مزدور رہنما کی دائمی جدائی
مزدور رہنما کرامت حسین کبیر والا، ملتان میں یکم اپریل 1957ء میں پیدا ہوئے اور 17 جنوری 2014ء کو ہم سے جدا ہو گئے
مزدور رہنما کرامت حسین کبیر والا، ملتان میں یکم اپریل 1957ء میں پیدا ہوئے اور 17 جنوری 2014ء کو ہم سے جدا ہو گئے۔ ان کی رہائش ناظم آباد کراچی میں تھی۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں ہی حاصل کی۔ بعد ازاں فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا۔ وہ یونیورسٹی میں انقلابی کونسل کی تشکیل کے بانیوں میں سے تھے۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی اچھے مقرر تھے۔ تنقیدی نقطہ نگاہ سے سوچنے کی عادت شروع ہی سے تھی۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزدور کسان پارٹی (میجر اسحاق گروپ) کے سرگرم کارکن بنے۔ ان میں دانشورانہ سوچ اور عمل کا جذبہ تھا (دانشور کا مطلب جو محنت کشوں اور شہریوں کے حقوق کے لیے ان کے ساتھ شانہ بشانہ جدوجہد کرتا ہے)۔ اس کے بعد جنرل ضیا الحق کے دور میں کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے مزدوروں کی جدوجہد میں شریک رہے۔ اس تحریک میں لگ بھگ 100 مزدوروں کا پولیس نے قتل عام کیا تھا۔ بعد ازاں وہ کراچی منتقل ہو گئے سب سے پہلے ایک ٹیکسٹائل ملز لانڈھی میں ملازمت اختیار کی۔ پھر کئی اداروں میں مزید کام کیا۔
آخر میں کے ای ایس سی میں مستقل ملازمت اختیار کر لی۔ بعد میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہو گئے۔ کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنما جاوید شکور ان کے پارٹی انچارج ہوا کرتے تھے۔ شروع میں کرامت حسین کے ای ایس سی کی ڈیموکریٹک یونین کے سرگرم رہنما تھے۔ ایک موقع پر یونین کی جانب سے کے ای ایس سی کے مزدوروں کے مسائل پر کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی میں رسالہ بھی نکالا کرتے تھے۔ جس میں فتح محمد سومرو، طارق اور صفدر پیش پیش تھے۔ پھر انھوں نے ''کے ای ایس سی بچاؤ تحریک'' کا آغاز کیا۔ جب کے ای ایس سی کے مزدوروں نے ''نجکاری مخالف اتحاد'' تشکیل دی تو کرامت حسین کو اس کا پہلا کنوینر منتخب کیا گیا۔ اس ''اتحاد'' میں کراچی شہر کی مختلف مزدور تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ بعد ازاں مزدوروں کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے لیبر یونین میں شامل ہو گئے ، کرامت کا اس میں مرکزی رول رہا۔ 2011ء میں 4500 مزدوروں کو جبراً ریٹائرڈ کرنے کی اسکیم (سازش) کے خلاف مزدوروں کو متحد کرنے اور جدوجہد جاری رکھنے اور اس اسکیم کو مسترد کرنے کی پاداش میں کرامت حسین مرحوم کو انتظامیہ نے مزدوروں کو بھڑکانے کا الزام میں ملازمت سے برطرف کر دیا۔
