مری سیاحتی مقام یا آفت
مری کے حادثات میں مقامی و صوبائی انتظامیہ سمیت حکومت بھی ذمے دار ہے
ISLAMABAD:
گزشتہ روز مری سے آنے والی خبریں انتہائی افسوس ناک تھیں۔ طوفانی برفباری اور شدید سردی کے باعث 21 افراد کے جاں بحق ہونے کی خبریں سن کر ہر دل غم سے نڈھال ہے۔ پورے پورے خاندان کی ہلاکت پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر کوئی غم زدہ ہے۔
مری ہر سال خبروں کی زینت بنتا آرہا ہے۔ ہر بار ایک ہی طرح کی خبریں ہوتی ہیں کہ سہولتوں کا فقدان ہے، انتظامیہ غائب ہوتی ہے، مقامی افراد بدمعاشی کرتے نظرآتے ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔
گزشتہ روز مری میں جو حادثہ پیش آیا اس میں انتظامیہ خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ خبروں کے مطابق جس وقت مری میں سیاحوں پر قیامت ٹوٹ رہی تھی اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پارٹی اجلاس میں مصروف تھے۔ اطلاع کے باوجود موصوف نے اتنا گوارا نہیں کیا کہ وہ فوری طورپر کوئی ایکشن لیتے اور قیمتی جانوں کو بچانے کےلیے انتظامات کرتے۔
فواد چوہدری کی ٹویٹ بھی آنکھوں کے سامنے سے گزری کہ ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں، جو ملک کی خوشحالی کی صدائیں ہیں۔ بے شک آپ کی نظر میں ملک خوشحالی کی جانب گامزن ہوگا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مری میں ایک لاکھ گاڑیوں کو کھپت کرنے کی گنجائش تھی؟ کیا ٹول پلازہ، جو ہر گاڑی سے ٹیکس وصول کرتے ہیں، انہوں نے انتظامیہ کو ہوشیار کیا کہ اتنی گاڑیاں خراب موسم کے باوجود مری میں داخل ہورہی ہیں؟ کیا انتظامیہ کی جانب سے صوبائی اور وفاقی حکومت کو الرٹ جاری کیا گیا کہ اتنے سیاح مری میں داخل ہوچکے ہیں جن کے انتظامات کےلیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں؟ ٹریفک کنٹرول ڈپارٹمنٹ نے اس سلسلے میں کوئی آگاہی فراہم کی؟ یقیناً ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
ہر ادارہ نوٹ گننے میں مصروف رہا۔ تمام انتظامیہ پیسوں کے حصول میں اندھی ہوکر خواب خرگوش کے مزے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کسی میں انسانیت نہیں تھی کہ وہ اس سلسلے میں الرٹ جاری کرتا کہ اب مزید گنجائش نہیں۔ یہ بے خبری نہیں بلکہ انتظامی نااہلی ہے۔
دو سال قبل پوری فیملی کے ساتھ مری جانے کا اتفاق ہوا۔ گھومتے گھماتے مری پہنچے ہی تھے کہ بدترین ٹریفک نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ کوئی سرد موسم نہیں بلکہ 14 اگست کا خوش گوار دن تھا، لیکن اس کے باوجود بے ہنگم ٹریفک دیکھ کر ہی مظفر آباد جانے کا پروگرام بنالیا۔ حالانکہ ہم شروعات میں ہی ٹریفک جام میں پھنسے تھے لیکن پھر بھی وہاں سے نکلنے میں دو سے تین گھنٹے لگ گئے، جب کہ ہماری گاڑی مری چوک تک ہی پہنچی تھی۔ ہم نے آگے جانے کے بجائے وہیں سے دوسری طرف نکل جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس دوران ہمیں وہاں کوئی ٹریفک پولیس اہلکار تک نظر نہیں آیا۔ ہر شخص اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک کنٹرول کرنے میں مصروف تھا۔ کسی قسم کی کوئی انتظامیہ نہیں تھی۔ کوئی سائن بورڈ نظرنہیں آیا جس کی مدد سے راستہ تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ بس ہر طرف بے ہنگم ٹریفک ہی ٹریفک تھا۔ مظفر آباد پہنچے ہی تھے کہ اچانک طوفانی بارش نے ہمارا استقبال کیا۔ رات مظفرآباد میں گزار کر جب واپسی کا ارادہ کیا تو پھر اسی مری چوک سے گزرنا ہوا اور وہاں کی صورت حال دیکھ کر ہی دل دہل گیا کہ گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ وہی بے ہنگم ٹریفک ہمارے سامنے تھا۔ بڑی مشکل سے وہاں سے نکلے اور تقریباً بارہ گھنٹے میں اسلام آباد پہنچے۔
تمام ٹول پلازہ پر مری جانے والوں کا رش بھی نظر آرہا تھا مگر انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی قسم کے اقدامات نظر نہیں آئے۔ ہاں ایک چیز نظر آئی اور وہ تھا پیسہ۔ جی ہاں جگہ جگہ پیسہ چل رہا تھا۔ دس روپے والی روٹی پچاس روپے میں فروخت ہورہی تھی۔ 80 روپے کی دال اور پچاس روپے پکوڑے والی پلیٹ کی قیمت پانچ سو روپے تک پہنچی ہوئی تھی۔ ہم پانچ افراد ایک چھپرا ہوٹل میں کھانے کےلیے رکے، جہاں ہمیں صرف دال روٹی اور قہوہ نصیب ہوا۔ لیکن جب اس کے بل کی ادائیگی کا وقت آیا تو ہمارے طوطے اڑ گئے۔ 10 روٹیاں، 2 پلیٹ دال اور 5 عدد قہوہ کا بل ہمیں لگ بھگ پانچ ہزار کا ملا۔ یہاں آپ کسی سے کوئی تکرار نہیں کرسکتے، یہاں آپ کسی سے بحث نہیں کرسکتے۔ یہاں آپ پردیسی ہیں اور تیسرے درجے کے شہری کہلاتے ہیں، اس لیے وہاں آپ کے جان و مال کی کوئی قدر نہیں۔ کیوں کہ وہاں کوئی انتظامیہ نہیں۔ وہاں آپ کی سننے والا کوئی نہیں۔ اس لیے خاموشی سے بل ادا کرنے میں ہی عافیت جانیے۔ اس کے بعد پھر کبھی مری کا رخ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
عمران خان ہر تقریر میں سوئٹزرلینڈ کا ذکر کرنا نہیں بھولتے، جس میں وہ سیاحت اور وہاں کے لوگوں کی اعلیٰ ظرفی کی باتیں کرتے نہیں تھکتے۔ ساتھ ہی خان صاحب بھی اسی وژن پر گامزن ہیں کہ سیاحت کو فروغ دے کر ہم خوش حال ہوسکتے ہیں۔ لیکن سیاحت کو فروغ دینے سے پہلے انتظامیہ کو باشعور کرنا اور ان کی کارکردگی کو بہتر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر سیاحت تو دور کی بات سیاست بھی فروغ حاصل نہیں کرسکتی۔
مری ایک سیاحتی مقام ہے مگر حکومت اس سیاحتی مقام سے اب تک کچھ بھی نہیں کماسکی۔ یہ ایک افسوسناک بات ہے۔ ایک چھپرا ہوٹل کے نرخ بھی کسی فائیو اسٹار ہوٹل سے کم نہیں۔ ایک سادہ ہوٹل میں کمرے کا کرایہ بھی آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ میرے بھانجے نے مجھے بتایا تھا کہ وہ دوستوں کے ساتھ 2020 میں ایک ٹرپ پر مری گیا اور وہاں ایک سادہ ہوٹل میں انہوں نے قیام کیا، جس کا کرایہ آٹھ ہزار روپے ایک دن کا ادا کیا۔ بدلے میں انہیں ایک گندا اور بوسیدہ کمبل دیا گیا، جب کہ ناشتہ اور کھانے کا بل الگ سے ادا کیا گیا۔ ہیٹر کے پانچ ہزار روپے طلب کیے تھے، جو ان دوستوں نے منع کردیا اور ساری رات اس گندے اور بوسیدہ کمبل میں گزار کر صبح پہلی فرصت میں وہاں سے نکلنے میں عافیت جانی۔
پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے بہت سی جگہیں ہیں، مگر جتنی لوٹ مار مری میں کی جاتی ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور سیاحتی مقام پر کی جاتی ہو۔ گزشتہ روز سیاحوں پر بیتنے والی قیامت کا پرچہ مری انتظامیہ کے خلاف کٹنا چاہیے، ان کی نااہلی کے باعث یہ حادثہ رونما ہوا۔ جب وہاں اتنی گنجائش ہی نہیں تو پھر لاکھوں افراد کو مری میں داخل کیوں کیا گیا؟ اس سلسلے میں بینرز کیوں آویزاں نہیں کیے گئے؟ کیوں وفاق اور صوبائی حکومت کو مطلع نہیں کیا گیا؟ کیوں ٹول پلازہ پر ہی گاڑیوں کو روکا نہیں گیا؟ جس طرح وزیرداخلہ شیخ رشید نے حادثے کے بعد ٹول پلازہ بند کرکے مری جانے پر پابندی عائد کردی، پہلے اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ کیا وہاں کی انتظامیہ کو اس بات کا علم نہیں کہ یہاں کتنے افراد کی گنجائش کے مطابق ہوٹل اور خوراک ہے۔ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پیسہ کتنا بنایا جاسکتا ہے، کتنی گاڑیاں اور کتنے خاندان مری آئیں تو ان کا کمیشن کتنا بنے گا۔
وزیراعظم عمران خان سیاحت کو فروغ دینے سے پہلے سہولیات کو فروغ دیں۔ ورنہ کم از کم اس طرح خوش ہونے کی ضرورت نہیں کہ ایک لاکھ گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔ ان ایک لاکھ گاڑیوں کی کھپت بنانا بھی آپ کی ذمے داری ہے۔ اور گزشتہ روز رونما ہونے والے واقعے میں جہاں مقامی انتظامیہ، صوبائی انتظامیہ ذمے دار ہے، وہیں آپ بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
گزشتہ روز مری سے آنے والی خبریں انتہائی افسوس ناک تھیں۔ طوفانی برفباری اور شدید سردی کے باعث 21 افراد کے جاں بحق ہونے کی خبریں سن کر ہر دل غم سے نڈھال ہے۔ پورے پورے خاندان کی ہلاکت پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر کوئی غم زدہ ہے۔
مری ہر سال خبروں کی زینت بنتا آرہا ہے۔ ہر بار ایک ہی طرح کی خبریں ہوتی ہیں کہ سہولتوں کا فقدان ہے، انتظامیہ غائب ہوتی ہے، مقامی افراد بدمعاشی کرتے نظرآتے ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔
گزشتہ روز مری میں جو حادثہ پیش آیا اس میں انتظامیہ خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ خبروں کے مطابق جس وقت مری میں سیاحوں پر قیامت ٹوٹ رہی تھی اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پارٹی اجلاس میں مصروف تھے۔ اطلاع کے باوجود موصوف نے اتنا گوارا نہیں کیا کہ وہ فوری طورپر کوئی ایکشن لیتے اور قیمتی جانوں کو بچانے کےلیے انتظامات کرتے۔
فواد چوہدری کی ٹویٹ بھی آنکھوں کے سامنے سے گزری کہ ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں، جو ملک کی خوشحالی کی صدائیں ہیں۔ بے شک آپ کی نظر میں ملک خوشحالی کی جانب گامزن ہوگا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مری میں ایک لاکھ گاڑیوں کو کھپت کرنے کی گنجائش تھی؟ کیا ٹول پلازہ، جو ہر گاڑی سے ٹیکس وصول کرتے ہیں، انہوں نے انتظامیہ کو ہوشیار کیا کہ اتنی گاڑیاں خراب موسم کے باوجود مری میں داخل ہورہی ہیں؟ کیا انتظامیہ کی جانب سے صوبائی اور وفاقی حکومت کو الرٹ جاری کیا گیا کہ اتنے سیاح مری میں داخل ہوچکے ہیں جن کے انتظامات کےلیے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں؟ ٹریفک کنٹرول ڈپارٹمنٹ نے اس سلسلے میں کوئی آگاہی فراہم کی؟ یقیناً ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
