جنوبی ایشیا میں مذاہب
علاقائی فرق کے باوجود مسلمانوں کی مجموعی آبادی 20 فی صد سے زیادہ نہیں ہے
لاہور:
برصغیر تین اطراف سے سمندر سے گھرا ہوا اور شمال میں بلند پہاڑی سلسلوں سے مقید ہے، اس نسبتاً علیحدہ جغرافیائی پوزیشن اور ذات پات کے ہندوستانی نظام کے مستحکم اور مستقل اثر و رسوخ کے نتیجے میں ہندی مسلمانوںکے حوالے سے کچھ خاص باتیں سامنے آئی ہیں۔
ایک یہ کہ اسلام کا پھیلاؤ انتہائی سست رہا ہے۔ مسلمانوں کی سات سو سال کی حکمرانی کے بعد بھی، پہلی مردم شماری کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ علاقائی فرق کے باوجود مسلمانوں کی مجموعی آبادی 20 فی صد سے زیادہ نہیں ہے۔
اسلام کے پھیلاؤ کے دو اہم ذرایع تھے: وسطی ایشیا، ایران اور عرب سے ہجرت اور مقامی آبادی کا تبدیلء مذہب۔ وسطی ایشیائی علاقوں، ایران اور عرب علاقوں سے آنے والے مسلمان شمالی ہند میں حکمران طبقے کے طور پر ابھرے تاہم وہ صرف ایک چھوٹی اقلیت تھی ۔
مقامی مسلمان ہندو یا بدھ مت سے مذہب تبدیل اسلام کے دائرے میں آئے ۔ اچھوت اور دلت طبقے کی پوری ذاتیں اسلام قبول کر لیتی تھیں۔ اکثر اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اسلام میں چوں کہ مساوات ہے، اس لیے یہ ذات پات کے نظام سے نجات فراہم کرے گی۔ ذات پات کے نظام میں فرد کے مقام کا تعین یہ امر کرتا ہے کہ وہ کس ذات یا برادری میں پیدا ہوا ہے ۔
وہاں سماجی حیثیت کی تبدیلی کا کوئی موقع دستیاب نہیں تھا۔ اسلام قبول کرنے سے لوگوں کو معاشرے میں آگے بڑھنے کا موقع ملا، اور اب وہ ہندوستان کی اونچی جاتیوں کے تابع نہیں رہے۔ بدھ مت جو کبھی برصغیر میں سب سے بڑا مذہب تھا، آٹھویں صدی کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔ بدھ مت اور اسلام میں چوں کہ انسانوں کی برابری کا تصور تھا، اس لیے بدھ مت کے سابقہ علاقے اسلام قبول کرنے کے لیے ترجیحی مقامات بن گئے۔
زیادہ تر نچلی ذات کے ہندووں نے مذہب تبدیل کیا، چھتری ذاتوں نے اپنی حکمرانیاں، جاگیری بچانے کے لیے مذہب تبدیل کیا لیکن اپنی ذاتوں کی شناخت اور اپنے ٹائٹلز کو برقرار رکھا۔ صدیوں کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں میں ہندی کلچر بھی پروان چڑھا اور دلت ذات سے مذہب تبدیل کرنے والوں کی سماجی حیثیت کی تبدیلی کی امید کبھی بر نہیں آئی۔ اس کے علاوہ ہندو مت کے کئی تصورات مسلمانوں میں بھی درآئے اور انھوں نے ان تصورات کو اسلام میں داخل کرلیا۔
اسی لیے برصغیر کے مسلمان عرب اور شمالی افریقہ کے مسلمانوں سے بہت سے معاملات میں مختلف خیالات وتصورات رکھتے ہیں۔ برطانوی استعمار کے تحت حکمران مسلم اشرافیہ سیاسی اقتدار سے محروم ہوئی تو علماء کرام کے طبقے نے برطانوی تعلیم، کامن لا اور انگریزی کلچر کو مسترد کرنے کی تحریکیں چلائیں۔
سکھ مت کی ابتدا شمالی ہند میں پنجاب کے علاقے میں پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں ہوئی۔ یہ جنوبی ایشیا کے بڑے مذاہب میں سب سے کم عمر اور دنیا کا پانچواں سب سے بڑا منظم مذہب ہے، جو اکیسویں صدی کے اوائل تک تقریباً 25-30 ملین سکھوں پر مشتمل تھا۔
