عمران خان دعائیں سمیٹ سکتے ہیں
احسن اقبال اور دانیال عزیز آج اقتدار کی چھتر چھاؤں سے دُور ہیں لیکن اُن کا اثر ورسوخ بدستور اپنی جگہ موجود ہے
MADRID:
روزنامہ ''ایکسپریس'' نے خبر شایع کی ہے کہ وفاقی حکومت نے نارووال تا شکرگڑھ ریلوے لائن بحال کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ خبر شکرگڑھیوں کے لیے نہائت خوشی اور مسرت کا باعث بنی ہے۔ اِس روٹ پر برسوں پہلے بھی آٹھ ریل گاڑیاں آتی جاتی تھیں۔ نارووال تا شکر گڑھ ریلوے روٹ پر چک امرو آخری ریلوے اسٹیشن ہے۔
بھارت یہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر نظر آتا ہے۔ ایک زمانے میں راولپنڈی، سمہ سٹہ، وزیر آباد اور لاہور سے چک امرو (براستہ نارووال) روزانہ کئی گاڑیاں پہنچا کرتی تھیں۔ پھر رفتہ رفتہ مقامی سیاستدانوں اور ٹرانسپورٹروں کی ملی بھگت سے ریلوے ٹریفک کم پڑتے پڑتے اتنی مدہم اور کم پڑ گئی کہ اسے مستقل طور پر بند کر دیا گیا۔ نارووال تا چک امرو تمام ریلوے اسٹیشن بھوت بنگلے بن کر اُجڑ گئے۔
بے حس لوگ ریلوے لائن کی پٹڑیاں تک اکھاڑ کر لے گئے ۔ کئی ریلوے اسٹیشن مقامی طاقتور افراد کی تجاوزات کی نذر ہو گئے ۔ اصل نقصان مگر تحصیل شکر گڑھ کے لاکھوں مسافروں کا ہُوا جنھیں بہ امرِ مجبوری سفر کے لیے کھٹارا ، ناکارہ اور نہائت تکلیف دِہ بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس روٹ پر ریلوے لائن بند کرنے سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں طلبا و طالبات کو بھی سخت نقصان اُٹھانا پڑا ہے جنھیں لاہور اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ مقامی ریلوے کو مالی نقصان اُن مسافروں نے بھی پہنچایا جن کی عادت ہی بغیر ٹکٹ سفر کرنا پڑ گئی تھی ۔
نارووال تا چک امرو بچھی ریلوے لائن اب اِس لحاظ سے بھی خاصی اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ اِسی راستے پر کھڑے دربار صاحب کرتار پور کو پاکستان نے جدید اسلوب میں دُنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ کارنامہ ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور جناب عمران خان کی حکومت نے انجام دیا ہے۔ یوں تو برسہا برس سے دربار صاحب کرتار پور یہاں بروئے کار اور استوار تھا۔ اس نام سے یہاں ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن بھی رہا ہے جو اَب ویران اور خرابہ بن چکا ہے۔ اس کے مگر آثار اور کھنڈر اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس ریلوے اسٹیشن سے اُتر کر اگر ہم مشرق کی جانب رُخ کرکے کھڑے ہوں تو سامنے ہی دربار صاحب کرتار پور کی کہنہ مگر دودھیا عمارت نظر نواز ہوتی ہے۔ یہ دریا کے مغربی کنارے پر استوار ہے۔ اسے سکھوں میں عظیم اور مقدس مقام حاصل ہے۔ روائت ہے کہ بابا گرو نانک صاحب نے زندگی کے کچھ آخری برس یہیں گزارے تھے ۔ انھوں نے خود یہاں ہل چلا کر کسان کی زندگی کو عظمت بخشی۔ وہ جس کنوئیں کے پانی سے اپنی زمینوں کو سیراب کیا کرتے تھے، اُس کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔ اسے ''کھو صاحب'' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سکھ یاتری اس تاریخی کنوئیں کے پانی کو مقدس جان کر بطورِ تبرک ساتھ لے جاتے ہیں ۔
