قانون توڑنے کے مزے …
ایئر پورٹ کے غسل خانوں میں نلکے صحیح سلامت اور پانی باقاعدہ موجود۔۔۔
اس دنیا میں کچھ ایسے خبطی لوگ بھی بستے ہیں جن کے سروں پر خوامخواہ کا بھوت سوار ہوتا ہے کہ دنیا کے لوگ عموماً اور پاکستان کے لوگ خصوصاً قانون کی پابندی کریں۔ بھلا کوئی زبردستی ہے؟ جو مزا قانون توڑنے میں ہے وہ بھلا اس کی پابندی میں کہاں؟ اور یہ تو سراسر حقوق انسانی کے خلاف ہے کہ لوگوں کو زبردستی قانون کا پابند بنایا جائے، بلکہ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے چارٹر کے بھی خلاف ہے۔
ابھی دو تین دن پہلے کی بات ہے کہ ہم کراچی کے ساحل پر کچھ نوزائیدہ ریستورانوں میں رات کا کھانا کھانے کے لیے گئے تو وہاں پاکستان کے مستقبل کے ایک نو دولتیے ہونہار معمار اور شاید آیندہ سینیٹ یا کسی اسمبلی کے ہونے والے رکن یا وزیر، اپنی بہت بڑی لینڈ کروزر میں اپنے کمال فن کا مظاہرہ فرما رہے تھے۔ کیا بلا کی آوازیں آ رہی تھیں ان کی گاڑی سے، جسے گاڑی کہنا اس گاڑی اور اس کے مالک کی شان میں گستاخی کے مترادف تھا، کس بلا کی چابکدستی سے وہ اپنے اس ایف16 کو زمین پر قلابازیاں کھلا رہے تھے کہ سب نہ صرف عش عش کر رہے تھے بلکہ سسکیاں بھر رہے تھے۔ حاضرین سامنے والے ریستوران میں بیٹھے یہ سب کچھ دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے بلکہ اپنے کانوں میں بھی انگلیاں ٹھونسے ہوئے تھے، کھانا وانا تو وہ بھول چکے تھے۔
غائبین وہ تھے جو کچھ فاصلے پر باقی ریستورانوں میں بیٹھے ہوئے پریشان ہو رہے تھے کہ یا الٰہی کہیں کوئی فضائی حملہ تو نہیں ہو گِیا؟ ان ریستورانوں میں کچھ صرف کھانوں کے لیے مشہور ہیں اور چند ایک میں کھانے کے ساتھ اور بھی سب کچھ ملتا ہے۔ وہاں پولیس نظر نہیں آ رہی تھی۔ بلکہ پولیس کو ایسی جگہوں پر ہونا بھی نہیں چاہیے۔ خوامخواہ شرفا کے رنگ میں بھنگ ڈالنے سے کیا فائدہ؟ ویسے آج کل ریاستہائے متحدہ امریکا اور جنوبی امریکا کے کچھ ممالک میں بھنگ کا استعمال قانونی قرار دیا گیا ہے، جب کہ ہمارے ملک میں تو موئن جو دڑو، ہڑپہ اور ٹیکسیلا میں بھنگ کا استعمال عام تھا اور یہ ترقی یافتہ ممالک ہم سے کتنے ہزار سال پیچھے ہیں۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی اس ایف 16 گاڑی کی۔ اس پر نمبر پلیٹ بھی نہیں لگی ہوئی تھی اور ضرورت بھی کیا تھی۔ ویسے بھی ایسے لوگ کسی بھی قانون کے پابند نہیں ہوتے۔ اور بھلا کسی بھی جگہ، جہاں لائن میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑے، یہ بھی کوئی بات ہوئی؟ اور ٹریفک کے قوانین کی پابندی بھی کوئی بات ہوئی؟ جو مزہ اپنی لین چھوڑ کر، سامنے والی لین میں آ کر ٹریفک روکنے سے آتا ہے، وہ اپنی لین میں کھڑے ہو کر انتظار کرنے میں بھلا کہاں؟