سکھ مذہب کی تشکیل گرو نانک (پہلے گرو 1469-1539) اور ان کے بعد آنے والے نو سکھ گروؤں کی روحانی تعلیمات سے ہوئی۔ دسویں گرو، گوبند سنگھ (1666-1708) نے سکھوں کے مقدس صحیفے گرو گرنتھ صاحب کو اپنا جانشین نامزد کیا، جس سے انسانی گروؤں کے سلسلے کا خاتمہ ہو گیا اور صحیفے ہی کو آخری ابدی گیارہویں زندہ گرو کے طور پر مقرر کر لیا گیا، جو سکھوں کو مذہبی، روحانی اور زندگی کے معاملات میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سکھوں کے مقدس صحیفے گرو گرنتھ صاحب کو زندہ گرو مانا جاتا ہے۔
گرو گرنتھ کا آغاز گرو نانک کی شاعرانہ تخلیقات کے ایک مجموعے کے طور پر ہوا تھا۔ اپنی موت سے قبل انھوں نے یہ مجموعہ گرو انگد دیوکے حوالے کر دیا۔ گرو گرنتھ صاحب کا حتمی نسخہ گرو گوبند سنگھ نے 1678 میں مرتب کیا تھا جس میں گرو تیغ بہادر کے بھجن کا اضافہ کیا گیا ہے۔ گرو گرنتھ صاحب کا بڑا حصہ سات سکھ گروؤں کی تخلیقات ہیں، لیکن اس میں تیرہ ہندو سَنتوں اور دو مسلمان صوفیوں یعنی کبیر اور صوفی شیخ فرید کی روایات اور تعلیمات بھی شامل ہیں۔ اس کا متن چھ ہزار اشلوک پر مشتمل ہے جن کی ساخت شاعرانہ ہے اور یہ قدیم شمالی ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی تال سے ہم آہنگ ہیں۔
گرنتھ کا بڑا حصہ ساٹھ راگوں میں منقسم ہے، ہر گرنتھ راگ کو اس کی طوالت کے مطابق تقسیم کیا گیا ہے۔ گرنتھ کے راگ صرف سکھ نہیں گاتے بلکہ زیادہ تر مسلمان یا ہندو گائیک گاتے ہیں کیونکہ وہ گرو گرنتھ کے تمام راگوں پر عبور رکھتے ہیں۔ گرو گرنتھ کے اشلوکوں کی مرکزی زبان کو سَنت بھاشا پکارا جاتاہے جو پنجابی اور ہندی دونوں کا آہنگ اور لہجہ رکھتی ہے اورقرون وسطیٰ کے شمالی ہندوستان میں مقبول مذاہب کے بانیان نے استعمال کی ہے۔ گرنتھ گُرمکھی رسم الخط میں چھپتا ہے۔سکھ مت ایک توحید پرستانہ مذہب ہے۔
سکھ مت کی ایک روحانی جہت بھی ہے۔ یہ مراقبے اور گروؤں کی تعلیمات کو یاد کرنے پر زور دیتا ہے، جس کا اظہار کیرتن کے ذریعے غنائی طور سے، یا من ہی من میں نام جپنے ('اس کے نام پر مراقبہ') کے ذریعے کیا جا سکتا ہے، انھیں خدا کی موجودگی کو محسوس کرنے کے ذرایع سمجھا جاتا ہے۔ یہ پیروکاروں کو ''پانچ چوروں'' سے لڑنا اور انھیں تبدیل کرنا سکھاتا ہے (یعنی ہوس، غصہ، لالچ، لگاؤ اور انا)۔ سکھ سمجھتے ہیں کہ دنیا اس وقت کَل یُگ ('اندھیرے کا دور') کی حالت میں ہے کیوں کہ دنیا مایا کی محبت اور لگاؤ کی وجہ سے راہ راست سے ہٹی ہوئی ہے۔
مرد سکھوں میں سنگھ ('شیر') ان کے نام کا درمیانی یا آخری حصہ ہوتا ہے۔ خواتین سکھوں کا درمیانی یا آخری نام کور ('شہزادی') ہوتا ہے۔ پنجاب سکھوں کا تاریخی وطن رہا ہے، یہاں تک کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں قابل ذکر عرصے تک سکھوں نے یہاں حکومت کی۔ آج ہندوستان کی ریاست پنجاب میں سکھوں کی اکثریت ہے۔ پاکستان میں سکھوں کی سب سے بڑی آبادی خیبر پختون خوا میں میں پائی جاتی ہے۔ پنجاب میں لاہور اور ننکانہ صاحب میں سکھوں کے چھوٹے چھوٹے حلقے ہیں۔ پاکستان کے پنجاب اور سندھ کے بہت سے سکھ اور ہندو 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد ہندوستان چلے گئے تھے۔
