اخلاصِ نیّت فضائل و برکات
جس چیز میں خدا کا رنگ ہے وہ باقی رہنے والی ہے اور جس چیز میں خود نمائی ہوگی، اُس کا کوئی عوض انسان کو نہیں ملے گا
ISLAMABAD:
خلوصِ دل اِنسان کے ہر عمل میں ضروری ہے۔ عبادات میں تو بہ درجۂ اولیٰ ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں ہمیں خاص توجّہ دینی چاہیے۔ جب تک دل کا خلوص نہ ہو کوئی کام کارگر نہیں ہوتا۔ ہر کام اﷲ کے لیے خالص ہوکر کرنا چاہیے۔ جس کام میں خلوص اور للہیّت ہو، وہی کام ہمیشہ باقی رہتا ہے۔
سورۂ مبارکہ توحید جسے سورۂ اِخلاص بھی کہا جاتا ہے، اِس لیے کہ اِس میں اﷲ کی وحدانیت کو بیان کیا گیا ہے، نیز جو اِس پر عمل پیرا ہوجائے، اُسی کو مخلص کہا جائے گا۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے کلامِ پاک میں ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے، مفہوم:
''مسلمانوں سے کہو کہ رنگ تو اﷲ ہی کا رنگ ہے جس میں تم رنگے گئے اور اﷲ کے رنگ سے بہتر کون سا رنگ ہوگا اور ہم تو اُسی کی عبادت کرتے ہیں۔''
اِخلاص کے چند نمونے دیکھنے کے لیے آئیے ہم متّقین کی صفات کے ضمن میں نورانی بزمِ حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ میں حاضر ہوتے ہیں، آپؓ فرماتے ہیں:
''جب اِن میں سے کسی کی تعریف کی جاتی ہے تو وہ اپنی تعریف سے خوف کھاتا ہے۔''
(نہج البلاغہ)
''اپنے علم و عمل کو اور بغض کو اور لین دین اور گویائی اور خاموشی کو صرف خدا کے لیے انجام دو۔'' (غررالحکم، کلمۂ اخلاص)
اِس صورت میں تمہارے آثار و اعمال باقی رہ سکتے ہیں اور جس چیز میں خدا کا رنگ ہے وہ باقی رہنے والی ہے۔ اور جس چیز میں خود نمائی، شہرت طلبی، ریاکاری ہوگی، اُس کا کوئی عوض انسان کو نہیں ملے گا۔
اُستاد محسن قرأتی اِس ضمن میں ہمیں یوں راہ نمائی فراہم کرتے ہیں:
''تمام عبادتوں کو بہ قصدِ قربت انجام دینا چاہیے اور اگر عبادت کا کوئی حصہ بھی غیر خدا کے لیے انجام پائے گا تو عبادت باطل ہوجائے گی۔ مثلاً نماز میں ایک واجب بھی غیرِ خدا کے لیے انجام پائے گا تو نماز باطل ہے۔ اگر کوئی مستحب کام بھی ریا کاری کی بنا پر انجام پزیر ہوتا ہے، مثلاً عبادت کا وقت (اوّل وقت نماز پڑھنا) اور جگہ (مسجد میں پہلی صف میں نماز پڑھنا) غیرِ خدا کے لیے ہو تو نماز باطل ہے۔ یہاں تک کہ سردیوں میں آتش دان کے پاس کھڑے ہونے تاکہ گرمی بھی ملتی رہے اور نماز بھی ہوتی رہے، اس میں بھی نماز باطل ہے۔ خداوندِ عالم اُس عمل کو قبول فرماتا ہے کہ جو زمان و مکان اور کیفیت کے لحاظ سے خالص ہو اور اُس میں کسی کو خدا کا شریک قرار نہ دیا گیا ہو۔''
اﷲ تبارک و تعالیٰ سورۂ کہف میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم:
''اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک قرار نہ دو۔''
اِخلاص کے سلسلے میں حضرت امیر المتّقین علی کرم اﷲ وجہہ کے بہت سے نورانی اقوال ہیں، لیکن یہاں ہم اِس مختصر سے مضمون میں چند پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
