ہمسایوں کے حقوق اہمیت و فضیلت

اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے اس نے ہر ایک کے حقوق کو پورا کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے

فوٹو : فائل

ISTANBUL:
اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے اس نے ہر ایک کے حقوق کو پورا کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے اور حقوق العباد میں ہمسایوں کے بہت حقوق کا قرآن و حدیث میں بارہا ذکر آیا ہے، خود مالک کائنات اﷲ کریم ہمسایوں کے بارے میں اپنے لافانی کلام قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ''اور اﷲ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور حسن سلوک سے پیش آؤ والدین کے ساتھ، قرابت داروں کے ساتھ، یتیموں، مسکینوں کے ساتھ، پڑوسیوں کے ساتھ خواہ قرابت والے ہوں خواہ اجنبی نیز آس پاس کے بیٹھنے والوں مسافروں کے ساتھ اور جو (لونڈی یا غلام یا ملازم) تمہارے قبضے میں ہوں ان کے ساتھ (کیوں کہ) اﷲ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اترائیں اور بڑائی مارتے پھریں۔'' (النساء)

اور اﷲ کے پاک نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارک میں ہے حضرت ابوشریحؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''بہ خدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، بہ خدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، بہ خدا وہ آدمی مومن نہیں ہے۔ پوچھا گیا: یارسول اﷲ ﷺ! کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے بے خوف نہ ہو۔''

سیّدہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جبرائیل امینؑ مجھے ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ اس کو وارث بنا دیں گے۔'' اور آج کے اس دور میں ہم پڑوسی کے حقوق پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتے بل کہ لوگوں کے نزدیک یہ کوئی دین کا تقاضا ہی نہیں کیوں کہ اکثر لوگ عبادات نماز، روزہ، حج، زکوۃ کو ہی بس دین اسلام سمجھتے ہیں اور دوسری جانب اگر اخلاقیات بالخصوص پڑوسی کے حقوق پر احادیث نبویؐ کا مطالعہ کیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے ایمان اسی طرح خطرے میں پڑ جاتا ہے جس طرح عبادات نماز، روزہ ترک کرنے سے۔ پڑوسی سے مراد آس پاس کئی مکان، دکان، فلیٹ یا دیگر عمارتوں میں رہنے والے لوگ ہیں البتہ پڑوسی کی ایک اور قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی وجہ سے ہم نشینی کا سبب بن جاتی ہے اگر ہم سورۃ النساء کو سامنے رکھیں تو صورت حال کچھ یوں بن جاتی ہے،

رشتہ دار پڑوسی: یہ وہ ہمسائے ہیں جو رشتہ دار بھی ہیں ان کا حق دیگر ہمسایوں کی نسبت مقدم ہے۔

اجنبی پڑوسی: اس سے مراد وہ ہمسایہ ہے جو رشتہ دار نہیں ہے صرف ہمسایہ ہے اس کا درجہ پہلے والے سے کم ہے۔

ہم نشین یا پہلو کا ساتھی: جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو اس اصطلاح کے مطابق ایک گھر یا عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ دفتر، فیکٹری یا کسی ادارے میں اسکول و کالج میں پڑھنے والے طلباء دوست اور دیگر ملنے جلنے والے لوگ شامل ہیں چناں چہ پڑوسی کے لفظ کو قرآنی احکامات کی روشنی میں ان سب پر وسعت دی جانی چاہیے اس وسعت کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون ہمسایہ ہے اور کون نہیں؟ کچھ علمائے کرام نے اردگرد کے چالیس گھروں کو پڑوس میں شمار کیا ہے لیکن یہ تعین دور جدید کی معاشرتی زندگی میں ممکن نہیں رہا، پھر اس جدید طرز تمدن میں پرانے محلوں کا تصور بدلتا جارہا ہے۔


جدید بستیوں میں تو گھروں اور کوٹھیوں کے نزدیک بعض اوقات دور دور تک کوئی گھر نہیں ہوتا تو پھر ان کا ہمسایہ کون کہلائے گا۔ اسی طرح متوسط علاقوں میں زندگی کی تیزی کے باعث گھر والوں سے ہی ملاقات نہیں ہو پاتی، چہ جائے کہ دور کے گھروں کی خبر گیری کی جائے، چناں چہ اب ہمسائیگی کی تعریف میں دائیں، بائیں سامنے اور پیچھے کے گھر شامل سمجھنے بھی غنیمت ہیں، اب اس میں کتنے گھر شامل ہیں محلے کی وسعت کو دیکھ کر ہر آدمی خود اس کا اندازہ لگا سکتا ہے۔

قرآن مجید نے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے اور احسان کے عربی میں معنی بہت وسیع ہیں کہ جس سے مراد کسی کو اس کے جائز حق سے زاید دینا ہے۔ چناں چہ معلوم ہوا کہ اﷲ نے قرآن میں حقوق کی ادائی سے ایک قدم آگے جا کر ہمسایوں کی ساتھ احسان، بھلائی، خیر خواہی اور اچھے تعلق کی ہدایت فرمائی ہے۔

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اے ابوذر! جب تو سالن پکائے تو اس کے شوربہ کو زیادہ کرکے اپنے پڑوسی کی خبر گیری کرلے۔''

سیّدہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سوال کیا، مفہوم: اے اﷲ کے رسول ﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کو ان میں سے ہدیہ بھیجوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا دروازہ تیرے سے زیادہ قریب ہو۔

سیدنا حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے مشک کے منہ سے پانی پینے کی ممانعت فرمائی اور اس سے بھی منع فرمایا کہ اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے منع کرے ۔ مدد کی کئی صورتیں ہیں جیسے مالی پریشانی میں ممکنہ مدد کرنا، بیماری میں خیریت دریافت کرنا، معذوری یا لاچاری میں سواری کا انتظام کر دینا، دکھ درد نیک نیتی سے بانٹنا، رازوں کی پردہ پوشی کرنا، بچوں سے حسن سلوک کرنا، لیکن تعاون اور مدد کرتے وقت نیک نیتی کا ہونا بہت ضروری ہے۔

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوگا جب تک اس میں یہ عمل نہ ہو کہ وہ اپنے لیے جو پسند کرے وہی اپنے مسلمان بھائی یا پڑوسی کے لیے پسند کرے۔''

اﷲ ہمیں ہمسایوں کے حقوق کو جان کر ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے پڑوسی کو ہم سے راضی کر دے اور ہم سب کی دین و دنیا بہتر فرما دے۔ آمین
Load Next Story