کام یابی یا ناکامی۔۔۔۔ذمے دار آپ خود

کچھ طریقے جو آپ کی زندگی کا رُخ یکسر تبدیل کرسکتے ہیں

کچھ طریقے جو آپ کی زندگی کا رُخ یکسر تبدیل کرسکتے ہیں فوٹو : فائل

کراچی:
''ہر شخص کی قسمت اس کے اپنے ہاتھ میں ہے، جیسے ایک مجسمہ ساز جو چاہے، مٹی سے تراش دے، البتہ اس مٹی کو جو وہ بنانا چاہتا ہے، اس میں تراشنے کی مہارت اسے سیکھنا اور استعمال کرنا پڑے گی: جوہانن وولف گنگ وون گوئٹے''

ایک شخص جس کا معمول ہے صبح دیر سے بیدار ہونا اور رات دیر تک فضولیات و لغویات میں بے مقصد مشغول رہنا، وقت کی قدر نہ کرنا، تب ہی معاملاتِ زندگی کے اصول وضع نہیں ہیں، مقصد متعین ہے نہ سمت کا پتا، خودی سے بے خبر، منزل سے ناآشنا بس اپنے موڈ میں چلتا جا رہا ہے، وقت کا تیزرفتار پہیا قیمتی زندگی کے ایام کچلے جا رہا ہے۔

کام یابی کا خواہش مند یہ یقیناً ہے، حالات کے بدلنے اور وسائل کی دست یابی کا انتظار اسے ہر دم بے چین رکھتا ہے، لیکن خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں، اپنی سست طبیعت اور آرام پسندی کی عادت نے اس کی نظر میں کام یابی کا حصول خواب بنا ڈالا ہے۔ خواب بھی ایسا جس کی تعبیر پانے کا نہ اسے شوق ہے نہ جذبہ اور نہ ہی کوئی کوشیش، بس شکایت ہی شکایت ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایسا شخص کبھی کام یاب ہو سکتا ہے؟ کیا کبھی وسائل اس کی دسترس میں اور حالات اس کے بس میں ہو سکتے ہیں؟ کیا اس کی خام خیالی پر مبنی خواب حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے؟ یا بغیر محنت و قربانی کے یہ کام یاب نتائج پا سکتا ہے؟

ہرگز نہیں! ایسا شخص اپنی رکاوٹ کا الزام دوسروں پر لاد کر خود کو بری الذمہ رکھنا چاہتا ہے، لیکن آنے والے کئی برس بھی اگر، زندگی اسے مہلت دے تو وہ ایسا ہی کرتا رہے گا۔ انسان کو بنانے والا اس کا خالق اللہ عزوجل فرماتا ہے جس کا مفہوم ہے ''انسان کو صرف وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیے وہ سعی کرتا ہے'' جب کوشش، محنت، عزم نہیں تو ادھوری خواہش بے معنی ہے، انسان کو اسی لیے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا کیوںکہ وہ اپنی کوششوں سے اپنا نصیب بنا بھی سکتا ہے اور چاہے تو اپنی خامیوں سے بگاڑ بھی سکتا ہے۔

یقین، عزم، کوشش۔۔۔۔

سب سے پہلے کام یابی پر یہ یقین لازم ہو کہ کام یاب ہونے والے ہر شخص کے پاس نہ تو کوئی طلسماتی چھڑی ہوتی ہے اور نہ وہ کوئی ماورائی مخلوق ہوتے ہیں، نہ وقت ان کے پاس عام انسانوں سے زیادہ ہوتا ہے نہ انھیں طاقت کا خزانہ میسر ہوتا ہے اور نہ وسائل کی ریل پیل اور دشواریوں سے پاک راہیں ہوتی ہیں، ہاں لیکن ایک چیز جو ان کے پاس سب سے منفرد ہوتی اور انھیں ممتاز بناتی ہے وہ ان کا جنون ہوتا ہے، کام یابی حاصل کرنے کا جنون، جو انہیں پُرخطر راہوں سے ثابت قدمی سے گزر جانے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے، تھکاتا نہیں ہے بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا جوش بڑھتا جاتا ہے۔

