2021ء۔۔۔سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کیا ہوتا رہا

گذشتہ برس ہونے والی اہم دریافتوں، اختراعات، پیش رفتوں اور نئے رجحانات کا تذکرہ

گذشتہ برس ہونے والی اہم دریافتوں، اختراعات، پیش رفتوں اور نئے رجحانات کا تذکرہ ۔ فوٹو : فائل

لاہور:
کائنات اور اس میں سمائی ہوئی ہر شے کے بارے میں انسان کی تفہیم سائنسی علوم کی رہین منت ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کائنات کے ہر پہلو کے بارے میں انسانی تفہیم وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ اس ترقی کی بنیاد پر نت نئی دریافتیں، ایجادات، انکشافات اور اختراعات ہورہی ہیں۔

2021ء میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں یہ سلسلہ جاری رہا۔ کووڈ 19 کے باعث ٹیکنالوجی کی دنیا میں نئے رجحانات بھی متعارف ہوئے۔ مندرجہ ذیل سطور میں گذشتہ برس ہونے والی کچھ ایسی ہی اہم دریافتوں، اختراعات ، رجحانات اور پیش رفتوں کا جائزہ لیا جارہا ہے، سائنسی افق پر جن کے اہم اثرات مرتب ہوئے۔

کووڈ 19 / ای کامرس
کووڈ 19کی وبا 2020ء کی طرح 2021ء میں بھی دنیا بھر میں چھائی رہی۔ گذشتہ برس کے ابتدائی مہینوں میں کورونا کا زور ٹوٹ چکا تھا اور دنیا کے بیشتر ممالک میں کووڈ 19 کی احتیاطی تدابیر کے طور پر عائد کی گئی پابندیاں مکمل یا جزوی طور پر ختم ہوچکی تھیں۔ تاہم سال کے دوسرے نصف میں کورونا شکل بدل کر '' اومی کرون'' کی صورت میں ایک بار پھر شدت سے حملہ آور ہوا۔ جنوبی افریقا سے شرو ع ہونے والی کووڈ 19 کی یہ قسم تقریباً دنیا بھر میں پھیل چکی ہے اور بتدریج ایک بار پھر عالمی سطح پر احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔

2020ء میں کورونا نے ای کامرس کے شعبے میں گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے بالخصوص آن لائن خریداری کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا۔ گذشتہ برس اس رجحان میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے خریداری کرنے والے صارفین کی تعداد نمایاں طور پر بڑھ گئی۔ کورونا کے باعث متعدد وہ کاروبار بھی آن لائن ہوگئے جو پہلے نہیں تھے۔ اب گھریلو سوداسلف سے لے کر ہوائی جہازوں کے ٹکٹ تک ہر شے آن لائن خریدی اور بیچی جارہی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق بین الاقوامی اسٹورز کی آن لائن فروخت میں 2021ء کے دوران 10 فی صد اضافہ ہوا۔

مریخ؍ اہم سنگ میل
2021ء میں ارض مریخ کو مزید دو خودکار تحقیقاتی مشینوں ( ایکسپلوررز) نے چُھوا۔ جدید آلات سے لیس ان تحقیقاتی خلائی مشینوں میں ناسا کا 'پریزرویرنس' اور چین کا ژورونگ روور شامل تھا۔ پریزرویرنس 18 فروری اورژورونگ 14 مئی کو سرزمین مریخ پر کام یابی سے اترا۔ چین کے لیے یہ مشن اس لحاظ سے یادگار تھا کہ یہ پہلا موقع تھا جب اس کا خلائی جہاز کسی دوسرے سیارے پر اترا ہو۔ زمین کے ہمسائے پر ان خودکار تحقیقاتی گاڑیوں کے اترنے کا مقصد بھی اس سیارے پر زندگی کا کھوج لگانا ہے۔ مریخ عشروں سے سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، جن کا خیال بلکہ یقین ہے کہ ماضی میں مریخ ایک زندہ سیارہ تھا، یہاں دریا اور سمندر رواں تھے اور زندگی مختلف اشکال میں چہار سُو پائی جاتی تھی۔