اب یہ بھی کیا کہ اپنی لینڈ کروزر یا پجیرو کو ایک دقیانوسی نمبر پلیٹ لگا کر داغدار کیا جائے، جیسی کہ ایک گھٹیا مہران پر بھی لگی ہوتی ہے۔ س کے علاوہ بغیر نمبر پلیٹ کے، یا تکلفاً AFR-2014 کی پلیٹ کی گاڑی چلانے کی ٹور ہی اور ہے۔ قرون اولیٰ میں یہ طریقہ ہوتا تھا کہ مستقل رجسٹریشن سے پہلے ایک عارضی نمبر پلیٹ جاری کی جاتی تھی جس کا بیک گرائونڈ سفید ہوتا تھا اور اس پر لال حروف سے عارضی نمبر لکھا ہوا ہوتا تھا۔ وہ نمبر ایک مہینے کے لیے قابل استعمال ہوتا تھا جس کے بعد مستقل رجسٹریشن لازمی ہوتی تھی۔ پولیس والے چیک کرتے تھے کہ مستقل رجسٹریشن کیوں نہیں ہوئی۔ اب ان تکلفات کی ضرورت محسوس نہیں جاتی۔ وقت بہت قیمتی چیز ہوتی ہے اسے خوامخواہ ان خرافات میں کیوں ضایع کیا جائے؟ جب کہ خاص طور پر بغیر نمبر پلیٹ یا اے ایف آر والی گاڑی سے کوئی پوچھ گچھ کرنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا؟
بہت ساری بڑی گاڑیوں پر ایک عدد نمبر پلیٹ لگانے کا خوامخواہ کا تکلف کیا ہوتا ہے۔ ان پلیٹوں کے اوپر ایک گول پلیٹ لگی ہوتی ہے، جو اس خوامخواہ کی پلیٹ کو ڈھانکے ہوئے ہوتی ہے، کہ یا تو وہ بالکل نظر ہی نہیں آئے یا اگر نظر آئے تو پڑھی نہیں جا سکے۔ اور وہ گول پلیٹ اکثر ریگزین کے کور سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہے، کہ نظرِ بد سے بچی رہے۔ یہ بھی اس بات کے پیش نظر ہوتا ہے کہ صاحبِ گاڑی یا ان کے لواحقین یا ڈرائیور سے کچھ سرزد ہو جائے تو ان کو کچھ ناں کہا جائے، بلکہ گاڑی کے سامنے آنے والے کی کھال ادھیڑ دی جائے۔ اور کیا ضروری ہے کہ گاڑیوں کی سب کی سب لاِئٹیں کام کریں۔ اگر ایک آدھ نا بھی کام کرے تو کیا مضائقہ ہے؟ کیا ایک ہیڈ لائٹ سے کام نہیں چل سکتا؟ اگر بریک، اشارے یا پارکنگ لائٹ نہ جلے تو کیا فرق پڑتا ہے؟
ایک دوست نے بتایا کہ وہ جدہ سے مکہ مکرمہ جا رہا تھا۔ اس کی گاڑی کی ایک بریک لائٹ کام نہیں کر رہی تھی۔ پولیس والے نے کہا کہ گاڑی یہیں چھوڑ دو، رات کا وقت ہے، آپ گاڑی نہیں لے جا سکتے۔ میں نے اسے نوٹ پر ان کے بادشاہ سلامت کی تصویر بھی دکھانے کے کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔ پھر میں نے اسے بہتیرا پاکستان کے عام افسران اور خصوصا ًپولیس کی خوبیاں گنوائیں کہ وہ لوگ قائد اعظم کا بہت احترام کرتے ہیں۔ وہ پھر بھی نہ مانا۔ مجبورا مجھے گاڑی وہیں چھوڑنا پڑی۔ اور عین اسی وقت مجھے اپنے پیارے وطن کی یاد بہت ستائی۔ ایک لمحے کے لیے تو خیال آیا کہ گو کہ میں یہاں گزشتہ 20-25 سالوں سے خوب پیسے کما رہا ہوں تو یہ سب چھوڑ چھاڑ کر واپس وطن واپس جانے کی تیاری کروں لیکن برا ہو ہمارے روپیہ کا کہ وہ ابھی تک ریال کے برابر نہ ہوا۔ اب میں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ جوں ہی روپیہ ریال کے برابر آیا تو ایک دن کے لیے بھے یہاں نہیں رکوں گا۔
بارش میں کراچی کے منچلے سمندرمیں نہانے جاتے ہیں تو پولیس منع کرتی ہے۔ ابھی گزشتہ دو تین ہفتے پہلے 6 لڑکے نہانے گئے، 3 ڈوب گئے۔ بس صرف 3؟ اتنا تو ہوتا ہی ہے اس طرح کے کاموں میں۔ اب یہ کیا بات ہوئی کہ ڈوبنے کے ڈر سے نہایا ہی نہ جائے؟ یا چند ڈرپوک لوگوں کی وجہ سے ہم اپنی انجوائمنٹ خراب کریں۔ اور کتنا آسان ہے کہ احتیاط تو خود نہیں کی جائے اور الزام لگایا جائے حکومت پر کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اب یہ بھی سنیے کہ اسپتال میں مریض کو دیکھنے کے لیے صرف مقررہ اوقات میں اور تھوڑی سی تعداد میں ہی جایا جا سکتا ہے۔ بھئی مریض بھی ہمارا اور پابندی بھی ہم پر؟ اس پر طرہ یہ کہ بچوں کو بھی نہیں لے جا سکتے۔ اور تو اور آئی سی یو میں بھی مشکل سے جانے کی اجازت ہے۔ بندہ پرور مسیحائو، ہم جناح اسپتال میں نارتھ کراچی سے آئے ہیں۔ اتنی دور سے آ کر مریض بغیر دیکھے واپس کیسے چلے جائیں؟ آئی سی یو میں پڑا مریض ہو سکتا ہے ہمارے ہی انتظار میں اب تک اس مصیبت میں مبتلا ہو اور ہمیں دیکھنے ہی اس کی مصیبت ختم ہو جائے۔ اگر نہیں بھی تو کم از کم اسے معلوم تو ہو جائے گا کہ ہم آئے ہیں یا اگر وہ ہوش و حواس میں نہ بھی ہو تب بھی ہمیں تو تسلِی ہو جائے گی نا۔
بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ اپنی ہی موٹر سائیکل پر سواریوں کے بٹھانے پر بھی پابندی ہو؟ ابھی کچھ روز پہلے ہم اپنِی ہی موٹر سائیکل پر بیگم صاحبہ اور چار عدد شہزادوں کو بٹھائے جا رہے تھے کہ پولیس والے نے روک دیا۔ پہلے تو ایک لمبا سا لیکچر پلایا، زیادہ سے زیادہ دو سواریوں کے بٹھانے کے فضائل بیان کیے۔ شکر یہ ہوا کہ ہماری مردم شماری بڑھانے کی حوصلہ افزائی کے طور پر ہمارا چالان بھی نہیں کیا۔ اتفاقاً اس ہی دن دنیا بھر میں خاندانی منصوبہ بندی کا دن بھی منایا جارہا تھا۔ برا ہو موٹر سائیکل بنانے والوں کا کہ انھوں نے اتنی چھوٹی سیٹیں اوراتنے چھوٹے کیریئر بنائے ہیں کہ مجھے 2 بچیوں کو گھر روتا چھوڑ کر آنا پڑا، آیندہ اگر کوئی پارٹی ووٹ مانگنے آئی تو میرا مطالبہ ہوگا کہ موٹر سائیکلوں کی سیٹیں اور کیریئر ذرا کشادہ ہونے چاہیئں۔ ویسے اگر رضا ربانی صاحب 18 ترمیم میں یہ شق بھی ڈال دیتے تو ان کا کیا جاتا؟ وہ تو موٹر سائیکل پر بیٹھتے نہیں، لیکن بندہ بشر ہے، کبھی ان کو بھی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ اب اگر کہیں کسی کار، بس یا ٹرک کے ساتھ کوئی حادثہ ہو جائے تو الزام حکومت پر، اور وہاں کھڑے لوگ بھی نہ آئو دیکھیں گے نہ تائو، اس کار یا بس یا ٹرک کو ماچس کی تیلی دکھاتے دیر نہیں لگائیں گے، چاہے قصور موٹر سائیکل والے کا ہو۔
ابھی میں چند روز کے لیے اپنے ایک دوست کے ساتھ کینیڈا اوردبئی گیا تو کچھ مزا نہیں آیا۔ گاڑیاں باقاعدہ سگنل پر رکتی تھیں، لوگ برابر والی گاڑی کو اپنے سے آگے نکلنے دیتے تھے۔ بھلا ایسی بھی انکساری کیا؟ ہم کوئی فارغ تو نہیں تھے کہ ہر ایری غیری گاڑی کو راستہ دیتے پھرتے۔ اور پھر برابر والی گاڑی کا راستہ کاٹنے اور اس سے آگے نکلنے کا مزا ہی اور ہے۔ وہاں ہم نے سرکاری بسوں اور میٹرو ریل میں سفر کیا۔ ان میں بہت عمدہ قسم کی ریگزین کی سیٹیں لگی ہوئی تھیں لیکن ان پر کوئی نشان بھی نہیں لگا ہوا دیکھا اور لگتا تھا کہ جب سے لگی ہیں تب سی صحیح سلامت ہیں۔ کتنی غلام ذہنیت کے ہیں ان ملکوں کے لوگ کہ ان کو ان سیٹوں پر بلیڈ سے پھاڑنے کی بھی آزادی نھیں ہے۔ مارکر سے لکھنے کا ڈھنگ نہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ بھی ان سیٹوں کی طرف للچائی نظروں سے دیکھتے ہوں، بلیڈ بھی ان کی جیبوں میں ہوتے ہوں، اور کوئی سرکاری لوگ بھی وہاں ان کی دیکھہ بھال کے لیے مامور نہ ہوں، پھر بھی وہ ان سیٹوں کو پھاڑنے کی ہمت نہ کر سکتے ہوں۔ ڈرپوک کہیں کے۔
ایئر پورٹ کے غسل خانوں میں نلکے صحیح سلامت اور پانی باقاعدہ موجود۔ باتھ روموں میں کپڑے ٹانگنے کے لیے کھونٹیاں بھی سلامت تھیں۔ اور تو اور ہاتھ پونچنے کے لیے ٹائلیٹ پیپر بھی کثیر تعداد میں رکھے ہوئے تھے۔ ویسے سیانوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی گھر یا دفتر کے مکیں کا ذوق دیکھنا ہو تو وہاں کے باتھ روم کو دیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب خواتین کسی گھر میں رشتہ دیکھنے جاتی ہیں تو بچے کو حاجت کے بہانے باتھ روم دیکھنے ضرور جاتی ہیں۔ پوری تہذیب، سلیقہ دیکھ آتی ہیں۔اور ہا، ہا، ہا، کیلے کا چھلکا بیچ سڑک پھینکنے کے مزے کا کہنا ہی کیا۔ وہ گرا کوئی دھڑام سے! اب کون ڈھونڈتا پھرے کچرے کا ڈبہ؟ یہ تو دبئی والے یا مغربی ممالک میں لوگ فارغ ہوتے ہیں کہ کچرے کے ڈبے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ہم ایسے مصروف لوگوں کے پاس اتنا فارغ وقت کہاں؟ ویسے ہمارے ملک میں کیلے کا چھلکا بیچ سڑک پھینکنے والے کو نفاذ شریعت نا ہونے کا بہت دکھ ہے۔ اسی طرح گھر کے باہر گلی میں اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ پھینکنے میں بھلا کسی اور کا کیا جاتا ہے؟ اپنی گلی ہے۔ کچرا گرائے جا، گرائے جا۔
