کوچۂ سخن

جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے

جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو : فائل

غزل
کبھی مشکل ،کبھی وہ شخص آسانی بناتا ہے
جدھر ہو آگ کا دریا اُدھر پانی بناتا ہے
کوئی تو ہے جو آ کر روز ساحل کی ہتھیلی پر
ترے پاؤں بنا کر اپنی پیشانی بناتا ہے
مصور طیش میں آ کر بڑے زرخیز رنگوں سے
زمیں کی گال پر حیرت سے حیرانی بناتا ہے
ہر اک دوجی غزل میں تذکرہ کر کے ترا جاناں
ترا بے کار خود اپنی پریشانی بناتا ہے
تری قربت میسر ہے مگر پھر بھی یہ دیوانہ
نئے کچھ زاویوں سے روز ویرانی بناتا ہے
(اسد رضا سحر ۔ احمد پور سیال)


۔۔۔
غزل
لرزتے ہاتھ سے سیدھا لحاف کرتے ہوئے
وہ رو رہا تھا مرے زخم صاف کرتے ہوئے
نہ پوچھ کتنی محبت ہوئی ہے خرچ مری
تمام شہر کو اپنے خلاف کرتے ہوئے
اسی لیے تو مرے جرم ہیں سبھی کو پسند
کہ میں جھجکتا نہیں اعتراف کرتے ہوئے
کسی کے لمس کی سردی اتر گئی ہے آج
دہکتی دھوپ بدن کا غلاف کرتے ہوئے
ہوا میں نوحہ کناں ہیں تھکے پروں کے ساتھ
پرندے جلتے شجر کا طواف کرتے ہوئے
ثواب سارے مرے لے گیا وہ شخص فقیہ
کسی گناہ پہ مجھ کو معاف کرتے ہوئے
(فقیہہ حیدر۔ اسلام آباد)


۔۔۔
غزل
اس کو قدموں پہ نہیں دار پہ رکھا جائے
سر ہے تو سر کے ہی معیار پہ رکھا جائے
یہ مرا درد، دواؤں سے نہیں جائے گا
ہاتھ کوئی دلِ بیمار پہ رکھا جائے
صرف کردار کہانی میں نہ رکھے جائیں
کچھ کہانی کو بھی کردار پہ رکھا جائے
یہ دیا تیز ہواؤں سے نہیں بجھ سکتا
کیوں نہ اِس دل کو ہی دیوار پہ رکھا جائے
ماند پڑ جائے نہ سورج کی تمازت اِس سے
زلفِ خم دار کورخسار پہ رکھا جائے
ہاتھ تلوار پہ رکھنا ہے تو پہلے انصرؔ
اپنی گردن کو بھی تلوار پہ رکھا جائے
(انصر رشید انصر ۔ فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
دیکھ کس درجہ اذیت اور پریشانی کے ساتھ
میں گزارا کر رہا ہوں آگ اور پانی کے ساتھ
دیکھتا ہے کاتبِ تقدیر حیرانی کے ساتھ
جھیلتا ہوں مشکلیں میں کتنی آسانی کے ساتھ
میں کہ بیمارِ وفا تھا سو دوا کے نام پر
پی گیا جھوٹی خوشی بھی آنکھ کے پانی کے ساتھ
بین کرتے ہیں در و دیوار آدھی رات کو
کھیلتی ہے چاندنی جب گھر کی ویرانی کے ساتھ
میں جو چُلّو بھر نظر آتا ہوں دریا تھا کبھی
کر گیا ہے ہاتھ کوئی میری طغیانی کے ساتھ
بارہا میں نے یہ منظر خواب میں دیکھا عدیل ؔ
سانپ سا لپٹا ہوا ہے رات کی رانی کے ساتھ
(فرخ عدیل ۔چوک اعظم ،لیہ)


۔۔۔
غزل
تُو ہوا کے ہاتھ پہ چاہتوں کا دیا جلانے کی ضد نہ کر
یہ اداس لوگوں کا شہر ہے یہاں مسکرانے کی ضد نہ کر
میں ہوں دوستوں کا ڈسا ہُوا ،مرا غم ہے حد سے بڑھا ہوا
میں شکستہ گھر کی مثال ہوں،مرے پاس آنے کی ضد نہ کر
ابھی لوٹ آ، ابھی وقت ہے ،ابھی سانس باقی ہے جسم میں
تجھے علم ہے ،مری جاں ہے تُو مجھے آزمانے کی ضد نہ کر
مجھے غم دیے ہیں تو نیّرا، یہ ملال کیا ،یہ جلال کیوں
مرے زخم زخم سے لُطف لے مرے ٹوٹ جانے کی ضد نہ کر
( شہباز نیّر۔رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
غم اچانک سے ملیں، راحتیں تاخیر کے ساتھ
ایک شکوہ ہے یہی کاتبِ تقدیر کے ساتھ
سچ ہی نکلا مرا دعویٰ کے نہیں تجھ سی حسیں
تجھ کو دیکھا جو بٹھا کر تری تصویر کے ساتھ
اس نے سیکھا یہ ہنر کر کے کلیجہ چھلنی
میں نے بھیجا تھا نشانہ بھی اسے تیر کے ساتھ
یوں ادب سے تری محفل میں ہیں بیٹھے سارے
جیسے بیٹھے ہوں مریدین کسی پیر کے ساتھ
وار کرتی ہیں زبانیں ہی بس اتنا گہرا
روح زخمی نہیں ہوتی کسی شمشیر کے ساتھ
جس پہ لکھا تھا یہ دنیا نہیں رہنے لائق
سوختہ لاش پڑی تھی اسی تحریر کے ساتھ
(جاویدجدون۔ ایبٹ آباد)


