غنی بلوچ کی یادیں
وہ بلوچ محنت کشوں اور لاپتہ افراد کے مسائل پر بہت فکرمند تھے
BEIJING:
غنی بلوچ 5 جنوری 2022 کو شرافی گوٹھ ، کورنگی کراچی میں ایک حادثے میں زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کرگئے۔ غنی بلوچ ایک سچے، بے باک، نڈر اور کمیونسٹ نظریے کے حامل تھے۔ راقم کی ان سے وابستگی تقریباً 35 برس سے ہے۔
غنی بلوچ سے جب سیاسی بحث مباحثہ شروع ہوا تو وہ آپ بیتی بتانے میں ذرا سا بھی ہچکچائے نہیں۔ وہ کہنے لگے کہ میں پہلے منشیات فروشی کرتا تھا پھر ایک مذہبی جماعت میں شامل ہوگیا اور ملک بھر میں دینی مقاصد کے لیے دورہ کرتا رہا۔ پھر ان سے علیحدگی اختیارکی۔ بعدازاں انسانوں میں طبقاتی تقسیم اور ایک دوسرے کا استحصال دیکھ کر کمیونسٹ ہوگیا۔
کمیونسٹ پارٹی میں رہتے ہوئے انھوں نے انارکسٹ کارکن ڈاکٹر ذوالفقار حیدر صدیقی سے اردو اور انگریزی لکھنا پڑھنا شروع کردیا۔ شرافی گوٹھ میں پارٹی کا تین رکنی سیل غلام حیدر بلوچ، علی محمد بلوچ اور غنی بلوچ پر مشتمل تشکیل پایا ، راقم اس سیل کا انچارج تھا۔ بعدازاں لانڈھی کورنگی کمیٹی میں بھی ان کو شامل کرلیا گیا۔ انھوں نے صحت کے شعبے، طلبا اور خواتین میں سرگرمی شروع کردی۔
اس وقت شرافی گوٹھ میں اسپتال تھا، میٹرنٹی، ڈسپنسری، اسکول، کالج اور نہ تفریحی مقام۔ غنی بلوچ نے ان سب ضروریات کے لیے طلبا کو ڈی ایس ایف کی چھتری تلے جمع کیا۔ خواتین کو اپنے حقوق کے لیے منظم کیا جن میں ان کی اہلیہ بھی شامل تھیں، علاقے میں مل فیکٹریوں کے مزدوروں کو منظم کرنا شروع کیا۔
ان کاموں میں جو ان کے ساتھ پیش پیش تھے ان میں غلام حیدر بلوچ، ڈاکٹر ذوالفقار حیدر صدیقی، علی محمد بلوچ، ہارون بلوچ، رفیق احمد صدیقی، ناظم اور اسحاق بلوچ قابل ذکر ہیں۔ ان تمام دوستوں کو غنی بلوچ نے مجتمع کرکے عملی جدوجہد شروع کی۔
انھوں نے علاقے میں اسکول، کالج، اسپتال اور تفریحی مقامات بنانے کے لیے صرف بیانوں، پمفلٹوں اور پوسٹروں پر ہی انحصار نہیں کیا بلکہ شرافی گوٹھ سے بسوں میں بھر کے خواتین اسکول کے بچے، ضعیف نوجوان اور طلبا کو آئی آئی چندریگر روڈ پر اخبارات کے دفاتر کے سامنے مظاہرے کیے اور ان کے ساتھ راقم بھی شریک رہا۔
چند برس قبل کی بات ہے کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر شرافی گوٹھ میں غلام حیدر بلوچ اور غنی بلوچ وغیرہ کی مشترکہ کاوشوں سے جلسہ منعقد کیا گیا تھا جس کی مہمان خصوصی کامریڈ تارا تھیں۔ انھوں نے تقریباً 100 خواتین کو جمع کرلیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں کے سربراہان سے ملاقاتیں بھی کیں۔ ایک بار ایجوکیشن کے شعبے کا ایک وفد شرافی گوٹھ کے باسیوں سے ملاقات کرنے آیا تو وہاں کے مکینوں نے کرسی لا کرگھر سے دور ایک درخت کے نیچے رکھیں جس پر افسران نے سوال کیا کہ ایسا کیوں؟
جواب میں غنی بلوچ نے کہا کہ ہم جب آپ کے دفتر میں جاتے تھے اس وقت آپ گھنٹوں کھڑا رکھتے تھے اور بیٹھنے کو بھی نہیں کہتے تھے ، مگر ہم آپ کو کرسی پیش کر رہے ہیں۔ یہ ساری سرگرمیاں اکثر نوجوان تحریک کے نام سے چلتی تھیں۔ شرافی گوٹھ نوجوان تحریک، کورنگی نوجوان تحریک، لانڈھی نوجوان تحریک، اس طرح سے سارے کراچی شہر میں نوجوان تحریک تشکیل کی گئی تھیں۔ ان علاقائی نمایندوں پر مشتمل کراچی نوجوان تحریک تشکیل پائی تھی۔ کراچی نوجوان تحریک کے صدر خالق زدران اور جنرل سیکریٹری راقم تھا۔