وزیر اعظم جناب عمران خان اور سپہ سالارِ پاکستان، جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب، کی مشترکہ کوششں اور خواہشوں سے ضلع نارووال میں موجود دربار صاحب کرتار پور کو جدید لُک دی گئی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے اس پر اربوں روپیہ خرچ کرکے بھارت ہی نہیں بلکہ دُنیا بھر کی سکھ کمیونٹی کے دل جیت لیے ہیں۔
اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے سر سبزو شاداب کھیتوں کے بیچوں بیچ اچانک ایک دودھیا ہیرا زمین سے اُبھر آیا ہو ۔ جناب محمدسلیم بیگ جب ایک وفاقی محکمہDEMPکے ڈی جی تھے تو انھوں نے دربار صاحب کرتار پور کے بارے میں ایک شاندار ڈاکیومنٹری بنائی تھی ۔ یہ تاریخ ساز دستاویزی فلم دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دربار صاحب کرتار پور اوریجنل حالت میں کیسا تھا۔ اور اب جدید کرتار پور صاحب دربار کا اگر مذکورہ ڈاکیومنٹری سے تقابل کیا جائے تو انسان ورطہ حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ اسقدر شاندار اور پُر شکوہ تبدیلی !!
اگر نارووال تا چک امرو ریلوے لائن اب 25سالہ بندش کے بعد بحال ہو جاتی ہے تو دربار صاحب کرتار پور کی مذہبی عالمی سیاحت میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ اس لائن پر موجود دربار صاحب کرتار پور ریلوے اسٹیشن کی تاریخی اور مذہبی حیثیت مزید بڑھ جائے گی۔ سکھ یاتری نہائت آسانی سے بذریعہ ریل لاہور سے یہاں آ جا سکیں گے ۔
یہاں کئی ہوٹلوں کا قیام بھی آسان تر ہو جائے گا۔ نارووال تا چک امرو ریلوے روٹ ہی پر وہ تاریخی اسٹیشن آتا ہے جسے ''جسّڑ'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس اسٹیشن کے مغربی عقب پر ، اسٹیشن سے بالکل متصل ، وہ گاؤں آباد ہے جسے ''کالا قادر'' کہا جاتا ہے۔ ''کالا قادر'' کو جناب فیض احمد فیض کا آبائی گاؤں ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ کوئی بھی ٹورسٹ اور اُردو ادب کا عاشق نارووال سے چک امرو کی جانب ٹرین پر سفر کرتے ہُوئے اس تاریخی گاؤں کے درشن کر سکتا ہے۔
اُردو لٹریچر کے مشہور ناول نگار جناب کرشن چندر نے بھی اپنے مشہور ناولٹ '' غدار'' میں اِسی ریلوے اسٹیشن (جسّڑ) کا ذکر کیا ہے ۔ اِسی ریلوے رُوٹ پر ''نُور کوٹ'' نامی ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ہی ''چک قاضیاں'' نامی گاؤں ایستادہ ہے جو پاکستان کے مشہور قانون دان ، سابق وفاقی وزیر اور کئی کتابوں کے مصنف جناب ایس ایم ظفر کا آبائی گاؤں ہے۔ جناب و ارث سرہندی ، جنھوں نے اُردو کی ایک معتبر لغت مرتب کی، بھی اِسی ریلوے لائن پر موجود ایک اسٹیشن سے متصل گاؤں میں پیدا ہُوئے۔پنجابی زبان کے البیلے اور بانکے شاعر ، جناب شِو کمار بٹالوی، بھی اِسی خطّے میں تولّد ہُوئے تھے جس کی مانگ میں سے نارووال تا چک امرو ریلوے لائن گزرتی ہے ۔