٭ ''نیّت ِخالص، مطلوب و مقصد کی انتہاء ہے۔''
٭ ''اِخلاص، رست گاری ہے۔''
٭ ایمان، کاموں میں خلوص کا نام ہے۔''
٭ ''اخلاص، ایمان کا بلند ترین مرتبہ ہے۔''
٭ ''تمام کوششیں بے کار ہیں، سوائے اُن کے جن میں خلوص کار فرما ہو۔''
٭ ''عظمتِ خدا کے علم کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اُس کے غیر کے لیے کوئی کام انجام نہ دے۔''
٭ '' اعمال کی رفعت، اخلاص سے وابستہ ہے۔''
٭ ''اگر نیّتوں میں خلوص آجائے تو اعمال رُشد و کمال تک پہنچ جائیں۔''
٭ ''جو صرف فی سبیل اﷲ کام کرتا ہے، وہ اپنی اُمیدوں کو پا لیتا ہے۔''
کربلا میں سیّد الشہداء حضرت امام حسین ؓ انتہائی مصائب کے عالَم میں اپنے چھے ماہ کے فرزند حضرت علی اصغر ؓ کی الم ناک شہادت کے بعد بچے کے لاشے کو دیکھ کر فرماتے ہیں:
''یہ مصیبت مجھ پہ آسان ہو جاتی ہے، جب میں یہ سُنتا ہوں کہ اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے۔'' مجھے جسے دِکھانا تھا، وہ دیکھ رہا ہے۔ مجھے جس کی خدمت میں اپنی قربانی دینی تھی، وہ دیکھ رہا ہے۔ یہ ہے حضرت امام حسین ؓ کا بے مثل خلوص۔
سب کچھ قربان کرنے کے بعد حسین ابن علی ؓ نے یہ رُباعی پڑھی، یہ شعر کہا۔ اور شعر اُس وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کسی اضطراب کی کیفیت میں ہو۔ امامِ عالی مقامؓ انتہائی اطمینان کی کیفیت میں فرماتے ہیں۔ مفہوم:
''اے اﷲ! میں نے ساری مخلوق کو تیرے لیے چھوڑ دیا۔ اور اب اپنے بچوں کو یتیم کر رہا ہوں، تاکہ تیرا قرب نصیب ہوجائے۔'' یہ ہے امام حسینؓ کا قلبی اور رُوحانی خلوص، حسین ابنِ علیؓ کی دائمی سچائی اور ابدی راست اقدام۔
ایک جنگ کے موقع پر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے پاؤں مبارک میں ایک تیر پیوست ہوگیا، جب تیر نکالنے کی کوشش کی گئی تو بڑی تکلیف ہوتی تھی، تاہم جب اﷲ کے ولی ؓ نماز پڑھنے لگے تو تیر بہ آسانی نکال لیا گیا اور آپؓ کو مطلق خبر بھی نہ ہوئی۔ یہ یادِ خدا میں آپؓ کے انتہائی خلوص اور محویت کا عالَم تھا، جس کی آج تک مثال دی جاتی ہے۔ جب آپؓ نماز کے لیے آمادہ ہوتے تھے ، تو آپؓ کے بدن کے رُوئیں رُوئیں سے خوفِ الٰہی ظاہر ہوتا تھا کہ اب مالک الملک کی بارگاہ میں حاضر ہو رہا ہوں۔ یہ اولیاء اﷲ کے واقعات ہیں، جو یقیناً ہم سب کے لیے ابد الآباد تک بہترین درس و نصیحت ہیں۔
رُوح کی اِس بلندی پر خلوصِ نیّت پہنچاتا ہے۔ بعض افراد سب کچھ ہونے کے باوجود اپنے جذبات کو ظاہر نہیں کرتے اور بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ ایک کوڑا دان راستے کی دُرستی میں دے دیتے ہیں تو اپنا نام لکھ دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو علم ہوجائے کہ یہ فلاں شخص نے دیا ہے۔
اولیائے خدا صرف خدا کے لیے عمل و عبادت کرتے ہیں اور اُسی کی طرف دھیان لگاتے ہیں۔ اُن کے ہر عمل میں خدائی رنگ جھلکتا ہے، جو لازوال ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
خلوصِ دل سے کہا جس نے بھی خداوندا!