وہ یونین کے سیکریٹری اطلاعات تھے۔ کبھی بھی ادارہ کی گاڑیوں کو یونین سرگرمی کے لیے استعمال نہیں کیا جب کہ دیگر رہنما گاڑیاں اپنے ذاتی استعمال میں لاتے تھے۔ کرامت حسین موٹر سائیکل پر یا پیدل خود پریس ریلیز اخبارات کو پہنچاتے تھے۔ یونین کے فنڈز کو کرامت حسین کبھی بھی اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لائے جب کہ کچھ رہنما ذاتی استعمال میں لاتے ہیں۔ انھوں نے سخت بیماری کے دوران بھی یونین فنڈز سے پیسے حاصل نہیں کیے۔ ان کی کوئی جائیداد تھی اور نہ اپنا مکان۔ وہ اپنے سالے کے مکان میں رہائش پذیر تھے اور وہیں رحلت کر گئے۔ ان کے تین بچے زیر تعلیم ہیں۔ وہ کے ای ایس سی کی نظریاتی محاذ کے مرکزی رہنما اور اثاثہ تھے جس کی گواہی طارق اور فتح محمد سومرو اور کے ای ایس سی کے سارے مزدور دیں گے۔ کے ای ایس سی کی نجکاری کے خلاف چلائی جانیوالی تحریک میں نظریاتی رہنمائی اور درست تناظر کا تجزیہ کرامت حسین مزدوروں کی رضا مندی سے پیش کرتے تھے اور اس پر عملدرآمد کرواتے تھے۔ کبھی کبھی یونین کے دائیں بازو کے رجعتی اور کمزور خیالات کے رہنماؤں سے مباحثہ کرتے اور بحث میں ٹھہر بھی جاتے تھے۔ مگر آخر کار سب کی اجتماعی رائے ہی مقدم سمجھ کر تحریک کو آگے بڑھاتے تھے۔
اپنی ذات تک ہی اپنے آپ کو محدود نہیں کیا، ان کے تینوں بیٹے ترقی پسند خیالات اور اپنے والد کی سچائی اور بے غرض جدوجہد پر فخر کرتے ہیں۔ یہ ہیں ان کے حاصلات۔ کرامت حسین کے ای ایس سی کی یونین کے علاوہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین کراچی کے 5 سال سے صدر رہے اور تادم مرگ صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ کے ای ایس سی کے مزدوروں کے علاوہ پی ٹی سی ایل، پی آئی اے، واپڈا، اساتذہ، ڈاکٹرز، طلبہ، کسانوں، پی سی ہوٹل کے مزدوروں، کے پی ٹی اور پاکستان اسٹیل سمیت تمام جدوجہد کرنیوالی یونینوں کے شانہ بشانہ عملی طور پر شریک رہے۔ وہ تھے تو بہت دبلے، نازک، نفیس اور ہنس مکھ لیکن نظریاتی اعتبار سے بڑے آہنی، اٹل، مضبوط اور دبنگ، کرامت حسین کراچی، ملتان، فیصل آباد اور ملک بھر کے محنت کشوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے محنت کشوں کی جدوجہد سے نہ صرف وابستہ تھے بلکہ ان کی جدوجہد کے ساتھ ہمیشہ یکجہتی کا اظہار کرتے رہے۔ ہندوستان کے مزدوروں کی جدوجہد ہو، ایران کی ہو، سری لنکا کی ہو، بنگلہ دیش کی ہو، افریقہ، عرب، لاطینی امریکا یا یورپ کی مزدور تحریک کی ہو۔ آخری دنوں میں وہ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک سے خود بھی بہت متاثر ہوئے اور عالمی انقلاب اور اسٹیٹ لیس سوسائٹی پر ان کا یقین بڑھتا گیا۔
آخری دنوں میں جب وہ شدید بیمار تھے تو ان کے دیرینہ ساتھی جنت حسین سے ''طبقاتی جدوجہد'' رسالہ اور 8 مارچ 2014ء میں کانفرنس کے لیے ''عالمی تناظر'' پر شایع ہونیوالے مسودے کو فوری طور پر پہنچانے کو کہا لیکن اس سے قبل ہی وہ دنیا سے رخصت ہو گئے اور ''ان کے ذہن نے سوچنا بند کر دیا''۔ وہ ''انٹرنیشنل مارکسٹ ٹینڈنسی'' (آئی ایم ٹی) کے رکن تھے۔ آخری دنوں میں آغا خان اسپتال میں ''امراض گردہ'' کے شعبے میں داخل تھے۔ اسپتال انتظامیہ نے آپریشن کے لیے 4 لاکھ 40 ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ ان کے پاس اتنی رقم نہ ہونے پر ان کے بیٹے نے پٹیل اسپتال گلشن اقبال سے رابطہ کیا۔ ان کے بیٹوں نے اطلاع دی کہ وہ 54 ہزار روپے میں آپریشن کر دیں گے۔ پھر کرامت حسین کو پٹیل اسپتال گلشن اقبال میں منتقل کر دیا گیا جہاں انھیں آپریشن کے قابل جسم میں استحکام لانے کے لیے ایڈمٹ کیا گیا مگر موت سے مقابلہ کرتے ہوئے بڑی جرأت مندی سے چند گھنٹوں میں ہی ہم سے رخصت ہو گئے۔ اس کے باوجود پٹیل اسپتال کی انتظامیہ نے 6000 روپے اور آغا خان نے 25000 روپے موت کا کرایہ وصول کر لیا۔
