آپریشن متنازعہ کیوں
لیاری میں آپریشن کے سلسلے میں مارے گئے چھاپے بھی ناکام رہے کیونکہ وہاں آپریشن کرنیوالوں کو گرفتاری کرنے نہیں دی جاتی
کراچی میں شروع کیے گئے ٹارگٹڈ آپریشن کو ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ ایک سینئر کرائم رپورٹر نے، جو متحدہ کے حامی نہیں تھے، جاری آپریشن کے متعلق راقم کو بتایا تھا کہ آپریشن پر متحدہ کے جو تحفظات ہیں وہ کافی حد تک درست ہیں اور متحدہ کے بے گناہ کارکنوں کی نہ صرف گرفتاری جاری ہے بلکہ ایک ادارہ ان کے فوری چالان بھی کرا رہا ہے تا کہ ان کے پکڑے گئے افراد چھوٹ نہ سکیں۔ اس کرائم رپورٹر نے آپریشن میں شامل ایک افسر سے کہا کہ اس طرح کر کے آپ لوگوں کو متحدہ کا حامی بنا رہے ہیں۔ کرائم رپورٹر کے مطابق میں نے متعدد گناہ گاروں کو پولیس سے چھڑوایا مگر میں ایک ایسے غریب بے گناہ کو نہ چھڑا سکا جو متحدہ کا ورکر نہیں البتہ حامی ضرور تھا اور کسی منفی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا۔ بے گناہ کی بے گناہی کے ثبوت بھی تھے مگر غربت نے اسے گناہ گار بنا دیا تھا جس کو میں نے نہ چھوڑے جانے پر جلد چالان کرنے کی استدعا کی تھی وہ بھی قبول نہ ہوئی۔ اب جب کہ ٹارگٹڈ آپریشن کئی ماہ سے جاری ہے اور حال ہی میں شاہ فیصل پولیس نے نکاح کے لیے جانے والی بارات کے دولہا کو رات کی تاریکی میں گرفتار کیا اس نے بھی آپریشن پر متعدد سوالات اٹھا دیے ہیں۔ متحدہ کے مخالف ایک قاری صاحب نے راقم کو بتایا کہ دولہا کو جس طرح گرفتار کیا گیا اس پر ہمیں بھی متاثرہ خاندان سے ہمدردی ہو گئی ہے اور آپریشن مزید متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔
کراچی آپریشن کے آغاز پر ہی کراچی میں فوجی آپریشن کی حامی متحدہ نے پولیس اور رینجرز کے ذریعے شروع کیے گئے آپریشن کی حمایت کی تھی مگر چند روز بعد ہی اپنے ایک سابق رکن اسمبلی کی گرفتاری کے بعد احتجاج اور کراچی پولیس چیف پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور آپریشن سے متعلق وفاق کی طرف سے اعلان کردہ فیصلے کے مطابق مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا تھا جو اب تک نہیں بن سکی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ سندھ حکومت کے رویے اور مخالفت کے باعث ایسی کمیٹی جو بے گناہوں کو آپریشن سے کسی حد تک بچا سکتی قائم کرنے میں ناکام رہے اور یکطرفہ اور جانبدارانہ آپریشن متنازعہ ہوتا چلا گیا۔ آپریشن کے دوران ہزاروں ملزموں کی گرفتاری کے دعوے کیے گئے۔ بڑے پیمانے پر ملنے والا اسلحہ بھی منظر عام پر لایا گیا مگر جرائم پر قابو نہ پایا جا سکا۔
شہر میں جاری ہلاکتوں اور جرائم میں کمی بیشی عارضی طور پر ضرور ہوتی رہی مگر بھتہ خوری روکی جا سکی نہ جرائم میں نمایاں کمی آئی۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا چھینا جانا اور چوری جاری رہی۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں دنوں کی بجائے گھنٹوں پر محیط ہو گئیں اور چند گھنٹوں تک حراست میں رکھ کر مغوی کے ورثا سے جو ملا لے لیا گیا اور مغوی اسی طرح واپس آ رہے ہیں۔ عوامی حلقے دولہا کی گرفتاری، اس پر تشدد اور پھر ضمانت پر رہائی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ دولہا اگر واقعی سنگین واردات میں ملوث تھا تو اسے دولہا بننے سے قبل ہی گرفتار کیوں نہیں کیا گیا اور بارات لے جاتے وقت یہ گرفتاری کیوں ضروری سمجھی گئی جس کے نتیجے میں باراتی ہی نہیں بلکہ دلہن بھی رات گئے پریس کلب آ کر احتجاج پر مجبور ہو گئی۔