کام یابی کی تعریف۔۔۔

کوئی بھی شخص اس دنیا میں کام یاب نہیں پیدا ہوتا ، کام یابی حاصل کرنا پڑتی ہے، اور اس کے لیے سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے نزدیک کام یابی کیا ہے؟ کام یابی کا معیار ہر شخص کے لیے اس کے نظریات کے مطابق الگ ہوتا ہے، عموماً جس کے پاس جو نہ ہو اس کا حصول اس کے لیے کام یابی بن جاتا ہے، کوئی عزت، دولت، شہرت کا دل دادہ اسی میں اپنی کام یابی سمجھتا ہے، تو کوئی خودی کے سفر میں چلتے ہوئے مالک کی معرفت تک رسائی چاہتا ہے، قرب الہی رب سے تعلق، اطاعت، بندگی وخوشنودی کا حصول اس کے نزدیک کام یابی ہوتا ہے، اور یہی حقیقی کام یابی ہے۔

لہٰذا جو بھی کام یابی آپ کا مقصد ہو، پہلے اپنی طلب کو سچا کرکے عزم پکا کرلیں، کیوںکہ اس کے بغیر کوششوں میں استقامت نہیں رہتی اور استقامت کے ساتھ کی گئی محنت کام یابی کی ضامن ہوتی ہے، پختہ عزم والے لوگ وہ ہوتے ہیں، جس گھڑی سب نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں، ان کے عزائم اور ان کی کوششیں انھیں اس وقت بھی انہیں جگائے رکھتی ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بغیر طلب ومحنت کے حاصل ہوجانے والی کام یابی بھی ناکامی میں بدل جایا کرتی ہے۔

حائل رکاوٹیں۔۔۔۔۔

ایسا بالکل نہیں ہے کہ کام یاب لوگوں کی راہیں رکاوٹ سے مبرا ہوتی ہیں، مشکلات آتی ہیں، تکلیفیں اٹھانا پڑتی ہیں مگر یہ رکاوٹیں راستہ روکنے کے بجائے ان کی کوششوں کو مزید تیز کر کے طوفانوں سے نمٹنے کا حوصلہ فراہم کر کے مقابلے کی ہمت عطا کر دیتی ہیں، نتیجاً وہ اپنے وسائل خود تلاش کر لیتے، پلاننگ کرتے، ترجیحات طے کرتے، طاقت توانائی اور وقت کا بھرپور استعمال کرتے، صلاحیتیں پیدا کرتے، مہارتیں سیکھتے، اپنا آپ سنوارتے، کردار نکھارتے اور ہر دن بہتر سے بہترین کرتے ہوئے اپنی مرضی کے حالات خود بنا لیتے ہیں۔ تو گویا یہ ثابت ہوا کہ انہیں کام یابی کی منزل تک پہنچانے والی ان میں موجود غیرمعمولی صفات ان کی عادات ہوتی ہیں۔

اچھی عادات کا فروغ۔۔۔۔

نپولین ہل نے دنیا کے سات سو کام یاب لوگوں پر ریسرچ کر کے ان کی مؤثر عادات کو یکجا کرکے ایک کتاب ''Think and Grow Rich'' لکھ ڈالی جس میں اس نے بتایا کہ ان تمام شخصیات کی کام یابی کی اصل وجہ ان سب میں غیرمعمولی مشترکہ عادات کا پایا جانا تھا۔ اگرچہ ہماری سوچ کے مطابق ہمارے نظریات، روش، عمل اور عادات ہوتی ہیں اور عادتیں ہماری شخصیت کا حصہ بن کر ہمارا کردار بناتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں کام یاب یا ناکام بنانے میں باقی سارے عوامل میں سے بڑا عامل جو رکاوٹ بنتا ہے یا تحریک دیتا ہے وہ ہماری عادات وصفات ہیں۔

اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اگر آپ واقعی کام یاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنی عادات بدلتے ہیں یا نہیں۔ اس کے لیے آپ کو کام یاب لوگوں کی خوبی کو اپنانا ہے اور ساتھ ہی اپنی خامی پر قابو پانا ہے۔ اپنی سوچ پر محنت کرنا اور تنگ سوچیں فرسودہ نظریات، منفی خیالات اور وہ عادات جنہوں نے آپ کو اب تک ناکام رکھا، انہیں خود سے باہر نکالنا ہے