میرے (راقم سے) کرامت حسین مرحوم کے ساتھ 25 سالہ تعلقات اور سیاسی ہم آہنگی تھی۔ انھوں نے اپنے عمل سے روز الگزمبرگ، ایما گولڈ مان اور نارین داس پیچر کی صف میں اپنے آپ کو کھڑا کر دیا۔ ملک میں اس ساری لوٹ مار کا خاتمہ تب ہی ہو گا جب عالمی سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا جائے، اس کام کے لیے کرامت حسین جیسے دنیا بھر کے کروڑوں محنت کش جدوجہد میں دن و رات نبرد آزما ہیں۔ اس وقت بھی اسپین، پرتگال، اٹلی، یونان، یوکرائن، ترکی، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، بوسنیا، پاکستان اور ہندوستان سمیت دنیا بھر کے کارکنان اور شہری انقلابی جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ خاص کر کے پاکستان میں کرامت حسین کی جانب سے چھوڑی جانے والی نجکاری مخالف تحریک نے پاکستان میں انگڑائی لینی شروع کر دی ہے۔ اب یہ بہت جلد سینہ تان کر میدان عمل میں نکلنے کے لیے پھڑپھڑا رہی ہے۔ حال ہی میں کراچی میں پیپلز لیبر بیورو کا پریس کلب میں ہونیوالے عظیم الشان جلسے کا انعقاد، جس میں پی ٹی یو ڈی سی نے نجکاری کے خلاف پمفلٹ بانٹے اور رسالے فروخت کیے، جسے مزدوروں نے زبردست سراہا۔
پھر کوٹ ادو میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین کی جانب سے جلسے کا انعقاد ۔ پیپلز یونٹی کا پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف لاہور، ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی میں عظیم الشان جلسوں کا انعقاد ۔ پاکستان واپڈا ہائیڈرو ورکرز یونین نے ملک گیر نجکاری کے خلاف احتجاج کیا۔ اس سلسلے میں پہلا جلسہ ملتان میں منعقد ہوا۔ ادھر تحصیل کوٹ ادو کی ٹریڈ یونینز کا مشترکہ اجلاس او جی ڈی سی ایل لاجسٹک کیمپ کوٹ ادو میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت مرکزی نائب صدر ''آل مزدور اتحاد'' یونین سی بی اے اور اوجی ڈی سی ایل ملک اختر کالرو نے کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیپکو کی سی بی اے یونین کے چیئرمین حامد حسن نے کہا کہ کیپکو کی نجکاری پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کی گئی جوکہ اس ملک میں مزدوروں کی پارٹی ہونے کی دعویدار ہے۔