تو ہاتھ اُس کا خداوند نے ہے تھام لیا
ہم اِس مفید مضمون کو بارگاہِ الٰہی میں اِس پُرخلوص دُعا کے ساتھ اختتام پزیر کرتے ہیں کہ اے رحمن و رحیم! یہ مختصر کاوشِ تحریر توشۂ آخرت ہو اور ہمارے اور آپ سب کے لیے فائدے اور نجات کا سبب بنے۔ (آمین)
خلوصِ دل اِنسان کے ہر عمل میں ضروری ہے۔ عبادات میں تو بہ درجۂ اولیٰ ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں ہمیں خاص توجّہ دینی چاہیے۔ جب تک دل کا خلوص نہ ہو کوئی کام کارگر نہیں ہوتا۔ ہر کام اﷲ کے لیے خالص ہوکر کرنا چاہیے۔ جس کام میں خلوص اور للہیّت ہو، وہی کام ہمیشہ باقی رہتا ہے۔
سورۂ مبارکہ توحید جسے سورۂ اِخلاص بھی کہا جاتا ہے، اِس لیے کہ اِس میں اﷲ کی وحدانیت کو بیان کیا گیا ہے، نیز جو اِس پر عمل پیرا ہوجائے، اُسی کو مخلص کہا جائے گا۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے کلامِ پاک میں ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے، مفہوم:
''مسلمانوں سے کہو کہ رنگ تو اﷲ ہی کا رنگ ہے جس میں تم رنگے گئے اور اﷲ کے رنگ سے بہتر کون سا رنگ ہوگا اور ہم تو اُسی کی عبادت کرتے ہیں۔''
اِخلاص کے چند نمونے دیکھنے کے لیے آئیے ہم متّقین کی صفات کے ضمن میں نورانی بزمِ حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ میں حاضر ہوتے ہیں، آپؓ فرماتے ہیں:
''جب اِن میں سے کسی کی تعریف کی جاتی ہے تو وہ اپنی تعریف سے خوف کھاتا ہے۔''
(نہج البلاغہ)
''اپنے علم و عمل کو اور بغض کو اور لین دین اور گویائی اور خاموشی کو صرف خدا کے لیے انجام دو۔'' (غررالحکم، کلمۂ اخلاص)
اِس صورت میں تمہارے آثار و اعمال باقی رہ سکتے ہیں اور جس چیز میں خدا کا رنگ ہے وہ باقی رہنے والی ہے۔ اور جس چیز میں خود نمائی، شہرت طلبی، ریاکاری ہوگی، اُس کا کوئی عوض انسان کو نہیں ملے گا۔
اُستاد محسن قرأتی اِس ضمن میں ہمیں یوں راہ نمائی فراہم کرتے ہیں:
''تمام عبادتوں کو بہ قصدِ قربت انجام دینا چاہیے اور اگر عبادت کا کوئی حصہ بھی غیر خدا کے لیے انجام پائے گا تو عبادت باطل ہوجائے گی۔ مثلاً نماز میں ایک واجب بھی غیرِ خدا کے لیے انجام پائے گا تو نماز باطل ہے۔ اگر کوئی مستحب کام بھی ریا کاری کی بنا پر انجام پزیر ہوتا ہے، مثلاً عبادت کا وقت (اوّل وقت نماز پڑھنا) اور جگہ (مسجد میں پہلی صف میں نماز پڑھنا) غیرِ خدا کے لیے ہو تو نماز باطل ہے۔ یہاں تک کہ سردیوں میں آتش دان کے پاس کھڑے ہونے تاکہ گرمی بھی ملتی رہے اور نماز بھی ہوتی رہے، اس میں بھی نماز باطل ہے۔ خداوندِ عالم اُس عمل کو قبول فرماتا ہے کہ جو زمان و مکان اور کیفیت کے لحاظ سے خالص ہو اور اُس میں کسی کو خدا کا شریک قرار نہ دیا گیا ہو۔''
اﷲ تبارک و تعالیٰ سورۂ کہف میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم:
''اپنے رب کی عبادت میں کسی کو بھی شریک قرار نہ دو۔''
اِخلاص کے سلسلے میں حضرت امیر المتّقین علی کرم اﷲ وجہہ کے بہت سے نورانی اقوال ہیں، لیکن یہاں ہم اِس مختصر سے مضمون میں چند پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
٭ ''نیّت ِخالص، مطلوب و مقصد کی انتہاء ہے۔''
٭ ''اِخلاص، رست گاری ہے۔''
