جنوبی پنجاب میں سیاحت کا فروغ اولیاء کے شہر میں حاضری
ایک تاریخی سیاحتی سفر کے خوشگوار اور حیران کن لمحات
KARACHI/LAHORE:
پختہ سڑک پرتیزی سے دوڑتی ہماری گاڑی کی منزل تھی قلعہ دیراوڑ۔ بہاولپورسے احمدپور شرقیہ کی جانب جاتے ہوئے راستے میں کہیں کہیں چولستان کے آثارنظرآرہے تھے۔ گاڑی میں مجھ سمیت لاہورسے ساتھ آئے ہوئے چند سینئرصحافی، وی لاگرزاورٹوور آپریٹرز کے علاوہ ٹی ڈی سی پی کے لوگ بھی تھے۔ گاڑی میں تیزمیوزک پر نوجوان صحافی اور وی لاگرز خوب ہلہ گلہ کررہے تھے جبکہ میرے ذہن کے پردے پرقلعہ دیراوڑ کی فلم چل رہی تھی کیونکہ میں نے ابھی تک اس قلعے کی صرف تصویریں یا پھرچند ایک ویڈیوز ہی دیکھی تھیں۔ دو گاڑیوں پر مشتمل ہمارا قافلہ بڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔
میں نے جنوبی پنجاب کے کلچر، ثقافت، وہاں کے تاریخی اورمذہبی مقامات بارے بہت کچھ پڑھاتھا لیکن ماسوائے ملتان کے، سرائیکی خطے کے دیگرشہروں کو دیکھنے کی حسرت ہی رہی ہے۔ بھلا ہو محکمہ سیاحت پنجاب کا جس نے لاہور سے جنوبی پنجاب کےلیے سیاحتی ٹوورزکا آغاز کیا ہے۔
مجھے بھی ٹی ڈی سی پی کی طرف سے جنوبی پنجاب کے دورے کی دعوت دی گئی جسے میں نے فوراً قبول کرلیا۔ مجھے ڈر تھا کہ آفس والے اجازت نہ دیں گے کیونکہ یہ تین دن کا سفر تھا، لیکن شاید نئے سال کے شروع میں ہی یہ سفرمیرے نصیب میں تھا اس لیے آفس نے بھی اجازت دے دی۔ شرط یہ تھی کہ کیمرہ مین بھی میرے ساتھ جائے گا اور ہم جنوبی پنجاب میں مختلف تاریخی، مذہبی اور ثقافتی ورثے بارے رپورٹس بنائیں گے۔
اپنے اسی سیاحتی سفر کے خوشگوار اور حیران کن لمحات آپ کے ساتھ شیئرکرناچاہتا ہوں۔ پہلے حصے میں ملتان میں واقع اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری کا تذکرہ ہوگا، دوسرے حصے میں بہاولپور اور احمدپور شرقیہ کی سیر کریں گے۔ اولیاء اللہ سے متعلق زیادہ ترمعلومات تو مزارات کے باہر محکمہ اوقاف پنجاب کی طرف سے لگائے گئے بورڈ پر تحریر ہیں جبکہ کچھ باتیں ہمارے میزبانوں نے بتائیں۔
قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ڈبل ڈیکر بس سروس کے ٹرمینل سے ہمارے سیاحتی سفر کا آغازصبح دس بجے ہوا۔
پنجاب حکومت کے ترجمان اور مشیرسیاحت حسان خاور، سیکرٹری سیاحت اسداللہ فیض نے ہمیں روانہ کیا۔ آج ایک قافلہ لاہورسے کرتار پورصاحب کےلیے جبکہ دوسرا جنوبی پنجاب کےلیے روانہ ہوا۔ کرتارپوروالے گروپ کو شام تک واپس لوٹ آنا تھا لیکن ہمارا ٹوور تین دن کاتھا۔
ہماری پہلی منزل تھی اولیاء اللہ کی سرزمین ملتان تھی۔ ہوٹل میں چیک ان سے پہلے ہمیں اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری کے پروگرام سے آگاہ کیا گیا۔ ملتان کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ یہ شہرسیکڑوں سال سے اولیاء اللہ، بزرگان دین، اکابرین، فقراء اور علماء کا مسکن رہا ہے۔ انہی اولیائے کرام نے ملتان کے لوگوں کو کفر کے اندھیروں سے نکالا اور ملتان کی گلی گلی اسلام کے نور سے منور ہو گئی۔
سب سے پہلے ہم حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کے مزار پر پہنچے۔ انہیں شاہ شمس تبریز بھی کہاجاتا ہے تاہم ملتان میں ہمارے میزبان اورٹی ڈی سی پی کے زونل مینجر مصباح نے بتایا کہ ان بزرگ کا اصل نام حضرت شاہ شمس سبزواری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ اپنے عہد کے عظیم روحانی پیشوا تھے۔ ولادت ایران کے شہر سبزوار میں ہوئی۔ آپؒ کا شجرہ مبارک حضرت امام جعفرؓ سے ہوتا ہوا انیسویں پشت پر حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپؒ نے دنیا کے کئی ممالک کاسفرکیا جہاں آپؒ نے اسلام کی شمع روشن کی۔ برصغیر میں تبت کے راستے کشمیر میں داخل ہوئے۔ آپؒ نے کوہستان، تبت، سکردو میں اسلام کی شمع روشن کی۔ اس طرح ہزاروں لوگ آپؒ کے کرم و فیض سے فیضیاب ہوتے ہوئے مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ بعدازاں آپؒ ایران کے شہر تبریز تشریف لے گئے جہاں کئی برس قیام کیا اوراسی بنا پر شمس تبریزی مشہور ہوئے۔