عادت میں تبدیلی مشکل بغیر ناممکن نہیں۔۔۔۔۔

ہمارے معاشرے میں ناکامی کا گراف اس لیے بھی بلند تر ہے کیوںکہ لوگ آرام طلب ہوچکے ہیں اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہیں آنا چاہتے، اپنی عادات میں تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہیں یا اس کی طلب ہی نہیں ہے، عادات میں بدلاؤ اگرچہ مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن ہرگز نہیں ہے، مقصد اگر واضح اور منزل متعین ہو تو خدا نے انسان کو اتنی طاقت دی ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر خطرے سے گزر جانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا غلط اور بے جا استعمال ہمیں اپنے مقصد سے غافل کررہا ہے۔

وقت، توانائی اور وسائل کی قدر نہیں اسی لیے احساسِ زیاں پر ہمیں ملامت نہیں ہوتی۔ ایک اور چیز جو ہماری عادتوں کو تبدیل کرنے میں رکاوٹ کا باعث بنتی اور مایوس کردیتی ہے، وہ انھیں ایک دم سے تبدیل کرنا ہے، جب کہ کوئی بھی کام جادو سے فوری نہیں ہوتا، پہلے پلاننگ پھر اسکے حصے کرکے تھوڑا تھوڑا مسلسل کام کرتے رہنے سے متاثر کن نتائج حاصل ہوتے ہیں، اور ثابت قدمی قائم رہتی ہے، سالوں سے بگڑی عادتیں اپنے معمول پر آنے میں وقت لے گی، جلد یا بدیر محنتیں رنگ لائے گی۔


وہ عادات جو آپ کو کام یاب بنادیں۔۔۔۔

''انسان میں موجود اس کی خوبی، صلاحیت، مہارت آگے بڑھ جانے کا پختہ یقین اسے کام یاب بناتا ہے اور اس کے لیے جو تیار نہیں ہوتا وہ ناکام رہ جاتا ہے۔'' ہل ایلرولڈ جو کتابThe miracle morning کے مصنف ہیں، 2007 یا 2008 میں جس وقت دنیا کی اکانومی کریش ہوئی، تب انہیں بھی اپنے کاروبار میں شدید خسارے کا سامنا کرنا پڑا، وہ کئی ہزار ڈالر کے مقروض ہو گئے یہاں تک کہ ان کا مکان بھی گروی رکھے جانے والا تھا، مایوسی کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔

اس سنگین صورت حال کو سوچ سوچ کر وہ اداس اور بیمار رہنے لگے، پھر اپنے ایک قریبی دوست کی تجویز پر انہوں نے خود کو ان حالات سے باہر نکالنے کے لیے کام یاب لوگوں کی زندگیوں، عادات، نظریات اور طرزِحیات پر تحقیق شروع کردی، اور آخرکار طویل مطالعے و تحقیق کے بعد انہوں نے کام یاب لوگوں کی ایسی چھے عادت دریافت کرلیں، جو انہیں کام یابی کی منازل تک پہنچا سکتی تھیں، اور ساتھ ہی ان پر عمل بھی شروع کردیا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ان چھے معجزاتی کاموں کے شروع کرنے کے صرف دو مہینے بعد ہی انہوں نے اپنا سارا قرضہ واپس کردیا، سب کچھ ٹھیک ہو گیا اور کاروبار بھی اپنی جگہ پر واپس آگیا، اور انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اپنے نصیب کے قصور وار زیادہ تر ہم ہی ہوتے ہیں۔

کام یابی پانے کے بعد ہل ایلرولڈ نے اپنی ایک کتاب The Miracle Morning پیش کی جس میں انہوں نے یہ چھے معجزاتی کام تحریر کردیے جن کے ساتھ روز صبح کا آغاز کرنے سے ان کی زندگی میں کام یابی کی بہاریں واپس لوٹ آئی تھی۔

چھے معجزاتی کام۔۔۔۔

مصنف نے ایک مخفف وضع کرکے ان کاموں کو آسان بنا دیا جسے وہ سیورسSAVERSکہتے ہیں جس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے۔