۔۔۔
غزل
دل تجھے چھوڑ کر نہ جائے کہیں
دل تو پھر دل نظر نہ جائے کہیں
ہجر کی شب گزر نہیں جاتی
عمر اس میں گزر نہ جائے کہیں


خوں سے لت پت ہے آبلہ پائی
پر یہ شوقِ سفر نہ جائے کہیں
لاکھ ہو تیرگی مگر دل سے
آرزوئے سحر نہ جائے کہیں
ضبط یہ ہے کہ اپنے رونے کی
آنسوؤں کو خبر نہ جائے کہیں
مفلس شہر کی یہ موت عامر
منصفوں ہی کے سر نہ جائے کہیں
( محمد عامر جعفری ۔فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
یہ حقیقت بھی بجا کہ پر خطر ہے زندگی
خونِ دل پیتی ہے پھر بھی بے ثمرہے زندگی
ظلم و استبداد کے اس دورِ پر آشوب میں
راحتوں،آسائشوں سے بے خبر ہے زندگی
دیکھ کر حالت جہاں کی اب تو لگتا ہے یہی
بے مزہ،بے فائدہ اور بے اثر ہے زندگی
موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ہے بے خطر
جانب ِمنزل رواں محوِ سفر ہے زندگی
بے بسی،بیچارگی کا ہے علیمؔ اجڑا دیار
اک بیاباں، ایک ویراں سا ڈگر ہے زندگی
(عابد علیم سہو ۔بھکر)


۔۔۔
غزل
شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو، شجر نہ کاٹو خدا کی خاطر
صدا مسلسل یہ دے رہے ہیں پرند اپنی بقا کی خاطر
جمیل صورت، غزال آنکھیں، مزاج نازک، گلاب لہجہ
مرے خدا کیا یہ تن بنایا ہے صرف تو نے فنا کی خاطر
خیال رکھا گیا جدائی کے بعد بھی ایک دوسرے کا
اگرچہ دونوں بچھڑ گئے تھے ہم اپنی اپنی انا کی خاطر
کہیں سے لے کر وہ لائے تیرے بدن کی خوشبو ہماری جانب
ہم ایسے لوگوں نے اب دریچے کھلے رکھے ہیں ہوا کی خاطر
ہمارے سرکش مزاج کو جو نہ چین آیا بہشت میں بھی
تو اس لیے ہی ہمیں اتارا گیا فلک سے سزا کی خاطر
(اویس قرنی۔ بنوں)


۔۔۔
غزل
اس کی مرضی وہ اختلاف کرے
پر عداوت کا اعتراف کرے
میں کئی روز سے نہیں رویا
میری آنکھوں کی گرد صاف کرے
گر اسے ڈر ہے شہر والوں کا
وہ میرے دل میں اعتکاف کرے
ہم نے پوچھا جو اپنے بارے میں
ہنس کے بولے خدا معاف کرے
جس کو چاہے یہ اس کی مرضی ہے
جس سے چاہے وہ انحراف کرے
(سید فیروز عباس ہادی۔ ضلع بھکر)


۔۔۔
غزل
وفا کی سخت راہوں سے گزر جانے کی جلدی ہے
سو اب غم کو رگِ جاں میں اتر جانے کی جلدی ہے
میرا بھی اس محبت سے بھروسا اٹھنے والا ہے
اسے بھی اپنے وعدے سے مکر جانے کی جلدی ہے
زرا ٹہرو دمِ آخر ہماری بات تو سن لو
قرارِ جاں تمہیں آخر کدھر جانے کی جلدی ہے
یہاں دامن بچاتا پھر رہا ہے گل ہواؤں سے
وہاں نازک سے غنچے کو نکھر جانے کی جلدی ہے
ترے جاتے ہی اتنا غمزدہ ہے دل کہ اب اس کو
ترے جاتے ہی ٹکڑوں میں بکھر جانے کی جلدی ہے
بھلا آخر میں اپنے گاؤں کب لوٹوں گا پھر تابشؔ
میرے گاؤں کے لوگوں کو شہر جانے کی جلدی ہے
(جعفر تابش کشتواڑ۔ جموں وکشمیر)


۔۔۔
غزل
ایسا رستہ دیکھ رہے ہیں جس میں سب آسانی ہو
سیر کو جائیں صحرا کی اور وافر ہم کو پانی ہو
ہر مشکل کو سہتے آئے چپ کر کے اس آس پہ ہم
شاید اس کے بعد حیاتی میں تھوڑی آسانی ہو
اس سیلاب میں بہہ جانے کا خدشہ سب کو لاحق ہے
اشک بہے ہیں ایسے کہ دریا کی تیز روانی ہو
ایک تو مجھ کو روز محبت ہو جاتی ہے جانے کیوں
اب تو ایک محبت ایسی ہو جو کہ لافانی ہو
(ملک عمر۔ رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
چاند تاروں کی باتیں ہی کرتی رہی
وہ نظاروں کی باتیں ہی کرتی رہی
اُس نے دیکھا نہیں مجھ زمیں زاد کو
بس ستاروں کی باتیں ہی کرتی رہی
تھا مجھے عشق لاہور سے اور وہ
کوہساروں کی باتیں ہی کرتی رہی
وہ مری پیاس سے آشنا تھی مگر
آبشاروں کی باتیں ہی کرتی رہی
ہم خزاؤں کے گرویدہ تھے شاہ زین
وہ بہاروں کی باتیں ہی کرتی رہی
(شاہ زین علوی۔لاہور)


کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story