر دیگر معبودان باطلہ سے برأت کا اظہار کرو۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس مسئلے کو مختلف انداز میں سمجھایا گیا ہے۔
مفہوم: ''اے ہمارے نبی! (ﷺ) ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے سب کو یہی حکم دیا تھا کہ میں یکتا (اﷲ) اکیلا ہی عبادت کے لائق ہوں، تم صرف میری ہی عبادت کرتے رہنا۔'' (سورۃ الانبیاء)
دوسر ے مقام پر اس طرح فرمایا، مفہوم: ''لوگو! تمہارا صرف ایک ہی اﷲ ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ بہت رحم کرنے والا مہربان ہے۔'' (سورۃ البقرہ)
ایک مقام پر شرک سے یوں منع فرمایا گیا، مفہوم:
اور اﷲ نے فرمایا: دو معبود (الہہ) نہ بنائو بس، وہ ایک ہی معبود (اﷲ) عبادت کا حق دار ہے تم مجھ ہی سے ڈرو۔ (سورۃ النحل)
اسی طرح ایک جگہ اطاعت کا حکم اس طرح دیا گیا، مفہوم:
کہہ دیجیے! بس مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ تمہارا صرف ایک ہی الہہ یعنی اﷲ عبادت کے لائق ہے، تو اب تم مسلم (اطاعت گزار) بن جائو۔ (سورۃ الانبیاء)
توحید کی حقیقت سمجھانے کے لیے ایک جگہ اپنی کبریائی کا اظہار یوں فرمایا، مفہوم:
''اور وہ ایک اﷲ ہی عبادت کے لائق ہے جو سب پر قابو پانے والا ہے۔''
ان آیات مبارکہ سے توحید کی عظمت و اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس قسم کی اور بہت سی آیات مبارکہ قرآن مجید میں موجود ہیں۔ جن سے اﷲ کی وحدانیت ثابت ہوتی ہے۔
ﷲ تعالیٰ کو اس کی ذات و صفات کاملہ میں یکتا اور بے مثل ماننے کا نام توحید ہے اور ایسی توحید بہ حمد اللہ صرف مذہب اسلام میں ہی پائی جاتی ہے۔ چناں چہ اگر آپ مذاہب عالم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا سوائے اسلام کے جتنے بھی مذاہب موجود ہیں یا تو ان میں سرے سے توحید کا تصور ہی نہیں ہے یا اگر ہے تو ناقص۔
اسلام نے ابتدا سے انتہا تک یہی کوشش کی ہے کہ انسان و جنات کو شروع سے آخر تک توحید ہی پر قائم رکھا جائے۔ چوں کہ حضرت انسان نے عالم ارواح میں اپنے رب سے اسی کا اقرار کیا تھا۔ پھر ہمارے مالک و خالق نے اس دنیا میں آنے کے بعد بھی ہمیں اسی کی پابندی کا حکم دیا کہ توحید خالص پر ہی اپنا عقیدہ و عمل استوار رکھیں اور اس کے مقابل ہر طرح کے شرک سے بے زاری کا اظہار کریں۔ کیوں کہ جس خالق و مالک نے ہمیں تخلیق کیا اور شرف انسانیت سے نوازا اور اس حیات مستعار میں دنیا کی زیب و زینت اور انواع و اقسام کی نعمتوں سے فیض یاب کرکے زندگی کی بہاریں نصیب فرمائیں تو شُکر نعمت کا تقاضا ہے کہ بندہ بس اپنے مالک و خالق کا ہو کر رہے۔
توحید پر ایمان ہی درحقیقت دین کی اساس ہے۔ عقیدۂ توحید ہی دین کا وہ بنیادی سرچشمہ ہے جو انسان کو اپنے معبود حقیقی اﷲ عز و جل کی معرفت عطا کرتا اور بندے کو ایمان اور صراطِ مستقیم پر گام زن کرتا ہے۔ توحید کا اعتراف اور اس پر ایمان ہی بندگی کا حقیقی مظہر ہے۔
قرآن و حدیث اور تاریخ انسانی کا مطالعہ اس پر شاہد ہے کہ جو قومیں کفر و شرک کے مرض میں مبتلا ہوئیں وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئیں۔
ان کی دنیاوی شان و شوکت بھی خاک ہوگئی اور آخرت میں بھی ان کے لیے جہنم مقدر بنادی گئی، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ عقیدۂ توحید کا زبان و دل سے اقرار ہی ذریعۂ نجات ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی لیے تخلیق آدم سے لے کر محسن انسانیت ﷺ کی آخری نبوت تک جس قدر انبیاء و رسلؑ دنیا میں تشریف لائے، ان سب کی دعوت و فکر کا محور و مرکز یہی فلسفۂ توحید رہا۔ سرور عالم ﷺ کی بعثت کے ساتھ اس عقیدۂ توحید پر ایمان و ایقان کی حجت فرما دی گئی۔
سورۃ الاخلاص میں رب تعالیٰ نے انتہائی وضاحت سے زبان رسالت ﷺ سے کہلوا دیا کہ آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ اﷲ یکتا ہے یعنی وہ اپنی ذات و صفات میں اکیلا ہے اور ان امور میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے، گویا اﷲ تعالیٰ ناصرف اپنی ذات بل کہ صفات عالیہ مثلاً خالقیت' مالکیت' رزاقیت، زندگی دینے اور چھین لینے' قیامت کے دن میزان قائم کرنے' حساب و کتاب لینے' اولاد دینے، نعمتوں کے چھین لینے یا ہر طرح کی بھلائیوں و خیر کا عطا کرنے والا ہے اور نظام کائنات کو اپنے حسن و تدبیر سے چلانے میں اسے کسی کی مدد یا اعانت کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح نہ اسے کسی نے جنا ہے اور نہ ہی اس نے کسی کو جنا، گویا نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی اس کی اولاد یا اس کے وجود کا حصہ ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