حرفS': اس کا مطلب silence یعنی خاموشی ہے، جس کے لیے انہوں نے عبادت یا مراقبہ تجویز کیا ہے الحمد اللہ بحیثیت مسلمان عبادت ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہے اور اسے احسن طریقے سے بخوبی نبھانے سے اس کے حیران کن معجزاتی انوار و ثمرات ہماری روحانی و جسمانی شخصیات کا حصہ خود بخود بن جاتے ہیں، جب کہ مراقبے کے فوائد حاصل کرنے کے لیے مائنڈ فل میڈیٹیشن بھی کیاجا سکتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق انسانی دماغ میں ایک منٹ میں کئی ہزار خیالات جنم لیتے ہیں اور یہ خیالات منفی بھی ہو سکتے ہیں جو ہماری کام یابی کا راستہ روکتے ہیں۔

لہٰذا غیرضروری خیالوں کے ہجوم کو کنٹرول کرنے کا بہترین ذریعہ میڈیٹیشن ہے۔ یہ آپ کو قوت دیتی اور سوچ کو منظم کرتی ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی جگہ بیٹھ جائیے جہاں خاموشی ہو اور اپنے موبائل پر پانچ منٹ کا ٹائمر لگا دیجیے۔ پھر ان پانچ منٹ کے دوران کچھ نہ سوچیے، بس اپنی توجہ سانس پر رکھیے شروع میں خیالات آئیں گے انہیں آنے دیں۔ اس طرح اس کی مسلسل مشق سے رفتہ رفتہ آپ کو اس کی عادت ہوجائے گی۔

حرف"A" : Savers میں دوسرا حرف A ہے۔ یعنی Affirmation. آفرمیشن وہ موثر لفظ ہوتا ہے جو ہم اپنے آپ سے دہراتے ہیں۔ سائنس یہ مانتی ہے کہ انسان کو دنیا کے بہترین موٹیویشنل لیکچر سے اتنا فائدہ نہیں پہنچتا جتنا خود کے ساتھ مثبت گفتگو کرنے سے اسے حاصل ہوتا ہے، خود کو مثبت رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود سے مثبت گفتگو ہو مثال کے طور پر ''میں ہار نہیں مانتا''، میں روز تھوڑا تھوڑا کرکے اپنے مقصد کی طرف بڑھ رہا ہوں، میں اپنے وقت اور وسائل کا موثر استعمال کرتا ہوں۔

میں اپنی ناکامیوں سے سیکھتا اور اپنی مہارت کو مزید بڑھانے کی مسلسل مشق کرتا ہوں اور اپنی خامیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد میں رہتا ہوں۔ مصنف کے مطابق اس طرح کے مثبت جملے اپنی آئیڈیل لائف کے بارے میں، ایک کاغذ پر (tense present ) میں لکھ لیجیے، پھر پورے شوق وجذبے کے ساتھ وہ عبارت روز مراقبے کے بعد پڑھیں، کیوںکہ انسان جو کچھ بار بار دہراتا، سنتا اور دیکھتا ہے لا آف ایٹریکشن کے تحت وہی حقیقت میں اسے حاصل ہونے لگ جاتا ہے۔ ربِ تعالی نے اسی لیے شکر کا حکم اور شکوے سے دور رہنے کا حکم دیا کیونکہ شکرگزاری کا احساس خود کے ساتھ مثبت رہنا ہے۔

حرفV: savers کا تیسرا حرفv ہے، یعنیvisualization (تصور نگاری)۔ مصنف کہتا ہے کہ پانچ منٹ کے لیے اپنی بہترین مثالی زندگی کا تصور کرکے اس کے بارے میں سوچیں، تصور کریں جو زندگی آپ جی رہے ہیں وہ آپ کی "من پسند آئیڈیل" زندگی ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس عمل کو فضول احمقانہ مانتی ہے، جب کہ بھروسا، یقین، امید اسی کا نام ہے۔

