نئے بلدیاتی نظام پر سیاسی جماعتوں میں اختلافات
کمشنرز ، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز ریونیو ، امن و امان اور دیگر انتظامی معاملات چلائیں گے
پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان گزشتہ ڈھائی سال سے نئے بلدیاتی نظام پر جاری بات چیت کا نتیجہ کچھ اس طرح نکلا کہ گزشتہ جمعرات کی دوپہر شروع ہونے والے مذکرات جمعہ کی علی الصبح تک جاری رہنے کے بعد صبح چار بجے پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012 پر اتفاق ہوگیا۔
رات کے اندھیرے میں جاری کردہ اس آرڈیننس نے نہ صرف سندھ کی قوم پرست جماعتوں اور حزب اختلاف کی صوبائی و وفاقی جماعتوں کو ناراض کر دیا بلکہ اتحادی جماعتوں کے آٹھ وزراء و مشیروں نے آرڈیننس کے اجراء کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے استعفے پیش کر دیئے۔
جن میں جام مدد علی، شہریار مہر، عابد جتوئی، رفیق بانبھن، امتیاز شیخ، نور حسن خاصخیلی، خالد آرادین، ناصر نظامانی، چاکر شاہانی، اصغر پنوہر، اکبر راشدی اور امیر نواب شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی بلدیاتی نظام کے طور پر 1979 جبکہ متحدہ قومی موومنٹ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001 کی حامی رہی ہے۔
دونوں جماعتوں کے درمیان ہاف سینچری سے زائد اجلاس منعقد ہونے کے باوجود بھی کسی نئے نظام پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا تاہم صدر آصف علی زرداری کی خصوصی ہدایات پر دونوں جماعتوں نے شارٹ کٹ کے طور پر ایک آرڈیننس جاری کیا جس میںدونوں فریقین میں اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ کراچی سمیت صوبے کے پانچوں ڈویژن حیدرآباد ، میرپورخاص ، سکھر اور لاڑکانہ میں میٹروپولیٹن میونسپل کارپوریشن قائم ہوں گی جن کا سربراہ میئر کہلائے گا جبکہ ان کارپویشنز کی منتخب کونسل کا سربراہ ڈپٹی میئر ہوگا۔ کونسل کے ممبران کونسلرز ہونگے جو شہر بھر سے منتخب کیے جائیں گے۔
کراچی کے پانچ اضلاع کو برقرار رکھا گیا تاہم کراچی کے 18 ٹاؤنز میونسپل حد بندی کے تحت کام کرتے رہیں گے جبکہ دیگر شہروں میں ڈسٹرکٹ کونسل قائم کی جائیں گی جس کے سربراہ کو چیئرمین کا نام دیا جائے گا۔صوبے میں کمشنری نظام بھی برقرار رکھا گیا ہے۔
کمشنرز ، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز ریونیو ، امن و امان اور دیگر انتظامی معاملات چلائیں گے جبکہ منتخب نمائندے بلدیاتی اور میٹرو پولیٹن کارپوریشنز کے معاملات سنبھالیں گے جو اپنے معاملات چلانے میں خود مختار ہوں گے۔
پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اس آرڈیننس کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ 293 صفحات پر مشتمل اس طویل آرڈیننس کو پہلے دنوں میں اتنا خفیہ رکھا گیا کہ کسی اتحادی جماعت کو بھی ڈرافٹ فراہم نہیں کیا گیا جبکہ آرڈیننس کا گزٹ نوٹیفیکیشن پیر تک (ڈائری لکھنے تک) جاری نہیں ہو سکا ہے۔
قوم پرست جماعتوں پر مشتمل سندھ بچائو کمیٹی نے تو پہلے ہی روز اس آرڈیننس کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کل 13 ستمبر کو صوبے بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت اور اس کی حلیف جماعت متحدہ قومی موومنٹ ایک طرف جبکہ سندھ کی باقی سیاسی قوت بشمول سیاسی، قوم پرست اور مذہبی جماعتیں دوسری طرف ہیں۔
ایک طرف تو متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ ہفتے کارکنان کا ہنگامی جنرل اجلاس طلب کرکے قوم پرستوں کی ہڑتال کی سخت مخالفت کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ہڑتال کو ناکام بنادیں تو دوسری جانب سندھ بچاؤ کمیٹی نے 13 ستمبر کی ہڑتال کو کامیاب بنانے کے لیے سیاسی رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