مولانا رومیؒ نے حضرت شاہ شمسؒ کی یاد میں ایسے پر درد اشعار کہے جنہیں سن کر پتھر دل بھی رو پڑے۔ مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلام شمس تبریزیؒ نہ شُد
شاہ شمس سبزواری ؒ کے حوالے سے ایک روایت خاصی مشہورہے۔ کہاجاتا ہے کہ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کے ساتھ بغداد میں انتہائی ظلم وستم کیاگیا۔ وہاں سے آپ ؒ ہجرت کرکے ملتان پہنچے اوریہاں دریا کنارے قیام کیا۔ ملتان کے لوگوں نے بھی آپؒ کے ساتھ انتہائی براسلوک کیا۔ آپؒ کے ساتھ بغداد کے حکمران کا شہزادہ بھی تھا جس کا نام محمد بتایاجاتا ہے۔ وہ حضرت شاہ شمس سبزواری سے بہت محبت اورعقیدت رکھتا تھا اس لیے جب وہ بغداد سے رخصت ہوئے توشہزادہ بھی تخت و تاج کو خیرباد کہہ کر ان کے ساتھ ملتان آگیا۔
ملتان کے لوگوں نے شاہ شمس سبزواریؒ اورشہزادہ محمد کو روٹی کاایک نوالہ تک نہ دیا۔ بالآخرحضرت شاہ شمس سبزواریؒ نے دریا سے ایک مچھلی کا شکار کیا اور پھر شہزادے محمد کو بھیجا کہ شہر والوں سے تھوڑی سی آگ لے آؤ تاکہ اس مچھلی کوپکاکرکھایاجاسکے۔ لیکن شہر والوں نے آگ دینے کے بجائے شہزادے محمد پر بھی تشدد کیا جس سے وہ بری طرح زخمی ہوگیا۔ جب شہزاہ محمد واپس پہنچا تواس کی حالت دیکھ کرحضرت شاہ شمس سبزاوری کو جلال آگیا۔ آپ نہایت غصے کی حالت میں نکلے۔ گوشت کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا۔
پھر شمس سبزواریؒ نے آسمان پر نظر کی اور سورج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تو بھی شمس! میں بھی شمس! میرے اس گوشت کے ٹکڑے کو بھون دے۔
اتنا کہنا تھا کہ یکایک گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا پھر یہ گرمی اتنی بڑھی کہ اہلِ ملتان چیخ اُٹھے۔ در و دیوار جل رہے تھے اور پورا شہر آگ کی بھٹی بن کر رہ گیا۔ اس کیفیت میں ملتان کے سرکردہ اوردانا لوگوں نے حضرت شمس سبزواریؒ کی خدمت میں حاضری دی اورعرض کرنے لگے کہ چند نادانوں کے جرم کی سزا پورے شہر کو نہ دیجئے۔ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ملتان کی گرمی مشہور ہے۔
ملتان میں جہاں آپؒ کی درگاہ ہے، سیکڑوں برس قبل یہ جگہ دریا کا کنارہ تھی۔ آپؒ ملتان کے لوگوں کو راہ ہدایت دکھاتے رہے۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو کامیابی کے مقام تک پہنچاتے رہے۔ غیر مسلم قبیلوں کے سرداروں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا اور اسی مقام پر وصال فرمایا۔ یہاں اہل تشیع کی اکثریت نظرآتی ہے۔ مزارکے اندر کئی قبریں ہیں۔ قریب ہی ایک امام بارگاہ ہے۔
یہاں حاضری کے بعد ہم نے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے مزار کا رخ کیا۔ حضرت بہاﺅالدین زکریا ملتانیؒ خاندان سہروردیہ کے بڑے بزرگ اور عارف کامل ہیں۔ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کے خلیفہ تھے۔ آپؒ ساتویں صدی ہجری کے مجدددین میں شمار کئے جاتے ہیں اور اسلام کے عظیم مبلغ تھے۔ آپؒ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ قرآن مجید کی ساتوں قرأت (سبعہ قرأت) پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپؒ نے حصول علم کےلیے خراسان، بخارا، یمن، مدینة المنورة، مکة المکرمة، حلب، دمشق، بغداد، بصرہ، فلسطین اور موصل کے سفر کرکے مختلف ماہرین علومِ شرعیہ سے اکتساب کیا۔ شیخ طریقت کی تلاش میں آپ اپنے زمانہ کے معاصرین حضرتِ خواجہ فرید الدین مسعود گنجِ شکرؒ، حضرت سید جلال الدین شاہ بخاریؒ اور حضرت سید عثمان لعل شہباز قلندرؒ کے ساتھ سفر کرتے رہے۔