ابھی دو تین دن پہلے کی بات ہے کہ ہم کراچی کے ساحل پر کچھ نوزائیدہ ریستورانوں میں رات کا کھانا کھانے کے لیے گئے تو وہاں پاکستان کے مستقبل کے ایک نو دولتیے ہونہار معمار اور شاید آیندہ سینیٹ یا کسی اسمبلی کے ہونے والے رکن یا وزیر، اپنی بہت بڑی لینڈ کروزر میں اپنے کمال فن کا مظاہرہ فرما رہے تھے۔ کیا بلا کی آوازیں آ رہی تھیں ان کی گاڑی سے، جسے گاڑی کہنا اس گاڑی اور اس کے مالک کی شان میں گستاخی کے مترادف تھا، کس بلا کی چابکدستی سے وہ اپنے اس ایف16 کو زمین پر قلابازیاں کھلا رہے تھے کہ سب نہ صرف عش عش کر رہے تھے بلکہ سسکیاں بھر رہے تھے۔ حاضرین سامنے والے ریستوران میں بیٹھے یہ سب کچھ دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے بلکہ اپنے کانوں میں بھی انگلیاں ٹھونسے ہوئے تھے، کھانا وانا تو وہ بھول چکے تھے۔
غائبین وہ تھے جو کچھ فاصلے پر باقی ریستورانوں میں بیٹھے ہوئے پریشان ہو رہے تھے کہ یا الٰہی کہیں کوئی فضائی حملہ تو نہیں ہو گِیا؟ ان ریستورانوں میں کچھ صرف کھانوں کے لیے مشہور ہیں اور چند ایک میں کھانے کے ساتھ اور بھی سب کچھ ملتا ہے۔ وہاں پولیس نظر نہیں آ رہی تھی۔ بلکہ پولیس کو ایسی جگہوں پر ہونا بھی نہیں چاہیے۔ خوامخواہ شرفا کے رنگ میں بھنگ ڈالنے سے کیا فائدہ؟ ویسے آج کل ریاستہائے متحدہ امریکا اور جنوبی امریکا کے کچھ ممالک میں بھنگ کا استعمال قانونی قرار دیا گیا ہے، جب کہ ہمارے ملک میں تو موئن جو دڑو، ہڑپہ اور ٹیکسیلا میں بھنگ کا استعمال عام تھا اور یہ ترقی یافتہ ممالک ہم سے کتنے ہزار سال پیچھے ہیں۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی اس ایف 16 گاڑی کی۔ اس پر نمبر پلیٹ بھی نہیں لگی ہوئی تھی اور ضرورت بھی کیا تھی۔ ویسے بھی ایسے لوگ کسی بھی قانون کے پابند نہیں ہوتے۔ اور بھلا کسی بھی جگہ، جہاں لائن میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑے، یہ بھی کوئی بات ہوئی؟ اور ٹریفک کے قوانین کی پابندی بھی کوئی بات ہوئی؟ جو مزہ اپنی لین چھوڑ کر، سامنے والی لین میں آ کر ٹریفک روکنے سے آتا ہے، وہ اپنی لین میں کھڑے ہو کر انتظار کرنے میں بھلا کہاں؟