غرضیکہ نارووال تا چک امرو ریلوے لائن کی بحالی سے تحصیل شکر گڑھ اور تحصیل نارووال کے لاکھوں باسیوں کو لاتعداد فائدے تو ملیں گے ہی، مقامی ٹورزم کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ ضلع نارووال سے نون لیگ کے دو نوں لیگی ایم این ایز ( جناب احسن اقبال اور جناب دانیال عزیز کی اہلیہ محترمہ ) اور صوبائی وزیر مذہبی امور جناب سعید الحسن شاہ بھی رَل مل کر تعمیرِ نَو کے اس منصوبے کو کامیاب بنا سکتے ہیں اور یہ متھ بھی توڑ سکتے ہیں کہ یہ مقامی سیاستدان ہیں جن کی ملی بھگت سے مقامی ٹرانسپورٹرز ریلوے لائن کو بحال نہیں ہونے دیتے۔ اس باہمی قوت میں مولانا غیاث الدین صاحب بھی اپنی طاقت کا حصہ ڈال سکتے ہیں کہ مولانا صاحب نون لیگ کے پلیٹ فارم سے ایم پی اے منتخب ہُوئے ۔ اگرچہ آجکل بوجوہ اُن کی محبتیں اور قربتیں پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے مختص ہو چکی ہیں ۔
جناب احسن اقبال بھی وفاقی وزیر رہے ہیں اور دانیال عزیز صاحب بھی۔ جناب احسن اقبال نے نارووال کے اپنے سیاسی و انتخابی حلقے میں تعمیر و ترقی اور تعلیم و کھیل کے میدان میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ احسن اقبال اور دانیال عزیز آج اقتدار کی چھتر چھاؤں سے دُور ہیں لیکن اُن کا اثر ورسوخ بدستور اپنی جگہ موجود ہے۔ وہ اقتدار کے ایوانوں میں اپنی موجودگی کو بروئے کار لا کر نارووال تا چک امرو ریلوے لائن کی بحالی کے مفید منصوبے کی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ یوں دعائیں بھی سمیٹ سکتے ہیں۔ اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچا کر جناب عمران خان بھی بیک وقت دعائیں اور ووٹ سمیٹ سکتے ہیں۔
روزنامہ ''ایکسپریس'' نے خبر شایع کی ہے کہ وفاقی حکومت نے نارووال تا شکرگڑھ ریلوے لائن بحال کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ خبر شکرگڑھیوں کے لیے نہائت خوشی اور مسرت کا باعث بنی ہے۔ اِس روٹ پر برسوں پہلے بھی آٹھ ریل گاڑیاں آتی جاتی تھیں۔ نارووال تا شکر گڑھ ریلوے روٹ پر چک امرو آخری ریلوے اسٹیشن ہے۔
بھارت یہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر نظر آتا ہے۔ ایک زمانے میں راولپنڈی، سمہ سٹہ، وزیر آباد اور لاہور سے چک امرو (براستہ نارووال) روزانہ کئی گاڑیاں پہنچا کرتی تھیں۔ پھر رفتہ رفتہ مقامی سیاستدانوں اور ٹرانسپورٹروں کی ملی بھگت سے ریلوے ٹریفک کم پڑتے پڑتے اتنی مدہم اور کم پڑ گئی کہ اسے مستقل طور پر بند کر دیا گیا۔ نارووال تا چک امرو تمام ریلوے اسٹیشن بھوت بنگلے بن کر اُجڑ گئے۔
