مسلم لیگ ن پر بلدیاتی الیکشن کے لئے دباؤ
پیپلز پارٹی پنجا ب میں بلدیاتی الیکشن کیلئے صوبائی حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔۔۔۔
سندھ میں پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان نئے بلدیاتی نظام پر اتفاق رائے کے بعد ترممیمی آرڈیننس جاری کر دیا گیا ہے۔
قومی حکومتوں کے معاملے پر اس اہم پیش رفت نے لاہور میں بھی ہلچل مچادی ہے، مگر مسلم لیگ( ن) کی صوبائی حکومت پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کروانے کیلئے تیار نہیں ہے۔
پنجاب میں اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی نے فوری طور پر صوبے میں مقامی حکومتوں کے قیام کا مطالبہ کردیا ہے اور الیکشن نہ کروانے کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بارے میں سپریم کورٹ کافیصلہ موجود ہے مگر پنجاب حکومت بلدیاتی الیکشن سے بھاگ رہی ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اربوں روپے کے فنڈز اپنی مرضی سے خرچ کئے جائیں۔
پیپلز پارٹی پنجا ب میں بلدیاتی الیکشن کیلئے صوبائی حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے اور اس ایشو کو پنجاب اسمبلی کے پلیٹ فارم پر بھی اٹھایا جائے گا۔پیپلزپارٹی نے ستمبر کے تیسرے ہفتے لاہور میں بلدیاتی کنونشن کا بھی اعلان کیا ہے اس حوالے سے ضلعی پارٹی تنظیموں سے ناظمین اور کونسلروں کی فہرستیں بھی طلب کرلی گئی ہیںاوران سے رابطے کئے جارہے ہیں۔
سابق گورنر سلمان تاثیر کے دور میں ضلعی ناظمین چاہے وہ ق لیگ سے ہوں یا پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتے ہوں ان کو بار بار گورنر ہاؤس بلایاگیا۔وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور فواد چوہدری سابق گورنر سلمان تاثیر کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے اور وہ اس وقت مشرف لیگ کا حصہ تھے۔
انہوں نے ضلعی ناظمین کو گورنر ہاؤس میں اکٹھا کیا بعد میں اس وقت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) کا اتحاد نہ ہوسکالیکن اس سارے عمل میں ضلعی ناظمین فوجداری مقدمات سے ضرور بچ گئے جو پنجاب حکومت ان کے خلاف کروانا چاہتی تھی اور اس حوالے سے اینٹی کرپشن میں کیسز بھی زیر التواء رہے مگر کرپشن کے کوئی ٹھوس ثبوت نہ مل سکے ۔
پنجاب میں ترقیاتی بجٹ کو لیکر پہلے ہی بہت تنازعہ پایا جاتا ہے۔ اپوزیشن خصوصاً جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے الزام لگاتے ہیں کہ پنجاب میں صرف لاہور کی حد تک ہی ڈویلپمنٹ کے منصوبے رکھے گئے ہیں اور صوبے کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ صرف رائے ونڈ اور گردو نواح پر خرچ کیا جارہا ہے۔
کیا رائے ونڈ کی سڑکوں ، گھروں کو جانے والے راستوں کو چوڑا کردینا، نہر کنارے اربوں روپے کے جنگلے لگادینا ہی ڈویلپمنٹ ہے ۔ لاہور ریپڈ بس منصوبے کے صرف ایک فیز پر 30ارب روپے کی لاگت آرہی ہے یہ ایک منصوبہ ہی پورے جنوبی پنجاب پر خرچ کئے جانے والے تمام بجٹ سے بھاری ہے۔
اس منصوبے کی بروقت تکمیل نظر نہیں آرہی اور اس کا بجٹ بھی کئی گنا بڑھ جانے کا اندیشہ ہے۔
پنجاب میں 3سالوں سے صوبائی فنانس ایوارڈ کا بھی اعلان نہیںکیا گیااورصوبے میں عبوری فنانس ایوارڈ چل رہا ہے ۔ جس کے نتیجے میں کئی اضلاع کو مطلوبہ فنڈ ز مہیا نہیں ہوسکے اور وہ وہاں پر پنجاب حکومت کی پالیسی سے مطمئن نہیںہیں۔ اس سے جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں ترقی کا عمل متاثر ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کے خاتمہ کو صوبہ پنجاب میں مقبولیت نہیں مل سکی۔