روحانی کمالات اوردرجہ ولایت پر فائز ہونے کے بعد آپؒ 614 ہجری میں واپس ملتان پہنچے اور پھریہاں کا نقشہ ہی بدل دیا۔ آپؒ نے عظیم الشان مدرسہ، خانقاہ، لنگر خانہ، مجلس خانہ، خوبصورت مسافر خانے اور مساجد تعمیر کرائیں۔
اس وقت ملتان کا مدرسہ ہندوستان کی مرکزی اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا جس میں جملہ علوم منقول کی تعلیم ہوتی تھی۔ بڑے بڑے لائق اور وحید العصر معلمین اس میں فقہ و حدیث، تفسیر قرآن، ادب، فلسفہ و منطق، ریاضی و ہیئت کی تعلیم دیتے تھے۔
ہندوستان سمیت بلاد ایشیاء عراق شام تک کے طلباء اس مدرسے میں زیر تعلیم تھے۔ طلباء کی ایسی کثرت تھی کہ ہندوستان میں اس کی کوئی نظیر نہیں تھی۔ لنگر خانہ سے دونوں وقت کھانا ملتا تھا۔ ان کے قیام کےلیے سیکڑوں حجرے بنے ہوئے تھے۔ اس جامعہ اسلامیہ نے ایشیا کے بڑے بڑے نامور علماء و فضلا پیدا کئے اور ملتان کی علمی و ادبی و فکری شہرت کو فلک الافلاک تک پہنچا دیا۔ آج بھی ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی آپؒ کے نام سے ہی منسوب ہے۔
کوئی شخص حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی ؒ کے مزارپرحاضری دے اورپھر حضرت شاہ رکن عالمؒ کے در پر حاضر نہ ہو، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ اپنے وقت کے عظیم فقیہ اورفلسفی کی درگاہ پرحاضری کے بعد ہم نے حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزار پر حاضری دی۔
شاہ رکن عالمؒ، حضرت حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ کے پوتے اور حضرت شیخ صدر الدین عارفؒ کے فرزند ہیں۔ آپؒ کے مزار کا سفید گنبد اہل ملتان کے سروں پر دستار فضیلت کی طرح سایہ فگن ہے۔ آپؒ کا مزار عالیشان قلعہ کہنہ قاسم باغ میں واقع ہے۔ یہ قلعہ 17 سالہ مسلمان سپہ سالار محمد بن قاسم کے نام سے منسوب ہے جسے سلطان غیاث الدین تغلق نے تعمیر کروایا۔ یہ مقبرہ 1320 عیسوی سے 1335 عیسوی کے دوران تقریباً 15 برسوں میں تعمیرہوا تھا۔
حضرت شاہ رکن عالمؒ کا مزار اپنے حجم کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا مزار سمجھا جاتا ہے۔ مزار کی عمارت ہشت پہلو ہےاور اس کا قطر 49 فٹ اور 3.5 انچ ہے۔ دیواریں عمودی ہیں جبکہ فرش سے مقبرے کی مکمل اونچائی 100 فٹ ہے لیکن ایک ٹیلے پر ہونے کی وجہ سے مقبرے کی مجموعی اونچائی سطح زمین سے 160 فٹ بلند ہے۔
یہ عمارت تین منزلہ ہے: پہلی منزل کی اونچائی 41 فٹ اور 3 انچ ہے جبکہ دیواروں کی موٹائی 13 فٹ 10 انچ سے لے کر 14 فٹ 8 انچ تک ہے۔ دیواروں کے سہارے کےلیے ہر پہلو کے کونے کی پشت پر ستون تعمیر کیے گئے ہیں اور یہ دیواروں سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔
پہلی منزل نیچے سے اوپر تک آرائشی پٹیوں سے مزین ہے جنہیں 1970 میں ہونے والی مرمت کے دوران دوبارہ درست شکل میں بحال کیا گیا۔ دوسری منزل کی اونچائی 25 فٹ اور 10 انچ ہیں۔ اس منزل کے ہر پہلو پر ایک کٹاؤ دار محراب والی کھڑکی ہے جو خشتی اور کاشی کے کام سےمزین ہے۔ دونوں طرف چار چار خوشنما کاشی کے ڈیزائن والے پھول ہیں جنہیں نوخانی اور شمشا کہتے ہیں۔
