بھلا فرعون کی کیا حیثیت

معاشرہ افراد کے مجموعے کا نام ہے اسی لیے معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے پر انحصار کرتا ہے

معاشرہ افراد کے مجموعے کا نام ہے اسی لیے معاشرے کا ہر فرد ایک دوسرے پر انحصار کرتا ہے، یہ افراد معاشرہ نہ عملی سطح پر، نہ معاشی و معاشرتی سطح پر اور نہ سیاسی و عقلی سطح پر یکساں ہوتے ہیں۔ ہر شخص صورت میں سیرت میں، انداز فکر، انداز بیاں، رویے، مزاج، پیشے اور اہلیت و صلاحیت میں ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ رہ گئی طبقے کی بات تو انسان نے اپنے معاشرے میں خود ہی بنائے ہیں اور خود ہی طبقاتی کشمکش کا شکار بھی ہوا ہے۔ ہم چاہے کتنے ہی تعلیم یافتہ ہوں، کتنے ہی مہذب ہوں، کتنے ہی باصلاحیت اور نرم خو ہوں مگر تمام تر خوبیوں کے باوجود ہم معاشرے میں تنہا زندگی بسر نہیں کر سکتے، یہی وجہ ہے کہ انسان کو ''معاشرتی حیوان'' کہا گیا ہے۔

مہذب اور مکمل معاشرہ وہی کہلاتا ہے جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد آبادی کے تناسب اور ضرورت کے مطابق موجود ہوں ساتھ ہی اپنے اپنے شعبے اور ذمے داریوں کو اپنا فرض سمجھ کر ادا بھی کرتے ہوں۔ کیا ایسا معاشرہ جس میں تمام افراد ڈاکٹر ہوں، انجینئر، اساتذہ یا کسی ایک شعبے کے ماہر ہوں ایک مکمل معاشرہ کہلا سکتا ہے؟ ہر گز نہیں آبادی کے تناسب سے بے شک ہمیں اتنے ہی ڈاکٹر چاہئیں کہ وہ تمام آبادی کی صحت سے متعلق مسائل کو حل کر سکیں، اتنے ہی اساتذہ ہر تعلیمی سطح کے لیے درکار ہوں گے جو طلبہ کے لیے کافی ہوں تعمیری و ترقیاتی کاموں کے لیے مختلف ٹیکنالوجی کے ماہرین و انجینئرز کے ساتھ ساتھ معاشرے کو الیکٹریشن، پلمبر، موچی، درزی، مزدور، کسان کے علاوہ سڑکوں اور گٹروں کی صفائی کرنے والے، ذرایع آمد و رفت کے نظام کو برقرار اور رواں رکھنے کے لیے ڈرائیور، ٹکٹ چیکر، مکینک، ریلوے ڈرائیور، ہوا بازی غرض ہر فن اور ہنر کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر ہر فن اور ٹیکنالوجی کے ماہرین بھی ہوں مطلوبہ تعداد میں ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ، علما، سیاستدان سب ہوں مگر اس معاشرے میں ایک درزی نہ ہو، صفائی کرنے والے نہ ہوں، سبزی و گوشت فروش نہ ہوں تو ایسا معاشرہ غیر متوازن اور مسائل کا شکار ہی ہو گا۔ اس ساری تمہید سے ہماری مراد یہ ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنی جگہ اہم اور ضروری ہے۔ جب ہر فرد ضروری ہے اور منفرد بھی تو پھر طبقاتی طور پر ''بڑے اور چھوٹے'' کا کیا مطلب؟ بڑا تو دراصل وہ ہے جو اپنا کام مکمل فرض شناسی اور ایمانداری سے انجام دے رہا ہے۔ مہذب معاشروں میں افراد کی قدر و قیمت اس کی مالی و معاشی حیثیت کی بجائے ان کی اہلیت، فرض شناسی اور اخلاقی رویوں سے مقرر کی جاتی ہے۔ دین اسلام نے بھی اعمال اور تقویٰ کو ہی ''معیار انسانیت'' قرار دیا ہے نہ کہ مالی و معاشرتی حیثیت کو۔


آج ہمارا معاشرہ جس انحطاط کا شکار ہے، اخلاقی و معاشرتی اقدار جس تیزی سے دم توڑ رہی ہیں اس کی اصل وجہ صرف اور صرف مالی حیثیت کو اہمیت دینا اور دولت کا حصول بلکہ راتوں رات سب کچھ بلا کسی اہلیت و محنت کے حاصل کرنے کا رجحان ہے۔ ایک جانب تو ہم حصول دولت میں تمام اخلاقی و مذہبی اقدار کو پامال کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھے بنا دوڑ لگانے میں مصروف ہیں تو دوسری جانب اس جائز و ناجائز دولت کو اپنا دین، ایمان بلکہ خدا تک تسلیم کر بیٹھے ہیں اور جب دولت ہاتھ آ جاتی ہے تو پھر پیچھے مڑ کر دیکھنا گویا گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید میں فرعون، شداد و نمرود کے واقعات کو آنے والی نسلوں کے لیے بطور عبرت بیان کیا گیا ہے مگر آج بھی انسان دولت و اختیارات کے گھمنڈ میں فرعون و نمرود بنا بیٹھا ہے ان کے انجام سے کسی نے کوئی عبرت حاصل نہیں کی۔ جاگیردار، وڈیروں، نوابوں کو تو چھوڑیے ان سب کا تو ایک مخصوص انداز فکر ہوتا ہی ہے۔ جو بیرونی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر کے بھی تبدیل نہیں ہوتا۔