پنجاب کی حزب اختلاف کہتی ہے کہ پنجاب میں یک شخصی حکومت چل رہی ہے وزیراعلیٰ اپنی کابینہ کو اختیار نہیں دیتے تو وہ اضلاع کو اختیارات کہاں دیں گے۔ گزشتہ دو سالوں میں پنجاب کو وفاق سے 1500ارب روپے کے قریب رقم موصول ہوئی لیکن پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں پر فی کس خرچ سندھ سے بھی کہیں کم ہے۔
آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی اداروں کے قیام کا پابند بنایا گیا ہے اور مالی، انتظامی اور سیاسی اتھارٹی مقامی سطح پر بلدیاتی اداروں کو منتقل کی جائے گی ۔ یہ صوبوں کا آئینی فرض ہے کہ وہ بلدیاتی جمہوری ادارے قائم کریں،اگریہاں یہ تینوں اتھارٹیاں بلدیاتی اداروں کو منتقل ہوجائیں تو صوبائی حکومت کی اتھارٹی کمزور پڑ جائے گی ۔
اپوزیشن کا یہ بھی الزام ہے کہ دوسرے اضلاع کے فنڈز لاہور کے ریپڈ بس منصوبے پر لگائے جارہے ہیں اور اگر بلدیاتی ادارے موجود ہوتے تو یہ فنڈز اضلاع اپنی ترجیحات کے مطابق لگاتے ۔اب چونکہ صوبائی سطح پر اختیارات کی مرکزیت ہے اس لئے وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں فنڈز خرچ کر رہے ہیں۔
پنجاب میں بلدیاتی الیکشن نہ کروانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آئین کے تحت الیکشن کروانے کا اختیار الیکشن اتھارٹی کی بجائے الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا ہے، اگر الیکشن اتھارٹی ہوتی تو شاید بلدیاتی الیکشن ہوجاتے کیونکہ اس سے پسندیدہ امیدوار منتخب کروائے جاسکتے تھے، اب الیکشن کمیشن کے زیر نگرانی الیکشن میں مداخلت ممکن نہیں رہی ۔
اس وقت مسلم لیگ(ن) جنوبی پنجاب اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر سیاسی دباؤ کا شکار ہے اور آئندہ عام انتخابات میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے ۔
قومی حکومتوں کے معاملے پر اس اہم پیش رفت نے لاہور میں بھی ہلچل مچادی ہے، مگر مسلم لیگ( ن) کی صوبائی حکومت پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کروانے کیلئے تیار نہیں ہے۔
پنجاب میں اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی نے فوری طور پر صوبے میں مقامی حکومتوں کے قیام کا مطالبہ کردیا ہے اور الیکشن نہ کروانے کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے بارے میں سپریم کورٹ کافیصلہ موجود ہے مگر پنجاب حکومت بلدیاتی الیکشن سے بھاگ رہی ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اربوں روپے کے فنڈز اپنی مرضی سے خرچ کئے جائیں۔
پیپلز پارٹی پنجا ب میں بلدیاتی الیکشن کیلئے صوبائی حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے اور اس ایشو کو پنجاب اسمبلی کے پلیٹ فارم پر بھی اٹھایا جائے گا۔پیپلزپارٹی نے ستمبر کے تیسرے ہفتے لاہور میں بلدیاتی کنونشن کا بھی اعلان کیا ہے اس حوالے سے ضلعی پارٹی تنظیموں سے ناظمین اور کونسلروں کی فہرستیں بھی طلب کرلی گئی ہیںاوران سے رابطے کئے جارہے ہیں۔
سابق گورنر سلمان تاثیر کے دور میں ضلعی ناظمین چاہے وہ ق لیگ سے ہوں یا پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتے ہوں ان کو بار بار گورنر ہاؤس بلایاگیا۔وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور فواد چوہدری سابق گورنر سلمان تاثیر کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے اور وہ اس وقت مشرف لیگ کا حصہ تھے۔