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)
برصغیر تین اطراف سے سمندر سے گھرا ہوا اور شمال میں بلند پہاڑی سلسلوں سے مقید ہے، اس نسبتاً علیحدہ جغرافیائی پوزیشن اور ذات پات کے ہندوستانی نظام کے مستحکم اور مستقل اثر و رسوخ کے نتیجے میں ہندی مسلمانوںکے حوالے سے کچھ خاص باتیں سامنے آئی ہیں۔
ایک یہ کہ اسلام کا پھیلاؤ انتہائی سست رہا ہے۔ مسلمانوں کی سات سو سال کی حکمرانی کے بعد بھی، پہلی مردم شماری کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ علاقائی فرق کے باوجود مسلمانوں کی مجموعی آبادی 20 فی صد سے زیادہ نہیں ہے۔
اسلام کے پھیلاؤ کے دو اہم ذرایع تھے: وسطی ایشیا، ایران اور عرب سے ہجرت اور مقامی آبادی کا تبدیلء مذہب۔ وسطی ایشیائی علاقوں، ایران اور عرب علاقوں سے آنے والے مسلمان شمالی ہند میں حکمران طبقے کے طور پر ابھرے تاہم وہ صرف ایک چھوٹی اقلیت تھی ۔
مقامی مسلمان ہندو یا بدھ مت سے مذہب تبدیل اسلام کے دائرے میں آئے ۔ اچھوت اور دلت طبقے کی پوری ذاتیں اسلام قبول کر لیتی تھیں۔ اکثر اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اسلام میں چوں کہ مساوات ہے، اس لیے یہ ذات پات کے نظام سے نجات فراہم کرے گی۔ ذات پات کے نظام میں فرد کے مقام کا تعین یہ امر کرتا ہے کہ وہ کس ذات یا برادری میں پیدا ہوا ہے ۔
وہاں سماجی حیثیت کی تبدیلی کا کوئی موقع دستیاب نہیں تھا۔ اسلام قبول کرنے سے لوگوں کو معاشرے میں آگے بڑھنے کا موقع ملا، اور اب وہ ہندوستان کی اونچی جاتیوں کے تابع نہیں رہے۔ بدھ مت جو کبھی برصغیر میں سب سے بڑا مذہب تھا، آٹھویں صدی کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔ بدھ مت اور اسلام میں چوں کہ انسانوں کی برابری کا تصور تھا، اس لیے بدھ مت کے سابقہ علاقے اسلام قبول کرنے کے لیے ترجیحی مقامات بن گئے۔
زیادہ تر نچلی ذات کے ہندووں نے مذہب تبدیل کیا، چھتری ذاتوں نے اپنی حکمرانیاں، جاگیری بچانے کے لیے مذہب تبدیل کیا لیکن اپنی ذاتوں کی شناخت اور اپنے ٹائٹلز کو برقرار رکھا۔ صدیوں کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں میں ہندی کلچر بھی پروان چڑھا اور دلت ذات سے مذہب تبدیل کرنے والوں کی سماجی حیثیت کی تبدیلی کی امید کبھی بر نہیں آئی۔ اس کے علاوہ ہندو مت کے کئی تصورات مسلمانوں میں بھی درآئے اور انھوں نے ان تصورات کو اسلام میں داخل کرلیا۔
اسی لیے برصغیر کے مسلمان عرب اور شمالی افریقہ کے مسلمانوں سے بہت سے معاملات میں مختلف خیالات وتصورات رکھتے ہیں۔ برطانوی استعمار کے تحت حکمران مسلم اشرافیہ سیاسی اقتدار سے محروم ہوئی تو علماء کرام کے طبقے نے برطانوی تعلیم، کامن لا اور انگریزی کلچر کو مسترد کرنے کی تحریکیں چلائیں۔
سکھ مت کی ابتدا شمالی ہند میں پنجاب کے علاقے میں پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں ہوئی۔ یہ جنوبی ایشیا کے بڑے مذاہب میں سب سے کم عمر اور دنیا کا پانچواں سب سے بڑا منظم مذہب ہے، جو اکیسویں صدی کے اوائل تک تقریباً 25-30 ملین سکھوں پر مشتمل تھا۔
