جو ڈر گیا وہ مرگیا
مذہبی تشدد کو دستاویزی شکل دینے سے مقامی حکام پر بھی دباؤ بڑھتا ہے کہ وہ قانونی کارروائی پر مجبور ہوں
یکم جنوری کو بھارتی مسلمانوں کو نئے سال کا تحفہ یہ ملا کہ " بلی بائی ایپ " کے ذریعے سو سے زائد مسلم خواتین کے نام گھریلو خادماؤں کی نیلامی فہرست میں ڈال دیے گئے۔ان میں معروف مسلمان صحافنیں، اداکارائیں اور سماجی کارکنات بھی شامل تھیں۔یہ ایک گھٹیا جنسی ذہنیت پر مبنی حرکتوں میں سے ایک تھی جن کا مقصد سیاسی و سماجی طور پر بیدار و متحرک مسلمان خواتین کی عمومی سماجی تذلیل ہے۔اور یہ حرکت دوسری بار ہوئی۔
گزشتہ واردات کے برعکس اس بار مسلم سماج نے چپ نہیں سادھی بلکہ خود ساختہ ملحد نغمہ نگار و کہانی کار جاوید اختر سے لے کر دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل علما اور روشن خیال غیر مسلم دانشرافیہ و سیاسیہ تک بہت سے چیخ اٹھے کہ بس بہت ہو لیا۔چنانچہ اس دباؤ کا زور گھٹانے کے لیے اس ایپ کے پیچھے ایک خاتون سمیت کم ازکم چار ملزموں کو حراست میں لیا گیا اور ایپ پر پابندی لگا دی گئی۔
مگر اسلامو فوبیا کی لہر مزید جارح ہو رہی ہے۔ دسمبر کے وسط میں ریاست اتراکھنڈ کی راجدھانی ہردوار میں منعقد ہونے والی تین روزہ دھرم سنسد میں مہنتوں ، پنڈتوں اور آر ایس ایس سے جڑے سنگھٹنوں کے کر مچاریوں نے کھلے عام بھارتی فوج اور پولیس سے لے کر ایک عام ہندو کو اکسایا کہ میانماری روہنگیوں کی طرز پر بھارت میں بس رہے مسلمانوں کا صفایا سب کا مذہبی فریضہ ہے۔جو اس " کارِخیر " میں مارا گیا شہید اور گرفتار ہوا یا سزا کاٹی تو ہندو قوم کا ہیرو کہلائے گا۔
گھر کا ساز و سامان بھلے معمولی قسم کا خریدیں مگر اسلحہ مہنگا اور اعلیٰ خرید کے جمع کیا جائے اور اس کے استعمال کی تربیت لی جائے۔ہندو مائیں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں ورنہ یہ " ماس خور" جلد ہی اتنے بڑھ جائیں گے کہ ہندؤوں کو اپنے ہی دیش میں سر چھپانے کی جگہ نہ ملے گی۔ہر ہر مہادیو۔جے شری رام۔بھارت ماتا کی جے۔وندے ماترم۔
اگر اس سے نصف نفرتی اکسائی کوئی غیر ہندو کرتا تو دیش بھر میں چہار جانب میڈیائی غدر مچ جاتا ، سیکڑوں ایف آئی آرز کٹ چکی ہوتیں اور درجنوں غدار اور دیش دروہی ملک کے طول و عرض میں سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔مگر اتراکھنڈ پولیس نے دھرم سنسد کے منتظمین کے خلاف محض سماج میں خلل ڈالنے کی کوشش کے جرم کا پرچہ کاٹا اور ملزم تاحال تلاش ہو رہے ہیں۔
البتہ اس دھرم سنسد کو بھی مسلم اور روشن خیال طبقات نے پہلے کی طرح آسانی سے ہضم نہیں کیا۔ معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے ایک انٹرویو میں بالی وڈ کی قبرستانی خِاموشی پر تنقید کرتے ہوئے چیلنج کیا کہ اس طرح کی اشتعال انگیزی سے ملک میں خانہ جنگی کی آگ بھڑک اٹھی تو بیس کروڑ مسلمان بھیڑ بکریاں ثابت نہیں ہوں گے بلکہ بھرپور مزاحمت کریں گے۔نغمہ نگار جاوید اختر نے مودی جی کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہی " سب کا ساتھ سب کا وکاس ( ترقی ) " کا نعرہ لگایا تھا مگر آپ کے منہ سے اب تک ہردوار سنسد کی مذمت یا تشوش پر مبنی ایک لفظ نہیں نکلا "۔