دولہا کی کامیاب گرفتاری پولیس کی بہترین کارکردگی تھی یا ایسی نااہلی جس نے لوگوں کو پولیس کا مزید مخالف اور دولہا کا حامی بنا دیا اور آپریشن پر تنازعہ مزید بڑھ گیا۔ اس کارروائی کے نتیجے میں دلہن کے خاندان کو کس جرم کی سزا دی گئی جس نے غربت اور مہنگائی کے دور میں نہ جانے کس طرح شادی کا پنڈال سجایا ہو گا اور بارات اور اپنے مہمانوں کے لیے کھانے کا بندوبست کیا ہو گا۔ بارات نہ آنے سے، دلہن والوں کو مالی نقصان، ذہنی کوفت ہی نہیں پہنچی بلکہ شرمندگی کا الگ سامنا کرنا پڑا۔ بارات میں دولہا کی گرفتاری کی بجائے ایک دو روز بعد بھی پولیس یہ کارروائی کر سکتی تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا اور ملک بھر کے عوام کو اس سلسلے میں سوچنے پر مجبور کر دیا گیا کہ یہ کیسا آپریشن ہے جس میں وقت کو بھی مدنظر نہیں رکھا جا سکا اور پولیس کارکردگی الگ مشکوک ہوئی۔کراچی آپریشن کے ساتھ لیاری میں دو متحارب گروہوں کی لڑائی بھی جاری ہے جہاں سے رینجرز بھی کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی۔
لیاری میں آپریشن کے سلسلے میں مارے گئے چھاپے بھی ناکام رہے کیونکہ وہاں آپریشن کرنیوالوں کو گرفتاری کرنے نہیں دی جاتی بلکہ مقابلہ کر کے پسپائی پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور لیاری کے معاملے میں تو خود حکومت بھی نرمی کی خواہاں نظر آتی ہے کیونکہ لیاری میں پی پی کا معقول ووٹ بینک ہے اور لیاری میں رینجرز کی کارروائی پر فوراً احتجاج شروع ہو جاتا ہے۔ لیاری کا پورا علاقہ جرائم پیشہ عناصر کا گڑھ نہیں۔ وہاں ہر قسم کے لوگ رہتے ہیں مگر اس سلسلے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور دکھاوے کی کارروائی کبھی موثر ثابت نہیں ہوئی البتہ آپریشن اور متحارب فریقوں کی ذاتی لڑائی لیاری کے لیے عذاب ضرور بنی ہوئی ہے۔کراچی آپریشن کے دوران پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کا جتنا زیادہ جانی نقصان ہوا ہے وہ بھی ایک نیا ریکارڈ ہے جس نے آپریشن کرنیوالوں کو خود اپنی حفاظت پر مجبور کر دیا ہے۔ پولیس تھانوں میں محصور نظر آنے لگی ہے۔ پولیس کے سپاہی سے لے کر حفاظتی اسکواڈ کے ساتھ چلنے والے اعلیٰ افسران بھی اس آپریشن میں محفوظ نہیں رہے ہیں جس کی واضح مثال چوہدری اسلم ایس ایس پی کی گاڑی پر تباہ کن دھماکے کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود سندھ حکومت نے آپریشن کو متنازعہ بنوا دیا ہے جس کی سمت شروع میں درست تھی اور خود متحدہ بھی مطمئن تھی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے بھی آپریشن میں ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لے لیا ہے اور چار پولیس اہلکار معطل بھی کیے گئے ہیں اور تحقیقات کے لیے عدالتی کمیٹی یا کمیشن کی بجائے پولیس افسروں پر مشتمل جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس پر سندھ کے اپوزیشن لیڈر نے بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ مجرم کسی بھی پارٹی کا ہو مجرم ہوتا ہے جس سے سب ہی متاثر ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آپریشن پر ہونے والی جائز شکایات کا ازالہ کیا جائے تا کہ آپریشن کا بھرم برقرار رہ سکے۔
کراچی آپریشن کے آغاز پر ہی کراچی میں فوجی آپریشن کی حامی متحدہ نے پولیس اور رینجرز کے ذریعے شروع کیے گئے آپریشن کی حمایت کی تھی مگر چند روز بعد ہی اپنے ایک سابق رکن اسمبلی کی گرفتاری کے بعد احتجاج اور کراچی پولیس چیف پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور آپریشن سے متعلق وفاق کی طرف سے اعلان کردہ فیصلے کے مطابق مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا تھا جو اب تک نہیں بن سکی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ سندھ حکومت کے رویے اور مخالفت کے باعث ایسی کمیٹی جو بے گناہوں کو آپریشن سے کسی حد تک بچا سکتی قائم کرنے میں ناکام رہے اور یکطرفہ اور جانبدارانہ آپریشن متنازعہ ہوتا چلا گیا۔ آپریشن کے دوران ہزاروں ملزموں کی گرفتاری کے دعوے کیے گئے۔ بڑے پیمانے پر ملنے والا اسلحہ بھی منظر عام پر لایا گیا مگر جرائم پر قابو نہ پایا جا سکا۔