تیسری منزل ایک خوبصورت اور دلکش گنبد پر مشتمل ہے جو میلوں دور سے نظر آتا ہے۔ اس شاندار گنبد پر سفید چونے کا پلستر ہوا ہے جبکہ نیچے کاشی اور خشتی کا عمدہ اور لاجواب کام ہوا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مزار کے احاطے میں داخل ہوں تو دلکش منظر دکھائی دیتا ہے۔
مقبرہ کے اندر ایک ایک اونچے چبوترے پر حضرت شاہ رکن عالمؒ کی قبر مبارک ہے۔ اس مرکز کے چاروں اطراف ایک خوبصورت سنگ مرمر کا کٹہرہ ہے جبکہ قدموں میں چار قطاروں میں 58 قبریں ہیں جو مریدین اور خلفاء کی ہیں۔
مزار کے اندر لکڑی کے ستونوں کا عمدہ اور نفیس جال بچھایا گیا ہے جو اس عمارت کی مضبوطی کا باعث ہے۔ یہی اس عمارت کو سیکڑوں سال سے زلزلوں اور بمباریوں سے بچائے ہوئے ہے۔ لکڑی کاعمدہ ڈھانچہ 32 ستونوں کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے جو نیچے سے لے کر چھت تک اور دیواروں کے اندر آرپار ہوکر اس مقبرہ کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مزار کے احاطہ میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہے یہاں سے پانچوں وقت اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور اہل ایمان والوں کو دعوت حق کی جانب بلایا جاتا ہے۔ یہ مسجد بھی خوبصورت سرخ باریک اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے۔
روایات کے مطابق حضرت شاہ رکن عالمؒ کی تدفین پہلے حضرت بہاؤالدین زکریاملتانیؒ کے مزارمیں ہی کی گئی تھی تاہم جب تغلق خاندان نے یہ عظیم الشان مقبرہ تعمیرکروایا تو پھر ان کی میت یہاں منتقل کردی گئی۔ ملتان کی تاریخی شناخت ایسے ہی اولیائے کرام کے مزارات سے ہے۔ یہ لوگ دعوت حق دیتے رہے اور پھر اسلام کی معرفت میں اپنی زندگی بسر کرنے کے بعد ملتان کی مٹی میں جا ملے۔ مگر ملتان کی گلیوں کو اسلام کی روشنی سے مزین کرنے والے ان اولیائے کرام کی خدمات کو تاقیامت یاد رکھا جائے گا اور اس خطے میں اسلام کی عظمت کا سورج کبھی غروب نہ ہوگا۔
اس وقت سورج ڈھل چکا تھا اورمغرب کی اذان شروع ہوگئی۔ ہم میں سے کئی دوستوں نے نمازمغرب حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزارکے احاطے میں واقع مسجد میں اداکی اور دعا مانگی۔
ان مزارات پر کبوتروں کے غول نظرآتے ہیں۔ ہرمزارکے اندر کبوتروں کا دانہ بیچنے والے بھی موجود ہیں جو زائرین کو کبوتروں کو دانہ ڈالنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی طرح قوال بھی عارفانہ کلام پیش کرتے نظرآئیں گے۔ سیاح یہاں آتے اور فوٹوگرافی بھی کرتے ہیں۔
مزارات پر حاضری کے بعد ٹی ڈی سی پی کے زونل مینیجر مصباح صاحب نے بتایا کہ اب ہم یہاں کے معروف حسین آگاہی بازار کا دورہ کریں گے جہاں دستکاری کی کئی دکانیں ہیں جبکہ ملتان کی سوغات سوہن حلوہ کی سب سے پرانی اور اصل دکان پر بھی جائیں گے۔
گروپ میں شامل تمام لوگ اب شاید کافی تھک چکے تھے تاہم حسین آگاہی بازار کی سیاحت شروع ہوئی۔ یہاں ہمیں کوئی خاص چیزنظرنہیں آئی۔ یہ ہمارے لاہورکے انارکلی یا اچھرہ بازارجیسا ہی ہے۔ یہاں بھی روایتی چیزوں سے بڑھ کر چائنا کا مال نظرآتا ہے جبکہ لنڈے کے سامان کی بھی کئی دکانیں ہیں۔ ہمارے میزبان ہمیں بازارکی سیرکرواتے اس دکان پرلے گئے جہاں سب سے اعلی سوہن حلوہ تیارہوتا ہے۔ ملتان میں حافظ کے سوہن حلوہ کے نام سے کئی برانڈز ہیں تاہم اصلی دکان بازار کے بہت اندر جا کر تھی جہاں مختلف ورائٹی کا حلوہ دستیاب تھا۔ ہمیں پستہ، کاجو اور بادام والا سوھن حلوہ کھلایا گیا جس کے بعد چند دوستوں نے اپنی فیملی اور بچوں کےلیے بطور سوغات سوہن حلوہ خریدا۔ یہاں سے پھرہم ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے جہاں رات ہماراقیام تھا۔