انہوں نے ضلعی ناظمین کو گورنر ہاؤس میں اکٹھا کیا بعد میں اس وقت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) کا اتحاد نہ ہوسکالیکن اس سارے عمل میں ضلعی ناظمین فوجداری مقدمات سے ضرور بچ گئے جو پنجاب حکومت ان کے خلاف کروانا چاہتی تھی اور اس حوالے سے اینٹی کرپشن میں کیسز بھی زیر التواء رہے مگر کرپشن کے کوئی ٹھوس ثبوت نہ مل سکے ۔
پنجاب میں ترقیاتی بجٹ کو لیکر پہلے ہی بہت تنازعہ پایا جاتا ہے۔ اپوزیشن خصوصاً جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے الزام لگاتے ہیں کہ پنجاب میں صرف لاہور کی حد تک ہی ڈویلپمنٹ کے منصوبے رکھے گئے ہیں اور صوبے کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ صرف رائے ونڈ اور گردو نواح پر خرچ کیا جارہا ہے۔
کیا رائے ونڈ کی سڑکوں ، گھروں کو جانے والے راستوں کو چوڑا کردینا، نہر کنارے اربوں روپے کے جنگلے لگادینا ہی ڈویلپمنٹ ہے ۔ لاہور ریپڈ بس منصوبے کے صرف ایک فیز پر 30ارب روپے کی لاگت آرہی ہے یہ ایک منصوبہ ہی پورے جنوبی پنجاب پر خرچ کئے جانے والے تمام بجٹ سے بھاری ہے۔
اس منصوبے کی بروقت تکمیل نظر نہیں آرہی اور اس کا بجٹ بھی کئی گنا بڑھ جانے کا اندیشہ ہے۔
پنجاب میں 3سالوں سے صوبائی فنانس ایوارڈ کا بھی اعلان نہیںکیا گیااورصوبے میں عبوری فنانس ایوارڈ چل رہا ہے ۔ جس کے نتیجے میں کئی اضلاع کو مطلوبہ فنڈ ز مہیا نہیں ہوسکے اور وہ وہاں پر پنجاب حکومت کی پالیسی سے مطمئن نہیںہیں۔ اس سے جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں ترقی کا عمل متاثر ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کے خاتمہ کو صوبہ پنجاب میں مقبولیت نہیں مل سکی۔
پنجاب کی حزب اختلاف کہتی ہے کہ پنجاب میں یک شخصی حکومت چل رہی ہے وزیراعلیٰ اپنی کابینہ کو اختیار نہیں دیتے تو وہ اضلاع کو اختیارات کہاں دیں گے۔ گزشتہ دو سالوں میں پنجاب کو وفاق سے 1500ارب روپے کے قریب رقم موصول ہوئی لیکن پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں پر فی کس خرچ سندھ سے بھی کہیں کم ہے۔
آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی اداروں کے قیام کا پابند بنایا گیا ہے اور مالی، انتظامی اور سیاسی اتھارٹی مقامی سطح پر بلدیاتی اداروں کو منتقل کی جائے گی ۔ یہ صوبوں کا آئینی فرض ہے کہ وہ بلدیاتی جمہوری ادارے قائم کریں،اگریہاں یہ تینوں اتھارٹیاں بلدیاتی اداروں کو منتقل ہوجائیں تو صوبائی حکومت کی اتھارٹی کمزور پڑ جائے گی ۔
اپوزیشن کا یہ بھی الزام ہے کہ دوسرے اضلاع کے فنڈز لاہور کے ریپڈ بس منصوبے پر لگائے جارہے ہیں اور اگر بلدیاتی ادارے موجود ہوتے تو یہ فنڈز اضلاع اپنی ترجیحات کے مطابق لگاتے ۔اب چونکہ صوبائی سطح پر اختیارات کی مرکزیت ہے اس لئے وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں فنڈز خرچ کر رہے ہیں۔
پنجاب میں بلدیاتی الیکشن نہ کروانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آئین کے تحت الیکشن کروانے کا اختیار الیکشن اتھارٹی کی بجائے الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا ہے، اگر الیکشن اتھارٹی ہوتی تو شاید بلدیاتی الیکشن ہوجاتے کیونکہ اس سے پسندیدہ امیدوار منتخب کروائے جاسکتے تھے، اب الیکشن کمیشن کے زیر نگرانی الیکشن میں مداخلت ممکن نہیں رہی ۔
اس وقت مسلم لیگ(ن) جنوبی پنجاب اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر سیاسی دباؤ کا شکار ہے اور آئندہ عام انتخابات میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے ۔