الٹا مودی نے دسمبر میں دو عام جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ڈانڈے سیکڑوں برس پہلے گذرنے والے مسلمان حکمرانوں سے جوڑنے کی کوشش کی۔یہ وہی مودی ہیں جو ریاست گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ اس دوران ان سے ایک ٹی وی چینل انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا آپ فروری دو ہزار دو کے گجرات فسادات میں دو ہزار مسلمانوں کے قتلِ پر کبھی افسردہ ہوئے ؟ مودی کا جواب تھا کہ کتے کا پلا بھی گاڑی کے نیچے آ جائے تو افسوس تو ہوتا ہے۔
سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اسی فیصد آبادی ہندو ہے اور گزشتہ انتخابات میں بے جے پی نے ایک بھی مسلمان امیدوار کھڑا نہیں کیا۔پھر بھی وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کا کہنا ہے کہ اگلے چناؤ اسی فیصد بمقابلہ بیس فیصد کے درمیان ہوں گے۔ان کے اس بیان پر گودی میڈیا ڈنکے لے کر بازار میں نکل آیا واہ یوگی جی واہ۔
صرف بیس فیصد مسلمان ہی آنکھوں کا کھٹکا نہیں بلکہ پونے دو فیصد مسیحی بھی بے جے پی کی ترشولی زد میں ہیں۔مسیحی خدا ترسی کے سب سے بڑے بھارتی استعارے مدر ٹریسا کی فاؤنڈیشن کو ملنے والے غیر ملکی عطیات پر پابندی لگا دی گئی پھر مغربی ممالک کی رائے عامہ کے ڈر سے اسے واپس لے لیا گیا۔
بیشتر بھارتی ریاستوں میں تبدیلیِ مذہب اور غیر مذہب میں شادی سے متعلق قوانین کی جکڑ بندی پہلے سے کہیں زیادہ ہے مگر مسیحوں کو یہ پروپیگنڈہ کر کے بھی عوامی غیض و غضب کے سامنے ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ فلاحی سرگرمیوں کی آڑ میں ہندوؤں ( یعنی اچھوت اور قبائلی ) کو کرسچن بنا رہے ہیں۔چنانچہ کھلے میدانوں میں نماز کی حوصلہ شکنی سے حوصلہ پا کر مسیحوں کی اتواری عبادت کو بھی تتر بتر کرنے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے اور گرجوں کو الگ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایک سرکردہ بھارتی صحافی جان ڈیال کے مطابق صرف دسمبر کے مہینے میں مشتعل ہندو جتھوں نے سولہ شہروں اور قصبات میں کرسمس کے اجتماعات و عبادات کو جسمانی تشدد اور توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا۔یہ حملے بلاامتیاز شمال تا جنوب ہریانہ ، یوپی ، دلی سے کرناٹک تک دیکھنے میں آئے۔یونائیٹڈ کرسچن فورم کے مطابق گزشتہ برس بھارت کے طول و عرض میں مسیحی برادری پر لگ بھگ چار سو ساٹھ حملے ہوئے۔