نوجوانوں کی یہ تنظیم جان محمد بلوچ کو لیاری سے اپنے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑوایا تھا ، مگر بنیادی طور پر علاقوں میں نوجوان تحریک جو بھی فیصلہ کرتی تھی اسی پر عملدرآمد ہوتا تھا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں آج شرافی گوٹھ میں اسکول، کالج، اسپتال، میٹرنٹی ہوم، ڈسپنسری، تفریحی کلبز وغیرہ قائم ہوئے۔ آج یہ ادارے عوام کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ ایک موقع پر کمیونسٹ پارٹی کے ایک دھڑے نے شرافی گوٹھ میں کانگریس کی جس کی میزبانی غنی بلوچ وغیرہ نے کی تھی۔
اس موقع پر کمیونسٹ پارٹی نے ایم کیو ایم کے مقابلے میں پی پی پی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا جس پر عمل کرتے ہوئے غنی بلوچ پی پی پی کے لانڈھی میں پولنگ ایجنٹ مقرر ہوئے۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ایک سیاسی تنظیم کے کارکنوں نے کلاشنکوف تان لی اور دست برداری کا مطالبہ کیا۔ جس پر غنی بلوچ نے جواب دیا کہ میں کمیونسٹ پارٹی کا ہوں، میں کسی صورت میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔
آخر کار غنی بلوچ اپنے فرائض انجام دے کر ہی وہاں سے رخصت ہوئے۔ وہ بلوچ محنت کشوں اور لاپتہ افراد کے مسائل پر بہت فکرمند تھے۔ ان کی شادی کے 3/4 روز بعد راقم ان کے سسرال پہنچ گیا اور ان سے کہا کہ حیدرآباد میں مظاہرہ ہے۔ غنی بلوچ فورا چل دیے۔ یہ ان کا نظریاتی لگاؤ اور عوام دوستی کا بین ثبوت ہے۔ ان کی شریک حیات نے ہمیشہ ہر جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا۔ بیٹا بھی غنی بلوچ کے نظریے اور عوامل پر گامزن ہے۔ راقم نے ان کے جنازے میں شرکت کی۔ شاید کسی وزیر کے جنازے میں بھی اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوتا۔
تقریباً دو ڈھائی ہزار افراد نے جنازے میں شرکت کی اور ان کے گھر تعزیت کرنے والی خواتین بھی دو ہزار سے کم نہ ہوں گی۔ شرافی گوٹھ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہوگا جو انھیں نہیں جانتایا ان کے سوگ میں شریک نہیں تھا۔ عوام کے مسائل کے ساتھ جڑے رہنے کا صلہ عوام اپنے ردعمل میں بھرپور دیتے ہیں۔ غنی بلوچ کا نظریہ کمیونزم بھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ ابھی چند ہفتے قبل وینزویلا اور چلی میں بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹیاں کامیاب ہوئی ہیں۔ انتخابات کو یورپی یونین کے وفد نے شفاف قرار دیا ہے۔
محنت کشوں کی یہ عالمی جدوجہد صرف شرافی گوٹھ تک محدود نہیں ہے بلکہ فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک، امریکا میں سیاہ فاموں کی تحریک، میانمار اور سوڈان میں فوجی آمریت کے خلاف عوام کے نڈر اور بہادرانہ جدوجہد جاری ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات خواہ وہ حزب اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف ایک دوسرے کو خود ہی بے نقاب کر رہے ہیں۔ اس سے عوام کا ان بورژوا پارٹیوں پر اعتماد اٹھ گیا ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ اب غنی بلوچ کے نظریے کو مشعل راہ بناتے ہوئے عوام اپنا راج قائم کریں گے۔
