کھیل اور کھلاڑی خطرے میں
سوشل گیمنگ ویب سائٹس کے شائقین کی نگرانی شروع
سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے ذریعے رابطے کی ابتدا ہوئی تو یوں لگا کہ دنیا ہماری مٹھی میں ہے۔
فاصلے گھٹتے، رابطے آسان تر ہوتے اور تعلقات بڑھتے چلے گئے۔ صارفین سوشل نیٹ ورک پر متعدد سرگرمیاں انجام دینے لگے اور چند برسوں میں مختلف ویب سائٹس پر صارفین کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔ اس کے ساتھ سوشل گیمنگ ویب سائٹس کے تصور نے بھی جنم لیا اور پلے فش جیسی کئی ویب سائٹس وجود میں آئیں، جو صارفین کو آن لائن گیمز کھیلنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ یہ بھی سماجی رابطے کے لیے بنائی گئی ویب سائٹس کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئیں اور انٹرنیٹ کے صارفین ان سے جڑتے چلے گئے۔
پلے فش اور دیگر ویب سائٹس پر ایسے دل چسپ گیمز متعارف کروائے گئے جن میں بہ یک وقت کئی کھلاڑی حصہ لے سکتے ہیں۔ اس سہولت نے آن لائن گیمز کھیلنے کے شائقین کی تعداد میں مزید اضافہ کیا اور لوگ اپنے رشتے داروں، دوستوں اور حلقۂ احباب میں شامل افراد کے ساتھ مل کر ان کھیلوں سے لطف اندوز ہونے لگے، مگر اب تفریح کے لیے بنائی گئی ان ویب سائٹس پر بھی دہشت گردوں کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، جس کی نگرانی کرنا ضروری خیال کیا جارہا ہے۔
اس وقت دنیا کو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے اور اس میں ملوث منظم گروہ جدید ٹیکنالوجی کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ آن لائن گیمز کی دنیا میں دہشت گردوں کی موجودگی کے خدشے کے باعث امریکی اور برطانوی جاسوسوں نے ویڈیو گیمنگ پر نظر رکھنا شروع کر دی ہے۔ جاسوسی کا یہ سلسلہ آن لائن ورلڈ آف وار کرافٹ جیسے کھیل سے شروع کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد وقت گزاری اور تفریح کے لیے آن لائن گیمز کھیلتے ہیں۔
امریکا کی قومی سلامتی کی ایجنسی نے مبینہ طور پر اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس قسم کے آن لائن گیمز کی مدد سے دہشت گرد پیغام رسانی کرسکتے ہیں۔ اس جاسوسی کی خبر امریکی اور برطانوی اخبار نے امریکی خفیہ ادارے کے سابق اہل کار ایڈورڈ اسنوڈن کی دستاویزات سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر شایع کی ہے۔ اخبارات کے مطابق امریکی اور برطانوی جاسوس پچھلے چند سال سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو پکڑنے کے لیے آئن لائن گیمز کی نگرانی کر رہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ایسے گیمز کو نئے ساتھی بنانے اور ہتھیاروں کی تربیت دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ برطانوی اخبار گارجین کا کہنا ہے کہ امریکی ایجنسی نے گیم ورلڈ آف وار کرافٹ کے اکاؤنٹس کی معلومات حاصل کر کے اس میں سے بعض کو شدت پسندی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ یہ آن لائن کھیلوں میں مقبول ترین ہے۔ اس کھیل کے بیک وقت ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ صارفین میں سفارت خانوں کے اہل کار، سائنس داں، فوج اور خفیہ اداروں کے اہل کار بھی شامل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف گیم ورلڈ آف وار کرافٹ کی خالق کمپنی کے ترجمان نے برطانوی اخبار کو بتایا کہ وہ اپنے آن لائن کھیل کی نگرانی سے لاعلم ہیں۔
فاصلے گھٹتے، رابطے آسان تر ہوتے اور تعلقات بڑھتے چلے گئے۔ صارفین سوشل نیٹ ورک پر متعدد سرگرمیاں انجام دینے لگے اور چند برسوں میں مختلف ویب سائٹس پر صارفین کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔ اس کے ساتھ سوشل گیمنگ ویب سائٹس کے تصور نے بھی جنم لیا اور پلے فش جیسی کئی ویب سائٹس وجود میں آئیں، جو صارفین کو آن لائن گیمز کھیلنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ یہ بھی سماجی رابطے کے لیے بنائی گئی ویب سائٹس کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئیں اور انٹرنیٹ کے صارفین ان سے جڑتے چلے گئے۔
پلے فش اور دیگر ویب سائٹس پر ایسے دل چسپ گیمز متعارف کروائے گئے جن میں بہ یک وقت کئی کھلاڑی حصہ لے سکتے ہیں۔ اس سہولت نے آن لائن گیمز کھیلنے کے شائقین کی تعداد میں مزید اضافہ کیا اور لوگ اپنے رشتے داروں، دوستوں اور حلقۂ احباب میں شامل افراد کے ساتھ مل کر ان کھیلوں سے لطف اندوز ہونے لگے، مگر اب تفریح کے لیے بنائی گئی ان ویب سائٹس پر بھی دہشت گردوں کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، جس کی نگرانی کرنا ضروری خیال کیا جارہا ہے۔
اس وقت دنیا کو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے اور اس میں ملوث منظم گروہ جدید ٹیکنالوجی کا سہارا بھی لے رہے ہیں۔ آن لائن گیمز کی دنیا میں دہشت گردوں کی موجودگی کے خدشے کے باعث امریکی اور برطانوی جاسوسوں نے ویڈیو گیمنگ پر نظر رکھنا شروع کر دی ہے۔ جاسوسی کا یہ سلسلہ آن لائن ورلڈ آف وار کرافٹ جیسے کھیل سے شروع کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد وقت گزاری اور تفریح کے لیے آن لائن گیمز کھیلتے ہیں۔
امریکا کی قومی سلامتی کی ایجنسی نے مبینہ طور پر اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس قسم کے آن لائن گیمز کی مدد سے دہشت گرد پیغام رسانی کرسکتے ہیں۔ اس جاسوسی کی خبر امریکی اور برطانوی اخبار نے امریکی خفیہ ادارے کے سابق اہل کار ایڈورڈ اسنوڈن کی دستاویزات سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر شایع کی ہے۔ اخبارات کے مطابق امریکی اور برطانوی جاسوس پچھلے چند سال سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو پکڑنے کے لیے آئن لائن گیمز کی نگرانی کر رہے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ایسے گیمز کو نئے ساتھی بنانے اور ہتھیاروں کی تربیت دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ برطانوی اخبار گارجین کا کہنا ہے کہ امریکی ایجنسی نے گیم ورلڈ آف وار کرافٹ کے اکاؤنٹس کی معلومات حاصل کر کے اس میں سے بعض کو شدت پسندی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ یہ آن لائن کھیلوں میں مقبول ترین ہے۔ اس کھیل کے بیک وقت ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ صارفین میں سفارت خانوں کے اہل کار، سائنس داں، فوج اور خفیہ اداروں کے اہل کار بھی شامل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف گیم ورلڈ آف وار کرافٹ کی خالق کمپنی کے ترجمان نے برطانوی اخبار کو بتایا کہ وہ اپنے آن لائن کھیل کی نگرانی سے لاعلم ہیں۔