پریزرویرنس کی لینڈنگ سے ناسا نے مریخ کے حوالے سے کئی سنگ میل حاصل کیے۔ 19 اپریل کو پریزرویرنس سے منسلک Ingenuity ہیلی کاپٹر نے سرخ سیارے کی فضا میں پرواز کی۔ یہ کسی بھی دوسری دنیا میں انسانی کنٹرول سے ہونے والی اولین پرواز تھی۔

اگلے ہی روز تحقیقاتی گاڑی پر نصب آلات نے مریخ کی فضا میں بھری کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کچھ مقدار کو پہلی بار آکسیجن میں تبدیل کردیا۔ اس کام یابی کے بعد مستقبل کے خلانوردوں کے لیے ایندھن اور سانس لینے کے لیے آکسیجن حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوگئی۔ بعدازاں ستمبر میں پریزرویرنس نے زمین پر بھیجنے کے لیے مریخ کی مٹی کے نمونے حاصل کیے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس اہم ترین پیش رفت کے بعد مریخ سے جُڑی ہر سائنسی شے تبدیل ہوجائے گی۔

نئی نوع انسانی کی دریافت
انسانی رکازوں (فوسل) کی دو دریافتوں کے بعد شجرۂ انسانی کی گتھیاں مزید الجھ گئیں۔ پہلی دریافت چین میں ہوئی، جہاں ایک متروک کنویں کی تہہ میں سے ایک انسانی کھوپڑی محفوظ حالت میں دریافت ہوئی۔ سائنسی تحقیق سے واضح ہوا کہ کھوپڑی 146000 سال قدیم تھی اور اس میں قدیم اور جدید انسانوں کی خصوصیات کے آثار پائے گئے۔

یہ کھوپڑی اس انسان یا انسان نما مخلوق (hominin) کی تھی جو اپنی ہیئت میں نیندرتھلز ( قدیم انسان) کی نسبت ہم سے زیادہ قریب تھا۔ کچھ محققین کا خیال تھا کہ یہ کھوپڑی ایک نئی نوع انسانی کی نمائندہ ہوسکتی ہے جسے انھوں نے Homo longi یا 'ڈریگن مین' کا نام دیا۔ اس دریافت کے بعد تحقیقی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑگئی کیوں کہ محققین کے دوسرے گروپ کی رائے میں 'ڈریگن مین' اور نیندرتھلز کی ایک پراسرار شاخ کے مابین غیرمعمولی مشابہت پائی جاتی ہے جسے Denisovans کہا جاتا ہے۔ گذشتہ برس جون میں محققین کو اسرائیل میں ایک انسانی کھوپڑی اور جبڑے کے کچھ ٹکڑے ملے جو 120000 سے 140000 سال قدیم تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہومینن اور ہومو سیپیئن ( ایک نوع انسانی ) کا تعلق ایک ہی زمانے سے تھا اور ان میں باہم رابطہ کاری بھی تھی۔

کووڈ 19ویکسین کی منظوری
کورونا کی عالمی وبا کے خلاف جنگ میں 23اگست کو اس وقت انتہائی اہم پیش رفت ہوئی جب امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے فائزر کی بایواین ٹیک ویکسین کو منظور کرلیا۔ اس پر جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پبلک ہیلتھ پروفیسر لینا وین نے کہا کہ اس اقدام سے ہم امریکا میں وبا کو منہ توڑ جواب دینے کے قابل ہوجائیں گے۔

انسانی جینوم کی تکمیل
دو عشرے قبل سائنس دانوں نے انسانی جینوم کی سیکونسنگ (نقشہ سازی) کا دھماکا خیز اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ سیکونس مکمل نہیں تھا۔ برسوں کی محنت کے بعد بھی ہمارا 8 فی صد جینیاتی کوڈ سائنس دانوں کی گرفت میں نہیں آرہا۔ تاہم گذشتہ برس مئی میں محققی نے انسانی جینوم کا 'پہلا حقیقی طور پر مکمل' سیکونس تیار کرنے کا اعلان کیا۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ سیکونس 23 کروموسوم اور 3.055 ارب بنیادی جوڑوں (بیس پیئرز) پر مشتمل ہے۔ اس تحقیق نے سابقہ تحقیق میں 20 کروڑ بیس پیئرز کا اضافہ کیا اور جینوم کے سابقہ تجزیوں میں متعدد ترامیم کیں۔ سائنس دانوں نے اس تحقیق کو اہم پیش رفت قرار دیا۔