غنی بلوچ 5 جنوری 2022 کو شرافی گوٹھ ، کورنگی کراچی میں ایک حادثے میں زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کرگئے۔ غنی بلوچ ایک سچے، بے باک، نڈر اور کمیونسٹ نظریے کے حامل تھے۔ راقم کی ان سے وابستگی تقریباً 35 برس سے ہے۔
غنی بلوچ سے جب سیاسی بحث مباحثہ شروع ہوا تو وہ آپ بیتی بتانے میں ذرا سا بھی ہچکچائے نہیں۔ وہ کہنے لگے کہ میں پہلے منشیات فروشی کرتا تھا پھر ایک مذہبی جماعت میں شامل ہوگیا اور ملک بھر میں دینی مقاصد کے لیے دورہ کرتا رہا۔ پھر ان سے علیحدگی اختیارکی۔ بعدازاں انسانوں میں طبقاتی تقسیم اور ایک دوسرے کا استحصال دیکھ کر کمیونسٹ ہوگیا۔
کمیونسٹ پارٹی میں رہتے ہوئے انھوں نے انارکسٹ کارکن ڈاکٹر ذوالفقار حیدر صدیقی سے اردو اور انگریزی لکھنا پڑھنا شروع کردیا۔ شرافی گوٹھ میں پارٹی کا تین رکنی سیل غلام حیدر بلوچ، علی محمد بلوچ اور غنی بلوچ پر مشتمل تشکیل پایا ، راقم اس سیل کا انچارج تھا۔ بعدازاں لانڈھی کورنگی کمیٹی میں بھی ان کو شامل کرلیا گیا۔ انھوں نے صحت کے شعبے، طلبا اور خواتین میں سرگرمی شروع کردی۔
اس وقت شرافی گوٹھ میں اسپتال تھا، میٹرنٹی، ڈسپنسری، اسکول، کالج اور نہ تفریحی مقام۔ غنی بلوچ نے ان سب ضروریات کے لیے طلبا کو ڈی ایس ایف کی چھتری تلے جمع کیا۔ خواتین کو اپنے حقوق کے لیے منظم کیا جن میں ان کی اہلیہ بھی شامل تھیں، علاقے میں مل فیکٹریوں کے مزدوروں کو منظم کرنا شروع کیا۔
ان کاموں میں جو ان کے ساتھ پیش پیش تھے ان میں غلام حیدر بلوچ، ڈاکٹر ذوالفقار حیدر صدیقی، علی محمد بلوچ، ہارون بلوچ، رفیق احمد صدیقی، ناظم اور اسحاق بلوچ قابل ذکر ہیں۔ ان تمام دوستوں کو غنی بلوچ نے مجتمع کرکے عملی جدوجہد شروع کی۔
انھوں نے علاقے میں اسکول، کالج، اسپتال اور تفریحی مقامات بنانے کے لیے صرف بیانوں، پمفلٹوں اور پوسٹروں پر ہی انحصار نہیں کیا بلکہ شرافی گوٹھ سے بسوں میں بھر کے خواتین اسکول کے بچے، ضعیف نوجوان اور طلبا کو آئی آئی چندریگر روڈ پر اخبارات کے دفاتر کے سامنے مظاہرے کیے اور ان کے ساتھ راقم بھی شریک رہا۔
چند برس قبل کی بات ہے کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر شرافی گوٹھ میں غلام حیدر بلوچ اور غنی بلوچ وغیرہ کی مشترکہ کاوشوں سے جلسہ منعقد کیا گیا تھا جس کی مہمان خصوصی کامریڈ تارا تھیں۔ انھوں نے تقریباً 100 خواتین کو جمع کرلیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں کے سربراہان سے ملاقاتیں بھی کیں۔ ایک بار ایجوکیشن کے شعبے کا ایک وفد شرافی گوٹھ کے باسیوں سے ملاقات کرنے آیا تو وہاں کے مکینوں نے کرسی لا کرگھر سے دور ایک درخت کے نیچے رکھیں جس پر افسران نے سوال کیا کہ ایسا کیوں؟
جواب میں غنی بلوچ نے کہا کہ ہم جب آپ کے دفتر میں جاتے تھے اس وقت آپ گھنٹوں کھڑا رکھتے تھے اور بیٹھنے کو بھی نہیں کہتے تھے ، مگر ہم آپ کو کرسی پیش کر رہے ہیں۔ یہ ساری سرگرمیاں اکثر نوجوان تحریک کے نام سے چلتی تھیں۔ شرافی گوٹھ نوجوان تحریک، کورنگی نوجوان تحریک، لانڈھی نوجوان تحریک، اس طرح سے سارے کراچی شہر میں نوجوان تحریک تشکیل کی گئی تھیں۔ ان علاقائی نمایندوں پر مشتمل کراچی نوجوان تحریک تشکیل پائی تھی۔ کراچی نوجوان تحریک کے صدر خالق زدران اور جنرل سیکریٹری راقم تھا۔