پی پی پی حکومت کے اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف کیپکو کے مزدوروں نے 9 ماہ تک جنگ لڑی لیکن اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہوکر وہ جنگ ہار گئے۔ حکومت کیپکو کو فروخت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ نجکاری کے بعد آج کیپکو کے مزدور واپڈا کے مزدوروں سے بھی کم مراعات اور تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اس لیے ان تمام اداروں جن کو موجودہ حکومت نجکاری کرنے جا رہی ہے انھیں روکنے کے لیے تمام یونینوں کو متحدہ جدوجہد کرنی ہو گی۔ اور تمام اداروں کے مزدوروں کو مل کر عام ہڑتال کے اعلان کی جانب جانا ہو گا۔ تب جا کر مزدور حکمرانوں کو آئی ایم ایف کی مزدور دشمن سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل دنیا بھر کے شہریوں اور کارکنان کا عالمی انقلاب میں مضمر ہے جہاں ایک امداد باہمی کا سماج قائم ہو گا۔ شمس الغنی نے کہا ہے۔
عرصہ دہر کی بے پایاں سیاہ روزی میں
تو کرامت تھا۔۔۔کرامات دکھانے والے
زحمت چارہ گری بھی نہ ہمیں دی تو نے
ایسا ہوتا ہے کہیں چھوڑ کے جانے والے
آخر میں کے ای ایس سی میں مستقل ملازمت اختیار کر لی۔ بعد میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہو گئے۔ کمیونسٹ پارٹی کے سینئر رہنما جاوید شکور ان کے پارٹی انچارج ہوا کرتے تھے۔ شروع میں کرامت حسین کے ای ایس سی کی ڈیموکریٹک یونین کے سرگرم رہنما تھے۔ ایک موقع پر یونین کی جانب سے کے ای ایس سی کے مزدوروں کے مسائل پر کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی میں رسالہ بھی نکالا کرتے تھے۔ جس میں فتح محمد سومرو، طارق اور صفدر پیش پیش تھے۔ پھر انھوں نے ''کے ای ایس سی بچاؤ تحریک'' کا آغاز کیا۔ جب کے ای ایس سی کے مزدوروں نے ''نجکاری مخالف اتحاد'' تشکیل دی تو کرامت حسین کو اس کا پہلا کنوینر منتخب کیا گیا۔ اس ''اتحاد'' میں کراچی شہر کی مختلف مزدور تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔ بعد ازاں مزدوروں کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے لیبر یونین میں شامل ہو گئے ، کرامت کا اس میں مرکزی رول رہا۔ 2011ء میں 4500 مزدوروں کو جبراً ریٹائرڈ کرنے کی اسکیم (سازش) کے خلاف مزدوروں کو متحد کرنے اور جدوجہد جاری رکھنے اور اس اسکیم کو مسترد کرنے کی پاداش میں کرامت حسین مرحوم کو انتظامیہ نے مزدوروں کو بھڑکانے کا الزام میں ملازمت سے برطرف کر دیا۔
وہ یونین کے سیکریٹری اطلاعات تھے۔ کبھی بھی ادارہ کی گاڑیوں کو یونین سرگرمی کے لیے استعمال نہیں کیا جب کہ دیگر رہنما گاڑیاں اپنے ذاتی استعمال میں لاتے تھے۔ کرامت حسین موٹر سائیکل پر یا پیدل خود پریس ریلیز اخبارات کو پہنچاتے تھے۔ یونین کے فنڈز کو کرامت حسین کبھی بھی اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لائے جب کہ کچھ رہنما ذاتی استعمال میں لاتے ہیں۔ انھوں نے سخت بیماری کے دوران بھی یونین فنڈز سے پیسے حاصل نہیں کیے۔ ان کی کوئی جائیداد تھی اور نہ اپنا مکان۔ وہ اپنے سالے کے مکان میں رہائش پذیر تھے اور وہیں رحلت کر گئے۔ ان کے تین بچے زیر تعلیم ہیں۔ وہ کے ای ایس سی کی نظریاتی محاذ کے مرکزی رہنما اور اثاثہ تھے جس کی گواہی طارق اور فتح محمد سومرو اور کے ای ایس سی کے سارے مزدور دیں گے۔ کے ای ایس سی کی نجکاری کے خلاف چلائی جانیوالی تحریک میں نظریاتی رہنمائی اور درست تناظر کا تجزیہ کرامت حسین مزدوروں کی رضا مندی سے پیش کرتے تھے اور اس پر عملدرآمد کرواتے تھے۔ کبھی کبھی یونین کے دائیں بازو کے رجعتی اور کمزور خیالات کے رہنماؤں سے مباحثہ کرتے اور بحث میں ٹھہر بھی جاتے تھے۔ مگر آخر کار سب کی اجتماعی رائے ہی مقدم سمجھ کر تحریک کو آگے بڑھاتے تھے۔