براعظم شمالی اور جنوبی امریکا میں انسانی آمد کے آثار
ان براعظموں میں انسان کی آمد کب ہوئی؟ سائنس داں طویل عرصے سے اس بارے میں تحقیق کررہے ہیں۔ نیومیکسیکو کے وائٹ سینڈز نیشنل پارک میں ایک قدیم جھیل کے کنارے ایک پائوں کا رکاز (فوسل) دریافت ہوا ہے۔ کسی نوجوان کے پائوں کا یہ نشان اس خطے میں انسان کی آمد کے بارے میں سائنس دانوں کے اب تک کے اندازوں کو چیلنج کررہا ہے۔ بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ براعظم انسانی قدموں سے پہلی بار 13000 سال قبل آشنا ہوئے تھے۔ تاہم اس دریافت پر تحقیق کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ براؑعظم شمالی اور جنوبی امریکا میں انسانی آمد 21000 تا 23000سال قبل ہوئی۔

ملیریا ویکسین کی توثیق
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اکتوبر میں پہلی بار ملیریا ویکسین کی توثیق کردی جس کے بعد اس ویکسین کے دنیا بھر میں استعمال کے لیے اقدامات شروع کردیے گئے۔ ملیریا کا سبب ایک طفیلیہ بنتا ہے جو اس سے متاثرہ مچھروں کے کاٹنے کے ذریعے انسانی جسم میں منتقل ہوجاتا ہے ۔ ملیریا ہلاکت خیز مرض ہے۔ 2020ء میں ملیریا سے دنیابھر میں 627000 افراد ہلاک ہوئے جن میں 80 فیصد 5سال سے کم عمر کے بچے تھے۔
Mosquirix نامی یہ ویکسین ملیریا سے 56 فی صد تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اگرچہ تحفظ کی یہ شرح دوسرے امراض کی ویکسین سے کم ہے تاہم ماہرین نے اس ویکسین کو ملیریا سے جنگ میں اہم ہتھیار قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ویکیسن کے ساتھ ساتھ ملیریا سے بچائو کے دیگر حفاظتی اقدامات اسی طرح کیے جانے چاہییں جیسے مچھردانی کا استعمال اور حشرات کش اسپرے وغیرہ۔

دنیا بھر میں کووڈ 19 ویکسین کا استعمال

دسمبر 2020ء میں وہ اہم ترین لمحہ آیا جب اس مہلک وبا سے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں ویکسین کے استعمال کی شروعات ہوئی۔ 2021ء کے اختتام تک دنیا بھر میں کئی ارب انسانوں کو مختلف کووڈ 19 ویکسین لگائی جاچکی تھیں۔ 2 دسمبر 2020ء کو برطانیہ نے فائزر کی بایو این ٹیک ویکسین کے استعمال کی منظوری دی۔ چند روز بعد امریکا نے ہنگامی طور پر موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسز کی ویکسین کا استعمال منظور کرلیا۔

بعدازاں آنے والے مہینوں میں بتدریج دنیا بھر میں کووڈ سے بچائو کے ٹیکے ( ویکسین) لگوانے کی مہمات شروع ہوتی چلی گئیں۔ اس دوران ان ویکسین کی افادیت پر سوالات بھی اٹھائے گئے۔ ویکسین کی فراہمی میں مشکلات بھی پیش آئیں، تاہم ویکسی نیشن کا سلسلہ جاری رہا اور دسمبر 2021ء کے اختتام تک آٹھ ارب سے زائد افراد یعنی دنیا کی نصف کے لگ بھگ آبادی کو ویکسین لگائی جاچکی تھی۔ تاہم تشویشناک امر یہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں کورونا ویکسین کی مجموعی خوراکوں کا صرف 6 فی صد پہنچ پایا۔

کائناتی دھماکے
ایک ارب سال قبل ایک بلیک ہول ایک مُردہ ستارے کی باقیات سے ٹکرایا تھا۔ اس تصادم کے نتیجے میں زماں و مکاں کے غلاف میں لہریں پیدا ہوئی تھیں جنھیں امواج ثقل کہا جاتا ہے۔ جنوری 2020ء میں سائنس دانوں نے اس غیرمعمولی اثر کی نشان دہی کی۔ دس روز کے بعد محققین کو خلائے بسیط میں اسی نوع کے ایک اور واقعے کا سراغ ملا۔