بے حس لوگ ریلوے لائن کی پٹڑیاں تک اکھاڑ کر لے گئے ۔ کئی ریلوے اسٹیشن مقامی طاقتور افراد کی تجاوزات کی نذر ہو گئے ۔ اصل نقصان مگر تحصیل شکر گڑھ کے لاکھوں مسافروں کا ہُوا جنھیں بہ امرِ مجبوری سفر کے لیے کھٹارا ، ناکارہ اور نہائت تکلیف دِہ بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس روٹ پر ریلوے لائن بند کرنے سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں طلبا و طالبات کو بھی سخت نقصان اُٹھانا پڑا ہے جنھیں لاہور اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑا۔ مقامی ریلوے کو مالی نقصان اُن مسافروں نے بھی پہنچایا جن کی عادت ہی بغیر ٹکٹ سفر کرنا پڑ گئی تھی ۔
نارووال تا چک امرو بچھی ریلوے لائن اب اِس لحاظ سے بھی خاصی اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ اِسی راستے پر کھڑے دربار صاحب کرتار پور کو پاکستان نے جدید اسلوب میں دُنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ یہ کارنامہ ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور جناب عمران خان کی حکومت نے انجام دیا ہے۔ یوں تو برسہا برس سے دربار صاحب کرتار پور یہاں بروئے کار اور استوار تھا۔ اس نام سے یہاں ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن بھی رہا ہے جو اَب ویران اور خرابہ بن چکا ہے۔ اس کے مگر آثار اور کھنڈر اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس ریلوے اسٹیشن سے اُتر کر اگر ہم مشرق کی جانب رُخ کرکے کھڑے ہوں تو سامنے ہی دربار صاحب کرتار پور کی کہنہ مگر دودھیا عمارت نظر نواز ہوتی ہے۔ یہ دریا کے مغربی کنارے پر استوار ہے۔ اسے سکھوں میں عظیم اور مقدس مقام حاصل ہے۔ روائت ہے کہ بابا گرو نانک صاحب نے زندگی کے کچھ آخری برس یہیں گزارے تھے ۔ انھوں نے خود یہاں ہل چلا کر کسان کی زندگی کو عظمت بخشی۔ وہ جس کنوئیں کے پانی سے اپنی زمینوں کو سیراب کیا کرتے تھے، اُس کی باقیات اب بھی موجود ہیں۔ اسے ''کھو صاحب'' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سکھ یاتری اس تاریخی کنوئیں کے پانی کو مقدس جان کر بطورِ تبرک ساتھ لے جاتے ہیں ۔
وزیر اعظم جناب عمران خان اور سپہ سالارِ پاکستان، جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب، کی مشترکہ کوششں اور خواہشوں سے ضلع نارووال میں موجود دربار صاحب کرتار پور کو جدید لُک دی گئی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے اس پر اربوں روپیہ خرچ کرکے بھارت ہی نہیں بلکہ دُنیا بھر کی سکھ کمیونٹی کے دل جیت لیے ہیں۔
اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے سر سبزو شاداب کھیتوں کے بیچوں بیچ اچانک ایک دودھیا ہیرا زمین سے اُبھر آیا ہو ۔ جناب محمدسلیم بیگ جب ایک وفاقی محکمہDEMPکے ڈی جی تھے تو انھوں نے دربار صاحب کرتار پور کے بارے میں ایک شاندار ڈاکیومنٹری بنائی تھی ۔ یہ تاریخ ساز دستاویزی فلم دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دربار صاحب کرتار پور اوریجنل حالت میں کیسا تھا۔ اور اب جدید کرتار پور صاحب دربار کا اگر مذکورہ ڈاکیومنٹری سے تقابل کیا جائے تو انسان ورطہ حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ اسقدر شاندار اور پُر شکوہ تبدیلی !!