(جاری ہے)
پختہ سڑک پرتیزی سے دوڑتی ہماری گاڑی کی منزل تھی قلعہ دیراوڑ۔ بہاولپورسے احمدپور شرقیہ کی جانب جاتے ہوئے راستے میں کہیں کہیں چولستان کے آثارنظرآرہے تھے۔ گاڑی میں مجھ سمیت لاہورسے ساتھ آئے ہوئے چند سینئرصحافی، وی لاگرزاورٹوور آپریٹرز کے علاوہ ٹی ڈی سی پی کے لوگ بھی تھے۔ گاڑی میں تیزمیوزک پر نوجوان صحافی اور وی لاگرز خوب ہلہ گلہ کررہے تھے جبکہ میرے ذہن کے پردے پرقلعہ دیراوڑ کی فلم چل رہی تھی کیونکہ میں نے ابھی تک اس قلعے کی صرف تصویریں یا پھرچند ایک ویڈیوز ہی دیکھی تھیں۔ دو گاڑیوں پر مشتمل ہمارا قافلہ بڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔
میں نے جنوبی پنجاب کے کلچر، ثقافت، وہاں کے تاریخی اورمذہبی مقامات بارے بہت کچھ پڑھاتھا لیکن ماسوائے ملتان کے، سرائیکی خطے کے دیگرشہروں کو دیکھنے کی حسرت ہی رہی ہے۔ بھلا ہو محکمہ سیاحت پنجاب کا جس نے لاہور سے جنوبی پنجاب کےلیے سیاحتی ٹوورزکا آغاز کیا ہے۔
مجھے بھی ٹی ڈی سی پی کی طرف سے جنوبی پنجاب کے دورے کی دعوت دی گئی جسے میں نے فوراً قبول کرلیا۔ مجھے ڈر تھا کہ آفس والے اجازت نہ دیں گے کیونکہ یہ تین دن کا سفر تھا، لیکن شاید نئے سال کے شروع میں ہی یہ سفرمیرے نصیب میں تھا اس لیے آفس نے بھی اجازت دے دی۔ شرط یہ تھی کہ کیمرہ مین بھی میرے ساتھ جائے گا اور ہم جنوبی پنجاب میں مختلف تاریخی، مذہبی اور ثقافتی ورثے بارے رپورٹس بنائیں گے۔
اپنے اسی سیاحتی سفر کے خوشگوار اور حیران کن لمحات آپ کے ساتھ شیئرکرناچاہتا ہوں۔ پہلے حصے میں ملتان میں واقع اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری کا تذکرہ ہوگا، دوسرے حصے میں بہاولپور اور احمدپور شرقیہ کی سیر کریں گے۔ اولیاء اللہ سے متعلق زیادہ ترمعلومات تو مزارات کے باہر محکمہ اوقاف پنجاب کی طرف سے لگائے گئے بورڈ پر تحریر ہیں جبکہ کچھ باتیں ہمارے میزبانوں نے بتائیں۔
قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ڈبل ڈیکر بس سروس کے ٹرمینل سے ہمارے سیاحتی سفر کا آغازصبح دس بجے ہوا۔
پنجاب حکومت کے ترجمان اور مشیرسیاحت حسان خاور، سیکرٹری سیاحت اسداللہ فیض نے ہمیں روانہ کیا۔ آج ایک قافلہ لاہورسے کرتار پورصاحب کےلیے جبکہ دوسرا جنوبی پنجاب کےلیے روانہ ہوا۔ کرتارپوروالے گروپ کو شام تک واپس لوٹ آنا تھا لیکن ہمارا ٹوور تین دن کاتھا۔
ہماری پہلی منزل تھی اولیاء اللہ کی سرزمین ملتان تھی۔ ہوٹل میں چیک ان سے پہلے ہمیں اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری کے پروگرام سے آگاہ کیا گیا۔ ملتان کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ یہ شہرسیکڑوں سال سے اولیاء اللہ، بزرگان دین، اکابرین، فقراء اور علماء کا مسکن رہا ہے۔ انہی اولیائے کرام نے ملتان کے لوگوں کو کفر کے اندھیروں سے نکالا اور ملتان کی گلی گلی اسلام کے نور سے منور ہو گئی۔
سب سے پہلے ہم حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کے مزار پر پہنچے۔ انہیں شاہ شمس تبریز بھی کہاجاتا ہے تاہم ملتان میں ہمارے میزبان اورٹی ڈی سی پی کے زونل مینجر مصباح نے بتایا کہ ان بزرگ کا اصل نام حضرت شاہ شمس سبزواری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ اپنے عہد کے عظیم روحانی پیشوا تھے۔ ولادت ایران کے شہر سبزوار میں ہوئی۔ آپؒ کا شجرہ مبارک حضرت امام جعفرؓ سے ہوتا ہوا انیسویں پشت پر حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپؒ نے دنیا کے کئی ممالک کاسفرکیا جہاں آپؒ نے اسلام کی شمع روشن کی۔ برصغیر میں تبت کے راستے کشمیر میں داخل ہوئے۔ آپؒ نے کوہستان، تبت، سکردو میں اسلام کی شمع روشن کی۔ اس طرح ہزاروں لوگ آپؒ کے کرم و فیض سے فیضیاب ہوتے ہوئے مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ بعدازاں آپؒ ایران کے شہر تبریز تشریف لے گئے جہاں کئی برس قیام کیا اوراسی بنا پر شمس تبریزی مشہور ہوئے۔
