ڈگری کیسز مزید اراکین اسمبلی کی نااہلی کا خطرہ

ڈگریوں کے حوالے سے دیگر ارکان اسمبلی کے بھی کیسز زیر سماعت ہیں...

سیاسی حلقوں کے مطابق ایف سی کی تعیناتی کے حوالے سے پہلے ہی بہت سے اعتراضات اور تحفظات تھے. فوٹو فائل

بلوچستان ہائی کورٹ نے بی این پی (عوامی) کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر صنعت و حرفت سید احسان شاہ کو تعلیمی ڈگری کیس میں نا اہل قرار دے کر حلقہ پی بی48 کیچ ون پر دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے۔

سید احسان شاہ کی ڈگری کو نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ڈاکٹر یاسین بلوچ نے چیلنج کیا تھا جس کی سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس جناب جمال مندوخیل اور مسٹر جسٹس جناب غلام مصطفی مینگل پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔ بی این پی (عوامی)نے سید احسان شاہ کی نا اہلی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے ۔

ڈگریوں کے حوالے سے دیگر ارکان اسمبلی کے بھی کیسز زیر سماعت ہیں جبکہ سید احسان شاہ کے کیس کے فیصلے کے بعد ان ارکان اسمبلی میں کھلبلی مچ گئی ہے۔

بلوچستان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدامنی میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور حکومتی رٹ نظر نہیں آرہی صوبائی حکومت اس حوالے سے بے بس اور ناکام دکھائی دے رہی ہے جس کا اعتراف اُس نے ایف سی کو پولیس کے اختیارات دے کر کردیا ہے ۔ ایف سی کو پولیس کے اختیارات دیئے جانے پر صوبے کی تمام سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے سخت تنقید کی ہے۔

سیاسی حلقوں کے مطابق ایف سی کی تعیناتی کے حوالے سے پہلے ہی بہت سے اعتراضات اور تحفظات تھے اور اب جب اُسے پولیس کے اختیارات بھی تفویض کئے گئے ہیں تو سیاسی و قوم پرست جماعتوں نے اس بارے میں کھل کر بیانات دیئے ہیں اور اس فیصلے پر شدید نکتہ چینی کی ہے ۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچستان میں امن و امان ، لاپتہ افراد اور ٹارگٹ کلنگ کے متعلق کیسز کی سماعت جاری رکھی اور متواتر6 روز تک جاری رہنے والی اس سماعت کے دوران عدالت عالیہ نے بلوچستان میں پولیس اور ایف سی کو راہداریوں کے حامل اسلحہ و گاڑیوں کے خلاف تین روز میں کریک ڈائون کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔


کوئٹہ میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اپنی6 روزہ سماعت کے دوران لاپتہ افراد سے متعلق پیش کی گئی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیا جبکہ سماعت کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کے بھتیجے اور نوابزادہ سراج رئیسانی کے جوانسال بیٹے کے قتل کیس کی تفصیلی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام بلوچستان کے مسئلے پر قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبے کی تمام قوم پرست اور سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا تھا جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر یاسین آزاد ایڈووکیٹ اور سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے بھی شرکت کی۔

اس قومی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں بلوچستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور خفیہ ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ مسئلے کے حل کیلئے خودکار کمیشن بنایا جائے، وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے اب تک ناراض بلوچ رہنمائوں سے مذاکرات کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے حکومت اس طرف خصوصی توجہ دے۔

نواب اکبر خان بگٹی کے قتل میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے، لوگوں کو لاپتہ کرنے والے اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے اعلامیہ میں پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کمیٹی بنا کر بلوچستان میں سابق صدر پرویز مشرف دور سے اب تک ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر وائٹ پیپر جاری کرے اور اس وائٹ پیپر کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے باقاعدہ بحث کی جائے تمام سیاسی کارکن جو خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں انہیں رہا کیا جائے۔

بلوچستان میں بدامنی سے متاثر ہونے والے افراد اور ان کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے۔ سیاسی حلقوں نے بلوچستان کے مسئلے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقدہ قومی کانفرنس کو ایک اہم پیش رفت اور بار ایسوسی ایشن کی کاوشوں کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھی اے پی سی بلانے کی باتیں تو ہوتی رہیں لیکن کسی جانب سے اب تک کوئی عملی اقدام نہیں اُٹھایا گیا تاہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی کاوش بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی ہے ۔

بلوچستان میں بدامنی، مسخ شدہ لاشوں کا ملنا لوگوں کالاپتہ ہونا اور ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے اقوام متحدہ کا وفد کوئٹہ آرہا ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ وفد انسانی حقوق کمیشن کے عہدیداران ، اعلیٰ حکام سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے عہدیداران سے بھی ملاقاتیں کرے گا۔

وفد اپنے اس دورے کی رپورٹ مرتب کرکے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پیش کرے گا ۔ حال ہی میں بلوچستان حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں صوبائی وزراء، اراکین اسمبلی اور قبائلی شخصیات کی حفاظت پر مامور224 لیویز اہلکاروں کی خدمات واپس لے لی ہے بتایا جاتا ہے کہ اس وقت بلوچستان بھر میں631 لیویز اہلکار اعلیٰ شخصیات کی حفاظت پر مامور ہیں224 اہلکاروں کی خدمات واپس لینے کے بعد دوسرے مرحلے میں مزید398 لیویز اہلکاروں کی خدمات بھی واپس لی جارہی ہیں۔

Recommended Stories

Load Next Story