2015ء میں سائنس دانوں نے پہلی امواج ثقل کا سراغ لگایا تھا جو سوا ارب نوری سال کی دوری پر موجود دو بلیک ہولز کے آپس میں ٹکرانے سے پیدا ہوئی تھیں۔ اس وقت سے لے کر اب تک محققین بلیک ہولز اور مُردہ ستاروں کے درمیان تصادم کے 50 واقعات کی وقوع پذیری کا ثبوت ثقلی موجوں کی صورت میں حاصل کرچکے ہیں۔ تاہم گذشتہ برس پہلی بار ایک بلیک ہول اور نیوٹران اسٹار کے درمیان ادغام کی تصدیق کرپائے۔ ماہرین نے اسے خلائے بسیط میں جاری سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کرنے کی جانب انتہائی اہم پیش رفت قرار دیا۔

جسم انسانی میں سؤر کے اعضا کی پیوندکاری
اکتوبر 2021ء میں سائنس دانوں نے انسان میں ایک ایسے گردے کی پیوندکاری کی جسے جینیاتی طور پر تبدیل کیے گئے سور کے جسم میں اُگایا گیا تھا۔ یہ گُردہ اس انسان کے جسم میں دو دن سے زائد عرصے تک بالکل صحیح کام کرتا رہا تھا۔ یہ انوکھا آپریشن نیویارک یونی رسٹی کے سرجن رابرٹ منٹگمری نے سرانجام دیا تھا۔ اس آپریشن کو غیرانسانی مخلوق سے انسان میں خلیوں، نسیجوں، یا اعضا کی پیوندکاری کے میدان (xenotransplantations) میں اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔

مستقبل میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ سؤر ضرورت مند مریضوں کو اعضا کی فراہمی کا اہم ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ تاہم یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ سرجن رابرٹ اور ان کے ساتھیوں نے یہ تجربہ ایک دماغی طور پر مُردہ شخص پر اس کے اہل خانہ کی اجازت سے کیا تھا۔ یہ مریض وینٹی لیٹر پر تھا۔ ڈاکٹروں نے مشاہدہ کیا کہ گردہ دو دن سے زائد وقت تک مریض کے جسم میں فعال رہا تھا۔

مِلکی وے سے باہر سیارے کی دریافت
دو کروڑ 80 لاکھ نوری سال کی دوری پر واقع 'وھرل پول' نامی کہکشاں میں ماہرین فلکیات نے سیارہ دریافت کیا جسے اب تک دریافت شدہ بعید ترین سیاروں میں شمار کیا گیا۔ ایک ستارے کے گرد گردش کرتا یہ نیوٹران ستارے یا بلیک ہول کے مانند انتہائی کثیف ہے۔ اس کی کشش ثقل اتنی زیادہ ہے کہ یہ ستارے کی گیس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس سیارے کا درجۂ حرارت بڑھ جاتاہے اور پھر یہ ایکس ریز خارج کرتا ہے۔

مصر میں قدیم شہر الاقصر کی دریافت
ستمبر 2020ء میں ماہرین آثارقدیمہ کو مصر کے صحرائوں میں ایک شہر کے آثار ملے تھے۔ اپریل 2021ء میں ماہرین آثار قدیمہ نے ان آثار کو قدیم مصری شہر الاقصر کے کھنڈرات قرار دیا۔ یہ شہر ساڑھے تین ہزار سال قبل فرعون مصر طوطن خامن کے دادا آمن ہوتب سوم نے آباد کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق اس شہر کی دریافت قدیم مصری تاریخ کے نشیب و فراز کو جاننے میں معاون ہوگی۔

آمن ہوتب سوم کی موت کے بعد اس کا بیٹا تمام دیوتائوں کو چھوڑ کر صرف ایک ہی دیوتا (سورج) کو پوجنے لگا تھا۔ اس نے دارالحکومت تھیبس چھوڑ دیا تھا۔ نودریافت شدہ شہر اسی کا حصہ تھا۔ ماہرین کے مطابق الاقصر کی دریافت اس دور کی سلطنت فراعنہ، ان کے اختیار و طاقت اور اس زمانے کی ثقافت کی جانب ایک روزن کھولتی ہے۔