اپنی ذات تک ہی اپنے آپ کو محدود نہیں کیا، ان کے تینوں بیٹے ترقی پسند خیالات اور اپنے والد کی سچائی اور بے غرض جدوجہد پر فخر کرتے ہیں۔ یہ ہیں ان کے حاصلات۔ کرامت حسین کے ای ایس سی کی یونین کے علاوہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین کراچی کے 5 سال سے صدر رہے اور تادم مرگ صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ کے ای ایس سی کے مزدوروں کے علاوہ پی ٹی سی ایل، پی آئی اے، واپڈا، اساتذہ، ڈاکٹرز، طلبہ، کسانوں، پی سی ہوٹل کے مزدوروں، کے پی ٹی اور پاکستان اسٹیل سمیت تمام جدوجہد کرنیوالی یونینوں کے شانہ بشانہ عملی طور پر شریک رہے۔ وہ تھے تو بہت دبلے، نازک، نفیس اور ہنس مکھ لیکن نظریاتی اعتبار سے بڑے آہنی، اٹل، مضبوط اور دبنگ، کرامت حسین کراچی، ملتان، فیصل آباد اور ملک بھر کے محنت کشوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے محنت کشوں کی جدوجہد سے نہ صرف وابستہ تھے بلکہ ان کی جدوجہد کے ساتھ ہمیشہ یکجہتی کا اظہار کرتے رہے۔ ہندوستان کے مزدوروں کی جدوجہد ہو، ایران کی ہو، سری لنکا کی ہو، بنگلہ دیش کی ہو، افریقہ، عرب، لاطینی امریکا یا یورپ کی مزدور تحریک کی ہو۔ آخری دنوں میں وہ وال اسٹریٹ قبضہ تحریک سے خود بھی بہت متاثر ہوئے اور عالمی انقلاب اور اسٹیٹ لیس سوسائٹی پر ان کا یقین بڑھتا گیا۔
آخری دنوں میں جب وہ شدید بیمار تھے تو ان کے دیرینہ ساتھی جنت حسین سے ''طبقاتی جدوجہد'' رسالہ اور 8 مارچ 2014ء میں کانفرنس کے لیے ''عالمی تناظر'' پر شایع ہونیوالے مسودے کو فوری طور پر پہنچانے کو کہا لیکن اس سے قبل ہی وہ دنیا سے رخصت ہو گئے اور ''ان کے ذہن نے سوچنا بند کر دیا''۔ وہ ''انٹرنیشنل مارکسٹ ٹینڈنسی'' (آئی ایم ٹی) کے رکن تھے۔ آخری دنوں میں آغا خان اسپتال میں ''امراض گردہ'' کے شعبے میں داخل تھے۔ اسپتال انتظامیہ نے آپریشن کے لیے 4 لاکھ 40 ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ ان کے پاس اتنی رقم نہ ہونے پر ان کے بیٹے نے پٹیل اسپتال گلشن اقبال سے رابطہ کیا۔ ان کے بیٹوں نے اطلاع دی کہ وہ 54 ہزار روپے میں آپریشن کر دیں گے۔ پھر کرامت حسین کو پٹیل اسپتال گلشن اقبال میں منتقل کر دیا گیا جہاں انھیں آپریشن کے قابل جسم میں استحکام لانے کے لیے ایڈمٹ کیا گیا مگر موت سے مقابلہ کرتے ہوئے بڑی جرأت مندی سے چند گھنٹوں میں ہی ہم سے رخصت ہو گئے۔ اس کے باوجود پٹیل اسپتال کی انتظامیہ نے 6000 روپے اور آغا خان نے 25000 روپے موت کا کرایہ وصول کر لیا۔