مولانا رومیؒ نے حضرت شاہ شمسؒ کی یاد میں ایسے پر درد اشعار کہے جنہیں سن کر پتھر دل بھی رو پڑے۔ مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم تا غلام شمس تبریزیؒ نہ شُد
شاہ شمس سبزواری ؒ کے حوالے سے ایک روایت خاصی مشہورہے۔ کہاجاتا ہے کہ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کے ساتھ بغداد میں انتہائی ظلم وستم کیاگیا۔ وہاں سے آپ ؒ ہجرت کرکے ملتان پہنچے اوریہاں دریا کنارے قیام کیا۔ ملتان کے لوگوں نے بھی آپؒ کے ساتھ انتہائی براسلوک کیا۔ آپؒ کے ساتھ بغداد کے حکمران کا شہزادہ بھی تھا جس کا نام محمد بتایاجاتا ہے۔ وہ حضرت شاہ شمس سبزواری سے بہت محبت اورعقیدت رکھتا تھا اس لیے جب وہ بغداد سے رخصت ہوئے توشہزادہ بھی تخت و تاج کو خیرباد کہہ کر ان کے ساتھ ملتان آگیا۔
ملتان کے لوگوں نے شاہ شمس سبزواریؒ اورشہزادہ محمد کو روٹی کاایک نوالہ تک نہ دیا۔ بالآخرحضرت شاہ شمس سبزواریؒ نے دریا سے ایک مچھلی کا شکار کیا اور پھر شہزادے محمد کو بھیجا کہ شہر والوں سے تھوڑی سی آگ لے آؤ تاکہ اس مچھلی کوپکاکرکھایاجاسکے۔ لیکن شہر والوں نے آگ دینے کے بجائے شہزادے محمد پر بھی تشدد کیا جس سے وہ بری طرح زخمی ہوگیا۔ جب شہزاہ محمد واپس پہنچا تواس کی حالت دیکھ کرحضرت شاہ شمس سبزاوری کو جلال آگیا۔ آپ نہایت غصے کی حالت میں نکلے۔ گوشت کا ٹکڑا ہاتھ میں تھا۔
پھر شمس سبزواریؒ نے آسمان پر نظر کی اور سورج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تو بھی شمس! میں بھی شمس! میرے اس گوشت کے ٹکڑے کو بھون دے۔
اتنا کہنا تھا کہ یکایک گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گیا پھر یہ گرمی اتنی بڑھی کہ اہلِ ملتان چیخ اُٹھے۔ در و دیوار جل رہے تھے اور پورا شہر آگ کی بھٹی بن کر رہ گیا۔ اس کیفیت میں ملتان کے سرکردہ اوردانا لوگوں نے حضرت شمس سبزواریؒ کی خدمت میں حاضری دی اورعرض کرنے لگے کہ چند نادانوں کے جرم کی سزا پورے شہر کو نہ دیجئے۔ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ملتان کی گرمی مشہور ہے۔
ملتان میں جہاں آپؒ کی درگاہ ہے، سیکڑوں برس قبل یہ جگہ دریا کا کنارہ تھی۔ آپؒ ملتان کے لوگوں کو راہ ہدایت دکھاتے رہے۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو کامیابی کے مقام تک پہنچاتے رہے۔ غیر مسلم قبیلوں کے سرداروں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا اور اسی مقام پر وصال فرمایا۔ یہاں اہل تشیع کی اکثریت نظرآتی ہے۔ مزارکے اندر کئی قبریں ہیں۔ قریب ہی ایک امام بارگاہ ہے۔
یہاں حاضری کے بعد ہم نے حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے مزار کا رخ کیا۔ حضرت بہاﺅالدین زکریا ملتانیؒ خاندان سہروردیہ کے بڑے بزرگ اور عارف کامل ہیں۔ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کے خلیفہ تھے۔ آپؒ ساتویں صدی ہجری کے مجدددین میں شمار کئے جاتے ہیں اور اسلام کے عظیم مبلغ تھے۔ آپؒ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ قرآن مجید کی ساتوں قرأت (سبعہ قرأت) پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپؒ نے حصول علم کےلیے خراسان، بخارا، یمن، مدینة المنورة، مکة المکرمة، حلب، دمشق، بغداد، بصرہ، فلسطین اور موصل کے سفر کرکے مختلف ماہرین علومِ شرعیہ سے اکتساب کیا۔ شیخ طریقت کی تلاش میں آپ اپنے زمانہ کے معاصرین حضرتِ خواجہ فرید الدین مسعود گنجِ شکرؒ، حضرت سید جلال الدین شاہ بخاریؒ اور حضرت سید عثمان لعل شہباز قلندرؒ کے ساتھ سفر کرتے رہے۔