اس تاریک فضا میں ایک حوصلہ افزا کرن یہ ہے کہ جو نشانہ بن رہے ہیں وہ ابتدائی سکتے کے دور سے نکل کر خود کو متحرک کر رہے ہیں۔مثلاً نیلامی ایپ میں جن جن سرکردہ مسلمان خواتین کے نام سامنے آئے ان میں سے متعدد نے براہِ راست تھانوں میں تکرار کر کے پرچے کٹوائے اور پھر ان خواتین کے حق میں آوازیں بڑھتی چلی گئیں۔
متعدد جواں سال مسلمان صحافی اور سماجی کارکن اب مذہبی حملوں کی تفصیل کا باقاعدہ ریکارڈ جمع کرنے اور اسے شایع کر کے دنیا کے سامنے لانے کے لیے متحرک ہو رہے ہیں تاکہ مودی کا بھارت جو خود کو مسلسل ایک اچھا چہرہ ثابت کرنے کے لیے سفارت کاری ، میڈیا اور سوشل میڈیا کی پوری طاقت استعمال کر رہا ہے اسے بریکیں لگ سکیں۔
مذہبی تشدد کو دستاویزی شکل دینے سے مقامی حکام پر بھی دباؤ بڑھتا ہے کہ وہ قانونی کارروائی پر مجبور ہوں۔اس طرح کا دباؤ عدالتوں کو بھی مجبور کرتا ہے کہ وہ دنیا دکھاوے کے لیے ہی سہی کم ازکم فریاد ضرور سنیں۔ مثلاً سپریم کورٹ نے ہردوار میں ہونے والی نفرت انگیز تقاریر کے خلاف ایک درخواست کی سماعت شروع کر دی ہے اور ریاست تریپورہ کی پولیس کو پابند کیا ہے کہ وہ مسلم دشمن تشدد پر اظہارِ رائے کے حق کو نقصِ امن کے بہانے دبانے اور مسلمان صحافیوں اور سوشل میڈیا لکھاریوں کے خلاف کارروائی سے باز رہیں۔
ان اقلیتوں کو حالیہ کسان تحریک کی کامیابی سے بھی ایک نفسیاتی سہارا ملا ہے اور انھیں جو ڈر گیا وہ مرگیا کا مفہوم بھی سجھائی دینے لگا ہے۔اگلے لوک سبھا چناؤ کم و بیش دو برس دور ہیں۔یہ مدت " کرو یا مرو " کا فیصلہ کرنے کے لیے قدرت کی جانب سے دی گئی کھڑکی ہے۔اس کے بعد شائد موقع نہ ملے۔ یہ بات عام آدمی کی سمجھ میں تو آ رہی ہے البتہ مودی مخالف سیاسی جماعتیں ابھی تک ہجے ، ہجت اور ہجو میں مگن ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
گزشتہ واردات کے برعکس اس بار مسلم سماج نے چپ نہیں سادھی بلکہ خود ساختہ ملحد نغمہ نگار و کہانی کار جاوید اختر سے لے کر دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل علما اور روشن خیال غیر مسلم دانشرافیہ و سیاسیہ تک بہت سے چیخ اٹھے کہ بس بہت ہو لیا۔چنانچہ اس دباؤ کا زور گھٹانے کے لیے اس ایپ کے پیچھے ایک خاتون سمیت کم ازکم چار ملزموں کو حراست میں لیا گیا اور ایپ پر پابندی لگا دی گئی۔
مگر اسلامو فوبیا کی لہر مزید جارح ہو رہی ہے۔ دسمبر کے وسط میں ریاست اتراکھنڈ کی راجدھانی ہردوار میں منعقد ہونے والی تین روزہ دھرم سنسد میں مہنتوں ، پنڈتوں اور آر ایس ایس سے جڑے سنگھٹنوں کے کر مچاریوں نے کھلے عام بھارتی فوج اور پولیس سے لے کر ایک عام ہندو کو اکسایا کہ میانماری روہنگیوں کی طرز پر بھارت میں بس رہے مسلمانوں کا صفایا سب کا مذہبی فریضہ ہے۔جو اس " کارِخیر " میں مارا گیا شہید اور گرفتار ہوا یا سزا کاٹی تو ہندو قوم کا ہیرو کہلائے گا۔