وہ ہر قسم کے عیبوں سے پاک ہے، وہ کسی چیز کا محتاج نہیں، بل کہ سب مخلوقات انسان، جنات، چرند، پرند، شجر، حجر، زمین، آسمان، ولی، پیمبر، فرشتے سارے اس کے محتاج ہیں۔ وہ ہر چیز پر قادر مطلق ہے،
کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی۔ وہی غیب کا جاننے والا ہے اور کوئی اس کا مشابہ نہیں۔ وہ مثالوں سے پاک ہے، اس کی کوئی مثل یا نظیر نہیں ہے۔ وہ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یکتا ہے۔ وہ عالم سے جدا ہے، وہ سب کا خالق ہے، اس لیے بس وہی ہر قسم کی عبادت کا مستحق ہے۔
اسی عقیدۂ توحید کی تعلیم کے لیے اﷲ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام ؑ کو مبعوث فرمایا جنہوں نے اپنے معاشروں، علاقوں، بستیوں اور قوموں میں آ کر یہی فلسفہ سمجھایا کہ اﷲ کی توحید کا اقرار کرو او ر دیگر معبودان باطلہ سے برأت کا اظہار کرو۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس مسئلے کو مختلف انداز میں سمجھایا گیا ہے۔
مفہوم: ''اے ہمارے نبی! (ﷺ) ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے سب کو یہی حکم دیا تھا کہ میں یکتا (اﷲ) اکیلا ہی عبادت کے لائق ہوں، تم صرف میری ہی عبادت کرتے رہنا۔'' (سورۃ الانبیاء)
دوسر ے مقام پر اس طرح فرمایا، مفہوم: ''لوگو! تمہارا صرف ایک ہی اﷲ ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ بہت رحم کرنے والا مہربان ہے۔'' (سورۃ البقرہ)
ایک مقام پر شرک سے یوں منع فرمایا گیا، مفہوم:
اور اﷲ نے فرمایا: دو معبود (الہہ) نہ بنائو بس، وہ ایک ہی معبود (اﷲ) عبادت کا حق دار ہے تم مجھ ہی سے ڈرو۔ (سورۃ النحل)
اسی طرح ایک جگہ اطاعت کا حکم اس طرح دیا گیا، مفہوم:
کہہ دیجیے! بس مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ تمہارا صرف ایک ہی الہہ یعنی اﷲ عبادت کے لائق ہے، تو اب تم مسلم (اطاعت گزار) بن جائو۔ (سورۃ الانبیاء)
توحید کی حقیقت سمجھانے کے لیے ایک جگہ اپنی کبریائی کا اظہار یوں فرمایا، مفہوم:
''اور وہ ایک اﷲ ہی عبادت کے لائق ہے جو سب پر قابو پانے والا ہے۔''
ان آیات مبارکہ سے توحید کی عظمت و اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس قسم کی اور بہت سی آیات مبارکہ قرآن مجید میں موجود ہیں۔ جن سے اﷲ کی وحدانیت ثابت ہوتی ہے۔
ﷲ تعالیٰ کو اس کی ذات و صفات کاملہ میں یکتا اور بے مثل ماننے کا نام توحید ہے اور ایسی توحید بہ حمد اللہ صرف مذہب اسلام میں ہی پائی جاتی ہے۔ چناں چہ اگر آپ مذاہب عالم کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا سوائے اسلام کے جتنے بھی مذاہب موجود ہیں یا تو ان میں سرے سے توحید کا تصور ہی نہیں ہے یا اگر ہے تو ناقص۔
اسلام نے ابتدا سے انتہا تک یہی کوشش کی ہے کہ انسان و جنات کو شروع سے آخر تک توحید ہی پر قائم رکھا جائے۔ چوں کہ حضرت انسان نے عالم ارواح میں اپنے رب سے اسی کا اقرار کیا تھا۔ پھر ہمارے مالک و خالق نے اس دنیا میں آنے کے بعد بھی ہمیں اسی کی پابندی کا حکم دیا کہ توحید خالص پر ہی اپنا عقیدہ و عمل استوار رکھیں اور اس کے مقابل ہر طرح کے شرک سے بے زاری کا اظہار کریں۔ کیوں کہ جس خالق و مالک نے ہمیں تخلیق کیا اور شرف انسانیت سے نوازا اور اس حیات مستعار میں دنیا کی زیب و زینت اور انواع و اقسام کی نعمتوں سے فیض یاب کرکے زندگی کی بہاریں نصیب فرمائیں تو شُکر نعمت کا تقاضا ہے کہ بندہ بس اپنے مالک و خالق کا ہو کر رہے۔
توحید پر ایمان ہی درحقیقت دین کی اساس ہے۔ عقیدۂ توحید ہی دین کا وہ بنیادی سرچشمہ ہے جو انسان کو اپنے معبود حقیقی اﷲ عز و جل کی معرفت عطا کرتا اور بندے کو ایمان اور صراطِ مستقیم پر گام زن کرتا ہے۔ توحید کا اعتراف اور اس پر ایمان ہی بندگی کا حقیقی مظہر ہے۔