نوجوانوں کی یہ تنظیم جان محمد بلوچ کو لیاری سے اپنے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑوایا تھا ، مگر بنیادی طور پر علاقوں میں نوجوان تحریک جو بھی فیصلہ کرتی تھی اسی پر عملدرآمد ہوتا تھا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں آج شرافی گوٹھ میں اسکول، کالج، اسپتال، میٹرنٹی ہوم، ڈسپنسری، تفریحی کلبز وغیرہ قائم ہوئے۔ آج یہ ادارے عوام کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ ایک موقع پر کمیونسٹ پارٹی کے ایک دھڑے نے شرافی گوٹھ میں کانگریس کی جس کی میزبانی غنی بلوچ وغیرہ نے کی تھی۔
اس موقع پر کمیونسٹ پارٹی نے ایم کیو ایم کے مقابلے میں پی پی پی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا جس پر عمل کرتے ہوئے غنی بلوچ پی پی پی کے لانڈھی میں پولنگ ایجنٹ مقرر ہوئے۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ایک سیاسی تنظیم کے کارکنوں نے کلاشنکوف تان لی اور دست برداری کا مطالبہ کیا۔ جس پر غنی بلوچ نے جواب دیا کہ میں کمیونسٹ پارٹی کا ہوں، میں کسی صورت میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔
آخر کار غنی بلوچ اپنے فرائض انجام دے کر ہی وہاں سے رخصت ہوئے۔ وہ بلوچ محنت کشوں اور لاپتہ افراد کے مسائل پر بہت فکرمند تھے۔ ان کی شادی کے 3/4 روز بعد راقم ان کے سسرال پہنچ گیا اور ان سے کہا کہ حیدرآباد میں مظاہرہ ہے۔ غنی بلوچ فورا چل دیے۔ یہ ان کا نظریاتی لگاؤ اور عوام دوستی کا بین ثبوت ہے۔ ان کی شریک حیات نے ہمیشہ ہر جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا۔ بیٹا بھی غنی بلوچ کے نظریے اور عوامل پر گامزن ہے۔ راقم نے ان کے جنازے میں شرکت کی۔ شاید کسی وزیر کے جنازے میں بھی اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوتا۔
تقریباً دو ڈھائی ہزار افراد نے جنازے میں شرکت کی اور ان کے گھر تعزیت کرنے والی خواتین بھی دو ہزار سے کم نہ ہوں گی۔ شرافی گوٹھ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہوگا جو انھیں نہیں جانتایا ان کے سوگ میں شریک نہیں تھا۔ عوام کے مسائل کے ساتھ جڑے رہنے کا صلہ عوام اپنے ردعمل میں بھرپور دیتے ہیں۔ غنی بلوچ کا نظریہ کمیونزم بھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ ابھی چند ہفتے قبل وینزویلا اور چلی میں بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹیاں کامیاب ہوئی ہیں۔ انتخابات کو یورپی یونین کے وفد نے شفاف قرار دیا ہے۔
محنت کشوں کی یہ عالمی جدوجہد صرف شرافی گوٹھ تک محدود نہیں ہے بلکہ فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک، امریکا میں سیاہ فاموں کی تحریک، میانمار اور سوڈان میں فوجی آمریت کے خلاف عوام کے نڈر اور بہادرانہ جدوجہد جاری ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات خواہ وہ حزب اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف ایک دوسرے کو خود ہی بے نقاب کر رہے ہیں۔ اس سے عوام کا ان بورژوا پارٹیوں پر اعتماد اٹھ گیا ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ اب غنی بلوچ کے نظریے کو مشعل راہ بناتے ہوئے عوام اپنا راج قائم کریں گے۔