ہر ادارہ نوٹ گننے میں مصروف رہا۔ تمام انتظامیہ پیسوں کے حصول میں اندھی ہوکر خواب خرگوش کے مزے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کسی میں انسانیت نہیں تھی کہ وہ اس سلسلے میں الرٹ جاری کرتا کہ اب مزید گنجائش نہیں۔ یہ بے خبری نہیں بلکہ انتظامی نااہلی ہے۔
دو سال قبل پوری فیملی کے ساتھ مری جانے کا اتفاق ہوا۔ گھومتے گھماتے مری پہنچے ہی تھے کہ بدترین ٹریفک نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ کوئی سرد موسم نہیں بلکہ 14 اگست کا خوش گوار دن تھا، لیکن اس کے باوجود بے ہنگم ٹریفک دیکھ کر ہی مظفر آباد جانے کا پروگرام بنالیا۔ حالانکہ ہم شروعات میں ہی ٹریفک جام میں پھنسے تھے لیکن پھر بھی وہاں سے نکلنے میں دو سے تین گھنٹے لگ گئے، جب کہ ہماری گاڑی مری چوک تک ہی پہنچی تھی۔ ہم نے آگے جانے کے بجائے وہیں سے دوسری طرف نکل جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اس دوران ہمیں وہاں کوئی ٹریفک پولیس اہلکار تک نظر نہیں آیا۔ ہر شخص اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک کنٹرول کرنے میں مصروف تھا۔ کسی قسم کی کوئی انتظامیہ نہیں تھی۔ کوئی سائن بورڈ نظرنہیں آیا جس کی مدد سے راستہ تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ بس ہر طرف بے ہنگم ٹریفک ہی ٹریفک تھا۔ مظفر آباد پہنچے ہی تھے کہ اچانک طوفانی بارش نے ہمارا استقبال کیا۔ رات مظفرآباد میں گزار کر جب واپسی کا ارادہ کیا تو پھر اسی مری چوک سے گزرنا ہوا اور وہاں کی صورت حال دیکھ کر ہی دل دہل گیا کہ گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ وہی بے ہنگم ٹریفک ہمارے سامنے تھا۔ بڑی مشکل سے وہاں سے نکلے اور تقریباً بارہ گھنٹے میں اسلام آباد پہنچے۔
تمام ٹول پلازہ پر مری جانے والوں کا رش بھی نظر آرہا تھا مگر انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی قسم کے اقدامات نظر نہیں آئے۔ ہاں ایک چیز نظر آئی اور وہ تھا پیسہ۔ جی ہاں جگہ جگہ پیسہ چل رہا تھا۔ دس روپے والی روٹی پچاس روپے میں فروخت ہورہی تھی۔ 80 روپے کی دال اور پچاس روپے پکوڑے والی پلیٹ کی قیمت پانچ سو روپے تک پہنچی ہوئی تھی۔ ہم پانچ افراد ایک چھپرا ہوٹل میں کھانے کےلیے رکے، جہاں ہمیں صرف دال روٹی اور قہوہ نصیب ہوا۔ لیکن جب اس کے بل کی ادائیگی کا وقت آیا تو ہمارے طوطے اڑ گئے۔ 10 روٹیاں، 2 پلیٹ دال اور 5 عدد قہوہ کا بل ہمیں لگ بھگ پانچ ہزار کا ملا۔ یہاں آپ کسی سے کوئی تکرار نہیں کرسکتے، یہاں آپ کسی سے بحث نہیں کرسکتے۔ یہاں آپ پردیسی ہیں اور تیسرے درجے کے شہری کہلاتے ہیں، اس لیے وہاں آپ کے جان و مال کی کوئی قدر نہیں۔ کیوں کہ وہاں کوئی انتظامیہ نہیں۔ وہاں آپ کی سننے والا کوئی نہیں۔ اس لیے خاموشی سے بل ادا کرنے میں ہی عافیت جانیے۔ اس کے بعد پھر کبھی مری کا رخ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