گھر کا ساز و سامان بھلے معمولی قسم کا خریدیں مگر اسلحہ مہنگا اور اعلیٰ خرید کے جمع کیا جائے اور اس کے استعمال کی تربیت لی جائے۔ہندو مائیں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں ورنہ یہ " ماس خور" جلد ہی اتنے بڑھ جائیں گے کہ ہندؤوں کو اپنے ہی دیش میں سر چھپانے کی جگہ نہ ملے گی۔ہر ہر مہادیو۔جے شری رام۔بھارت ماتا کی جے۔وندے ماترم۔
اگر اس سے نصف نفرتی اکسائی کوئی غیر ہندو کرتا تو دیش بھر میں چہار جانب میڈیائی غدر مچ جاتا ، سیکڑوں ایف آئی آرز کٹ چکی ہوتیں اور درجنوں غدار اور دیش دروہی ملک کے طول و عرض میں سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔مگر اتراکھنڈ پولیس نے دھرم سنسد کے منتظمین کے خلاف محض سماج میں خلل ڈالنے کی کوشش کے جرم کا پرچہ کاٹا اور ملزم تاحال تلاش ہو رہے ہیں۔
البتہ اس دھرم سنسد کو بھی مسلم اور روشن خیال طبقات نے پہلے کی طرح آسانی سے ہضم نہیں کیا۔ معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے ایک انٹرویو میں بالی وڈ کی قبرستانی خِاموشی پر تنقید کرتے ہوئے چیلنج کیا کہ اس طرح کی اشتعال انگیزی سے ملک میں خانہ جنگی کی آگ بھڑک اٹھی تو بیس کروڑ مسلمان بھیڑ بکریاں ثابت نہیں ہوں گے بلکہ بھرپور مزاحمت کریں گے۔نغمہ نگار جاوید اختر نے مودی جی کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہی " سب کا ساتھ سب کا وکاس ( ترقی ) " کا نعرہ لگایا تھا مگر آپ کے منہ سے اب تک ہردوار سنسد کی مذمت یا تشوش پر مبنی ایک لفظ نہیں نکلا "۔
الٹا مودی نے دسمبر میں دو عام جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ڈانڈے سیکڑوں برس پہلے گذرنے والے مسلمان حکمرانوں سے جوڑنے کی کوشش کی۔یہ وہی مودی ہیں جو ریاست گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ اس دوران ان سے ایک ٹی وی چینل انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا آپ فروری دو ہزار دو کے گجرات فسادات میں دو ہزار مسلمانوں کے قتلِ پر کبھی افسردہ ہوئے ؟ مودی کا جواب تھا کہ کتے کا پلا بھی گاڑی کے نیچے آ جائے تو افسوس تو ہوتا ہے۔
سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اسی فیصد آبادی ہندو ہے اور گزشتہ انتخابات میں بے جے پی نے ایک بھی مسلمان امیدوار کھڑا نہیں کیا۔پھر بھی وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کا کہنا ہے کہ اگلے چناؤ اسی فیصد بمقابلہ بیس فیصد کے درمیان ہوں گے۔ان کے اس بیان پر گودی میڈیا ڈنکے لے کر بازار میں نکل آیا واہ یوگی جی واہ۔
صرف بیس فیصد مسلمان ہی آنکھوں کا کھٹکا نہیں بلکہ پونے دو فیصد مسیحی بھی بے جے پی کی ترشولی زد میں ہیں۔مسیحی خدا ترسی کے سب سے بڑے بھارتی استعارے مدر ٹریسا کی فاؤنڈیشن کو ملنے والے غیر ملکی عطیات پر پابندی لگا دی گئی پھر مغربی ممالک کی رائے عامہ کے ڈر سے اسے واپس لے لیا گیا۔