روحانی کمالات اوردرجہ ولایت پر فائز ہونے کے بعد آپؒ 614 ہجری میں واپس ملتان پہنچے اور پھریہاں کا نقشہ ہی بدل دیا۔ آپؒ نے عظیم الشان مدرسہ، خانقاہ، لنگر خانہ، مجلس خانہ، خوبصورت مسافر خانے اور مساجد تعمیر کرائیں۔
اس وقت ملتان کا مدرسہ ہندوستان کی مرکزی اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا جس میں جملہ علوم منقول کی تعلیم ہوتی تھی۔ بڑے بڑے لائق اور وحید العصر معلمین اس میں فقہ و حدیث، تفسیر قرآن، ادب، فلسفہ و منطق، ریاضی و ہیئت کی تعلیم دیتے تھے۔
ہندوستان سمیت بلاد ایشیاء عراق شام تک کے طلباء اس مدرسے میں زیر تعلیم تھے۔ طلباء کی ایسی کثرت تھی کہ ہندوستان میں اس کی کوئی نظیر نہیں تھی۔ لنگر خانہ سے دونوں وقت کھانا ملتا تھا۔ ان کے قیام کےلیے سیکڑوں حجرے بنے ہوئے تھے۔ اس جامعہ اسلامیہ نے ایشیا کے بڑے بڑے نامور علماء و فضلا پیدا کئے اور ملتان کی علمی و ادبی و فکری شہرت کو فلک الافلاک تک پہنچا دیا۔ آج بھی ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی آپؒ کے نام سے ہی منسوب ہے۔
کوئی شخص حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی ؒ کے مزارپرحاضری دے اورپھر حضرت شاہ رکن عالمؒ کے در پر حاضر نہ ہو، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ اپنے وقت کے عظیم فقیہ اورفلسفی کی درگاہ پرحاضری کے بعد ہم نے حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزار پر حاضری دی۔
شاہ رکن عالمؒ، حضرت حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ کے پوتے اور حضرت شیخ صدر الدین عارفؒ کے فرزند ہیں۔ آپؒ کے مزار کا سفید گنبد اہل ملتان کے سروں پر دستار فضیلت کی طرح سایہ فگن ہے۔ آپؒ کا مزار عالیشان قلعہ کہنہ قاسم باغ میں واقع ہے۔ یہ قلعہ 17 سالہ مسلمان سپہ سالار محمد بن قاسم کے نام سے منسوب ہے جسے سلطان غیاث الدین تغلق نے تعمیر کروایا۔ یہ مقبرہ 1320 عیسوی سے 1335 عیسوی کے دوران تقریباً 15 برسوں میں تعمیرہوا تھا۔
حضرت شاہ رکن عالمؒ کا مزار اپنے حجم کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا مزار سمجھا جاتا ہے۔ مزار کی عمارت ہشت پہلو ہےاور اس کا قطر 49 فٹ اور 3.5 انچ ہے۔ دیواریں عمودی ہیں جبکہ فرش سے مقبرے کی مکمل اونچائی 100 فٹ ہے لیکن ایک ٹیلے پر ہونے کی وجہ سے مقبرے کی مجموعی اونچائی سطح زمین سے 160 فٹ بلند ہے۔
یہ عمارت تین منزلہ ہے: پہلی منزل کی اونچائی 41 فٹ اور 3 انچ ہے جبکہ دیواروں کی موٹائی 13 فٹ 10 انچ سے لے کر 14 فٹ 8 انچ تک ہے۔ دیواروں کے سہارے کےلیے ہر پہلو کے کونے کی پشت پر ستون تعمیر کیے گئے ہیں اور یہ دیواروں سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔
پہلی منزل نیچے سے اوپر تک آرائشی پٹیوں سے مزین ہے جنہیں 1970 میں ہونے والی مرمت کے دوران دوبارہ درست شکل میں بحال کیا گیا۔ دوسری منزل کی اونچائی 25 فٹ اور 10 انچ ہیں۔ اس منزل کے ہر پہلو پر ایک کٹاؤ دار محراب والی کھڑکی ہے جو خشتی اور کاشی کے کام سےمزین ہے۔ دونوں طرف چار چار خوشنما کاشی کے ڈیزائن والے پھول ہیں جنہیں نوخانی اور شمشا کہتے ہیں۔