سکھ مذہب کی تشکیل گرو نانک (پہلے گرو 1469-1539) اور ان کے بعد آنے والے نو سکھ گروؤں کی روحانی تعلیمات سے ہوئی۔ دسویں گرو، گوبند سنگھ (1666-1708) نے سکھوں کے مقدس صحیفے گرو گرنتھ صاحب کو اپنا جانشین نامزد کیا، جس سے انسانی گروؤں کے سلسلے کا خاتمہ ہو گیا اور صحیفے ہی کو آخری ابدی گیارہویں زندہ گرو کے طور پر مقرر کر لیا گیا، جو سکھوں کو مذہبی، روحانی اور زندگی کے معاملات میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سکھوں کے مقدس صحیفے گرو گرنتھ صاحب کو زندہ گرو مانا جاتا ہے۔
گرو گرنتھ کا آغاز گرو نانک کی شاعرانہ تخلیقات کے ایک مجموعے کے طور پر ہوا تھا۔ اپنی موت سے قبل انھوں نے یہ مجموعہ گرو انگد دیوکے حوالے کر دیا۔ گرو گرنتھ صاحب کا حتمی نسخہ گرو گوبند سنگھ نے 1678 میں مرتب کیا تھا جس میں گرو تیغ بہادر کے بھجن کا اضافہ کیا گیا ہے۔ گرو گرنتھ صاحب کا بڑا حصہ سات سکھ گروؤں کی تخلیقات ہیں، لیکن اس میں تیرہ ہندو سَنتوں اور دو مسلمان صوفیوں یعنی کبیر اور صوفی شیخ فرید کی روایات اور تعلیمات بھی شامل ہیں۔ اس کا متن چھ ہزار اشلوک پر مشتمل ہے جن کی ساخت شاعرانہ ہے اور یہ قدیم شمالی ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی تال سے ہم آہنگ ہیں۔
گرنتھ کا بڑا حصہ ساٹھ راگوں میں منقسم ہے، ہر گرنتھ راگ کو اس کی طوالت کے مطابق تقسیم کیا گیا ہے۔ گرنتھ کے راگ صرف سکھ نہیں گاتے بلکہ زیادہ تر مسلمان یا ہندو گائیک گاتے ہیں کیونکہ وہ گرو گرنتھ کے تمام راگوں پر عبور رکھتے ہیں۔ گرو گرنتھ کے اشلوکوں کی مرکزی زبان کو سَنت بھاشا پکارا جاتاہے جو پنجابی اور ہندی دونوں کا آہنگ اور لہجہ رکھتی ہے اورقرون وسطیٰ کے شمالی ہندوستان میں مقبول مذاہب کے بانیان نے استعمال کی ہے۔ گرنتھ گُرمکھی رسم الخط میں چھپتا ہے۔سکھ مت ایک توحید پرستانہ مذہب ہے۔
سکھ مت کی ایک روحانی جہت بھی ہے۔ یہ مراقبے اور گروؤں کی تعلیمات کو یاد کرنے پر زور دیتا ہے، جس کا اظہار کیرتن کے ذریعے غنائی طور سے، یا من ہی من میں نام جپنے ('اس کے نام پر مراقبہ') کے ذریعے کیا جا سکتا ہے، انھیں خدا کی موجودگی کو محسوس کرنے کے ذرایع سمجھا جاتا ہے۔ یہ پیروکاروں کو ''پانچ چوروں'' سے لڑنا اور انھیں تبدیل کرنا سکھاتا ہے (یعنی ہوس، غصہ، لالچ، لگاؤ اور انا)۔ سکھ سمجھتے ہیں کہ دنیا اس وقت کَل یُگ ('اندھیرے کا دور') کی حالت میں ہے کیوں کہ دنیا مایا کی محبت اور لگاؤ کی وجہ سے راہ راست سے ہٹی ہوئی ہے۔
مرد سکھوں میں سنگھ ('شیر') ان کے نام کا درمیانی یا آخری حصہ ہوتا ہے۔ خواتین سکھوں کا درمیانی یا آخری نام کور ('شہزادی') ہوتا ہے۔ پنجاب سکھوں کا تاریخی وطن رہا ہے، یہاں تک کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں قابل ذکر عرصے تک سکھوں نے یہاں حکومت کی۔ آج ہندوستان کی ریاست پنجاب میں سکھوں کی اکثریت ہے۔ پاکستان میں سکھوں کی سب سے بڑی آبادی خیبر پختون خوا میں میں پائی جاتی ہے۔ پنجاب میں لاہور اور ننکانہ صاحب میں سکھوں کے چھوٹے چھوٹے حلقے ہیں۔ پاکستان کے پنجاب اور سندھ کے بہت سے سکھ اور ہندو 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد ہندوستان چلے گئے تھے۔
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)