اب یہ بھی کیا کہ اپنی لینڈ کروزر یا پجیرو کو ایک دقیانوسی نمبر پلیٹ لگا کر داغدار کیا جائے، جیسی کہ ایک گھٹیا مہران پر بھی لگی ہوتی ہے۔ س کے علاوہ بغیر نمبر پلیٹ کے، یا تکلفاً AFR-2014 کی پلیٹ کی گاڑی چلانے کی ٹور ہی اور ہے۔ قرون اولیٰ میں یہ طریقہ ہوتا تھا کہ مستقل رجسٹریشن سے پہلے ایک عارضی نمبر پلیٹ جاری کی جاتی تھی جس کا بیک گرائونڈ سفید ہوتا تھا اور اس پر لال حروف سے عارضی نمبر لکھا ہوا ہوتا تھا۔ وہ نمبر ایک مہینے کے لیے قابل استعمال ہوتا تھا جس کے بعد مستقل رجسٹریشن لازمی ہوتی تھی۔ پولیس والے چیک کرتے تھے کہ مستقل رجسٹریشن کیوں نہیں ہوئی۔ اب ان تکلفات کی ضرورت محسوس نہیں جاتی۔ وقت بہت قیمتی چیز ہوتی ہے اسے خوامخواہ ان خرافات میں کیوں ضایع کیا جائے؟ جب کہ خاص طور پر بغیر نمبر پلیٹ یا اے ایف آر والی گاڑی سے کوئی پوچھ گچھ کرنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا؟
بہت ساری بڑی گاڑیوں پر ایک عدد نمبر پلیٹ لگانے کا خوامخواہ کا تکلف کیا ہوتا ہے۔ ان پلیٹوں کے اوپر ایک گول پلیٹ لگی ہوتی ہے، جو اس خوامخواہ کی پلیٹ کو ڈھانکے ہوئے ہوتی ہے، کہ یا تو وہ بالکل نظر ہی نہیں آئے یا اگر نظر آئے تو پڑھی نہیں جا سکے۔ اور وہ گول پلیٹ اکثر ریگزین کے کور سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہے، کہ نظرِ بد سے بچی رہے۔ یہ بھی اس بات کے پیش نظر ہوتا ہے کہ صاحبِ گاڑی یا ان کے لواحقین یا ڈرائیور سے کچھ سرزد ہو جائے تو ان کو کچھ ناں کہا جائے، بلکہ گاڑی کے سامنے آنے والے کی کھال ادھیڑ دی جائے۔ اور کیا ضروری ہے کہ گاڑیوں کی سب کی سب لاِئٹیں کام کریں۔ اگر ایک آدھ نا بھی کام کرے تو کیا مضائقہ ہے؟ کیا ایک ہیڈ لائٹ سے کام نہیں چل سکتا؟ اگر بریک، اشارے یا پارکنگ لائٹ نہ جلے تو کیا فرق پڑتا ہے؟
ایک دوست نے بتایا کہ وہ جدہ سے مکہ مکرمہ جا رہا تھا۔ اس کی گاڑی کی ایک بریک لائٹ کام نہیں کر رہی تھی۔ پولیس والے نے کہا کہ گاڑی یہیں چھوڑ دو، رات کا وقت ہے، آپ گاڑی نہیں لے جا سکتے۔ میں نے اسے نوٹ پر ان کے بادشاہ سلامت کی تصویر بھی دکھانے کے کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔ پھر میں نے اسے بہتیرا پاکستان کے عام افسران اور خصوصا ًپولیس کی خوبیاں گنوائیں کہ وہ لوگ قائد اعظم کا بہت احترام کرتے ہیں۔ وہ پھر بھی نہ مانا۔ مجبورا مجھے گاڑی وہیں چھوڑنا پڑی۔ اور عین اسی وقت مجھے اپنے پیارے وطن کی یاد بہت ستائی۔ ایک لمحے کے لیے تو خیال آیا کہ گو کہ میں یہاں گزشتہ 20-25 سالوں سے خوب پیسے کما رہا ہوں تو یہ سب چھوڑ چھاڑ کر واپس وطن واپس جانے کی تیاری کروں لیکن برا ہو ہمارے روپیہ کا کہ وہ ابھی تک ریال کے برابر نہ ہوا۔ اب میں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ جوں ہی روپیہ ریال کے برابر آیا تو ایک دن کے لیے بھے یہاں نہیں رکوں گا۔