٭ ایمان، کاموں میں خلوص کا نام ہے۔''
٭ ''اخلاص، ایمان کا بلند ترین مرتبہ ہے۔''
٭ ''تمام کوششیں بے کار ہیں، سوائے اُن کے جن میں خلوص کار فرما ہو۔''
٭ ''عظمتِ خدا کے علم کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اُس کے غیر کے لیے کوئی کام انجام نہ دے۔''
٭ '' اعمال کی رفعت، اخلاص سے وابستہ ہے۔''
٭ ''اگر نیّتوں میں خلوص آجائے تو اعمال رُشد و کمال تک پہنچ جائیں۔''
٭ ''جو صرف فی سبیل اﷲ کام کرتا ہے، وہ اپنی اُمیدوں کو پا لیتا ہے۔''
کربلا میں سیّد الشہداء حضرت امام حسین ؓ انتہائی مصائب کے عالَم میں اپنے چھے ماہ کے فرزند حضرت علی اصغر ؓ کی الم ناک شہادت کے بعد بچے کے لاشے کو دیکھ کر فرماتے ہیں:
''یہ مصیبت مجھ پہ آسان ہو جاتی ہے، جب میں یہ سُنتا ہوں کہ اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے۔'' مجھے جسے دِکھانا تھا، وہ دیکھ رہا ہے۔ مجھے جس کی خدمت میں اپنی قربانی دینی تھی، وہ دیکھ رہا ہے۔ یہ ہے حضرت امام حسین ؓ کا بے مثل خلوص۔
سب کچھ قربان کرنے کے بعد حسین ابن علی ؓ نے یہ رُباعی پڑھی، یہ شعر کہا۔ اور شعر اُس وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کسی اضطراب کی کیفیت میں ہو۔ امامِ عالی مقامؓ انتہائی اطمینان کی کیفیت میں فرماتے ہیں۔ مفہوم:
''اے اﷲ! میں نے ساری مخلوق کو تیرے لیے چھوڑ دیا۔ اور اب اپنے بچوں کو یتیم کر رہا ہوں، تاکہ تیرا قرب نصیب ہوجائے۔'' یہ ہے امام حسینؓ کا قلبی اور رُوحانی خلوص، حسین ابنِ علیؓ کی دائمی سچائی اور ابدی راست اقدام۔
ایک جنگ کے موقع پر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے پاؤں مبارک میں ایک تیر پیوست ہوگیا، جب تیر نکالنے کی کوشش کی گئی تو بڑی تکلیف ہوتی تھی، تاہم جب اﷲ کے ولی ؓ نماز پڑھنے لگے تو تیر بہ آسانی نکال لیا گیا اور آپؓ کو مطلق خبر بھی نہ ہوئی۔ یہ یادِ خدا میں آپؓ کے انتہائی خلوص اور محویت کا عالَم تھا، جس کی آج تک مثال دی جاتی ہے۔ جب آپؓ نماز کے لیے آمادہ ہوتے تھے ، تو آپؓ کے بدن کے رُوئیں رُوئیں سے خوفِ الٰہی ظاہر ہوتا تھا کہ اب مالک الملک کی بارگاہ میں حاضر ہو رہا ہوں۔ یہ اولیاء اﷲ کے واقعات ہیں، جو یقیناً ہم سب کے لیے ابد الآباد تک بہترین درس و نصیحت ہیں۔
رُوح کی اِس بلندی پر خلوصِ نیّت پہنچاتا ہے۔ بعض افراد سب کچھ ہونے کے باوجود اپنے جذبات کو ظاہر نہیں کرتے اور بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ ایک کوڑا دان راستے کی دُرستی میں دے دیتے ہیں تو اپنا نام لکھ دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو علم ہوجائے کہ یہ فلاں شخص نے دیا ہے۔
اولیائے خدا صرف خدا کے لیے عمل و عبادت کرتے ہیں اور اُسی کی طرف دھیان لگاتے ہیں۔ اُن کے ہر عمل میں خدائی رنگ جھلکتا ہے، جو لازوال ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
خلوصِ دل سے کہا جس نے بھی خداوندا!
تو ہاتھ اُس کا خداوند نے ہے تھام لیا
ہم اِس مفید مضمون کو بارگاہِ الٰہی میں اِس پُرخلوص دُعا کے ساتھ اختتام پزیر کرتے ہیں کہ اے رحمن و رحیم! یہ مختصر کاوشِ تحریر توشۂ آخرت ہو اور ہمارے اور آپ سب کے لیے فائدے اور نجات کا سبب بنے۔ (آمین)