تیسری منزل ایک خوبصورت اور دلکش گنبد پر مشتمل ہے جو میلوں دور سے نظر آتا ہے۔ اس شاندار گنبد پر سفید چونے کا پلستر ہوا ہے جبکہ نیچے کاشی اور خشتی کا عمدہ اور لاجواب کام ہوا ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مزار کے احاطے میں داخل ہوں تو دلکش منظر دکھائی دیتا ہے۔
مقبرہ کے اندر ایک ایک اونچے چبوترے پر حضرت شاہ رکن عالمؒ کی قبر مبارک ہے۔ اس مرکز کے چاروں اطراف ایک خوبصورت سنگ مرمر کا کٹہرہ ہے جبکہ قدموں میں چار قطاروں میں 58 قبریں ہیں جو مریدین اور خلفاء کی ہیں۔
مزار کے اندر لکڑی کے ستونوں کا عمدہ اور نفیس جال بچھایا گیا ہے جو اس عمارت کی مضبوطی کا باعث ہے۔ یہی اس عمارت کو سیکڑوں سال سے زلزلوں اور بمباریوں سے بچائے ہوئے ہے۔ لکڑی کاعمدہ ڈھانچہ 32 ستونوں کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے جو نیچے سے لے کر چھت تک اور دیواروں کے اندر آرپار ہوکر اس مقبرہ کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مزار کے احاطہ میں ایک خوبصورت مسجد بھی ہے یہاں سے پانچوں وقت اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور اہل ایمان والوں کو دعوت حق کی جانب بلایا جاتا ہے۔ یہ مسجد بھی خوبصورت سرخ باریک اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہے۔
روایات کے مطابق حضرت شاہ رکن عالمؒ کی تدفین پہلے حضرت بہاؤالدین زکریاملتانیؒ کے مزارمیں ہی کی گئی تھی تاہم جب تغلق خاندان نے یہ عظیم الشان مقبرہ تعمیرکروایا تو پھر ان کی میت یہاں منتقل کردی گئی۔ ملتان کی تاریخی شناخت ایسے ہی اولیائے کرام کے مزارات سے ہے۔ یہ لوگ دعوت حق دیتے رہے اور پھر اسلام کی معرفت میں اپنی زندگی بسر کرنے کے بعد ملتان کی مٹی میں جا ملے۔ مگر ملتان کی گلیوں کو اسلام کی روشنی سے مزین کرنے والے ان اولیائے کرام کی خدمات کو تاقیامت یاد رکھا جائے گا اور اس خطے میں اسلام کی عظمت کا سورج کبھی غروب نہ ہوگا۔
اس وقت سورج ڈھل چکا تھا اورمغرب کی اذان شروع ہوگئی۔ ہم میں سے کئی دوستوں نے نمازمغرب حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزارکے احاطے میں واقع مسجد میں اداکی اور دعا مانگی۔
ان مزارات پر کبوتروں کے غول نظرآتے ہیں۔ ہرمزارکے اندر کبوتروں کا دانہ بیچنے والے بھی موجود ہیں جو زائرین کو کبوتروں کو دانہ ڈالنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی طرح قوال بھی عارفانہ کلام پیش کرتے نظرآئیں گے۔ سیاح یہاں آتے اور فوٹوگرافی بھی کرتے ہیں۔
مزارات پر حاضری کے بعد ٹی ڈی سی پی کے زونل مینیجر مصباح صاحب نے بتایا کہ اب ہم یہاں کے معروف حسین آگاہی بازار کا دورہ کریں گے جہاں دستکاری کی کئی دکانیں ہیں جبکہ ملتان کی سوغات سوہن حلوہ کی سب سے پرانی اور اصل دکان پر بھی جائیں گے۔
گروپ میں شامل تمام لوگ اب شاید کافی تھک چکے تھے تاہم حسین آگاہی بازار کی سیاحت شروع ہوئی۔ یہاں ہمیں کوئی خاص چیزنظرنہیں آئی۔ یہ ہمارے لاہورکے انارکلی یا اچھرہ بازارجیسا ہی ہے۔ یہاں بھی روایتی چیزوں سے بڑھ کر چائنا کا مال نظرآتا ہے جبکہ لنڈے کے سامان کی بھی کئی دکانیں ہیں۔ ہمارے میزبان ہمیں بازارکی سیرکرواتے اس دکان پرلے گئے جہاں سب سے اعلی سوہن حلوہ تیارہوتا ہے۔ ملتان میں حافظ کے سوہن حلوہ کے نام سے کئی برانڈز ہیں تاہم اصلی دکان بازار کے بہت اندر جا کر تھی جہاں مختلف ورائٹی کا حلوہ دستیاب تھا۔ ہمیں پستہ، کاجو اور بادام والا سوھن حلوہ کھلایا گیا جس کے بعد چند دوستوں نے اپنی فیملی اور بچوں کےلیے بطور سوغات سوہن حلوہ خریدا۔ یہاں سے پھرہم ہوٹل کی طرف روانہ ہوگئے جہاں رات ہماراقیام تھا۔
(جاری ہے)