ایسا کرنے سے آپ کے یقین کو طاقت ملے گی۔ ایسا کرنا آپ کو اپنے مقصد کے لیے متحرک کرکے آپ کی کوششوں کی رفتار بڑھا دے گا۔ پھر آپ کی کام یابی کی راہ میں حائل کوئی بھی رکاوٹ آپ کو راستے سے ہٹنے نہیں دے گی۔ دنیا کے تمام کام یاب ترین لوگوں میں یہ خوبی یکساں موجود ہوتی ہے، وہ اپنے مقصد کے حصول میں بہترین تصور نگار ہوتے ہیں جس کی بنا پر ان کی تصور نگاری حقیقت کی جگہ لے لیتی ہے۔

حرفE: چوتھا حرف E ہے یعنی exercise یا ورزش۔ exercise کی اہمیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے دماغی و جسمانی فوائد سے کِسے انکار ہو سکتا ہے۔ ورزش کرنے سے نہ صرف جسم مضبوط اور توانا ہوتا ہے بلکہ اس کے ذریعے آپ صحت مند رہتے اور کم بیمار پڑتے ہیں۔ دن بھر کے کاموں کے لیے یہ آپ کو چاق وچوبند رکھتی ہے۔ خوداعتمادی میں اضافہ کرتی اور ساتھ خیالات بھی کنٹرول میں رہتے ہیں۔ غرض کہ ورزش کے ان گنت فائدے ہیں۔ اسے اپنی روٹین میں شامل کیجیے، ہفتے میں چار دن روزانہ 30 منٹ کی ورزش ایک عام صحت مند آدمی کے لیے کافی ہے۔

حرفR: پانچواں حرف Rہے۔ اس کا مطلب ہے reading یعنی مطالعہ۔ سوچ و خیالات کو صحت مند رکھنا اور ذہنی پختگی حاصل کرنا ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اور یہ اچھی کتاب کے مطالعے سے ممکن ہو سکتا ہے۔ سوچ کے بند تالے کھولنے کا مؤثر ذریعہ مطالعہ ہے۔ ریسرچ کے مطابق اچھے خیالات ہمیں انرجی فراہم کرتے ہیں، اور کتاب اچھے خیالات کا ماخذ ہوتی ہے۔ لہٰذا مطالعے کی عادت اپنائیں، اور چند صفحات روز پڑھنے کا معمول بنائیے۔

بلاشبہ قرآن مجید ایک بہترین کتابِ ہدایت ہے۔ اس لیے ہمارا رب ہمیں اس کے روز مطالعے کا حکم دیتا ہے۔ خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں کام یابی کی اصل تعریف زندگی گزارنے، مقصد کو پانے، اور راہ راست پر رہنے کے اصول واضح کردیے گئے ہیں، جس سے روح کو طمانیت ملتی ہے جو اسے مضبوطی سے تھام لیتا ہے اور اپنے ہر عمل کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے وہ موٹیویٹ رہتا اور بالآخر فلاح پا جاتا ہے۔

حرفS: چھٹا آخری حرف S ہے، یعنی Scribing (یاداشتی تحریر) اس کے لیے ایک رجسٹر اپنے پاس رکھیں اور روز کے ان کاموں کی لسٹ بنائیں جو آپ کو کرنے ہیں اور ساتھ ہی دن کے مختلف اوقات میں، مختلف کاموں کے بارے میں جو کچھ آپ محسوس کرتے ہیں وہ لکھنا شروع کردیں، ساتھ ہی اپنی ان خامیوں کی تلاش شروع کردیں، جو آپ کو اب تک کام یاب نہیں ہونے دے رہیں، نیز اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیجیے اور دن کے اختتام پر روز سونے سے قبل پورے دن کا تجزیہ کیجیے اور اگلے دن کے کاموں کی فہرست رات کو ہی تیار کر لیجیے، یوں آپ اپنے پورے دن کے کاموں کو کہیں بہتر طور پر دیکھنے اور نمٹانے کے قابل ہوسکیں گے۔

یہ وہ عادات (کام) ہیں جنہیں اگر آپ اختیار کرنے کا تہیہ کرلیتے ہیں اور اپنے دن کا آغاز بھرپور انداز میں ان کے مطابق کرتے ہیں تو چند ہی دنوں میں آپ کی زندگیوں میں غیرمعمولی تبدیلیاں آنا شروع ہوجائیں گی اور ایک وقت آئے گا جب کام یابی آپ کا مقدر بن جائے گی۔
Load Next Story