ہڑتال کی کامیابی کے لیے سندھ یونائیٹڈ پارٹی نے پیر کو آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جبکہ قوم پرست جماعتوں کے وفد نے حروں کے روحانی سربراہ اور مسلم لیگ فنکشنل کے صدر پیر صبغت اﷲ شاہ پگارا اور مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد سے ملاقاتیں کرکے ان کو اپنے مقصد سے آگاہ کیا۔
سندھ میں عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی تحریک انصاف ، جمعیت علماء اسلام (ف)، جئے سندھ تحریک، پنجابی پختون اتحاد، پاکستان مسلم لیگ (ن)، عوامی تحریک، سندھ نیشنل موومنٹ اور عوامی جمہوری پارٹی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کر چکی ہیں۔ اس سلسلہ میں سندھ بچاؤ کمیٹی کے کنوینر سید جلال محمود شاہ کا کہنا ہے کہ اسمبلی کی موجودگی میں آرڈیننس کا اجراء ملک و جمہوریت کے خلاف ہے، ایسے قوانین کا نفاذ ہونا چاہیے جو سب کیلئے قابل قبول ہوں، احتجاج کرنا ہمارا جمہوری حق ہے، 13 ستمبر کو سندھ بھر میں پرامن ہڑتال کی جائے گی۔
اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو اس کا ذمہ دار ہڑتال کو ناکام بنانے کی اپیل کرنے والے ہونگے۔سندھ حکومت سے اختلافات کی بنا پر علیحدہ ہونے والی حلیف جماعتوں مسلم لیگ فنکشنل اور اے این پی نے بھی اس سلسلہ میں سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ اس سلسلہ میں عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ جمعرات کو عوام گھروں پر رہ کر ہڑتال کو کامیاب بنائیں۔
مسلم لیگ ف کے جنرل سیکریٹری امتیاز شیخ کا کہنا ہے کہ 13 ستمبر کو ہر صورت صوبہ میں ہڑتال ہوگی اور اگر اسے ثبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔
نئے بلدیاتی نظام میں مئیر کو وزیر اعلیٰ سے زیادہ اختیار دیے گئے ہیں اور حکومت کا یہ دعویٰ کہ ریونیوکے اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں وہ بھی غلط ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آرڈیننس کی حامی اور مخالف جماعتیں جمعرات کے لیے کیا حکمت عملی بناتی ہیں۔
رات کے اندھیرے میں جاری کردہ اس آرڈیننس نے نہ صرف سندھ کی قوم پرست جماعتوں اور حزب اختلاف کی صوبائی و وفاقی جماعتوں کو ناراض کر دیا بلکہ اتحادی جماعتوں کے آٹھ وزراء و مشیروں نے آرڈیننس کے اجراء کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے استعفے پیش کر دیئے۔
جن میں جام مدد علی، شہریار مہر، عابد جتوئی، رفیق بانبھن، امتیاز شیخ، نور حسن خاصخیلی، خالد آرادین، ناصر نظامانی، چاکر شاہانی، اصغر پنوہر، اکبر راشدی اور امیر نواب شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی بلدیاتی نظام کے طور پر 1979 جبکہ متحدہ قومی موومنٹ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001 کی حامی رہی ہے۔
دونوں جماعتوں کے درمیان ہاف سینچری سے زائد اجلاس منعقد ہونے کے باوجود بھی کسی نئے نظام پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا تاہم صدر آصف علی زرداری کی خصوصی ہدایات پر دونوں جماعتوں نے شارٹ کٹ کے طور پر ایک آرڈیننس جاری کیا جس میںدونوں فریقین میں اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ کراچی سمیت صوبے کے پانچوں ڈویژن حیدرآباد ، میرپورخاص ، سکھر اور لاڑکانہ میں میٹروپولیٹن میونسپل کارپوریشن قائم ہوں گی جن کا سربراہ میئر کہلائے گا جبکہ ان کارپویشنز کی منتخب کونسل کا سربراہ ڈپٹی میئر ہوگا۔ کونسل کے ممبران کونسلرز ہونگے جو شہر بھر سے منتخب کیے جائیں گے۔
کراچی کے پانچ اضلاع کو برقرار رکھا گیا تاہم کراچی کے 18 ٹاؤنز میونسپل حد بندی کے تحت کام کرتے رہیں گے جبکہ دیگر شہروں میں ڈسٹرکٹ کونسل قائم کی جائیں گی جس کے سربراہ کو چیئرمین کا نام دیا جائے گا۔صوبے میں کمشنری نظام بھی برقرار رکھا گیا ہے۔
