منیر نیازی فلائی اوور

مرحوم دوست کی یاد نے مجھے اس وقت اُس کے ساتھ ہونے والی دو ملاقاتوں کا ذکر کرنے پر مجبور کر دیا ہے

h.sethi@hotmail.com

NEW YORK/LONDON:
اس سے پہلی بار میری ملاقات ساہیوال شہر کے فٹ پاتھ پر 1980میں ہوئی جو مختصر بلکہ سلام دُعا تک تھی۔

ان دِنوں میری تعیناتی وہاں بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر تھی۔ اس کے بعد چند ملاقاتیں مشاعروں میں ہوئیں، وہ بھی رسمی تھیں کیونکہ نہ اس نے مجھے کوئی اہمیت دی نہ میں نے اسے لفٹ کرائی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مجھے اُس کی شاعری نے گرویدہ کیا اور اس نے بھی مجھے ملنے میں اظہارِ اپنائیت کیا۔وقت گزرتا رہا اور پھر ہماری اتفاقیہ ملاقاتوں میں بے تکلفی نے جنم لیا ۔ اپنی اپنی مصروفیات کی وجہ سے ہماری ملاقاتیں مشاعروں تک یا کسی دوست کے گھر کھانوں تک محدود رہیں۔ لیکن پھر ملاقاتیں تواتر سے ہونے لگیں۔

طویل عرصہ گزرجانے کے بعد اگرچہ اس کی طبیعت تو ناساز رہنے لگی تھی لیکن اس کی شاعری اس وقت فلک کو چھو رہی تھی لیکن غلطی میری کہ میں اس سے پہلے جیسا قریب نہ رہا تھا لیکن اس کے کلام سے بھی غافل نہیں رہتا تھا۔ چند روز قبل گلبرگ مین بلیوارڑ پر سے فلائی اوور کے ذریعے کنٹونمنٹ کی طرف جانا ہوا تو کار میںسے ایک نئے سائن بورڈ پر نظرپڑی جس پر تحریر تھا ''منیر نیازی فلائی اوور'' مجھے یہ پڑھ کر ایسا چکر آیا کہ کار ٹکراتے ہوئے بچی۔

لیکن مرحوم دوست کی یاد نے مجھے اس وقت اُس کے ساتھ ہونے والی دو ملاقاتوں کا ذکر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لاہور جمخانہ کلب کے لان میں مشاعرہ تھا۔ لوگ شعراء کو بہ آواز بلند داد دے رہے تھے۔ منیر نیازی کو دعوت ِ کلام دی گئی تو وہ محفل میں نہیں تھا۔ میں اس کی تلاش میں جمخانہ کی عمارت میں گیا تو اُسے ایک کمرے میں کرسی پر بیٹھا پایا۔

اس نے کہا : مجھے سخت ٹھنڈ لگ رہی ہے اگر کسی دوست کو واسکٹ پہنے پائو تو مجھے واسکٹ لا دو لیکن وہ خالی نہیں ہونی چاہیے۔ مجھے سمجھ آ گئی ۔ میں نے باہر جا کر سامعین کو دیکھنا شروع کیا اور ایک واسکٹ پوش دوست کو ڈھونڈ لیا اور پھر اس کی واسکٹ منیر نیازی کو پہنا دی لیکن اسے کہا کہ مشاعرہ ختم ہونے پرواسکٹ واپس کرنی ہو گی۔ وہ مشاعرہ منیر نیازی نے ہی لُوٹا۔

دوسری یادیوں ہے کہ رات دس بجے جاوید اقبال کارٹونسٹ کا فون آیا کہ منیر نیازی تمہیں یاد کر رہا ہے۔ جاوید کا مکان قریب ہی تھا ۔ میں دس منٹ میں پہنچ گیا اورمنیر کے کلام سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ رات بارہ بجے منیر نیازی نے رخت ِ سفر باندھا۔ جاوید اُسے گھر چھوڑنے کے لیے اُٹھا تو منیر نے میری طرف دیکھ کر کہا کہ وہ سبز نمبر پلیٹ والی موٹر میں گھر جائے گا۔ پھر میں اور جاوید اُسے اُس کے گھر چھوڑ کر آئے۔

منیر نیازی کا ذکر ہو تو اس کے کلام سے کالم پڑھنے والوں کو کیوں محروم رکھا جائے تو پیش ِ خدمت ہیں اس کے چند اشعار:۔

قبائے زرد پہن کر وہ بزم میں آیا

گل حنا کو ہتھیلی میں تھام کر بیٹھا
جب سفر سے لوٹ کر آئے تو کتنا دکھ ہوا

اس پرانے بام پر وہ صورت زیبانہ تھی
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر

ایک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر


ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
رات گئے جب آہٹ سی محسوس ہوئی

ہاتھ بڑھا کر برہن نے پٹ کھول دیے
آنے والا سرد ہوا کا جھونکا تھا

اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لو گو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا

کتنے یار ہیں پھر بھی منیر اس آبادی میں اکیلا ہے
اپنے ہی غم کے نشے سے اپنا جی بہلاتا ہے

کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیر
مزا تو جب ہے کہ اس شوخ کو پتا ہی نہ ہو

جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
Load Next Story