میرے (راقم سے) کرامت حسین مرحوم کے ساتھ 25 سالہ تعلقات اور سیاسی ہم آہنگی تھی۔ انھوں نے اپنے عمل سے روز الگزمبرگ، ایما گولڈ مان اور نارین داس پیچر کی صف میں اپنے آپ کو کھڑا کر دیا۔ ملک میں اس ساری لوٹ مار کا خاتمہ تب ہی ہو گا جب عالمی سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا جائے، اس کام کے لیے کرامت حسین جیسے دنیا بھر کے کروڑوں محنت کش جدوجہد میں دن و رات نبرد آزما ہیں۔ اس وقت بھی اسپین، پرتگال، اٹلی، یونان، یوکرائن، ترکی، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، بوسنیا، پاکستان اور ہندوستان سمیت دنیا بھر کے کارکنان اور شہری انقلابی جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ خاص کر کے پاکستان میں کرامت حسین کی جانب سے چھوڑی جانے والی نجکاری مخالف تحریک نے پاکستان میں انگڑائی لینی شروع کر دی ہے۔ اب یہ بہت جلد سینہ تان کر میدان عمل میں نکلنے کے لیے پھڑپھڑا رہی ہے۔ حال ہی میں کراچی میں پیپلز لیبر بیورو کا پریس کلب میں ہونیوالے عظیم الشان جلسے کا انعقاد، جس میں پی ٹی یو ڈی سی نے نجکاری کے خلاف پمفلٹ بانٹے اور رسالے فروخت کیے، جسے مزدوروں نے زبردست سراہا۔
پھر کوٹ ادو میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین کی جانب سے جلسے کا انعقاد ۔ پیپلز یونٹی کا پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف لاہور، ملتان، فیصل آباد اور راولپنڈی میں عظیم الشان جلسوں کا انعقاد ۔ پاکستان واپڈا ہائیڈرو ورکرز یونین نے ملک گیر نجکاری کے خلاف احتجاج کیا۔ اس سلسلے میں پہلا جلسہ ملتان میں منعقد ہوا۔ ادھر تحصیل کوٹ ادو کی ٹریڈ یونینز کا مشترکہ اجلاس او جی ڈی سی ایل لاجسٹک کیمپ کوٹ ادو میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت مرکزی نائب صدر ''آل مزدور اتحاد'' یونین سی بی اے اور اوجی ڈی سی ایل ملک اختر کالرو نے کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیپکو کی سی بی اے یونین کے چیئرمین حامد حسن نے کہا کہ کیپکو کی نجکاری پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کی گئی جوکہ اس ملک میں مزدوروں کی پارٹی ہونے کی دعویدار ہے۔
پی پی پی حکومت کے اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف کیپکو کے مزدوروں نے 9 ماہ تک جنگ لڑی لیکن اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہوکر وہ جنگ ہار گئے۔ حکومت کیپکو کو فروخت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ نجکاری کے بعد آج کیپکو کے مزدور واپڈا کے مزدوروں سے بھی کم مراعات اور تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اس لیے ان تمام اداروں جن کو موجودہ حکومت نجکاری کرنے جا رہی ہے انھیں روکنے کے لیے تمام یونینوں کو متحدہ جدوجہد کرنی ہو گی۔ اور تمام اداروں کے مزدوروں کو مل کر عام ہڑتال کے اعلان کی جانب جانا ہو گا۔ تب جا کر مزدور حکمرانوں کو آئی ایم ایف کی مزدور دشمن سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل دنیا بھر کے شہریوں اور کارکنان کا عالمی انقلاب میں مضمر ہے جہاں ایک امداد باہمی کا سماج قائم ہو گا۔ شمس الغنی نے کہا ہے۔
عرصہ دہر کی بے پایاں سیاہ روزی میں
تو کرامت تھا۔۔۔کرامات دکھانے والے
زحمت چارہ گری بھی نہ ہمیں دی تو نے
ایسا ہوتا ہے کہیں چھوڑ کے جانے والے