کمشنرز ، ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز ریونیو ، امن و امان اور دیگر انتظامی معاملات چلائیں گے جبکہ منتخب نمائندے بلدیاتی اور میٹرو پولیٹن کارپوریشنز کے معاملات سنبھالیں گے جو اپنے معاملات چلانے میں خود مختار ہوں گے۔
پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اس آرڈیننس کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ 293 صفحات پر مشتمل اس طویل آرڈیننس کو پہلے دنوں میں اتنا خفیہ رکھا گیا کہ کسی اتحادی جماعت کو بھی ڈرافٹ فراہم نہیں کیا گیا جبکہ آرڈیننس کا گزٹ نوٹیفیکیشن پیر تک (ڈائری لکھنے تک) جاری نہیں ہو سکا ہے۔
قوم پرست جماعتوں پر مشتمل سندھ بچائو کمیٹی نے تو پہلے ہی روز اس آرڈیننس کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کل 13 ستمبر کو صوبے بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومت اور اس کی حلیف جماعت متحدہ قومی موومنٹ ایک طرف جبکہ سندھ کی باقی سیاسی قوت بشمول سیاسی، قوم پرست اور مذہبی جماعتیں دوسری طرف ہیں۔
ایک طرف تو متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ ہفتے کارکنان کا ہنگامی جنرل اجلاس طلب کرکے قوم پرستوں کی ہڑتال کی سخت مخالفت کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ہڑتال کو ناکام بنادیں تو دوسری جانب سندھ بچاؤ کمیٹی نے 13 ستمبر کی ہڑتال کو کامیاب بنانے کے لیے سیاسی رابطوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
ہڑتال کی کامیابی کے لیے سندھ یونائیٹڈ پارٹی نے پیر کو آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جبکہ قوم پرست جماعتوں کے وفد نے حروں کے روحانی سربراہ اور مسلم لیگ فنکشنل کے صدر پیر صبغت اﷲ شاہ پگارا اور مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد سے ملاقاتیں کرکے ان کو اپنے مقصد سے آگاہ کیا۔
سندھ میں عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی تحریک انصاف ، جمعیت علماء اسلام (ف)، جئے سندھ تحریک، پنجابی پختون اتحاد، پاکستان مسلم لیگ (ن)، عوامی تحریک، سندھ نیشنل موومنٹ اور عوامی جمہوری پارٹی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کر چکی ہیں۔ اس سلسلہ میں سندھ بچاؤ کمیٹی کے کنوینر سید جلال محمود شاہ کا کہنا ہے کہ اسمبلی کی موجودگی میں آرڈیننس کا اجراء ملک و جمہوریت کے خلاف ہے، ایسے قوانین کا نفاذ ہونا چاہیے جو سب کیلئے قابل قبول ہوں، احتجاج کرنا ہمارا جمہوری حق ہے، 13 ستمبر کو سندھ بھر میں پرامن ہڑتال کی جائے گی۔
اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو اس کا ذمہ دار ہڑتال کو ناکام بنانے کی اپیل کرنے والے ہونگے۔سندھ حکومت سے اختلافات کی بنا پر علیحدہ ہونے والی حلیف جماعتوں مسلم لیگ فنکشنل اور اے این پی نے بھی اس سلسلہ میں سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ اس سلسلہ میں عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید کا کہنا ہے کہ جمعرات کو عوام گھروں پر رہ کر ہڑتال کو کامیاب بنائیں۔
مسلم لیگ ف کے جنرل سیکریٹری امتیاز شیخ کا کہنا ہے کہ 13 ستمبر کو ہر صورت صوبہ میں ہڑتال ہوگی اور اگر اسے ثبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔
نئے بلدیاتی نظام میں مئیر کو وزیر اعلیٰ سے زیادہ اختیار دیے گئے ہیں اور حکومت کا یہ دعویٰ کہ ریونیوکے اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں وہ بھی غلط ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آرڈیننس کی حامی اور مخالف جماعتیں جمعرات کے لیے کیا حکمت عملی بناتی ہیں۔