بارش میں کراچی کے منچلے سمندرمیں نہانے جاتے ہیں تو پولیس منع کرتی ہے۔ ابھی گزشتہ دو تین ہفتے پہلے 6 لڑکے نہانے گئے، 3 ڈوب گئے۔ بس صرف 3؟ اتنا تو ہوتا ہی ہے اس طرح کے کاموں میں۔ اب یہ کیا بات ہوئی کہ ڈوبنے کے ڈر سے نہایا ہی نہ جائے؟ یا چند ڈرپوک لوگوں کی وجہ سے ہم اپنی انجوائمنٹ خراب کریں۔ اور کتنا آسان ہے کہ احتیاط تو خود نہیں کی جائے اور الزام لگایا جائے حکومت پر کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اب یہ بھی سنیے کہ اسپتال میں مریض کو دیکھنے کے لیے صرف مقررہ اوقات میں اور تھوڑی سی تعداد میں ہی جایا جا سکتا ہے۔ بھئی مریض بھی ہمارا اور پابندی بھی ہم پر؟ اس پر طرہ یہ کہ بچوں کو بھی نہیں لے جا سکتے۔ اور تو اور آئی سی یو میں بھی مشکل سے جانے کی اجازت ہے۔ بندہ پرور مسیحائو، ہم جناح اسپتال میں نارتھ کراچی سے آئے ہیں۔ اتنی دور سے آ کر مریض بغیر دیکھے واپس کیسے چلے جائیں؟ آئی سی یو میں پڑا مریض ہو سکتا ہے ہمارے ہی انتظار میں اب تک اس مصیبت میں مبتلا ہو اور ہمیں دیکھنے ہی اس کی مصیبت ختم ہو جائے۔ اگر نہیں بھی تو کم از کم اسے معلوم تو ہو جائے گا کہ ہم آئے ہیں یا اگر وہ ہوش و حواس میں نہ بھی ہو تب بھی ہمیں تو تسلِی ہو جائے گی نا۔
بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ اپنی ہی موٹر سائیکل پر سواریوں کے بٹھانے پر بھی پابندی ہو؟ ابھی کچھ روز پہلے ہم اپنِی ہی موٹر سائیکل پر بیگم صاحبہ اور چار عدد شہزادوں کو بٹھائے جا رہے تھے کہ پولیس والے نے روک دیا۔ پہلے تو ایک لمبا سا لیکچر پلایا، زیادہ سے زیادہ دو سواریوں کے بٹھانے کے فضائل بیان کیے۔ شکر یہ ہوا کہ ہماری مردم شماری بڑھانے کی حوصلہ افزائی کے طور پر ہمارا چالان بھی نہیں کیا۔ اتفاقاً اس ہی دن دنیا بھر میں خاندانی منصوبہ بندی کا دن بھی منایا جارہا تھا۔ برا ہو موٹر سائیکل بنانے والوں کا کہ انھوں نے اتنی چھوٹی سیٹیں اوراتنے چھوٹے کیریئر بنائے ہیں کہ مجھے 2 بچیوں کو گھر روتا چھوڑ کر آنا پڑا، آیندہ اگر کوئی پارٹی ووٹ مانگنے آئی تو میرا مطالبہ ہوگا کہ موٹر سائیکلوں کی سیٹیں اور کیریئر ذرا کشادہ ہونے چاہیئں۔ ویسے اگر رضا ربانی صاحب 18 ترمیم میں یہ شق بھی ڈال دیتے تو ان کا کیا جاتا؟ وہ تو موٹر سائیکل پر بیٹھتے نہیں، لیکن بندہ بشر ہے، کبھی ان کو بھی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ اب اگر کہیں کسی کار، بس یا ٹرک کے ساتھ کوئی حادثہ ہو جائے تو الزام حکومت پر، اور وہاں کھڑے لوگ بھی نہ آئو دیکھیں گے نہ تائو، اس کار یا بس یا ٹرک کو ماچس کی تیلی دکھاتے دیر نہیں لگائیں گے، چاہے قصور موٹر سائیکل والے کا ہو۔
