اور خون سستا ہوگیا

مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ سبزیاں، دالیں، آٹا، چاول، گھی سب کچھ غریب کی پہنچ سے دور ہو چکا ہے

مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ سبزیاں، دالیں، آٹا، چاول، گھی سب کچھ غریب کی پہنچ سے دور ہو چکا ہے۔ غریب آدمی مانگ تانگ کر خود اپنا اور گھر والوں کا پیٹ بھر رہا ہے، جینے کے لیے ان اشیا کا حصول اس کے لیے ناممکن ہو چکا ہے۔ مہنگائی کے طاقتور زہریلے ناگ پھن پھیلائے ہر راستے پر موجود ہیں، ہاں البتہ ایک شے اس دور میں بہت سستی ہے اور وہ ہے انسانی خون۔ اگر کوئی بندہ مروانا ہے تو ہزار دو ہزار روپے خرچ کریں اور بندہ مروا لیں۔ یہ کیسا دور ناہنجار آیا۔

ہمارے گھر کوئی ملازم نہیں ہے اور میں اس پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ آج کل مالکان ملازمین کو قتل کر دیتے ہیں اور یہ قتل پڑھے لکھے معاشرے کے اعلیٰ مقام والے مالکان کر رہے ہیں، پچھلے دو تین ماہ کی خبریں سامنے ہیں کہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر، وکیل بھی اس گھناؤنے جرم کے مرتکب ہوئے۔ غریبوں کی مجبوریاں دو چار ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے عوض خرید کر دس بارہ سال کے معصوم بچوں، بچیوں کو گھروں میں قید کر لیا جاتا ہے۔ ان بچوں سے سخت مشقت لی جاتی ہے، روکھی سوکھی کھانے کے نام پر دو وقت گندے برتنوں میں سامنے رکھ دی جاتی ہے۔ یہ معصوم بچے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں سے دور غیروں کے در پر ان کی ٹھوکروں میں سہمے سہمے ڈرے ڈرے دن رات گزارنے پر مجبور۔ اور اگر گھر میں روپے پیسے یا زیور ادھر ادھر ہو جائے تو ان ہی معصوم ملازمین بچوں پر الزام لگا کر بے دریغ تشدد شروع ہو جاتا ہے، صاحب اور بیگم دونوں جور وستم شروع کرتے ہیں اور تشدد کے تمام حربوں کا استعمال کیا جاتا ہے حتیٰ کہ ماں باپ سے دور مشقت زدہ معصوم بچے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہ تو شہروں میں رہنے والے ڈاکٹروں اور وکیلوں کا حال ہے، تو سوچیے گاؤں گوٹھوں میں پیدائشی جدی پشتی غلام نما ملازمین کا کیا حشر ہوتا ہوگا۔

حضور رحمت اللعالمینؐ کی حدیث ہے کہ وہ لوگ ہرگز ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو سکیں گے، جن کا رویہ اپنے ملازمین کے ساتھ تضحیک آمیز ہو گا، یعنی جو مالکان اپنے ملازمین (غلاموں) کو اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں، واقف کاروں کے سامنے ذلیل و رسوا کریں، ان کو جھڑکیں، ان کی عزت نفس کو مجروح کریں، حضرت محمدؐ نے ایسے مالکان کے لیے صاف صاف ارشاد فرمایا ہے کہ یہ لوگ تمام تر عبادات، فرائض کی ادائیگی کے باوجود جنت کے حق دار نہیں ہوں گے۔ حضورؐ کے فرمان کی روشنی میں یہ ظالم لوگ کہاں کھڑے ہیں، خود ہی غور کر لیں۔ ہاں تو میں بات کر رہا تھا کہ ہمارے ہاں کوئی ملازم نہیں ہے۔ جو بھاگ بھاگ کر باہر کے کام کرے، مجھے کتابیں پوسٹ کرنا ہیں تو ڈاکخانے مجھ ہی کو جانا ہے، بینک میں بل جمع کروانا ہے اور بے شمار کاموں کے علاوہ گھر کے لیے روزانہ سبزی، ترکاری، کبھی مرغی کا گوشت، دالیں، یہ سارے کام میں خود کرتا ہوں۔

اس وقت مجھے بزرگ دانشور، کالم نویس جناب حمید اختر صاحب یاد آ رہے ہیں۔ اپنی عمر کے آخری دس پندرہ سال ان کے ایسے ہی گزرے کہ ان کا سبزی والوں، مرغی کے گوشت والوں، کریانے والوں اور پھل فروشوں سے واسطہ تعلق رہتا تھا اور وہ اکثر اپنے کالموں میں مہنگائی کا ''رولا'' ڈالتے رہتے تھے، لگتا ہے میں بھی اب اسی ''فیز'' میں داخل ہو گیا ہوں تو جناب ابھی کل کی بات ہے اپنے سبزی والے کے پاس جانا ہوا۔ بیوی نے کہا کہ ''رام توری پیاز پکانا ہے، بہت دن ہوئے توری پیاز نہیں پکا'' توری پیاز کا سن کر میرے بھی منہ میں پانی بھر آیا اور میں بھاگا بھاگا سبزی والے کے ٹھیے پر پہنچا۔ تمام سجی ہوئی سبزیوں پر نظر ڈالی، مگر مجھے ''رام توری'' کہیں نظر نہیں آئی۔ تب میں نے سبزی والے سے پوچھا کہ ''رام توری کہاں ہے؟'' سبزی والے نے میری بات سنی اور کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا ''صاحب 200 روپے کلو رام توری کون خریدے گا؟ اسی لیے میں نہیں لایا'' رام توری جیسی عام سی سبزی کا یہ بھاؤ سن کر میں بھی سبزی والے کو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔


خیر میں پھر سے سبزیوں کو دیکھنے لگا تو رام توری کے بھائی گھیا کدو پر میری نظریں ٹھہر گئیں میں نے گول گول تین کدو اٹھائے اور سبزی والے سے بھاؤ پوچھا تو وہ بولا ''صاحب 120 روپے کلو ہے۔ آپ کے لیے 100 روپے کر دوں گا۔ یہ ''کر دوں گا'' والی بات پر ہمیشہ مجھے غصہ آ جاتا ہے کہ بھئی میرے لیے یہ رعایت کیوں! پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا ہوں کہ دکانداروں کا اشیا بیچنے کا یہ انداز ہوتا ہے تو قارئین کرام! آج حمید اختر صاحب کی یاد میں کالم ہو گیا ہے، مہنگائی کے موضوع پر ان کے کالم بڑے مزیدار ہوتے تھے، پھلوں کا حال بھی مت پوچھیے وہاں بھی آگ لگی ہوئی ہے۔ پھلوں میں ہم ''لوئر مڈل کلاسیے'' سستے سیب، سستے کینو، موسمبی، امرود اور کیلے ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ باقی اعلیٰ اور ''باہر والے'' پھل تو ہمارے لیے خواب و خیال ہوتے ہیں۔ ان کے تو نام بھی مجھے نہیں آتے اور آئیں بھی کیوں وہ بڑے بزرگ کہا کرتے تھے۔ ''جس پنڈ نئیں جانا اودا را کیوں پچھنا'' تو جناب لگتا ہے کہ اپنی ''رینج'' کے پھلوں کے نام بھی کہیں بھول نہ جائیں۔

اپنے شہر کراچی میں ''مارا ماری'' انتہاؤں کو پہنچ چکی، گھر سے نکلتے ڈر لگتا ہے، کل اپنے ایک دوست سے معذرت کا فون کرتے ہوئے بات ہوئی کہ اپنی تازہ ترین کتاب ''اماں'' لے کر حاضر نہیں ہو سکا، دوست نے ایک سستی کوریئر سروس کا نام لے کر کہا، اس کے ذریعے کتاب بھجوادیں۔ میں اسی وقت کوریئر سروس پہنچا۔ مگر دوست کے بتائے ہوئے چارجز سے دگنا پیسے دینے پڑے۔ اب مہنگائی کا تو یہ عالم ہے کہ ''کل کیا ہو گا کس کو خبر''۔

حمید اختر صاحب ڈاکٹروں کی فیسوں کے بھی بڑے مارے ہوئے تھے ۔ خصوصی معالج کی فیس اور ان کے بتائے گئے ٹیسٹوں کی لمبی فہرست، اور پھر ان ٹیسٹوں کے بھاری معاوضے، بھئی! حمید اختر صاحب تو یہ سب بھگتان بھگت کے اگلے جہان میں اپنے دوستوں کے ساتھ دن رات خوش گپیوں میں گزار رہے ہوں گے اور ہم پیچھے رہ جانے والے اپنے حصے کے بھگتان بھگت رہے ہیں۔ ہمارے بھی ڈاکٹروں والے معاملات چل نکلے ہیں۔ ''بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے''۔ یہ مصرعہ احمد راہیؔ صاحب کا ہے، اب ضرب المثل بن چکا ہے۔ لو جی! احمد راہیؔ صاحب بھی یاد آ گئے، اللہ اکبر! کیا اچھے انسان تھے۔ راہیؔ صاحب کے ساتھ بھی چند سال ملاقاتوں کے گزرے ہیں ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔

جسم میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تو جاری ہو چکا شکر ہے بیٹا (ذیشان) ڈاکٹر ہے تو ڈاکٹر حضرات ''ہتھ ہولا'' رکھیں گے۔ بہرحال، حال یہ ہے کہ مہنگائی نے اچھے اچھوں کی ''مت'' مار دی ہے۔ سب کچھ مہنگا ہے بس خون سستا ہے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پہاڑوں سے انسانی خون بہتا ہوا کراچی میں بہنے والے خون میں شامل ہو رہا ہے۔ آخر یہ خون رنگ ضرور لائے گا۔ اور بے شک

''آئے گی سحر لوگ پریشاں نہ رہیں گے''۔
Load Next Story