شہر میں جاری ہلاکتوں اور جرائم میں کمی بیشی عارضی طور پر ضرور ہوتی رہی مگر بھتہ خوری روکی جا سکی نہ جرائم میں نمایاں کمی آئی۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا چھینا جانا اور چوری جاری رہی۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں دنوں کی بجائے گھنٹوں پر محیط ہو گئیں اور چند گھنٹوں تک حراست میں رکھ کر مغوی کے ورثا سے جو ملا لے لیا گیا اور مغوی اسی طرح واپس آ رہے ہیں۔ عوامی حلقے دولہا کی گرفتاری، اس پر تشدد اور پھر ضمانت پر رہائی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ دولہا اگر واقعی سنگین واردات میں ملوث تھا تو اسے دولہا بننے سے قبل ہی گرفتار کیوں نہیں کیا گیا اور بارات لے جاتے وقت یہ گرفتاری کیوں ضروری سمجھی گئی جس کے نتیجے میں باراتی ہی نہیں بلکہ دلہن بھی رات گئے پریس کلب آ کر احتجاج پر مجبور ہو گئی۔
دولہا کی کامیاب گرفتاری پولیس کی بہترین کارکردگی تھی یا ایسی نااہلی جس نے لوگوں کو پولیس کا مزید مخالف اور دولہا کا حامی بنا دیا اور آپریشن پر تنازعہ مزید بڑھ گیا۔ اس کارروائی کے نتیجے میں دلہن کے خاندان کو کس جرم کی سزا دی گئی جس نے غربت اور مہنگائی کے دور میں نہ جانے کس طرح شادی کا پنڈال سجایا ہو گا اور بارات اور اپنے مہمانوں کے لیے کھانے کا بندوبست کیا ہو گا۔ بارات نہ آنے سے، دلہن والوں کو مالی نقصان، ذہنی کوفت ہی نہیں پہنچی بلکہ شرمندگی کا الگ سامنا کرنا پڑا۔ بارات میں دولہا کی گرفتاری کی بجائے ایک دو روز بعد بھی پولیس یہ کارروائی کر سکتی تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا اور ملک بھر کے عوام کو اس سلسلے میں سوچنے پر مجبور کر دیا گیا کہ یہ کیسا آپریشن ہے جس میں وقت کو بھی مدنظر نہیں رکھا جا سکا اور پولیس کارکردگی الگ مشکوک ہوئی۔کراچی آپریشن کے ساتھ لیاری میں دو متحارب گروہوں کی لڑائی بھی جاری ہے جہاں سے رینجرز بھی کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی۔
لیاری میں آپریشن کے سلسلے میں مارے گئے چھاپے بھی ناکام رہے کیونکہ وہاں آپریشن کرنیوالوں کو گرفتاری کرنے نہیں دی جاتی بلکہ مقابلہ کر کے پسپائی پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور لیاری کے معاملے میں تو خود حکومت بھی نرمی کی خواہاں نظر آتی ہے کیونکہ لیاری میں پی پی کا معقول ووٹ بینک ہے اور لیاری میں رینجرز کی کارروائی پر فوراً احتجاج شروع ہو جاتا ہے۔ لیاری کا پورا علاقہ جرائم پیشہ عناصر کا گڑھ نہیں۔ وہاں ہر قسم کے لوگ رہتے ہیں مگر اس سلسلے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور دکھاوے کی کارروائی کبھی موثر ثابت نہیں ہوئی البتہ آپریشن اور متحارب فریقوں کی ذاتی لڑائی لیاری کے لیے عذاب ضرور بنی ہوئی ہے۔کراچی آپریشن کے دوران پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کا جتنا زیادہ جانی نقصان ہوا ہے وہ بھی ایک نیا ریکارڈ ہے جس نے آپریشن کرنیوالوں کو خود اپنی حفاظت پر مجبور کر دیا ہے۔ پولیس تھانوں میں محصور نظر آنے لگی ہے۔ پولیس کے سپاہی سے لے کر حفاظتی اسکواڈ کے ساتھ چلنے والے اعلیٰ افسران بھی اس آپریشن میں محفوظ نہیں رہے ہیں جس کی واضح مثال چوہدری اسلم ایس ایس پی کی گاڑی پر تباہ کن دھماکے کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود سندھ حکومت نے آپریشن کو متنازعہ بنوا دیا ہے جس کی سمت شروع میں درست تھی اور خود متحدہ بھی مطمئن تھی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے بھی آپریشن میں ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لے لیا ہے اور چار پولیس اہلکار معطل بھی کیے گئے ہیں اور تحقیقات کے لیے عدالتی کمیٹی یا کمیشن کی بجائے پولیس افسروں پر مشتمل جو کمیٹی بنائی گئی ہے اس پر سندھ کے اپوزیشن لیڈر نے بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ مجرم کسی بھی پارٹی کا ہو مجرم ہوتا ہے جس سے سب ہی متاثر ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آپریشن پر ہونے والی جائز شکایات کا ازالہ کیا جائے تا کہ آپریشن کا بھرم برقرار رہ سکے۔