اگر نارووال تا چک امرو ریلوے لائن اب 25سالہ بندش کے بعد بحال ہو جاتی ہے تو دربار صاحب کرتار پور کی مذہبی عالمی سیاحت میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ اس لائن پر موجود دربار صاحب کرتار پور ریلوے اسٹیشن کی تاریخی اور مذہبی حیثیت مزید بڑھ جائے گی۔ سکھ یاتری نہائت آسانی سے بذریعہ ریل لاہور سے یہاں آ جا سکیں گے ۔
یہاں کئی ہوٹلوں کا قیام بھی آسان تر ہو جائے گا۔ نارووال تا چک امرو ریلوے روٹ ہی پر وہ تاریخی اسٹیشن آتا ہے جسے ''جسّڑ'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس اسٹیشن کے مغربی عقب پر ، اسٹیشن سے بالکل متصل ، وہ گاؤں آباد ہے جسے ''کالا قادر'' کہا جاتا ہے۔ ''کالا قادر'' کو جناب فیض احمد فیض کا آبائی گاؤں ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ کوئی بھی ٹورسٹ اور اُردو ادب کا عاشق نارووال سے چک امرو کی جانب ٹرین پر سفر کرتے ہُوئے اس تاریخی گاؤں کے درشن کر سکتا ہے۔
اُردو لٹریچر کے مشہور ناول نگار جناب کرشن چندر نے بھی اپنے مشہور ناولٹ '' غدار'' میں اِسی ریلوے اسٹیشن (جسّڑ) کا ذکر کیا ہے ۔ اِسی ریلوے رُوٹ پر ''نُور کوٹ'' نامی ریلوے اسٹیشن کے نزدیک ہی ''چک قاضیاں'' نامی گاؤں ایستادہ ہے جو پاکستان کے مشہور قانون دان ، سابق وفاقی وزیر اور کئی کتابوں کے مصنف جناب ایس ایم ظفر کا آبائی گاؤں ہے۔ جناب و ارث سرہندی ، جنھوں نے اُردو کی ایک معتبر لغت مرتب کی، بھی اِسی ریلوے لائن پر موجود ایک اسٹیشن سے متصل گاؤں میں پیدا ہُوئے۔پنجابی زبان کے البیلے اور بانکے شاعر ، جناب شِو کمار بٹالوی، بھی اِسی خطّے میں تولّد ہُوئے تھے جس کی مانگ میں سے نارووال تا چک امرو ریلوے لائن گزرتی ہے ۔
غرضیکہ نارووال تا چک امرو ریلوے لائن کی بحالی سے تحصیل شکر گڑھ اور تحصیل نارووال کے لاکھوں باسیوں کو لاتعداد فائدے تو ملیں گے ہی، مقامی ٹورزم کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ ضلع نارووال سے نون لیگ کے دو نوں لیگی ایم این ایز ( جناب احسن اقبال اور جناب دانیال عزیز کی اہلیہ محترمہ ) اور صوبائی وزیر مذہبی امور جناب سعید الحسن شاہ بھی رَل مل کر تعمیرِ نَو کے اس منصوبے کو کامیاب بنا سکتے ہیں اور یہ متھ بھی توڑ سکتے ہیں کہ یہ مقامی سیاستدان ہیں جن کی ملی بھگت سے مقامی ٹرانسپورٹرز ریلوے لائن کو بحال نہیں ہونے دیتے۔ اس باہمی قوت میں مولانا غیاث الدین صاحب بھی اپنی طاقت کا حصہ ڈال سکتے ہیں کہ مولانا صاحب نون لیگ کے پلیٹ فارم سے ایم پی اے منتخب ہُوئے ۔ اگرچہ آجکل بوجوہ اُن کی محبتیں اور قربتیں پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے مختص ہو چکی ہیں ۔
جناب احسن اقبال بھی وفاقی وزیر رہے ہیں اور دانیال عزیز صاحب بھی۔ جناب احسن اقبال نے نارووال کے اپنے سیاسی و انتخابی حلقے میں تعمیر و ترقی اور تعلیم و کھیل کے میدان میں ناقابلِ فراموش خدمات انجام دی ہیں۔ احسن اقبال اور دانیال عزیز آج اقتدار کی چھتر چھاؤں سے دُور ہیں لیکن اُن کا اثر ورسوخ بدستور اپنی جگہ موجود ہے۔ وہ اقتدار کے ایوانوں میں اپنی موجودگی کو بروئے کار لا کر نارووال تا چک امرو ریلوے لائن کی بحالی کے مفید منصوبے کی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ یوں دعائیں بھی سمیٹ سکتے ہیں۔ اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچا کر جناب عمران خان بھی بیک وقت دعائیں اور ووٹ سمیٹ سکتے ہیں۔