طبیعیات کے قوانین سے منحرف ذرّہ
ایک انتہائی اہم تجربے میں سائنس دانوں کو یہ شواہد ملے کہ موان نامی ایٹمی ذرہ طبیعیات کے مسلمہ قوانین سے انحراف کررہا ہے۔ یہ قوانین طبیعیات کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ نظریے میں واضح کیے گئے ہیں جو 'اسٹینڈرڈ ماڈل' کہلاتا ہے۔

امریکی ریاست الی نوائس میں واقع فرمی نیشنل ایکسلریٹر لیبارٹی (فرمی لیب) میں کیے گئے تجربے میں سائنس دانوں نے یہ پیمائش کی یہ ذرّہ اسٹینڈرڈ ماڈل میں وضع قوانین کے تحت توقع سے زیادہ تیزرفتاری سے گردش کررہا تھا۔ سائنس دانوں کے مطابق اس تجربے کے نتائج کائنات میں کسی اور ذرّے کی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو اب تک دریافت نہیں ہوا۔

چاند کی تشکیل کے مراحل کی اولین واضح شبیہہ
جولائی میں سائنس داں 400 نوری سال کے فاصلے پر واقع ستاروں کے قدرے کم عمر نظام میں ایک دھندلی طشتری کی شبیہہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے۔ یہ دراصل ایک دیوقامت گیسی سیارہ تھا جس کے گرد ممکنہ طور پر اس کے چاند تشکیل پارہے تھے۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ کسی نظام کوکب میں برفیلے چٹانی دائرے کی پہلی واضح شبیہہ تھی جو چاند کی تشکیل کے وقت نمودار ہوتا ہے۔

یہ طشتری یا ڈسک ستاروں کے جس نظام میں پائی گئی اس میں صرف دو کم عمر سیارے ہیں جن کی تشکیل 60لاکھ سال قبل ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے خلائے بسیط میں سیاروں کی تشکیل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

کروڑوں سال قدیم دیوقامت پرندے کے رکاز کی دریافت
2013ء میں برازیل میں پولیس نے ایک بڑی کارروائی میں اسمگلروں کے قبضے سے ہزاروں قدیم چٹانی پتھر برآمد کیے تھے جنھیں وہ ملک سے باہر اسمگل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان بڑے بڑے سنگی ٹکڑوں پر معدوم حیاتیاتی انواع کے نشانات نظر آرہے تھے۔ اسی وقت سے سائنس داں ان چٹانی ٹکڑوں پر تحقیق کررہے تھے۔ گذشتہ برس محققین نے اپنی ایک تحقیق کی اشاعت میں انکشاف کیا ان سنگی ٹکڑوں میں سے ایک بڑا ٹکڑا گیارہ کروڑ سال قبل روئے زمین پر پائے جانے والے دیوقامت پرندے کا رکاز (فوسل) تھا۔ یہ پرندہ 'ٹیروسار' کہلاتا تھا۔ محققین کے مطابق یہ ٹیروسار کا تقریباً مکمل ڈھانچا تھا جس میں کچھ نرم بافتیں بھی موجود تھیں۔ اس دریافت پر ماہرین کا کہنا تھا کہ اس رکاز کا مل جانا کسی لاٹری سے کم نہیں۔

طویل ترین سیارچہ
ماہرین فلکیات نے گذشتہ برس جون میں تصدیق کی کہ آسمان پر دکھائی دینے والا ایک لمبا روشن نشان دراصل ایک سیارچہ ہے، جسے اب تک دیکھا جانے والا سب سے بڑا سیارچہ کہا جاسکتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اس کی طوالت 93 میل ہے اور یہ سورج سے پونے تین ارب میل کے فاصلے پر ہے۔ اگلے ایک عشرے کے دوران یہ طویل ترین سیارچہ روشن تر ہوتا جائے گا کیوں کہ اس کا رُخ نظام شمسی کی جانب ہے۔ 21 جنوری 2031ء کو یہ زمین سے کم ترین فاصلے پر آجائے گا۔
Load Next Story