ابھی میں چند روز کے لیے اپنے ایک دوست کے ساتھ کینیڈا اوردبئی گیا تو کچھ مزا نہیں آیا۔ گاڑیاں باقاعدہ سگنل پر رکتی تھیں، لوگ برابر والی گاڑی کو اپنے سے آگے نکلنے دیتے تھے۔ بھلا ایسی بھی انکساری کیا؟ ہم کوئی فارغ تو نہیں تھے کہ ہر ایری غیری گاڑی کو راستہ دیتے پھرتے۔ اور پھر برابر والی گاڑی کا راستہ کاٹنے اور اس سے آگے نکلنے کا مزا ہی اور ہے۔ وہاں ہم نے سرکاری بسوں اور میٹرو ریل میں سفر کیا۔ ان میں بہت عمدہ قسم کی ریگزین کی سیٹیں لگی ہوئی تھیں لیکن ان پر کوئی نشان بھی نہیں لگا ہوا دیکھا اور لگتا تھا کہ جب سے لگی ہیں تب سی صحیح سلامت ہیں۔ کتنی غلام ذہنیت کے ہیں ان ملکوں کے لوگ کہ ان کو ان سیٹوں پر بلیڈ سے پھاڑنے کی بھی آزادی نھیں ہے۔ مارکر سے لکھنے کا ڈھنگ نہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ بھی ان سیٹوں کی طرف للچائی نظروں سے دیکھتے ہوں، بلیڈ بھی ان کی جیبوں میں ہوتے ہوں، اور کوئی سرکاری لوگ بھی وہاں ان کی دیکھہ بھال کے لیے مامور نہ ہوں، پھر بھی وہ ان سیٹوں کو پھاڑنے کی ہمت نہ کر سکتے ہوں۔ ڈرپوک کہیں کے۔
ایئر پورٹ کے غسل خانوں میں نلکے صحیح سلامت اور پانی باقاعدہ موجود۔ باتھ روموں میں کپڑے ٹانگنے کے لیے کھونٹیاں بھی سلامت تھیں۔ اور تو اور ہاتھ پونچنے کے لیے ٹائلیٹ پیپر بھی کثیر تعداد میں رکھے ہوئے تھے۔ ویسے سیانوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی گھر یا دفتر کے مکیں کا ذوق دیکھنا ہو تو وہاں کے باتھ روم کو دیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب خواتین کسی گھر میں رشتہ دیکھنے جاتی ہیں تو بچے کو حاجت کے بہانے باتھ روم دیکھنے ضرور جاتی ہیں۔ پوری تہذیب، سلیقہ دیکھ آتی ہیں۔اور ہا، ہا، ہا، کیلے کا چھلکا بیچ سڑک پھینکنے کے مزے کا کہنا ہی کیا۔ وہ گرا کوئی دھڑام سے! اب کون ڈھونڈتا پھرے کچرے کا ڈبہ؟ یہ تو دبئی والے یا مغربی ممالک میں لوگ فارغ ہوتے ہیں کہ کچرے کے ڈبے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ہم ایسے مصروف لوگوں کے پاس اتنا فارغ وقت کہاں؟ ویسے ہمارے ملک میں کیلے کا چھلکا بیچ سڑک پھینکنے والے کو نفاذ شریعت نا ہونے کا بہت دکھ ہے۔ اسی طرح گھر کے باہر گلی میں اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ پھینکنے میں بھلا کسی اور کا کیا جاتا ہے؟ اپنی گلی ہے۔ کچرا گرائے جا، گرائے جا۔