بیشتر بھارتی ریاستوں میں تبدیلیِ مذہب اور غیر مذہب میں شادی سے متعلق قوانین کی جکڑ بندی پہلے سے کہیں زیادہ ہے مگر مسیحوں کو یہ پروپیگنڈہ کر کے بھی عوامی غیض و غضب کے سامنے ڈال دیا جاتا ہے کہ وہ فلاحی سرگرمیوں کی آڑ میں ہندوؤں ( یعنی اچھوت اور قبائلی ) کو کرسچن بنا رہے ہیں۔چنانچہ کھلے میدانوں میں نماز کی حوصلہ شکنی سے حوصلہ پا کر مسیحوں کی اتواری عبادت کو بھی تتر بتر کرنے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے اور گرجوں کو الگ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایک سرکردہ بھارتی صحافی جان ڈیال کے مطابق صرف دسمبر کے مہینے میں مشتعل ہندو جتھوں نے سولہ شہروں اور قصبات میں کرسمس کے اجتماعات و عبادات کو جسمانی تشدد اور توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا۔یہ حملے بلاامتیاز شمال تا جنوب ہریانہ ، یوپی ، دلی سے کرناٹک تک دیکھنے میں آئے۔یونائیٹڈ کرسچن فورم کے مطابق گزشتہ برس بھارت کے طول و عرض میں مسیحی برادری پر لگ بھگ چار سو ساٹھ حملے ہوئے۔
اس تاریک فضا میں ایک حوصلہ افزا کرن یہ ہے کہ جو نشانہ بن رہے ہیں وہ ابتدائی سکتے کے دور سے نکل کر خود کو متحرک کر رہے ہیں۔مثلاً نیلامی ایپ میں جن جن سرکردہ مسلمان خواتین کے نام سامنے آئے ان میں سے متعدد نے براہِ راست تھانوں میں تکرار کر کے پرچے کٹوائے اور پھر ان خواتین کے حق میں آوازیں بڑھتی چلی گئیں۔
متعدد جواں سال مسلمان صحافی اور سماجی کارکن اب مذہبی حملوں کی تفصیل کا باقاعدہ ریکارڈ جمع کرنے اور اسے شایع کر کے دنیا کے سامنے لانے کے لیے متحرک ہو رہے ہیں تاکہ مودی کا بھارت جو خود کو مسلسل ایک اچھا چہرہ ثابت کرنے کے لیے سفارت کاری ، میڈیا اور سوشل میڈیا کی پوری طاقت استعمال کر رہا ہے اسے بریکیں لگ سکیں۔
مذہبی تشدد کو دستاویزی شکل دینے سے مقامی حکام پر بھی دباؤ بڑھتا ہے کہ وہ قانونی کارروائی پر مجبور ہوں۔اس طرح کا دباؤ عدالتوں کو بھی مجبور کرتا ہے کہ وہ دنیا دکھاوے کے لیے ہی سہی کم ازکم فریاد ضرور سنیں۔ مثلاً سپریم کورٹ نے ہردوار میں ہونے والی نفرت انگیز تقاریر کے خلاف ایک درخواست کی سماعت شروع کر دی ہے اور ریاست تریپورہ کی پولیس کو پابند کیا ہے کہ وہ مسلم دشمن تشدد پر اظہارِ رائے کے حق کو نقصِ امن کے بہانے دبانے اور مسلمان صحافیوں اور سوشل میڈیا لکھاریوں کے خلاف کارروائی سے باز رہیں۔
ان اقلیتوں کو حالیہ کسان تحریک کی کامیابی سے بھی ایک نفسیاتی سہارا ملا ہے اور انھیں جو ڈر گیا وہ مرگیا کا مفہوم بھی سجھائی دینے لگا ہے۔اگلے لوک سبھا چناؤ کم و بیش دو برس دور ہیں۔یہ مدت " کرو یا مرو " کا فیصلہ کرنے کے لیے قدرت کی جانب سے دی گئی کھڑکی ہے۔اس کے بعد شائد موقع نہ ملے۔ یہ بات عام آدمی کی سمجھ میں تو آ رہی ہے البتہ مودی مخالف سیاسی جماعتیں ابھی تک ہجے ، ہجت اور ہجو میں مگن ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)