سرداروں اور جاگیرداروں کے بیٹے اعلیٰ سے اعلیٰ درس گاہ سے فارغ التحصیل ہو کر بھی سردار اور جاگیردار ہی رہتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے ہی کہا کہ ان کو چھوڑیے ایک پولیس افسر ایک رینجرز اہلکار، ایک بین الاقوامی کمپنی کا اعلیٰ عہدیدار غرض معاشرے کا کوئی بھی اعلیٰ منصب پر فائز شخص اپنی عملی زندگی میں کسی فرعون سے کیا کم ہوتا ہے؟ اول الذکر دونوں اداروں کے اہلکار عام آدمی کی خدمت و حفاظت پر معمور ہوتے ہیں۔ مگر یہ اپنے فرائض کو دیانت داری اور جذبہ خدمت سے عاری ہو کر انجام دیتے ہیں۔ معاشرے کے وہ افراد جو منفی سرگرمیوں اور برائیاں پھیلانے میں مصروف ہوتے ہیں مثلاً لوٹ مار قتل و غارت گری، رشوت، سفارش، اہلیت و صلاحیت کا قتل عام کرنے والوں سے یہ اپنا حصہ طلب کر کے انھیں کھلی چھٹی دے دیتے ہیں اور خود اعلیٰ طرز زندگی اپنا کر اپنے سے کم تر کے لیے جابر ثابت ہوتے ہیں۔ جو سب کچھ غلط کر رہے ہوتے ہیں، جو قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

جو معاشرے کے ناسور ہیں وہ تو معاشرے کو یرغمال بنائے رکھتے ہیں اور یہ فرض شناس خدمتگار ان سے ان کی بدمعاشی اور خودسری میں حصہ بٹا کر اپنے حقیقی فرائض کو پس پشت ڈالتے رہتے ہیں جب ان سے ان کی کارکردگی کے بارے میں کوئی پوچھ بیٹھے تو یہ کسی بھی بے گناہ کو گھر سے یا راہ چلتے بندوق کی زد پر پکڑ کر وہ بہیمانہ تشدد کرتے ہیں کہ وہ بے چارہ تمام ناکردہ جرائم کا اقرار اس لیے کر لیتا ہے کہ شاید اس تکلیف دہ صورتحال سے جان بچ جائے اور عدالت تک رسائی ممکن ہو جائے تو وہ عدالت کے روبرو حقائق بیان کر کے باعزت بری ہو جائے مگر یہ قانون کے رکھوالے جب تک اس کی ہڈی پسلی توڑ کر خود اس کو موت کی تمنا کرنے پر مجبور نہ کر دیں اور اس کے لواحقین کو رشوت کی مد میں بالکل کنگال نہ کر دیں (تا کہ وہ کسی وکیل کی خدمات بھی حاصل نہ کرسکیں) اپنی فرض شناسی سے دستبردار نہیں ہوتے۔ اس بے گناہ کے جب تمام اعضا چور چور ہو چکے ہوتے ہیں تو یا تو وہ پولیس کی زیر نگرانی ہی دم توڑ دیتا ہے تو پھر یہ ہمدرد انسانیت اس ماورائے عدالت قتل کو پولیس مقابلہ قرار دے دیتے ہیں۔ اگر صورت حال کچھ مختلف ہو جائے تو لاش کو کسی غیر آباد علاقے، نالے، سڑک یا شہر کے کسی کونے کھدرے میں پھینک کر خاندانی دشمنی یا رقابت وغیرہ ثابت کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

فرعون نے بنی اسرائیل کی نسل کشی کے لیے اپنے مزاج سے ہم آہنگ ظالمانہ طریقہ یہ اختیار کیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو قتل کروا دیتا اور عورتوں کو لونڈیاں بنانے کے لیے زندہ رکھتا تھا۔ مگر ہمارے جدید فرعونوں نے نسل کشی کے طریقے بھی جدید اختیار کیے ہیں کہ تشدد کے بعد بھی اگر کوئی سخت جان بچ جائے تو اس کو اس قابل ہی نہ چھوڑیں کہ وہ صیاد کے چنگل سے نکل کر ایک نارمل انسان کی طرح افزائش نسل کے قابل رہ جائے اور معاشرے میں ایک کی بجائے کئی کئی سر پھرے، اپنے حقوق ، شخصی آزادی کے حصول کے لیے جان خطرے میں ڈالنے والے، ظالم کو للکارنے اور دیگر اداروں کی پول کھولنے والے پیدا کر سکے۔ ہمارے ان فرض شناس محافظین کے سامنے بھلا فرعون کی کیا حیثیت؟
Load Next Story