پچھلے 10 میں سے 9 سال گرم ترین رہے تحقیق
ہم درجہ حرارت میں اضافے کی اس حد سے قریب ہوتے جارہے ہیں جو ناقابلِ بیان ماحولیاتی تباہی کا آغاز ثابت ہوگی
کراچی:
امریکی اور یورپی موسمیاتی اداروں کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 2011 سے 2021 کے دوران 9 سال گرم ترین رہے۔ صرف ایک سال یعنی 2020 میں کووِڈ 19 کی عالمی وبا کے باعث عالمی درجہ حرارت نسبتاً کم رہا۔
2021 میں زمینی سطح کا درجہ حرارت بیسویں صدی کے اوسط سے 1.51 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ کیا گیا جو 1880 سے لے کر آج تک چھٹا سب سے زیادہ درجہ حرارت بھی تھا۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ 2022 ایک اور شدید گرم سال ثابت ہوگا کیونکہ اس کے آثار ابھی سے دکھائی دینا شروع ہوگئے ہیں۔
مثلاً کل یعنی 13 جنوری کے روز مغربی آسٹریلیا کے ساحلی قصبے اونسلو کا درجہ حرارت 50.7 سینٹی گریڈ نوٹ کیا گیا جو آسٹریلیا کا گرم ترین دن بھی تھا۔
واضح رہے کہ عالمی تپش کے معاملے میں 1880 سے 1900 تک دنیا کے اوسط درجہ حرارت کو معیار تسلیم کیا جاتا ہے اور سال بہ سال درجہ حرارت کا موازنہ بھی اسی سے کیا جاتا ہے۔
امریکی ادارے 'نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیئرک ایڈمنسٹریشن' (NOAA/ نوآ) کے مطابق، دنیا بھر میں خشکی اور سمندروں کے اوسط درجہ حرارت میں 1.04 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بہت تیزی سے 1.5 ڈگری اضافے کی اس حد کے قریب ہوتے جارہے ہیں جو شاید ایک ناقابلِ بیان ماحولیاتی تباہی کا آغاز ثابت ہو۔
اگر عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا یہی رجحان برقرار رہا تو خطرہ ہے کہ ہم 1.5 ڈگری اضافے کی حد 2030 کے عشرے میں ہی عبور کرلیں گے۔
اس خدشے کی مزید تائید ایک اور تازہ تحقیق سے بھی ہوتی ہے جو ریسرچ جرنل 'ایڈوانسز اِن ایٹموسفیئرک سائنسز' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
چین، امریکا اور اٹلی کے ماہرین کی اس مشترکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے سیارے پر سمندروں کا اوسط درجہ حرارت بھی پچھلے چھ سال سے مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔
2021 کے دوران شمالی بحرالکاہل میں سطح سمندر کا درجہ حرارت سابقہ عالمی اوسط سے تقریباً دو ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ جبکہ 300 میٹر گہرائی میں بھی اوسط سے ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ بڑھتی ہوئی گرمی صرف سطح سمندر ہی کو نہیں بلکہ اب سمندری گہرائیوں تک کو متاثر کرنے لگی ہے۔
فی الحال ہم نہیں جانتے کہ سمندری پانی کی گہرائی میں درجہ حرارت بڑھنے سے کیا ہوگا لیکن خدشہ ہے کہ شاید وہ بھی بہت برا ثابت ہو۔
امریکی اور یورپی موسمیاتی اداروں کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 2011 سے 2021 کے دوران 9 سال گرم ترین رہے۔ صرف ایک سال یعنی 2020 میں کووِڈ 19 کی عالمی وبا کے باعث عالمی درجہ حرارت نسبتاً کم رہا۔
2021 میں زمینی سطح کا درجہ حرارت بیسویں صدی کے اوسط سے 1.51 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ کیا گیا جو 1880 سے لے کر آج تک چھٹا سب سے زیادہ درجہ حرارت بھی تھا۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ 2022 ایک اور شدید گرم سال ثابت ہوگا کیونکہ اس کے آثار ابھی سے دکھائی دینا شروع ہوگئے ہیں۔
مثلاً کل یعنی 13 جنوری کے روز مغربی آسٹریلیا کے ساحلی قصبے اونسلو کا درجہ حرارت 50.7 سینٹی گریڈ نوٹ کیا گیا جو آسٹریلیا کا گرم ترین دن بھی تھا۔
واضح رہے کہ عالمی تپش کے معاملے میں 1880 سے 1900 تک دنیا کے اوسط درجہ حرارت کو معیار تسلیم کیا جاتا ہے اور سال بہ سال درجہ حرارت کا موازنہ بھی اسی سے کیا جاتا ہے۔
امریکی ادارے 'نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیئرک ایڈمنسٹریشن' (NOAA/ نوآ) کے مطابق، دنیا بھر میں خشکی اور سمندروں کے اوسط درجہ حرارت میں 1.04 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بہت تیزی سے 1.5 ڈگری اضافے کی اس حد کے قریب ہوتے جارہے ہیں جو شاید ایک ناقابلِ بیان ماحولیاتی تباہی کا آغاز ثابت ہو۔
اگر عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا یہی رجحان برقرار رہا تو خطرہ ہے کہ ہم 1.5 ڈگری اضافے کی حد 2030 کے عشرے میں ہی عبور کرلیں گے۔
اس خدشے کی مزید تائید ایک اور تازہ تحقیق سے بھی ہوتی ہے جو ریسرچ جرنل 'ایڈوانسز اِن ایٹموسفیئرک سائنسز' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
چین، امریکا اور اٹلی کے ماہرین کی اس مشترکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے سیارے پر سمندروں کا اوسط درجہ حرارت بھی پچھلے چھ سال سے مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔
2021 کے دوران شمالی بحرالکاہل میں سطح سمندر کا درجہ حرارت سابقہ عالمی اوسط سے تقریباً دو ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ جبکہ 300 میٹر گہرائی میں بھی اوسط سے ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔
یہ اس بات کی علامت ہے کہ بڑھتی ہوئی گرمی صرف سطح سمندر ہی کو نہیں بلکہ اب سمندری گہرائیوں تک کو متاثر کرنے لگی ہے۔
فی الحال ہم نہیں جانتے کہ سمندری پانی کی گہرائی میں درجہ حرارت بڑھنے سے کیا ہوگا لیکن خدشہ ہے کہ شاید وہ بھی بہت برا ثابت ہو۔