عمران خان ہر تقریر میں سوئٹزرلینڈ کا ذکر کرنا نہیں بھولتے، جس میں وہ سیاحت اور وہاں کے لوگوں کی اعلیٰ ظرفی کی باتیں کرتے نہیں تھکتے۔ ساتھ ہی خان صاحب بھی اسی وژن پر گامزن ہیں کہ سیاحت کو فروغ دے کر ہم خوش حال ہوسکتے ہیں۔ لیکن سیاحت کو فروغ دینے سے پہلے انتظامیہ کو باشعور کرنا اور ان کی کارکردگی کو بہتر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر سیاحت تو دور کی بات سیاست بھی فروغ حاصل نہیں کرسکتی۔
مری ایک سیاحتی مقام ہے مگر حکومت اس سیاحتی مقام سے اب تک کچھ بھی نہیں کماسکی۔ یہ ایک افسوسناک بات ہے۔ ایک چھپرا ہوٹل کے نرخ بھی کسی فائیو اسٹار ہوٹل سے کم نہیں۔ ایک سادہ ہوٹل میں کمرے کا کرایہ بھی آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ میرے بھانجے نے مجھے بتایا تھا کہ وہ دوستوں کے ساتھ 2020 میں ایک ٹرپ پر مری گیا اور وہاں ایک سادہ ہوٹل میں انہوں نے قیام کیا، جس کا کرایہ آٹھ ہزار روپے ایک دن کا ادا کیا۔ بدلے میں انہیں ایک گندا اور بوسیدہ کمبل دیا گیا، جب کہ ناشتہ اور کھانے کا بل الگ سے ادا کیا گیا۔ ہیٹر کے پانچ ہزار روپے طلب کیے تھے، جو ان دوستوں نے منع کردیا اور ساری رات اس گندے اور بوسیدہ کمبل میں گزار کر صبح پہلی فرصت میں وہاں سے نکلنے میں عافیت جانی۔
پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے بہت سی جگہیں ہیں، مگر جتنی لوٹ مار مری میں کی جاتی ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور سیاحتی مقام پر کی جاتی ہو۔ گزشتہ روز سیاحوں پر بیتنے والی قیامت کا پرچہ مری انتظامیہ کے خلاف کٹنا چاہیے، ان کی نااہلی کے باعث یہ حادثہ رونما ہوا۔ جب وہاں اتنی گنجائش ہی نہیں تو پھر لاکھوں افراد کو مری میں داخل کیوں کیا گیا؟ اس سلسلے میں بینرز کیوں آویزاں نہیں کیے گئے؟ کیوں وفاق اور صوبائی حکومت کو مطلع نہیں کیا گیا؟ کیوں ٹول پلازہ پر ہی گاڑیوں کو روکا نہیں گیا؟ جس طرح وزیرداخلہ شیخ رشید نے حادثے کے بعد ٹول پلازہ بند کرکے مری جانے پر پابندی عائد کردی، پہلے اس پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ کیا وہاں کی انتظامیہ کو اس بات کا علم نہیں کہ یہاں کتنے افراد کی گنجائش کے مطابق ہوٹل اور خوراک ہے۔ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پیسہ کتنا بنایا جاسکتا ہے، کتنی گاڑیاں اور کتنے خاندان مری آئیں تو ان کا کمیشن کتنا بنے گا۔
وزیراعظم عمران خان سیاحت کو فروغ دینے سے پہلے سہولیات کو فروغ دیں۔ ورنہ کم از کم اس طرح خوش ہونے کی ضرورت نہیں کہ ایک لاکھ گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔ ان ایک لاکھ گاڑیوں کی کھپت بنانا بھی آپ کی ذمے داری ہے۔ اور گزشتہ روز رونما ہونے والے واقعے میں جہاں مقامی انتظامیہ، صوبائی انتظامیہ ذمے دار ہے، وہیں آپ بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